محترم ڈاکٹر خیرالدین صاحب بٹ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21؍مئی 2010ء میں مکرمہ ر۔ت۔خان صاحبہ نے اپنے والد محترم ڈاکٹر خیرالدین بٹ صاحب کا تفصیلی ذکرخیر کیا ہے۔
آپ لکھتی ہیں کہ ہمارے آ با ؤ اجداد کشمیر کی ریاست جموں کے قصبہ ’گوش ‘ کے رہنے وا لے تھے۔ زمینداری، قا لین بافی اور کشمیری دوشالوں کی تجارت کرتے تھے۔ 1848ء میں جب انگریزوں نے کشمیر کو ڈوگروں کے ہاتھوں بیچا تو ڈوگروں کے شدید مظالم کے نتیجہ میں بہت سے کشمیری مسلمانوں نے پنجاب کا رُخ کیا۔ چنانچہ یہ خاندان بھی 1875ء میں ہجرت کرکے ضلع سیالکوٹ کے دیہات میں آباد ہوگیا۔
محترم خیرالدین بٹ صاحب 1898ء میں محترم امیر خان صاحب اور محترمہ حسین بی بی صاحبہ کے ہاں مو ضع چک سدّے میں پیدا ہو ئے۔ پانچ سال کی عمر میں والدہ کی وفات ہوگئی۔ آپ اپنی والدہ کی اکیلی اولاد تھے۔ والد صاحب کاروبار کے سلسلے میں بر ما چلے گئے اور آپ اپنی پھو پھی کی تربیت میں آ گئے، جو ایک عابدہ زاہدہ اور نیک دل خاتون تھیں۔ انہوں نے اپنے بھتیجے کو اپنی اولاد کی طرح پالا پو سا اور نہایت احسن طریق پر آ پ کی تر بیّت کی ۔ چنا نچہ آپ کو بھی جھوٹ اور فریب سے نفرت تھی۔ کم گو اور عبادتگزار تھے۔ جوانی سے ہی تہجد میں باقاعدہ تھے۔
ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد آپ کی پھوپھی نے نامساعد حالات میں آپ کی والدہ مرحومہ کے زیورات بیچ کر آپ کی تعلیم جاری رکھنے کا اہتمام کیا۔ مڈل کا امتحان گوجرانوالہ سے پاس کیا اور پھر نوکری کی تلاش شروع کی۔ اس دوران جنگِ عظیم اول شروع ہو گئی تو آپ ابتدائی میڈیکل کا امتحان پاس کر کے فوج میں بھرتی ہوگئے۔ جنگ کے بعد کچھ عرصہ گا ؤں میں عزیز رشتہ داروں کا کھیتی با ڑی میں ہاتھ بٹاتے رہے۔ پھر آپ نے وٹرنری سکول لا ہور میں داخل ہوکر وظیفہ حاصل کیا۔
جب آپ آٹھویں کے طالب علم تھے تو آپ کی شادی پھوپھی زاد حسینہ بی بی صاحبہ سے کر دی گئی جن کے بطن سے آ پ کے دو بچے پیدا ہوئے۔جو ماں کے سا تھ ایک وبائی بیما ری کی نذر ہو گئے۔ دوسری شادی آپ کی دوسری پھوپھی زاد عائشہ سے ہوئی۔ جن سے اللہ تعالیٰ نے آ پ کو دس صحت مند بچوں سے نوازا۔
وٹر نری کا لج لا ہور سے گریجوا یشن کرنے کے بعد آپکی خوا ہش کے مطابق آپ کو ایسے محکمہ میں ملازمت ملی جہاں آسا نی سے رشوت سے بچا جا سکتا تھا، اور نماز کے لئے کا فی وقت مل جا تا تھا۔ آپ پنجاب کے مختلف ہسپتالوں میں 40 سال تک خدمات انجام دیتے رہے۔ آپ جہاں جاتے ایک قابل اور فرض شناس ڈاکٹر کے طور پر پہچانے جا تے۔ جس ہسپتال میں تعیناتی ہوتی وہاں ہسپتال اور عملے کی رہائشگا ہوں کی مرمت کرواتے، نیا فرنیچر مہیا کر تے۔ ایمانداری اور حسنِ خُلق کے باعث افسران اور عملہ میں ہردلعزیز ہوتے۔ آپ کا تقویٰ دیکھ کر ہر جگہ آپ کو امام الصلوٰۃ بنالیا جاتا۔
