مسیح کی آمدِ ثانی اور مورمن فرقہ

ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ دسمبر 2006ء میں مکرم سید ساجد احمد صاحب کے قلم سے مسیح کی آمدِ ثانی کے حوالے سے مورمن فرقے کی مشکلات کا ذکر ہے۔
انیسویں صدی عیسوی میں مسیحی فرقوں میں مسیح کی آمدِ ثانی کا ہر سو چرچا تھا۔ ان کے کئی مقبول مذہبی لیڈروں نے آمدِ ثانی کی کئی تاریخیں مقرر کیں اور عیسائی اُس رات کھلے آسمان کے نیچے ساری ساری رات جاگ کر گزاردیتے۔ جب کئی بار یہ پیشگوئیاں پوری نہ ہوئیں تو کئی لوگوں نے تو بائبل کی واضح پیشگوئیوں کی توجیہہ نہ کر سکنے کی وجہ سے عاجز ہوکر یہ کہنا شروع کر دیا کہ خدا کے علاوہ کسی کو آمدِ ثانی کے لمحے کا علم نہیں۔
مورمن (Mormon) ایک عیسائی فرقہ ہے۔ دراصل Church of Jesus Christ of Latter Day Saints سے تعلق رکھنے والے مسیحی عرف عام میں مورمن کہلاتے ہیں۔ دنیا بھر میں ان کی تعدادبارہ ملین ہے۔ یہ فرقہ 1834ء میں Joseph smith نے شروع کیا تھا۔ کثرت تبلیغ اور کثرت ازدواج کی اجازت نیز کثرت اولاد کی وجہ سے اس فرقہ نے تیز رفتار ترقی کی۔
مسیح کی آمد ثانی سے متعلق دوسرے فرقوں کے اندازے تو ہزاروں سال پرانی تحریرات پر مبنی ہیں جبکہ مورمن فرقے کے بانی جوزف سمتھ نے اپنے زعم میں خود خدا سے علم پا کر آمدِ ثانی کا تعین کیا۔ چونکہ جوزف سمتھ نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا تھا اس لئے آمدِ ثانی کے بارہ میں اُس کی پیش گوئیوں کے پورا نہ ہونے سے نہ صرف اس کے دعویٰ پر حرف آتا ہے بلکہ اس فرقہ کی وجہِ تشکیل بے معنی ہو کے رہ جاتی ہے۔ مورمن فرقے کا یہ مخصوص اعتقاد بھی ہے کہ مسیح کا ظہور امریکہ میں ایک بار پہلے بھی ہو چکا ہے چنانچہ مورمنوں کے حوالہ سے آمد ثانی کا تذکرہ اصل میں آمدِ مکرّر کا رنگ رکھتا ہے۔
جوزف سمتھ نے 2؍ اپریل 1843ء کو کہا کہ ایک روز وہ ابِنِ آدم (یعنی مسیح) کے آنے کے وقت کے بارہ میں بڑی توجہ سے دعا کر رہا تھا کہ اس نے ایک آواز سنی جو یہ دہرا رہی تھی کہ جوزف، میرے بیٹے، اگر تم 85 سال زندہ رہے تو تم ابن آدم کا منہ دیکھ لو گے۔ سو اتنا کافی سمجھو اور اس معاملہ میں مجھے مزید زحمت نہ دو۔
جوزف سمتھ 1805ء میں پیدا ہوا تھا، گویا اُس کو غیبی آواز نے بتایا کہ آمد ثانی سن 1890ء تک ہوجائے گی۔ لیکن جوزف کو 27 جون1844ء کو ایک مشتعل ہجوم نے 39 سال کی عمر میں ہی مار ڈالا۔
سب سے پہلے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا غیبی آواز کو جو زف سمتھ کی متوقع عمر کا علم نہ تھا؟ اگر نہیں تھا تو وہ آوازکس کی تھی؟ اگر خدا کی آواز تھی تو اسے تو اس کی عمر کا علم ہونا چاہیٔے تھا۔ اگر وہ آواز نا معلوم تھی تو پھر اُس کے باقی بیانات بھی مشکوک ہوجاتے ہیں۔ پھر اگر غیبی آواز کو جوزف کی قبل از وقت موت کا علم تھا تو پھر پچاسی کا معین عدد کیوں استعمال کیا گیا؟ چنانچہ غیبی آواز نے جو کہا اس کا صرف ایک ہی حتمی مطلب نکالا جاسکتا ہے کہ آمد ثانی 1890ء تک ہوجانا چاہیے تھا جو مورمنوں کے نزدیک نہیں ہوئی۔
4؍اپریل 1843ء کو جوزف سمتھ نے ایک کانفرنس میں اعلان کیا کہ اگر اسے پیش گوئی کرنا ہو تو وہ یہ کہے گا کہ وقتِ آخر 1844ء 45ء یا 46ء یا چالیس سالوں میں وقوع پذیر نہیں ہو گا۔ اگلی نسل میں ایسے ہیں جو مسیح کے آنے سے پہلے موت کا مزانہ چکھیں گے۔
آج اس پیش گوئی کو ڈیڑھ سو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ آج اُس دَور کا کوئی شخص زندہ نہیں۔ چنانچہ جوزف کے پیروکاروں نے اس کی مختلف توجیہات پیش کیں اور اس عرصہ کو پھیلادیا۔ حالانکہ جب تک جوزف سمتھ زندہ رہا وہ مسلسل آمد ثانی کے بہت قریب ہونے کا ذکر کرتا رہا۔ اُس کا دعویٰ تھا کہ وہ آمدِ ثانی کے لئے راہ ہموار کرنے آیا ہے۔ اُس نے جو تحریکیں پیش کیں اُن کا بنیادی مقصد آمد ثانی کے استقبال کی تیاری ہی بیان کی جاتی ہے۔ اس سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ آمد ثانی کی توقع اپنے دورِ حیات میں ہی رکھے ہوا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں