مسجد بیت الحمید لاس اینجلس کی تعمیرنو
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18؍فروری 2010ء میں مکرم شمشاد احمد ناصر صاحب مربی سلسلہ امریکہ کے قلم سے مسجد بیت الحمید لاس اینجلس امریکہ کی تعمیرنو کی ایمان افروز کہانی شامل اشاعت ہے۔
امریکہ کے مغربی ساحل پر خداتعالیٰ کے فضل سے بہت ساری فعال اور منظم جماعتیں قائم ہیں۔ جہاں گزشتہ کئی سالوں میں کئی احمدیہ مساجد تعمیر ہوئی ہیں اور کئی مراکزِ نماز خریدے گئے ہیں۔
مسجد بیت الحمید کا سنگ بنیاد 1987ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے رکھا تھا۔ اس وقت اس علاقہ میں احمدیت کی شدید مخالفت تھی اور وہاں کے لوگوں نے ہر قیمت پر اس مسجد کی تعمیر کو روکنے کی کوشش کی۔ ادھر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کا فرمان اور ہدایت تھی کہ جب تک اس علاقہ کی کونسل متفقہ طور پر اس کی تعمیر کی اجازت نہ دے ہم مسجد تعمیر نہیں کریں گے۔ جبکہ علاقہ کی کاونٹی کے میئر نے کہا تھا کہ یہ مسجد ہماری لاشوں سے گزرکر ہی بنے گی۔
ان حالات میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی خدمت میں باربار دعا کے لئے لکھا گیا اور وہ پہلا مرحلہ طے ہوا کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے کونسل نے متفقہ طور پر ہمیں مسجد کے بنانے کی اجازت دے دی۔ جب سنگِ بنیاد رکھا گیا تو حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے غیرا ز جماعت احباب سے اوران کے بچوں اور بزرگوں سے بھی بنیاد میں اینٹیں رکھوائیں۔
تعمیر مکمل ہونے پر حضورؒ نے ہی 1989ء میں یہاں تشریف لا کر اس کا افتتاح فرمایا۔ اس وقت مکرم چوہدری منیر احمد صاحب یہاں پر مربی سلسلہ تھے ۔ جن کی اَن تھک محنت اور احباب جماعت کی مالی قربانیوں اور دعاؤںسے یہ عظیم الشان مسجد تعمیر ہوئی۔
19؍اپریل 2003ء کو جب مقامی جماعت مسجد میں جمع تھی اور حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی وفات کے صدمہ سے دوچار تھی کہ اچانک مسجد کے کچن سے دھواں اٹھنے لگا اور آناًفاناً آگ بھڑک اٹھی جس سے مسجد کے سامنے کا وہ سارا حصہ جس میں دفاتر، وضو کی جگہ، کچن، لائبریری اور سٹور وغیرہ تھا جل کر راکھ ہوگیا اور مسجد عارضی طور پر بند کردی گئی۔
خاکسار کی جب 20جولائی 2004ء کو یہاں پر بطورمربی سلسلہ تقرری ہو ئی تو مسجد کی حالت ناگفتہ بہ تھی اگرچہ مسجد کے نقشہ جات پر کام ہورہا تھا۔ 2007ء کی عیدالفطر کے اگلے روز اس کی ازسر نو تعمیر کا کام شروع ہوا اور مکرم ڈاکٹر حمید الرحمن صاحب کی سرکردگی میں مسجد کمیٹی نے باربار میٹنگز کیں جن میں مکرم ملک اسلم صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
