موتی مسجد لاہور
موتی مسجد لاہور اگرچہ رقبہ کے لحاظ سے چھوٹی ہے لیکن خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے- اسے 1753ء میں نواب میر سید بھکاری خان نے تعمیر کروایا تھا جو لاہور کے وائسرائے میر منو کے درباری تھے اور پھر پنجاب کے نائب صوبیدار بنائے گئے- وہ ایک دیندار، سخی، عالم فاضل اور فقیر دوست انسان تھے-
موتی مسجد کے بارے میں ایک مضمون مکرم شمشاد احمد قمر صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21؍جولائی 1998ء میں شامل اشاعت ہے-
مسجد کا صحن سترہ سیڑھیاں چڑھنے کے بعد آتا ہے جو صرف چالیس مربع فٹ ہے- اس صحن میں ایک تالاب ہے- اندرونی حصہ 21؍فٹ چوڑا اور 38؍فٹ لمبا ہے- مسجد کے تین در، تین گنبد اور چار مینار ہیں- میناروں اور گنبدوں کے اوپر کے حصے سنہری ہیں چنانچہ اسے طلائی اور سنہری مسجد بھی کہا جاتا رہا- صدیاں گزرنے کے باوجود بھی مسجد کی اندرونی نقاشی اور گلکاری اب بھی برقرار ہے- سکھوں کے دور حکومت میں اسے کافی برباد کیا گیا- مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں یہ سکھوں کے حوالے کردی گئی اور پھر اس شرط پر مسلمانوں کو واپس کی گئی کہ بلند آواز میں اذان نہیں دی جائے گی تاہم مسجد کی ملحقہ املاک سکھوں کے قبضہ میں ہی رہی جو انگریزوں نے مسلمانوں کو واپس دلائیں-