آپ کے اکثر رشتہ دار کسی نہ کسی پیر کی ارادت میں تھے لیکن آپ کو یہ چیز پسند نہ تھی۔ صرف عبادت سے غرض تھی اور صحیح تلفظ کے ساتھ قرآنِ کریم پڑھنے کا شوق تھا۔ نماز میںسورہ فا تحہ کی تلا وت کر تے ہو ئے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کا تکرار کر تے، اور دعاؤں میں رَبَّنَا وَلَاتُحَمِّلْنَا … الخ کا درد سے تکرار کرتے ۔ ا پنے ماحول میں بچوں کو قرآنِ کریم پڑھانے کا فریضہ بڑے شوق سے ادا کرتے۔ قرآنِ کریم کی تلاوت بڑی احتیا ط کے ساتھ صحیح مخرج سے کرتے تھے۔ آپ کوصفائی اور طہارت کا خاص طور پر خیال رہتا۔ مسجد جاتے وقت خاص طور پر کپڑے بدل کر جاتے۔ وضو بڑے اہتمام اور اطمینان سے کر تے اور نماز بڑے انہماک اور توجہ سے ادا کرتے تھے۔
آپ نے ڈاکٹر کی حیثیت سے سروس کا آغاز پنڈی بھٹیاں ضلع حا فظ آبا د سے کیا تھا۔جہاں مکرم حافظ محمد عبداللہ صاحب (والد محترم مو لا نا دوست محمد صاحب شاہد صاحب) سے واقفیت ہوئی۔ وہ آپ کو ہر روز اخبار الفضل پڑھنے کے لئے دیتے لیکن آپ اسے ہاتھ بھی نہ لگاتے۔ دوسرے آ نے والے لوگ اخبار کا مطالعہ کرتے۔ ایک دن اتفاقاً اخبار کھول کر پڑھنا شروع کیا تو باتیں دل کو لگیں چنانچہ جلد ہی اس مطالعہ نے احمدیت کے عقائد آپ پر واضح کردیئے۔
ایک دن جب آپ عصر کی نماز سے فارغ ہوکر ہسپتال کے احا طے میں بڑ کی چھاؤں میں اپنا دفتری کام کر رہے تھے تو ایک معزز بزرگ سلام دعا کے بعد نماز پڑھنے کے لئے مخصوص چبوترے پر نماز پڑھنے لگے۔ نووارد کو خشوع و خضوع سے نماز پڑھتے دیکھ کر آپ نے نماز کے بعد بات چیت شروع کی۔ اُن کا نام حکیم محمد صدیق اور جا ئے مسکن قادیان تھا۔ اُن دنوں آپ کی اہلیہ بیمار تھیں۔ آپ نے حکیم صاحب سے دعا کی درخواست کی۔ تو حکیم صاحب نے دعا کے ساتھ استعمال کے لئے دوا کی ایک پڑیا بھی دی اور دوسری خوراک کے لئے جلد آنے کا وعدہ کر کے رخصت ہوئے۔ جاتے ہوئے کتاب ’’تریاق القلوب‘‘ میز پر چھوڑ گئے۔ آپ نے کتاب پڑھی تو طرزِ استد لال سے بیحد متأ ثر ہوئے۔ اور شدت سے حکیم صاحب کے آنے کا انتظار کرنے لگے۔ حکیم صاحب جب کچھ دن بعد تشریف لائے تو آپ کو بے قراری سے منتظر پا یا۔ اللہ کے فضل سے دوائی کی پہلی پڑیا کے استعمال سے مریضہ تو صحتیاب ہو چکی تھیں۔ حکیم صاحب اپنے ساتھ مزید کتب بھی لائے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے دعوے کے بارے میں تبادلہ خیالات ہوا تو محترم ڈاکٹر صاحب نے فیصلہ کیا کہ قادیان کے قریب رہ کر احمدیت کا مشاہدہ کرنا چاہئے۔ چنانچہ قادیان کے قریب (کالے پٹھانا گاؤں میں) vaccancy پیدا ہو نے پر وہاں تبدیلی کرا لی۔ احمدیوں سے ملاقات بھی رہتی۔ جلد ہی احمدیت کے بارہ میں تشفی ہوئی۔ چنانچہ 1930ء کے جلسہ سالانہ کے دوران حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پربیعت کی سعادت حاصل کی۔ گھر آکر اپنی بیوی کو اپنی بیعت کا بتایا تو وہ بھی یہ کہہ کر احمدی ہوگئیں کہ آپ نے کبھی کوئی غلط بات نہیں کی۔ پھر آپ نے دوسروں کو دعوت الی اللہ شروع کردی۔
آپ کے قبو لیتِ احمدیت کی خبر جب گاؤں میں مشہور ہو ئی توکئی دن گاؤں کی عورتیں آپ کی اہلیہ سے افسوس کرنے آتی رہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنا مذہب تبدیل کرلیا ہے۔ آپ کی اہلیہ انہیں سمجھا تیں کہ مذہب تبدیل نہیں کیا بلکہ امام مہدی کو ما نا ہے۔
احمدیت قبول کر نے کے بعد آپ کو اکثر سچے خواب آتے۔ آ پ اخلاص میں بڑھتے چلے گئے اور جلد ہی نظامِ وصیت میں شمو لیت اختیار کر لی۔ تحریکِ جدید کی پانچ ہزاری فوج میں شا مل ہو ئے۔ اور ہر تحریک میں لبیک کہا۔ اپنے بیٹے کو فرقان فورس میں بھجوایا۔ ہر سال بڑے اہتمام کے ساتھ سارے بچوں کو لے کر جلسہ پر جاتے۔
جب آپ کی ٹرانسفر بڈھے گورایا ضلع سیالکوٹ میں ہو ئی تو وہاں بھی کئی خاندان احمدیت میں داخل ہوئے۔ آپ نے اس گاؤں کے اکثر بچوں کو قرآنِ کریم بھی پڑھایا۔
آپ کو اپنے بچوں کی تر بیت کا بھی بہت خیال رہتا۔ گھر میں با قا عدہ باجماعت نماز کا اہتمام ہوتا۔ قرآنِ شریف پڑھا تے اور معا نی سمجھا تے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی کسی ایک کتاب کا درس ہو تا، مشکل الفاظ کے معانی کاپی پر لکھواتے جاتے اور مضمون سمجھاتے۔ ہر روز سونے سے پہلے نماز کا سبق دہراتے اور نماز پڑھنے اور مسجد کے آداب بتاتے۔ سب بچوں کو اعلیٰ تعلیم بھی دلوا ئی اور بیٹیوں کو گھریلو استعمال میں آنے والی عام ادویات کے نا م اور استعمال کے با رے میں نوٹس لکھواتے ، جن کا امتحان بھی لیتے رہتے۔ گھریلو طبّی امداد کے متعلق ہدا یا ت دیتے۔ شا م کے وقت سکول کا کام کرنے میں بچوں کی مدد بھی کر تے۔
جس جگہ بھی آپ کی ٹرا نسفر ہو تی تو یہی کو شش کرتے کہ لڑکیوں کے سکول اور کالج کے قریب مکان لیں۔ چنانچہ قادیان اور پھر ربوہ میں بھی بچیوں کے سکول کے قریب مکانات تعمیر کروائے۔ بچوں کی صحت کے لئے مسواکیں باقاعدہ مہیا کرنے کا انتظام کرتے۔ گائے یا بھینس مستقلاً رکھتے۔ اسی طرح مرغیاں بھی ہمیشہ پالیں۔ بازار کے کھانے کو سخت ناپسند کرتے۔ بچیوں کو بھی تیراکی سکھائی اور باقاعدہ نہر پر تیراکی کے لئے لے جایا کرتے۔ اپنی ڈائری میں روزنامچہ کے طور پر ضروری امور درج کرنے کی بھی عادت تھی۔
