محترم ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب شہید
شہید احمدیت محترم ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب سابق امیر ضلع نوابشاہ کے بارہ میں آپ کی نواسی مکرمہ عظمیٰ فرح صاحبہ کا مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11؍اگست 1999ء کی زینت ہے۔ قبل ازیں الفضل انٹرنیشنل 3؍نومبر 1999ء کے شمارہ کے اسی کالم میں بھی آپ کا مختصر ذکر خیر کیا جاچکا ہے۔
ایک بار جب حضرت مسیح موعودؑ ’’براہین احمدیہ‘‘ کی طباعت کے سلسلہ میں امرتسر جاتے ہوئے بٹالہ سے گزرے تو اپنے ایک ستائیس سالہ صحابی حضرت مولوی رحیم بخش صاحبؓ کی اقتداء میں نماز ادا کی۔ اصحاب احمد ؑ جلد تیرہ (سیزدھم) میں آپؓ کے بارہ میں درج ہے کہ ’’آپؓ حضرت مسیح موعودؑ، حضرت خلیفہ اولؓ اور حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے دائیں بازوؤں میں سے تھے اور آپؓ کا جنازہ خلیفہ وقت حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے نہ صرف خود پڑھایا بلکہ جنازہ کو کندھا بھی دیا‘‘۔
’’اصحاب احمد‘‘ میں شامل اشاعت حضرت مولوی صاحبؓ کے سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کے نام ایک خط کا اقتباس کچھ یوں ہے:- ’’عرصہ چھ سات ماہ کا ہوا ہوگا جب اس خاکسار نے خواب دیکھا کہ میرے گھر اللہ تعالیٰ نے لڑکا دیا۔ اس کا نام عبدالقدوس رکھا ہے۔ سو ویسا ہی اللہ تعالیٰ کے فضل سے لڑکا ہوا۔ اس کا نام عبدالقدوس رکھا ہے۔ یہ ہے لڑکا جو نذرانہ لے کر حاضر خدمت ہوتا ہے، قبول فرمائیے‘‘۔
اسی لڑکے عبدالقدوس نے بعد ازاں 28؍ ستمبر 1989ء کو احمدیت کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا اور 29؍ستمبر 1989ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آپ کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے رقت بھرے انداز میں فرمایا: ’’…ایک بہت ہی بزرگ ڈاکٹر، ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب کو کل نوابشاہ میں ظالمانہ طور پر شہید کیا گیا۔ جبکہ اس سے تھوڑا عرصہ پہلے ان کے چھوٹے بھائی کو بھی شہید کیا گیا تھا۔ وہ بھی ڈاکٹر تھے اور دونوں کو ایک ہی طریق پر ایک ہی جتھے اور ایک ہی گروہ نے مروایا ہے۔ اپنی طرف سے مروایا ہے اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ ہمیشہ کی زندگی عطا کی … وہ ایسے سادہ دل اور ایسے سادہ لوح ڈاکٹر تھے کہ جانتے تھے کہ ہر دفعہ دشمن یہی طریق اختیار کرتا ہے کہ ایک مریض مرنے والا ہے اس کو دیکھنے کے لئے جاؤ اور جب انسان باہر نکلتا ہے انسانی ہمدردی میں تو بعض قاتل چھپے ہوئے اس کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں ۔ وہ اچانک حملہ کرکے احمدی ڈاکٹروں کو شہید کر دیتے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے۔ ان کی شہادت سے چند دن پہلے مجھے ان کا خط موصول ہوا۔ اس میں انہوں نے لکھا کہ میرا بھائی شہید ہوا ہے مگر میَں یقین دلاتا ہوں کہ میرے دل میں جذبہ شہادت پہلے سے کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ انہوں نے میرا ایک بھائی شہید کیا ہے مگر مَیں قسم کھاکر کہتا ہوں کہ میری ساری اولاد بھی اس راہ میں شہید ہوتی چلی جائے تو مجھے اس کا دکھ نہیں ہوگا اس لئے میرے لئے آپ کوئی فکر نہیں کریں… کتنا سچا اور کھرا انسان تھا۔ کیسے اس کے دل کی گہرائیوں سے یہ آواز بلند ہوئی۔ جب ان کی شہادت کی اطلاع مجھے ملی تو بے اختیار میری زبان پر قرآن کریم کی یہ آیت جاری ہوئی (…) کہ ان خدا کے بندوں میں وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی نیتوں کو پورا کر دکھایا۔‘‘
محترم ڈاکٹر صاحب نہایت اخلاص سے اپنے مریضوں کی خدمت کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو برکت بھی بہت عطا کی۔ کلینک پر بہت رش ہوتا۔ کئی بار جب تھکے ہارے گھر آتے تو کچھ ہی دیر بعد کوئی مریض یا اس کے لواحقین آ جاتے اور آپ فوراً اُن کے ساتھ چل پڑتے۔ کئی شدید مریضوں کو جب آپ ہسپتال جانے کا مشورہ دیتے تو وہ انکار کرتے اور آپ کے علاج پر اپنے اعتماد کا اظہار کرتے۔ بہت سے مریض معجزانہ طور پر تندرست ہوتے۔ اتنی مصروفیت کے باوجود بھی آپ جماعتی کاموں کے لئے وقت نکال لیتے۔ پانچوں وقت مسجد میں جاکر نماز باجماعت ادا کرتے۔ تہجد گزار تھے۔ نماز فجر سے واپس آکر قرآن کریم کی تلاوت ضرور کرتے اور رات کو تفسیر کبیر اور دیگر دینی کتب پڑھتے ہوئے سوجاتے۔ دعوت الی اللہ بھی خوب کرتے اور بہت سے لوگوں کو آپ کے ذریعے قبول احمدیت کی سعادت عطا ہوئی۔ آپ موصی تھے۔
جب آپ کے چھوٹے بھائی کو شہید کیا گیا تو آپ بار بار یہ بات دہراتے کہ وہ چھوٹا تھا مگر شہادت میں مجھ سے نمبر لے گیا۔ جب آپ کو بھی دھمکی آمیز فون ملنے لگے تو جماعت نے آپ کو باڈی گارڈ کی سہولت دی لیکن آپ نے فرمایا کہ ’’پہلے ہی جماعت کے اخراجات بہت زیادہ ہیں، مَیں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے جماعت مزید بوجھ برداشت کرے‘‘۔ جب آپ کو احتیاط کرنے کو کہا گیا اور مشورہ دیا گیا کہ مریض کو اس کے گھر دیکھنے نہ جایا کریں۔ تو آپ نے فرمایا کہ مریض کو جو تکلیف ہوتی ہے ، یہ وہی جانتا ہے۔ کیا خبر مریض واقعی بیمار ہو اور اسے میری مدد کی سخت ضرورت ہو۔
آپ کی اس خداترسی کا قاتلوں نے فائدہ اٹھایا اور مریض دکھانے کے بہانے آپ کو لے جاکر گلی میں ہی پیچھے سے فائر کیا۔ گولی سیدھی آپ کے دل پر لگی اور آپ وہیں شہید ہوگئے۔ آپ کے پسماندگان میں چار بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