حاصل مطالعہ (مسیحؑ بلادِشرقیہ میں + بنگال کے متعلق ایک پیشگوئی)
(مطبوعہ رسالہ انصارالدین مئی جون 2014ء اور الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل، 22؍مارچ 2025ء مسیح موعود نمبر2025ء)
حاصل مطالعہ
فرخ سلطان محمود
آج کے کالم میں ’’مضامینِ شاکر‘‘ سے ایک تحریر بھی ہدیۂ قارئین ہے:

مسیحؑ بلادِشرقیہ میں
جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خداتعالیٰ سے خبر پاکر حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی وفات کی خبردی تو پرانی ڈگر کے لوگوں نے طوفانِ مخالفت اُٹھایا کہ یہ نیاعقیدہ جمہورمسلمین کے خلاف گھڑ لیا ہے۔ مگر حضور علیہ السلام نے قرآن مجید، حدیث شریف، کتبِ أئِمہّ دین، کتب تاریخ اورکتب طب سے روز روشن کی طرح ثابت کردیا کہ حضرت عیسیٰؑ وفات پاچکے ہیں ۔

حضورعلیہ السلام نے اپنی لاجواب تصنیف ’’مسیح ہندوستان میں‘‘ (جوحضورؑکی وفات کے بعد شائع ہوئی) میں ثابت کردیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام واقعہ ٔ صلیب کے بعد تندرست ہوکروہاں سے خدائی حکم کے ماتحت بنی اسرائیل کے دُورافتادہ قبیلوں کوپیغامِ حق پہنچانے کے لئے ہجرت کرکے مختلف ممالک کی سیاحت فرماتے ہوئے آخرمیں ہندوستان آئے اورسرینگر کشمیر میں دفن ہوئے۔ اس مسئلہ پر دومزیدحوالے پیش ہیں جن سے حضرت عیسیٰ ؑ کے ورُودِ ہند کی سند ملتی ہے

(ترجمہ):وٹیکن لائبریری میں چالیس پچاس کتب ایسی ہیں جویہ کہتی ہیں کہ جوانی میں یسوع ہندوستان گیا اور اپنی بعض تعلیمات ہندوستانی منبعوں سے اخذ کیں۔
(World History by Hays, Wayward and Moon /Macmillan)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو فلسطین میں یہودِ نامسعود کے ہاتھوں سخت تکالیف پہنچیں مگر اُس کے بعد خداتعالیٰ نے اُن کو ایک نہایت ہی سرسبز پہاڑی علاقہ میں پناہ دی۔ وَاوَیْنٰھُماَ اِلیٰ رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرََاٰر ٍوَّمَعِیْن۔ کشمیر اور افغانستان میں بنی اسرائیل کے قبائل آباد تھے جو حضرت عیسیٰؑ پرایمان لے آئے۔ جغرافیائی طور پر بھی دیکھا جائے تو فلسطین اور کشمیرمیں بے شمار مماثلتیں موجودہیں جن کا اعادہ یہاں ضروری نہیں ہے۔

امریکہ کی سپریم کورٹ کے ایک سابق جج مسٹرولیم او ڈگلس ہیں۔ 1950ء سے وہ مختلف ایشیائی ممالک کی سیاحت کرتے رہے ہیں اور اپنے تأثرات کومختلف کتب میں نہایت شُستہ انگریزی میں شائع بھی کرتے رہے ہیں۔ اُن میں سے ایک کتاب Beyond the Himalayas میں لدّاخ کے بارے میں وہ لکھتے ہیں: ایک مشتبہ روایت یسوع کے متعلق بھی ہے۔ اب تک یہاں پر ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جویہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یسوع اس جگہ پرآیا تھا۔ چودہ برس کی عمرمیں وہ یہاں آیا اور 28برس کی عمرمیں واپس گیا۔یہاں سے سیدھا مغرب کی طرف گیا اور پھر کسی نے اُس کی خبر نہ سُنی ۔ روایت میں تفصیلات بھی موجود ہیں جو بتاتی ہیں کہ یسوع نے ہمیسؔ (لداخ سے اوپر بُدھوں کی ایک مشہور خانقاہ) کی طرف عیسیٰ کے نام سے سفر اختیار کیا۔ (صفحہ 152)
چُونکہ مصنف کے عقیدہ کے خلاف یہ بات ثابت ہورہی ہے ۔ اس واسطے اُس نے بجاطورپراسے ’’مشتبہ‘‘ قرار دیا ہے اور لداخیوں کا یہ خیال کہ ’’پھر حضرت عیسیٰ کی کوئی خبرنہ سُنی گئی‘‘ بھی درست ہے کیونکہ اگر ہم کوئی اچھی سی اٹلس لے کر دیکھیں تومعلوم ہوگا کہ لداخ سے سرینگر ہوائی جہاز کی اُڑان میں پورے چار سو میل ہے۔ اس زمانہ میں جبکہ سفرکی سہولتیں میّسر ہیں یہ سفر سخت مشکل ہے تو اُس زمانہ میں پھر کس نے خبردینی تھی ۔
بنگال کے متعلق ایک پیشگوئی
لارڈکرزن وائسرائے ہند نے 1905ء میں بنگال کومشرقی اورمغربی دوصوبوں میں تقسیم کر دیا۔ جس پر ہندو بنگالیوں نے ہندوستان کے طول وعرض میں پریس اور پلیٹ فارم سے مخالفت کی آگ بھڑکائی۔ مگر لارڈ کرزن بھلا کوئی ماننے والی آسامی تھے! اُدھر برطانیہ کے مشہور وزیرخارجہ سرایڈور ڈگرے نے بھی اس کو A settled fact کہہ کرختم کردیا۔ کسی شاعر نے اُس زمانہ میں کیا خوب شعراسی بارہ میں کہا تھا ؎
خوب جی بھر کے ’’سرایڈورڈگرے‘‘ دیکھ چکے
ہم غریبوں کے سیہ خانے کا ویراں ہونا
مگرخداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوبذریعہ الہام خبردی کہ ’’پہلے بنگالہ کی نسبت جو کچھ حکم جاری کیا گیا تھا۔ اب ان کی دلجوئی ہوگی‘‘۔ (تذکرہ صفحہ 589)
یہ الہام 11 فروری 1906ء کو ہوا۔ اُن دنوں لارڈ منٹو وائسرائے تھے ۔ 1910ء میں وہ چلے گئے۔ بادشاہ ایڈورڈ ہفتم کابھی انتقال ہوگیا تو 12؍دسمبر 1911ء کوشاہ جارج پنجم نے دہلی میں ایک عظیم الشان دربارمنعقد کیا۔ اوراپنی زبان خاص سے بنگال کی تقسیم کومنسوخ قراردیا۔ چنانچہ جارج پنجم کاایک سوانح نگارلکھتا ہے: ’’دربار کے خاتمہ پرجب وائسرائے اپنی تقریر ختم کرچکے تھے تو بادشاہ سلامت خود اٹھے، جس پرسبھی حیران ہوئے، اورنہایت واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ تقسیم بنگال کومنسوخ کیا جاتا ہے‘‘۔
(King George V, His Life & Reign by Harold Nicholson. p. 168)
غورفرمائیں کہ سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی کس شان سے پوری ہوئی!
یوں کوئی کہتا پھرے کہ آخر مرزا صاحب نے کیا معجزہ دکھایا۔ چشمِ بصیرت رکھنے والوں کے لئے تو بےشمار نشان ہیں۔ مگر تعصب کی نظر رکھنے والوں کا کیاعلاج؟