مکرمہ الحاجہ شکورہ نوریا صاحبہ
جماعت احمدیہ امریکہ کے صد سالہ خلافت سووینئر میں مکرمہ الحاجہ شکورہ نوریا صاحبہ کا ایک مضمون بھی شامل اشاعت ہے جس میں آپ نے خلفائے احمدیت سے اپنے تعلق کو بیان کیا ہے۔
مکرمہ الحاجہ شکورہ نوریا صاحبہ نے مئی 1979ء میں احمدیت قبول کی اور پہلی بار جلسہ مصلح موعود میں شرکت کی۔ وہاں کے پروگرام سے متأثر ہوکر آپ کے دل میں حضورؓ کے بارہ میں مزید جاننے کی خواہش نے جنم لیا لیکن لجنہ کے اگلے اجلاس عام میں جب حضورؓ کا کوئی ذکر نہ ہوا تو آپ بہت مایوس ہوئیں۔ تب ایک کشفی نظارہ میں آپ نے حضورؓ کو دیکھا اور ساتھ ہی ایک فرشتے نے جیسے آپ کی گال پہ بوسہ دیا ہو۔
محترم میر محمود احمد صاحب اس وقت امریکہ میں مبلغ سلسلہ تھے۔ جب انہیں علم ہوا کہ مکرمہ شکورہ صاحبہ نے ایک خواب میں قرآن مجید اور کلمہ جبکہ دوسرے خواب میں محترمہ صاحبزادی امتہ القیوم صاحبہ کودیکھ کر احمدیت قبول کی تھی حالانکہ اُس وقت تک آپ محترمہ صاحبزادی امۃالقیوم صاحبہ سے ذاتی طور پر نہیں ملی تھیں۔ چنانچہ محترم میر صاحب نے آپ کی محترمہ صاحبزادی صاحبہ سے ملاقات کروائی اور اُنہی نے آپ کو اسلام احمدیت کی تعلیم بھی دینی شروع کی۔ اُنہی کے حوصلہ دلانے پر آپ نے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں خطوط لکھے جن میں افریقہ کے متعدد ممالک میں اپنی تعلیم اور سفروں کے حالات، یورپ اور امریکہ میں پڑھانے کا تجربہ اور کئی سال قبل چرچ کو خیرباد کہہ دینے کی وجوہات بیان کیں۔ حضورؒ نے نہایت پُرشفقت جوابات میں آپ کو لجنہ کے کاموں میں شامل ہونے کی تلقین کی۔ اس نصیحت پر آپ نے بھرپورطور پر عمل کیا اور بعد میں متعدد عہدوں پر فائز رہیں۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے امریکہ کا دورہ کیا تو آپ نائب صدر لجنہ امریکہ تھیں۔
دسمبر 1980ء میں آپ امریکی وفد میں شامل ہوکر قادیان اور ربوہ بھی گئیں۔ حضورؒ نے وہاں امریکی بہنوں سے خطاب میں فرمایا کہ وہ اسلام احمدیت کے مستقبل میں کامیابی کا بیج ہیں۔
شکورہ صاحبہ کو اکثر سچے خواب آتے، خصوصاً احمدیت کے حالات کے متعلق۔انہیں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی لندن تک بحفاظت ہجرت کے متعلق بھی خواب آئی تھی۔ آپ حضورؒ کی قائم کردہ انسانی حقوق کی کمیٹی کی رکن رہیں اور چھ سال تک لجنہ DC کی صدر بھی رہیں۔ 1987ء میں حضورؒ امریکہ تشریف لائے تو آپ کی پہلی ملاقات حضورؒ سے ہوئی۔ 1989ء میں حضورؒ نے اپنے خطبہ جمعہ میں آپ کے قبول احمدیت کا ذکر بھی کیا۔ آپ کو حضورؒ کی قائم فرمودہ اُس کمیٹی کی رُکن رہنے کا بھی موقع ملا جو قرآن کریم کے مضامین کی فہرستیں تیار کر رہی تھی۔
محترمہ شکورہ صاحبہ کہتی ہیں کہ خلیفہ رابعؒ کے بعد خلیفہ خامس کا پُرسکون اور بغیر کسی دقّت کے انتخاب، احمدیت کی سچائی کی دلیل ہے۔ جب اُسی سال آپ لندن آکر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اور حضرت بیگم صاحبہ سے ملیں تو آپ کا یقین کامل ہوگیا کہ خلیفہ کا چناؤ صرف اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے۔