مکرم رانا سلیم احمد صاحب آف سانگھڑ شہید
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19؍جنوری 2010ء میں مکرم ابن کریم صاحب کے قلم سے مکرم رانا سلیم احمد صاحب شہید آف سانگھڑکا مختصر ذکرخیر شامل ہے۔
مکرم رانا سلیم احمد صاحب کو خدام الاحمدیہ میں بطورقائد ضلع اور پھر قائد علاقہ خدمت کرنے کا موقع ملا۔ جماعتی طور پر نائب امیر ضلع رہے اور انصاراللہ میں بھی ضلعی سطح پر خدمت کی سعادت عطا ہوتی رہی۔
نمازِ مغرب کی امامت کروانے کے بعد آپ مسجد کا دروازہ بند کر رہے تھے کہ کسی بدبخت نے آپ کی ناک اور پیشانی پر فائر کرکے آپ کو شہید کردیا۔
آپ کی شہادت سے صرف ایک سال قبل مکرم ڈاکٹر پاشا صاحب کو بھی سانگھڑ میں بڑی بیدردی کے ساتھ شہید کردیا گیا تھا۔ مکرم ڈاکٹر صاحب کے گھر سے قریب ہی مکرم رانا صاحب کا گھر اور کلینک تھا اور وہیں سے گزر کر مکرم رانا صاحب اور دوسرے احمدی نماز کے لئے مسجد میں جاتے ہیں گویا اس راستے کو روزانہ پانچ وقت دیکھتے تھے مگر ان کے ایمان میں ذرہ بھر لغزش نہ آئی۔ اپنے پیش رو کی قربان گاہ کو دیکھتے اور توحید کی خاطر پنجوقتہ نماز باجماعت کو اپنے اوپر لازم رکھتے۔
رانا سلیم صاحب بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔ بڑے بڑے عہدے اور مناصب ملے مگر عاجزی اور انکساری اور اپنے کام سے دلی وابستگی قائم رکھی۔ مکرم امیر صاحب ضلع کا کہنا ہے کہ وہ جماعتی کاموں میں میرے سلطان نصیر تھے۔ مرکزسے کوئی ہدایت آتی تو خاکسار انہیں بتاکر پھر بے فکر ہو جاتا کہ رانا صاحب کے ذمہ جو کام لگایا ہے ناممکن ہے کہ وہ مکمل نہ ہو۔ بڑی ہی محنت سے کام مکمل کرکے مجھے رپورٹ دیتے۔ اپنے ساتھیوں کی تربیت اس طرح کرتے کہ آئندہ جماعتی ذمہ داریوں کو وہ بھی احسن انداز میں سنبھال سکیں اور دین کے کام میں کوئی خلا پیدا نہ ہو۔
مکرم فضل الٰہی شاہد صاحب (سابق مربی ضلع سانگھڑ) بیان کرتے ہیں کہ مکرم رانا سلیم صاحب علمی لحاظ سے تو ایک بہت بڑا مقام رکھتے تھے مگر غریب پروری اور درپردہ غریب پروری میں بھی ایک نمایاں حیثیت آپ کو حاصل رہی۔ بہت سارے غریب بچوں کی فیسیں معاف تھیں اور درپردہ غریبوں کی اعانت بھی کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ان کو جیل حکام نے یہ بتایا کہ بہت سارے ایسے قیدی ہیں جن کا کوئی والی وارث نہیں ہے کئی کئی سال سے وہ ناحق جیل کاٹ رہے ہیں تو آپ نے اُن اسیروں کی رہائی کے لئے کوشش کی، خود اخراجات برداشت کئے اور ان کی آزادی کے سامان بہم پہنچائے۔
ایک لمبا عرصہ وہاں بطور معلّم خدمت کرنے والے مبشر احمد صاحب رند بیان کرتے ہیں کہ رانا صاحب میں دین کی خدمت کا جذبہ اس قدر دیوانگی کی حد کو پہنچا ہوا تھا کہ اکثر و بیشتر مرکزی ڈاک ملتے ہی وہ خود یہ ڈاک لے کر مجالس میں جاتے۔ اگر کہا جاتا کہ کسی آتے جاتے کے ہاتھ بھیج دیا کریں تو کہتے کہ مرکز کے حکم کی تعمیل میں جو لذّت اور برکت ہے وہ حاصل کرنے آتا ہوں اور دوسرے فوائد یہ ہیں کہ ذاتی طور پر خدام و اطفال اور انتظامیہ سے رابطہ بھی ہو جاتا ہے اور اِنِّیْ مُعِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِعَانَتَکَ کے نشان بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ آپ کو جماعتی کام کرنے کا بے حد شوق تھا۔ ایک روز آکر بڑی خوشی سے بتایا کہ خدا سے گاڑی مانگی تھی سو اس نے آج دیدی ہے، میں نے کہا سب سے پہلے اس پر جماعتی کام کروں۔ اور آپ بھی جب چاہیں اور جدھر چاہیں ہم تبلیغ کے لئے نکلا کریں گے۔
معلم صاحب فرماتے ہیں میں نے کئی دفعہ مختلف جماعتوں میں رہتے ہوئے یہ بات بھی نوٹ کی کہ علی الصبح ہی موٹر سائیکل پر دُور دُور کی جماعتوں میں آپ تشریف لارہے ہوتے۔ جلدی جلدی مرکزی ڈاک دے کر قائدین اور ناظمین کو مل کر ضروری ہدایات دے کر واپس چلے جاتے کہ اب سکول کا وقت ہو رہاہے۔ نہ کسی کھانے پینے کی پرواہ اور غرض اور نہ ہی آرام کی طرف دھیان۔ غرضیکہ بڑی ہی خوبیوں کے مالک تھے۔
وہ راہ حق کامسافر باطنی خوبیوں سے تو مالامال تھا ہی ظاہری لحاظ سے بھی خدا نے بڑی ہی وجاہت اور صحت عطا کی تھی۔ دیکھنے میں واقعی غضنفر لگتے تھے۔ آخر پر اپنے دو تازہ اشعار شہید مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتا ہوں۔ ؎
یہ عزت یہ جان و متاع چیز کیا
سبھی کچھ ہی اس پر لٹائیں گے ہم
کیا ہے صدی کا جو عہدِ وفا
جو خون بھی بہا کر نبھائیں گے ہم