مکرم بشیر احمد صاحب اور مکرم راجہ عبدالحمید خانصاحب کی شہادت
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ 4 جنوری 2019ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30؍اکتوبر2012ء میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق 23؍اکتوبر 2012ء کی رات کو بلدیہ ٹاؤن کراچی میں دو احمدیوں کو شہید کردیا گیا۔ پہلے 40سالہ ہومیوپیتھ ڈاکٹر راجہ عبدالحمید خان صاحب کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا یا گیا اور اس واقعہ کے دس منٹ بعد مکرم بشیر احمد صاحب ابن مکرم شاہ محمد صاحب مرحوم کو فائرنگ کرکے شہید کر دیاگیا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 26؍اکتوبر2012ء کے خطبہ جمعہ میں ہر دو شہداء کا ذکر خیر فرمایا اور بعدازاں نماز جنازہ غائب پڑھائی۔ حضورانور نے فرمایا کہ شہید بشیر احمد بھٹی صاحب ابن مکرم شاہ محمد صاحب مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے پڑنانا مکرم میاں محمد اکبر صاحب کے ذریعہ سے ہوا جن کے گاؤں سے ایک وفد نے قادیان جاکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اور واپسی پر اُن احمدیوں کے ذریعہ گاؤں کے کئی لوگوں نے بیعت کی جن میں سے ایک شہید مرحوم کے پڑنانا تھے۔ آپ کے آباؤ اجداد کا تعلق باجوڑی چار کوٹ کشمیر کے ساتھ تھا۔ پھر بشیر صاحب سندھ میں ناصر آباد سٹیٹ میں بھی کچھ عرصہ آباد رہے۔ ان کی شہادت کا واقعہ اس طرح ہے کہ اپنی دکان میں رات تقریباً 9بجے بیٹھے ہوئے تھے کہ دو موٹر سائیکل سوار آئے جن میں سے ایک نے آپ پر تین گولیاں فائر کیں جن میں سے ایک گولی گردن اور دوسری گولی سینے میں لگی۔ اُن کو فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا مگر آپ راستے میں ہی شہید ہوگئے۔ آپ کی عمر تقریباً 67سال تھی۔ کشمیر میں ان کی پیدائش ہوئی۔ اَن پڑھ تھے، ناخواندہ تھے، محنت مزدوی کیا کرتے تھے۔ 1984ء میں کراچی شفٹ ہو گئے۔پھر فیکٹریوں میں کام کرتے رہے اور ساتھ اپنے گھر چھوٹی سی پرچون کی دوکان کھولی ہوئی تھی۔ اولاد کی تربیت بڑی احسن رنگ میں کی۔ ان کا ایک پوتا عزیزم عمران ناصر پچھلے سال جامعہ احمدیہ میں داخلہ کے لئے گیا تو آپ نے اُسے دین کی خدمت کی نصائح کیں۔ نظام جماعت سے مکمل تعاون کرتے تھے۔ خلافت کی محبت میں اُن کا دل گداز تھا۔ اہلیہ کے علاوہ ان کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔
شہید مرحوم کے والد مکرم شاہ محمد صاحب پاکستان بننے سے قبل کشمیر میں ہی وفات پاگئے تھے جبکہ والدہ نا صر آباد آکر فوت ہوئیں۔ آپ تین بہن بھائی تھے، بڑی بہن وفات پاچکی ہیں جبکہ چھوٹی بہن سرگودھا میں مقیم ہیں۔
دوسرے شہید مکرم راجہ عبدالحمید خانصاحب کے والد مکرم عبدالعزیز خان صاحب نے ممبئی سے ایم بی بی ایس کیا۔ پاکستان بننے کے بعد آپ کراچی آگئے اور پولیس ہیڈکوارٹر کراچی میں بطور سرجن متعیّن رہے، ریٹائرمنٹ کے بعد بلدیہ ٹائون میں اپنا کلینک شروع کردیا۔
مکرم ڈاکٹر راجہ عبدالحمید خانصاحب کا ذکرخیر کرتے ہوئے حضورانور نے فرمایا کہ 1994ء میں محترم سید محمد رضا بسمل صاحب جو کہ ضلع کراچی کے معروف داعی الی اللہ اور صاحب علم بزرگ ہیں اُن کا رابطہ ڈاکٹر راجہ عبدالحمید خانصاحب شہید کے والد مکرم ڈاکٹر عبدالعزیز خان صاحب سے ہوا۔ سوال و جواب کی کئی محفلیں ہوئیں جن کے بعد ڈاکٹر راجہ عبدالحمید خانصاحب شہید کو 1994ء میں بیعت کرکے جماعت احمدیہ مبائعین میں شامل ہونے کی توفیق حاصل ہوئی۔ اس کے تھوڑے عرصہ بعد ہی ان کے والد صاحب اور والدہ صاحبہ نے بھی بیعت کرلی۔ شہید مرحوم کے آباؤ اجداد کا تعلق افغان قبیلے یوسف زئی سے ہے۔ آپ کے دادا مکرم عبدالحمید خانصاحب (جن کے نام پر آپ کا نام رکھا گیا) حیدرآباد دکن کے نواب کے چیف سیکرٹری تھے۔ شہید مرحوم 1972ء میں کراچی میں پیدا ہوئے اور آپ نے بلدیہ ٹاؤن سے ہی انٹر تک تعلیم حاصل کی۔ پھر نیوی سے انٹرن شپ کر کے نیوی میں بطور سویلین فورمین بھرتی ہوگئے۔ چونکہ ڈیوٹی سے واپس آکر اپنے والد صاحب کے ساتھ اُن کے کلینک میں بیٹھا کرتے تھے اس لئے لوگ اِن کو ڈاکٹر کہتے تھے۔ 23؍ اکتوبر کی رات پونے نو بجے دو موٹرسائیکل سوار آئے۔ ایک شخص موٹرسائیکل پر ہی سوار رہا جبکہ دوسرا کلینک میں داخل ہوا اور اُس نے پستول سے آپ پر تین فائر کئے۔ ایک گولی آپ کے بائیں گال پر لگی اور دائیں جانب گال کے اوپر سے ہی باہر نکل گئی جبکہ دوسری گولی ٹھوڑی پر نیچے کی جانب لگی۔ ایک گولی بائیں کندھے پر لگی جو کمر سے باہر نکل گئی۔ ان گولیوں کے لگنے سے آپ موقع پر شہید ہوگئے۔
شہید مرحوم اپنے حلقہ کی جماعت میں بطور سیکرٹری تربیت نَومبائعین خدمت بجا لا رہے تھے اور شعبہ دعوت الی اللہ کے نگران تھے۔ بڑے ہمدرد، بااخلاق مزاج کے حامل تھے۔ چہرہ پر ہمیشہ ایک ہلکی سی مسکراہٹ رہتی۔ بڑی دھیمی آواز میں بات کیا کرتے تھے۔ آپ کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ آپ ایک انتہائی خیال رکھنے والے اور محبت کرنے والے شوہر اور شفیق باپ تھے۔ دین کی خدمت اور اطاعت، خلافت سے محبت آپ کی خوبیوں میں سے نمایاں خوبیاں تھیں۔ آپ کی اہلیہ محترمہ نصرت حمید صاحبہ (بنت مکرم سید احمد علی شاہ صاحب) بتاتی ہیں کہ بلدیہ ٹاؤن میں ہونے والی شہادتوں کی وجہ سے علاقہ میں تناؤ تھا۔ شہید مرحوم شہادت سے ایک روز قبل مجھے کہنے لگے کہ کچھ احمدی گھرانے حالات کی وجہ سے یہاں سے شفٹ ہو رہے ہیں، اس طرح تو دشمن اپنے عزائم میں کامیاب ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی آپ پر رقّت طاری ہوگئی اور کہنے لگے لیکن مَیں نہیں ڈرتا۔ میری خواہش ہے کہ مَیں خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو جاؤں۔ نیز کہا کہ کہیں آپ ڈر کا شکار تو نہیں ہیں؟ مَیں نے کہا کہ نہیں، مَیں بھی نہیں ڈرتی بلکہ مجھے بھی آپ کے لئے اور اپنے لئے شہادت کا شوق ہے۔
آپ کی اہلیہ نے بتایا کہ شہید مرحوم خاندان میں اکیلے احمدی تھے اِس لئے عید وغیرہ پر جب کوئی رشتہ دار ہمارے گھر نہ آتا تو مجھے گھبراہٹ ہوتی اُس پرکہتے کہ افسردہ کیوں ہو، ہراحمدی ہمارا رشتے دار ہے ۔
حضورانور نے فرمایا کہ شہید مرحوم کی تین چھوٹی عمر کی بچیاں ہیں، اللہ تعالیٰ اُن کے نیک نصیب کرے اور خود اُن کا حافظ و ناصر ہو۔ مرحوم کے والدین وفات پاچکے ہیں۔ ان کی تین بہنیں ہیں مگر تینوں غیراحمدی ہیں۔