مکرمہ رقیہ بیگم صاحبہ بقاپوری
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 29؍اگست 2003ء میں مکرم ڈاکٹر محمد اسحاق بقاپوری صاحب اپنی اہلیہ محترمہ رقیہ بیگم صاحبہ کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ 28؍اکتوبر 1922ء کو پیدا ہوئیں۔ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ آپ کے نانا تھے۔
ایک بار جب بچپن میں آپ کو ٹائیفائیڈ ہوگیا تو حضرت مولوی صاحبؓ بھی بہت پریشان ہوئے۔ ایک روز وہ میرے والد حضرت مولوی ابراہیم بقاپوری صاحبؓ کے پاس آئے اور بتایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مولوی بقاپوری سے دعا کرواؤ۔ یہ سن کر والد صاحب فوراً ہمراہ چل دیئے اور رقیہ بیگم کی چارپائی کے پاس بیٹھ کر دعا کی۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ جب مَیں آٹھویں جماعت کا طالبعلم تھا تو مَیں نے نماز میں خوب رو رو کر دعا کی کہ اے اللہ! مجھے نیک بیوی عطا فرمانا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے خواب میں بتایا کہ میری بیوی کا نام رقیہ بیگم ہے۔ انہی دنوں مجھے حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ بھی خواب میں ملے، کسی سوال کا جواب سمجھایا اور کچھ کھانے پینے کو بھی دیا جو مَیں نے کھایا پیا۔
رقیہ بیگم نے لاہور سے B.A., B.T. کیا اور قادیان اور ربوہ کے گرلز سکولوں میں پڑھاتی رہیں۔ دوران تعلیم بھی سختی سے پردہ کیا جس کی وجہ سے آپ کی بہت عزت کی جاتی تھی۔ تقسیم ہند کے وقت اپنے نانا کے ہمراہ لاہور آگئیں اور پھر حضرت مولانا صاحبؓ کی بیماری کے دوران اُن کی بہت خدمت کی توفیق پائی۔ اکتوبر 1949ء میں آپ کا نکاح مضمون نگار کے ساتھ ہوگیا اور اگلے سال رخصتی ہوئی۔
رقیہ بیگم بہت عبادت گزار تھیں۔ ہم نے ہمیشہ گھر میں نماز تہجد ادا کی جس میں بعد میں بچے بھی شامل ہوجاتے رہے۔ اسی طرح نماز اشراق کی پابندی کرتیں اور دوسروں سے حسن سلوک بہت عمدہ تھا۔ غریبوں کی مدد کرتیں اور سینکڑوں لوگوں کو قرآن کریم پڑھانے کی سعادت حاصل کی۔ غرباء کی شادیوں میں کھلے دل سے مدد کرتیں۔ حیادار اور صابر و شاکر تھیں۔ میرے والدین کی اتنی خدمت کرتیں کہ وہ میرے ہاں رہنے کو ترجیح دیتے۔ چندوں میں سبقت لے جانے والی تھیں۔
1974ء میں بوریوالہ میں میری دکانیں توڑ کر سامان جلا دیا گیا تو مَیں خالی ہاتھ اپنے گھر لاہور آگیا اور کئی ماہ تک روزانہ صرف پانچ روپے گھر کے خرچ کے لئے دیتا رہا۔ لیکن آپ نے ہمیشہ کمال صبر و شکر کا اظہار کیا۔ پھر 1980ء میں جوان بیٹی کا صدمہ بہت ہمت سے برداشت کیا۔ آپ کی وفات 7؍فروری 2003ء کو ہوئی۔