تعمیر کے سلسلہ میں احباب کی مالی قربانیوں کا ایمان افروز تذکرہ کرنا ضروری ہے۔ یہ پراجیکٹ قریباً 4.5 ملین ڈالر کا تھا۔ مقامی جماعت نے بھی دل کھول کر مالی قربانی میں حصہ لیا اور امریکہ کی دوسری جماعتوں کے مخیر احباب سے بھی چندہ لیا گیا۔ پھر مقامی جماعت نے اپنے بزرگان اور وفات یافتگان کی طرف سے بھی چندہ پیش کیا اور اس مد میں ایک ہی دن میں ایک لاکھ بیس ہزار ڈالر سے زائد کے وعدہ جات اور وصولی بھی ہوئی۔ مکرم ڈاکٹر حمید الرحمن صاحب نے اس موقعہ پر اعلان کیا کہ جماعت اس وقت جتنا چندہ اکٹھا کرے گی اتنا ہی میں خود اپنی ذاتی جیب سے ادا کروں گا۔ اسی طرح ایک اور دوست مکرم کریم احمد صاحب نے بھی اعلان کیا کہ جتنا چندہ مکرم ڈاکٹر حمیدالرحمان صاحب اداکریں گے اس سے ایک ڈالر زائد دے کر میں بھی ادائیگی کروں گا۔ چنانچہ اس طرح اس ایک ہی دن میں خداتعالیٰ کے فضل سے قریباً اڑھائی لاکھ ڈالر جمع ہوگیا۔
خدام الاحمدیہ نے ایک باربی کیو کا انتظام کیا اور خدام سے گیارہ ہزار ڈالر اکٹھے کئے۔ اس موقعہ پر ایک خادم عزیزم موعیذ مومن صاحب نے کہاکہ جتنا باقی خدام چندہ دیں گے اتناہی مَیں ادا کروں گا اور پھر ایک اور خا دم مکرم سیف الرحمن صاحب نے بھی اتنا ہی چند ہ ادا کیا ۔گویا ایک دن میں خدام الاحمدیہ نے بھی قریباً 33 ہزار چندہ ادا کر دیا۔
لجنہ اماء للہ نے زیورات کے علاوہ نقد ادائیگی اور وعدہ جات کے ذریعہ رقوم اکٹھی کیں۔ اس سلسلہ میں صدرلجنہ محترمہ امتہ المجیب چوہدری صاحبہ اور محترمہ مبارکہ صادق صاحبہ نے بہت تعاون کیا۔
بچوں اور بچیو ں نے بھی مسجد کی تعمیر میں دل کھول کر چندہ ادا کیا۔ واقفین نو بچوں کے مقامی اجتماع میں خاکسار نے بچوں کو ترغیب دی کہ آپ کے والدین تو مالی قربانی کرہی رہے ہیں، آپ بھی کریں۔ خداتعالیٰ کے فضل سے بچوں نے مالی قربانی کا بے نظیر نمونہ پیش کیا اور اس چھوٹے سے اجتماع کے موقع پر جس میں شائد 20 25-سے زائد بچے نہ تھے 5 ہزار سے زائد ڈالر جمع ہوگئے۔ پھر ہر اتوار کو کلاس ہوتی تو بچے اپنی رقوم لاتے اور مسجد کے لئے جمع کرواتے۔
ایک بچہ جو کلاس میں نہیں آیا تھا، اُسے مَیں نے اس تحریک کا بتاکر پوچھا کہ تمہارے پاس گھر میں کتنے پیسے جمع ہیں؟ کہنے لگا کہ 60ڈالر ہیں۔ میں نے کہا اچھا 50ڈالر چندہ ادا کردو اور 10ڈالر اپنے لئے رکھ لو۔ اس نے کہا ٹھیک ہے۔ صبح نماز فجر پر وہ آیا تو 80 ڈالر لے آیا اور کہنے لگا کہ جب میں گھر آیا تو مجھے یاد آیا کہ میرے 20ڈالر میری امی کے پاس بھی پڑے ہیں اس لئے کُل 80ڈالر میں مسجد کے لئے چندہ دیتا ہوں۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ یہ بچہ اور اس کے والدین مالی لحاظ سے کافی کمزور ہیں۔
ایک دفعہ خاکسار ایک فیملی کو ملنے اُن کے گھر گیا۔ اُن سے چندہ کی بات کی تو بچوں میں سے ایک طفل نے 4ڈالر لاکر دیئے کہ میرے پاس یہی رقم ہے۔ ایک خادم نے 300 اور ایک نے 100 ڈالر ادا کر دئیے۔ پھر بچوں کی والدہ نے اپنے خاوند سے پوچھا کہ آپ بھی چندہ دیں۔ وہ کہنے لگے کہ میں تو پہلے ہی ادا کر چکا ہوں۔ ان کی اہلیہ نے کہاکہ نہیں امام صاحب ہمارے گھر آئے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے بھی اسی وقت ایک ہزار ڈالر کا چیک دے دیا۔
محترم امیر صاحب کی اجازت سے ہم نے امریکہ کی قریباً پچاس جماعتوں کا بھی دورہ کیا۔ ہر جگہ احباب نے غیرمعمولی قربانی پیش کی اور ہزاروں ڈالر کیش کے علاوہ وعدہ جات بھی نمایاں طور پر کئے گئے۔
شکاگو میں جب تحریک کی گئی تو لجنہ میں سے ایک خاتون نے اپنے سونے کے کڑے بھجوائے۔ ایک دوست نے کڑے دیکھ کرکہا کہ یہ کڑے تو میری بیوی نے دئیے ہیں، یہ مجھے دے دیں میں ان کی رقم ادا کردیتا ہوں۔ چنانچہ 500 ڈالر ان کی رقم ادا کر دی حالانکہ وہ خود اپنی طرف سے اتنی رقم ادا کر چکے تھے۔
اکتوبر 2007ء سے تعمیر کا کام شروع ہوا اور اگست 2009ء میں مسجد پایۂ تکمیل کو پہنچی۔ تعمیر کے دوران ہر رکاوٹ اللہ تعالیٰ دُور کرتا رہا۔ مسجد کی تکمیل کی تقریب 24؍ اکتوبر 2009ء کو منعقد ہوئی۔ پروگرام کا آغاز مکرم ڈاکٹر حمیدالرحمن صاحب کی صدارت میں تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ محترم امیر صاحب نے انٹرنیٹ کے ذریعہ نیوجرسی سے لائیو خطاب کیا۔ اس کے بعد مربی سلسلہ اور نائب امیرمحترم اظہر حنیف صاحب نے تقریر کی ۔
معزز مہمانوں میں سب سے پہلے مارمن چرچ کے علاقائی صدر Mr.Daniel K.Stevenson نے تقریر کی۔ ہماری مسجد جب تعمیر کی وجہ سے بند ہوگئی تھی تو ہم نے جماعتی ضروریات اور نماز جمعہ، سنڈے کلاس اور دیگر تقریبات کے لئے جگہ کی تلاش شروع کی، مگر جو عمارتیں ملتیں وہ ہماری ضرورت کو نہ ہی پورا کرتیں اور نہ ہی ہماری شرائط پر پورا اترتیں۔ ہمیں ایسی جگہ کی ضرورت تھی جہاں مرد اور عورتیں الگ نمازیں پڑھ سکیں اور باتھ رومز الگ الگ ہوں۔ چنانچہ خاکسار نے مارمن چرچ کے ایک دوست Mr. Ken سے رابطہ کیا۔ یہ جماعت کا بہت احترام کرتے ہیں ۔ جب ان سے درخواست کی گئی کہ آپ ہمیں چرچ میں جمعہ کی نماز پڑھنے کی اجازت دلوا دیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنی ہائی اتھارٹی کے ساتھ گفت و شنید کرکے ہمیں جمعہ پڑھنے کی اجازت دے دی۔ قریباً ڈیڑھ سال تک ہم ان کے چرچ میں جمعہ کی نماز ادا کرتے رہے۔ اور ان کے نوجوان بھی ہر جمعہ کے دن چرچ میں جائے نماز وغیرہ بچھانے نیز لاوڈسپیکر اور پوڈیم وغیرہ کے انتظام میں خاص مدد اور تعاون کرتے رہے۔
اس کے بعد Mr.Dennis Boxter جو کاؤنٹی کے کونسل ممبر ہیں نے تقریر کی۔پھر علاقہ کے چیف پولیس Mr.Stan Stewart نے جماعت کی خدمات کا اعتراف کیا۔ انہوں نے جماعت کی مساعی کو بھی سراہا جو دوسرے مذہب کے ساتھ ہم آہنگی اور باہمی احترام پیدا کرنے کے لئے کی جارہی ہے۔ پھر Hon. Curt Haggmanنے تقریر کی جو کہ اپنی بیگم کے ساتھ تشریف لائے تھے۔آپ 60th ڈسٹرکٹ اسمبلی ممبر کے خاص عہدہ جلیلہ پر فائز ہیں۔ انہوں نے بھی جماعت کے رفاہی کاموں کی تعریف کرتے ہوئے دو شیلڈز دیں۔ ان کی بیگم بھی کاؤنٹی میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔اس کے بعد علاقہ کے بٹالین چیف آف فائر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ پھر خاکسار نے حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور آخر میں مکرم ڈاکٹر حمیدالرحمن صاحب نے دعا کروائی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا : ’’ اب تو خدا تعالیٰ کے فضل سے مسجد بھی مکمل ہوگئی ہے اور نمازوں کی اجازت ہوگئی اللہ تعالیٰ اس مسجد کو عبادت گزاروں سے بھر دے اور اسلام احمدیت کا نور اس مسجد کے ذریعہ اردگرد کے علاقوں میں پھیلنا شروع ہو‘‘۔