موئن جو دڑو
موئن جو دڑو سندھی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ’’مُردوں کا ٹیلہ‘‘۔ اس کی دریافت سے قبل خیال تھا کہ اس خطہ میں آریہ قوم نے اعلیٰ تہذیب کی داغ بیل ڈالی۔ لیکن 1922ء میں آر جی بینرجی اور دوسرے ماہرین لاڑکانہ میں بدھ کے دَور کے ایک اسٹوپا کی تلاش میں سرگرداں تھے کہ انہیں ایک ایسی مہر ملی جس سے ملتی جلتی مہریں ہڑپہ (ضلع ساہیوال) میں دریافت ہوئی تھیں۔ چنانچہ 1922ء میں موئن جودڑو کی کھدائی کا کام شروع کردیا گیا جو وقفوں وقفوں سے مختلف ماہرین کی زیرنگرانی جاری رہا۔ اس بارہ میں ایک مختصر مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍ستمبر 1999ء میں مکرم الیاس احمد وقار صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
وادی سندھ کی یہ تہذیب اڑہائی ہزار سال قبل مسیح میں اپنے جوبن پر تھی اور ڈیڑھ ہزار سال قبل مسیح سے زوال کا شکار ہوتی چلی گئی۔ یہ شہر 35 سے 50 ہزار افراد پر مشتمل ایک ترقی یافتہ اور پُرامن شہر تھا۔ ان لوگوں کے بارہ میں زیادہ معلومات اس لئے حاصل نہیں ہوسکیں کیونکہ اِن کی زبان ابھی تک پڑھی نہیں جاسکی۔ تاہم سر جان مارشل نے یہاں سے ملنے والے ڈھانچوں پر تحقیق کے بعد رائے قائم کی ہے کہ یہ لوگ کسی ایک نسل سے تعلق نہیں رکھتے تھے بلکہ آسٹریلوی، ہسپانوی اور منگول تھے۔ یہاں سے 300 کے قریب عمارات دریافت ہوئی ہیں جن میں کچی و پکی اینٹیں لگائی گئی ہیں۔ عام مکانات دو کمروں پر مشتمل ہیں۔ لیکن کئی کمروں والے اور دو منزلہ مکانات بھی دریافت ہوئے ہیں جن میں غسلخانہ، باورچی خانہ اور صحن کی سہولتیں موجود ہیں۔کچھ عمارتیں وسیع و عریض ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ اعلیٰ تعمیراتی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ یہاں کی بنیادی علامت اسٹوپا (بدھ مذہب کی عبادتگاہ) ہے۔
یہاں کے لوگ صفائی کے پابند تھے چنانچہ یہاں بکثرت غسل خانے اور بڑا حمام بھی ملتے ہیں۔ شہری منصوبہ بندی اتنی عروج پر تھی کہ اُن کی سڑکیں اور گلیاں پختہ ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ آجکل میں بنائی گئی ہیں۔ نکاسی آب کا بہترین نظام رائج تھا۔ گلی کے دونوں طرف نالیاں تھیں جنہیں سلوں سے ڈھانپا گیا تھا۔ گھروں کا گندا پانی ایک حوض میں جمع ہوتا تھا جہاں کثافتیں نیچے بیٹھ جاتی تھیں اور نسبتاً صاف پانی نالیوں سے بہہ کر گزرتا تھا۔ یہ نالیاں شہر سے باہر جاکر ختم ہوجاتی تھیں۔
یہ لوگ فن تعمیرات کے ماہر اور صنعت و حرفت کے عمدہ کاریگر تھے۔ یہاں دو طبقات آباد تھے۔ بڑا طبقہ اجرک نما چادر اوڑھتا تھا اور شہر کے اندر (قلعہ بند) رہتا تھا۔ کم رتبہ والا طبقہ کمر سے نیچے ایک کپڑا باندھتے تھے اور قلعہ سے باہر رہتے تھے۔ تجارت اُن کا عام پیشہ تھا اور موئن جو دڑو کپاس کی تجارت کا اہم مرکز تھا۔ عورتیں زیورات کی شوقین تھیں اور سونے، چاندی کے علاوہ قیمتی پتھر، سیپ اور ہاتھی دانت کے زیور استعمال ہوتے تھے۔ لوگ دیوی ماتا کے پجاری تھے جس کی کئی مورتیاں دریافت ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ پتھروں، جانوروں اور درختوں کی پوجا بھی کی جاتی تھی۔
ڈاکٹر وہیلر کے مطابق بیرونی حملہ آوروں نے اس تہذیب کو تخت و تاراج کیا۔ چنانچہ بعض ڈھانچوں پر تحقیق کے نتیجہ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اُنہیں بھاگتے ہوئے قتل کیا گیا ہے۔ بعض ماہرین نے وبائی امراض اور بے یقینی موسم کو تباہی کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