محترم یعقوب احمد صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12؍جنوری 2009ء میں محترم یعقوب احمد صاحب آف محمودآباد سٹیٹ سندھ کا ذکرخیر اُن کے بیٹے مکرم مظفر احمد شہزادصاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
مکرم یعقوب احمد صاحب کے والد حضرت میاں جان محمد صاحبؓ، دادا حضرت میاں غلام محمد صاحبؓ، اور نانا حضرت مولوی رحمت علی صاحبؓ آف پھیروچچی تھے۔ مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ میرے والد کی وفات 29؍ اگست 2007ء کو ہوئی جب میری عمر 27 سال تھی۔ مَیں نے جب سے ہوش سنبھالا تو یہی دیکھا کہ نماز نہ پڑھنے پر آپ نے ڈانٹا۔ دین کے معاملہ میں آپ کی غیرت دیدنی ہوتی تھی اور آپ اُس حدیث پر عمل کرتے کہ اگر کوئی برائی دیکھو تو ہاتھ یا زبان سے یا دل میں برا منا کر اس کو روکنے کی کوشش کرو۔ ایسے موقع پر آپ کا چہرہ متغیّر ہوجاتا۔ حق گوئی ہی ہمیشہ آپ کا شیوہ رہا۔
محترم یعقوب احمد صاحب نے عملی زندگی کا آغاز احمدیہ تعلیم الاسلام پرائمری سکول محمود آباد سٹیٹ میں پڑھانے سے کیا۔ پھر ایک لمبے عرصہ تک سٹیٹ کی زمینوں پر بطور منشی کام کرتے رہے۔ ہندو مزارعوں کی اکثریت آپ کی شرافت اور محبت کی قائل تھی۔ زمینوں پر جاتے تو گندم ڈالنے والی بوری ہمیشہ ہمراہ رکھتے اور جہاں نماز کا وقت ہوتا صاف جگہ پر بوری بچھا کر نماز پڑھ لیتے۔ لمبا عرصہ مقامی جماعت کے سیکرٹری مال اور امام الصلوٰۃ رہے اور سالہا سال مجلس مشاورت میں بطور نمائندہ شامل ہوئے۔ نہایت اخلاص اور خدمت دین کے جذبہ سے جماعتی اموال کی حفاظت کرتے اور ایک ایک پیسہ کا حساب رکھتے۔
آپ خوش لحن تھے۔ نماز پڑھاتے یا اجلاسات میں تلاوت و نظم پڑھتے تو بہت لطف آتا۔ روزانہ نماز فجر اور نماز عصر کے بعد اونچی آواز میں لمبی تلاوت کرنا معمول تھا۔ ترجمہ بھی ساتھ پڑھتے۔ نماز تہجد کے پابند اور بہت دعاگو تھے۔ شکر اور قناعت آپ کی زندگی کا خاصہ رہا۔چندہ جات میں باقاعدہ تھے اور حلال کمائی پر بہت زور دیتے۔ خلافت سے عشق تھا اور پُرجوش داعی الی اللہ تھے لیکن بات چیت میں غیروں کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچاتے۔ خطبہ جمعہ باقاعدہ سنتے۔ بے حد مہمان نواز، ہنس مکھ اور بشاشت قلبی سے ملنے والے وجود تھے۔ گاؤں میں کبھی کسی سے ناراضگی یا لڑائی نہیں ہوئی بلکہ لوگ آپ کو اپنے جھگڑوں میں ثالث مقرر کرتے۔ آپ کو کتب و رسائل کے مطالعہ کا بے حد شوق تھا۔ حاصل مطالعہ دوسروں سے شیئر کرتے۔
آپ کے چھ بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں جن میں سے ایک بیٹا بعمر پندرہ سال وفات پاگیا تو آپ نے یہ صدمہ بڑے حوصلہ اور صبر سے برداشت کیا۔ وفات سے قبل بیماری کا لمبا عرصہ بھی آپ نے انتہائی صبر، دعاؤں اور راضی برضا الٰہی رہتے ہوئے گزارا۔ چھ ماہ سے زائد صاحب فراش رہے۔ انتہائی تکلیف میں بھی ذکرالٰہی اور درود شریف پڑھنے میں مصروف رہتے۔
آپ کا جنازہ ربوہ لایا گیا اور بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ نے لندن میں نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی۔