مکرم غلام مصطفی محسن شہید
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18؍مئی 2002ء میں مخلص خادم دین اور پرجوش داعی الی اللہ مکرم غلام مصطفی محسن صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے مکرم محمد شعیب شاکر صاحب رقمطراز ہیں کہ آپ ایک نڈر اور بے باک داعی الی اللہ تھے۔ اگرچہ آپ کے والد محترم غلام رسول صاحب نے 1956ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے دست مبارک پر بیعت کی تھی اور اس وجہ سے محسن صاحب بھی احمدی تھے لیکن آپ نے ازخود بیعت 1965ء میں کی۔ پھر ربوہ میں اپنی تعلیم مکمل کی اور بعد ازاں مختلف جگہوں پر کام کرتے رہے۔ 1980ء کی دہائی میں ضلع کچہری ٹوبہ ٹیک سنگھ میں باقاعدہ اشٹام فروشی کا کام شروع کیا۔
آپ ایک بہترین خادم دین تھے۔ 1984ء میں آپ کو اپنے چھ سالہ بیٹے کے ہمراہ اسیر راہ مولا ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ اس کے بعد بھی ایک بار اسیر راہ مولا ہوئے۔ آپ کو حضرت بلالؓ اور حضرت شہزادہ عبداللطیف صاحب شہیدؓ کی قربانیاں بہت پسند تھیں اور اکثر اُن کا ذکر کرکے رشک کیا کرتے تھے۔ دعوت الی اللہ کے ساتھ ساتھ ایک رحمدل، ہنس مکھ اور غریبوں کے ہمدرد وجود تھے۔ جو بھی آپ کے قریب ہوتا وہ بے ساختہ کہتا کہ آپ اپنے نام کی طرح واقعی محسن تھے۔ آپ کے کردار کی وجہ سے لوگ احمدیت کو قبول کرتے تھے۔ آپ اپنے ضلع میں بیعتوں کی دوڑ میں اوّل آتے اور شہادت تک یہ ریکارڈ برقرار رکھا۔ اسی وجہ سے آپ کو دھمکیاں بھی مل رہی تھیں۔
آپ کو خدا تعالیٰ کی ہستی پر کامل یقین تھا۔ اگر کوئی نومبائع احمدیت سے بے رغبتی کا اظہار کرتا تو اُس کیلئے اپنی راتوں کی نیندیں قربان کردیتے، تہجد پڑھتے، نوافل پڑھتے ، خلیفۃالمسیح کی خدمت میں دعا کا خط لکھتے۔ اسی طرح جب کسی کی سمجھ میں احمدیت کا پیغام نہ آتا تو بھی خصوصی دعائیں کیا کرتے تھے۔ ویران جگہوں پر جاکر دعائیں کرنا آپ کا مشغلہ تھا۔ اکثر غار حرا کو رشک بھرے الفاظ میں یاد کرتے۔
10؍جنوری 2002ء کی رات آپ کو دعوت الی اللہ کے جرم میں اُس وقت شہید کردیا گیا جب آپ اپنے گھر (واقع پیرمحل ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ) میں اکیلے تھے۔ آپ نے بیوہ کے علاوہ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ آپ کی اہلیہ پیرمحل کی صدر لجنہ ہیں اور ایک بیٹا طارق احمد احسن جامعہ احمدیہ ربوہ میں زیرتعلیم ہے۔ شہید مرحوم کی تدفین ربوہ میں عمل میں آئی۔