محترم ڈاکٹر صاحب اپنی احمدیت کو کبھی نہ چھپاتے۔ ہسپتال کا عملہ بھی اور ہمسائے بھی آپ کی ایمانداری اور صاف گو ئی کے با عث آ پ کی عزت کرتے۔ اور آ پ کے حسنِ خُلق کے باعث آ پ کے گر ویدہ ہو تے۔ 1953ء کے فسادات کے دوران آپ حا فظ آباد میں تھے۔ ایک روز دورہ پر گئے ہو ئے تھے۔ واپس پہنچے تو جلو س کو گھر کے دروازہ پر پایا۔ اس وقت جلوس والے اونچی آواز میں آپ کی بچیوں کو دھمکا رہے تھے کہ ’’تم ہماری کشمیری بہنیں ہو اپنے والد کو کہو کہ کلمہ پڑھ لے ورنہ یاد رکھو، ہم بڑے بُرے لوگ ہیں۔‘‘ وغیرہ ۔ آپ تھانے چلے گئے اور تھانیدار اور سپاہیوں کو ساتھ لے آئے۔ جلوس پر تھانیدار کی وارننگ کا تو کوئی اثر نہ ہوا، لیکن ایک دو ہوائی فائروں سے شرارتی لوگ چشمِ زدن میں تتر بِتر ہوگئے۔
1956ء میں بطور ڈپٹی ڈائریکٹر Animal Husbandry ریٹائرڈ ہوئے تو ربوہ میں اپنے مکان میں منتقل ہوگئے جو 1954ء میں تعمیر کروالیا تھا۔ پھر ربوہ میں میڈیکل سٹور اور Animal Husbandry کا کام شروع کیا تو لوگ دورو نزدیک کے گا ؤں سے آپ سے مشورہ کرنے آنے لگے۔ بلدیہ ربوہ کی در خوا ست پر کئی سال ربوہ کے مذبح خا نہ کے نگران کے طور پر بلا معاوضہ فرائض سرانجام دیتے رہے۔ اسی طرح کئی سال جلسہ سا لانہ کے دوران ذبح ہو نے وا لے جانوروں کی صحت اور گوشت کی صفا ئی ستھرا ئی کی نگرانی بھی آپ کے سپرد رہی۔
محترم ڈاکٹر صاحب کی درخواست پر قادیان میں آپ کے مکان کی بنیاد حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ازراہ شفقت رکھی تھی۔ حضورؓ اور پھر حضرت خلیفہ ثالثؒ کی بھی بہت شفقت آپ کو حاصل رہی۔
محترم ڈاکٹر صاحب اپنی اولاد کو بھی خلافت کے سا تھ ہمیشہ وابستہ رہنے کی تاکید کیا کرتے تھے۔ اپنے چندہ جات باقاعدگی سے ادا کرتے۔ ہر سال رمضان کے دوران کپڑے اور صندوق تک حا جت مندوں میں تقسیم کر دیتے۔ کوشش سے غرباء اورخا ص طور پر طلباء کی مدد کر تے۔ اپنے غریب رشتہ داروں کی باقاعدگی کے ساتھ مالی امداد کر تے۔
1977ء میں آپ کی اہلیہ محتر مہ عا ئشہ بی بی صاحبہ کی اچانک وفات ہوگئی۔ آپ کو ایک خواب میں بتادیا گیا تھا کہ جیسے تمہاری زندگی کا پہلا حصہ والدہ کی وفات کی وجہ سے محتاط گزرا ہے ویسے ہی دوسرا حصہ اہلیہ کی وفات کے باعث محتاط گزرے گا۔
محترم ڈاکٹر خیرالدین بٹ صاحب کی وفات 8؍فروری 1985ء کو لاہور میں ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مد فون ہوئے ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں