محترم ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم نومبر 2008ء میں مکرم نصیر احمد نجم صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ خاکسار کا برادرم مکرم ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب سے تعلق 35 سال پرانا ہے جب میں پڑھنے اور کام سیکھنے کے لئے میرپور خاص گیا اور ان کے ہاں ٹھہرا۔ تب یہ 12 سالہ بچے تھے۔ پیار کا یہ تعلق بڑھتے بڑھتے بھائیوں کے تعلق تک پہنچ گیا اور ہم دونوں فیملی ممبرز کی طرح رہنے لگے۔ بچپن سے ہی یہ نوجوان پارسا نیک پرہیزگار تھے۔

ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی شہید

آپ جب امریکہ پڑھنے کے لئے گئے تو فون پر بات ہوتی رہتی۔ ایک دفعہ انہوں نے بتایا کہ آج امریکہ میں ایک مسجد کی تعمیر کی تحریک ہوئی ہے، میرے پاس جو پڑھائی کے لئے رقم تھی وہ میں نے آج اللہ کے گھر کے لئے جمع کروا دی ہے۔ میں نے کہا: کچھ تو اپنی ضروریات کے لئے رکھ لینی تھی۔ آپ نے جواباً کہا ’’اللہ مالک اے‘‘۔ یہ آپ کا ایک محاورہ تھا جو آپ ہر مشکل کے وقت ادا کرتے تھے اور واقعتا میں نے دیکھا کہ آپ کی یہ قربانی رنگ لائی اور خدا نے مالکیت کا ثبوت آپ کی زندگی کے ہر حصہ میں دیا۔
جلسہ سالانہ پر باقاعدگی سے لندن آتے اور مقام جلسہ میں ٹینٹ یا کیبن لے کر رہنے کو ترجیح دیتے تا خلیفہ وقت کی اقتداء میں نمازیں ادا ہوسکیں۔ آپ نماز باجماعت کے بہت پابند تھے۔ جرمنی جلسہ پر آئے تو میری ڈیوٹی رہائش کے انتظام پر تھی۔ انہوں نے دیکھا کہ مہمانوں کو اپنی رہائش گاہ تک پہنچنے کے لئے انتظار کرنا پڑتا ہے تو آپ نے خود ہی مہمانوں کو لانے اور لے جانے کا کام شروع کردیا جبکہ آپ خود بھی مہمان تھے اور تھکے ماندے سفر سے آئے تھے۔
آپ کے جنازہ پر جب جرمنی سے میرپور پہنچا تو آپکی والدہ محترمہ نے ایک خواب سنائی کہ آپ بچپن میں ایک خواب میں یہ شعر پڑھ رہے تھے۔ ع

یہ سراسر فضل و احساں ہے کہ میں آیا پسند

اپنی والدہ کی بہت عزت کرتے۔ ان کی بات کو ٹوکا نہ کرتے تھے خواہ طبیعت کے مخالف ہی کیوں نہ ہو اور والدہ بھی بحیثیت امیر ضلع آپ کو پوری عزت دیتی تھیں۔ ایک دفعہ میں خالہ محترمہ کے ہاں دعا کے لئے حاضر ہوا کہ دعا کروادیں۔ کہنے لگیں مَنّوں ہی کروائیں گے کیونکہ وہ امیر ہیں۔
طبیعت بہت سادہ تھی۔ ہر چھوٹے بڑے کے ساتھ بیٹھ جاتے عار نہ سمجھتے تھے۔ نادار مریضوں کا مفت علاج کرتے۔ ایک دفعہ ایک جیلر کا بچہ بیمار تھا۔ لاعلاج قرار دیدیا گیا تھا۔ آپ نے مکمل علاج کیا اور رقم نہ لی۔ مربیان، واقفین زندگی کا بہت احترام کرتے۔ سفر میں اُنہیں اگلی سیٹ پر بٹھاتے بلکہ دروازہ بھی خود کھولتے۔ ہر عید پر بچوں میں عیدی تقسیم کرتے بلکہ اعلان کروا دیتے کہ بچے اپنی عیدی لے کر جائیں۔ غریب بچوں کی پڑھائی کا بھی خیال رکھتے اور احمدی غیراحمدی کی تمیز نہ کرتے۔ اپنے ملازمین کے بچوں کی پڑھائی کا خصوصی خیال رکھتے اور اپنے خرچ پر اعلیٰ سکولز میں تعلیم دلواتے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں