مکرمہ سردار بیگم صاحبہ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10؍ستمبر 2003ء میں مکرم عبداللطیف چودھری صاحب اپنی والدہ مکرمہ سردار بیگم صاحبہ کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں مرحومہ پیدائشی احمدی تھیں، والد حضرت چودھری محمد اسماعیل صاحبؓ اور دادا حضرت میاں محمد بخش صاحبؓ بھی صحابی تھے۔ اگرچہ تعلیم معمولی تھی لیکن دین سے بہت لگاؤ تھا اور شادی سے قبل ہی باقاعدہ تہجد ادا کیا کرتی تھیں۔ میرے والد حضرت چودھری عبدالرحیم صاحب بھی اپنے خاندان کے پہلے فرد تھے جنہوں نے احمدیت قبول کی۔ وہ جب لکھنے پڑھنے کے قابل ہوئے تو میرے دادا نے انہیں مولوی ثناء اللہ صاحب کے سپرد کردیا جن کے وہ مرید تھے۔ مولوی صاحب نے آپ کو اپنے کتب خانہ میں رکھ لیا اور یہ کام سپرد کیا کہ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب میں سے حوالے نکال کر اُنہیں دیا کریں۔ اسی مطالعہ کی برکت سے آپ نے احمدیت قبول کرلی تو مولوی صاحب کے کہنے پر آپ کے والد نے آپ پر بہت ظلم کئے۔
میری والدہ سردار بیگم صاحبہ کو اللہ تعالیٰ پر بہت توکّل تھا۔ میرا ایک چار سالہ بھائی ایک بار جب چھت سے گر کر ہوش و حواس کھو بیٹھا اور ڈاکٹر نے بھی اس کی زندگی سے جواب دیدیا تو والدہ صاحبہ ساری رات سجدہ میں روکر دعائیں کرتی رہیں اور صبح مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے میرا بیٹا واپس کردیا ہے۔ چنانچہ پھر وہ بیٹا جلد روبصحت ہوگیا۔
میری والدہ لجنہ اماء اللہ مزنگ لاہور کی صدر بھی تھیں۔ کئی گھرانوں میں تبلیغ کے لئے جاتی تھیں اور دُور دُور تک احمدیوں کے گھرانوں میں بھی پیدل جایا کرتیں تاکہ انہیں جماعتی امور میں حصہ لینے کی تلقین کریں۔ اُس زمانہ میں ’’اسلامیہ پارک‘‘ بھی مزنگ کے حلقہ میں شامل تھا۔ آپ کی مساعی سے وہاں فعال لجنہ قائم ہوگئی۔ مزنگ میں ہم کرایہ کے مکان میں رہتے تھے۔ 1936ء میں آپ نے اپنا مکان بنانے کے لئے اسلامیہ پارک میں ایک کنال زمین بھی خرید لی۔ ابھی اس پر کوئی عمارت تعمیر نہیں کی تھی کہ لجنہ کے اجلاس میں آپ نے خواتین کو تلقین کی کہ محلہ میں مسجد بنوانے کا انتظام کریں۔ کسی نے جملہ معترضہ کے طور پر کہا کہ آپ اپنی زمین کا ایک حصہ مسجد کو دیدیں۔ یہ بات آپ کے دل میں بیٹھ گئی لیکن کئی سال تک عمل نہ ہوسکا۔ پھر آپ نے خواب میں حضرت مصلح موعودؓ کی اقتداء میں خود کو اس طرح نماز ادا کرتے دیکھا کہ ہمارے گھر اور مسجد کے درمیان صرف ایک دیوار حائل تھی۔ اس خواب کے بعد آپ نے زمین کا ایک حصہ مسجد کے لئے وقف کردیا اور اپنے سارے زیورات اس کی تعمیر کے لئے پیش کردیئے۔ لجنہ کی دوسری بہنوں نے بھی مالی معاونت کی لیکن پیسوں کی کمی کی وجہ سے چھت گھاس پھونس کی ڈالی گئی۔ کچھ عرصہ بعد اس مسجد کو کسی شرپسند نے آگ لگادی تو آپ نے دوبارہ گھر گھر جاکر رقم اکٹھی کی اور اپنے مکان کیلئے جو رقم جمع تھی وہ بھی مسجد فنڈ میں دیدی۔ چنانچہ جب بڑی شان و شوکت والی مسجد تعمیر ہوگئی تو حضرت مصلح موعودؓ کو مدعو کیا گیا۔ حضورؓ ہمارے گھر تشریف لائے اور پھر مسجد میں نمازیں پڑھائیں تو ہمارے گھر میں عورتوں نے نماز باجماعت ادا کی۔ اس طرح خواب پوری ہوئی۔
مکرمہ سردار بیگم صاحبہ 1942ء میں اسلامیہ پارک کی لجنہ کی صدر منتخب ہوئیں اور اپنی وفات 18؍اکتوبر 1965ء تک اس حلقہ کی صدر رہیں۔ طبیعت کی بہت فیاض اور مہمان نواز تھیں۔