مکرم محمد اسلم بھروانہ صاحب شہید اور مکرم سجاد اظہر بھروانہ صاحب شہید

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 22؍جنوری 2021ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17؍جنوری 2013ء میں مکرمہ ش۔ جہاں صاحبہ نے 28؍ مئی 2010ء کو سانحہ لاہور میں جام شہادت نوش کرنے والے اپنے والد مکرم محمد اسلم بھروانہ صاحب اور پھوپھی زاد بھائی مکرم سجاد اظہر بھروانہ صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔
مضمون نگار اپنے پھوپھی زاد کے حوالے سے رقمطراز ہیں کہ سجاد بھائی خوبیوں کا پیکر تھا۔ نیک، شریف، ہمدرد، نمازوں اور تہجد کا پابند۔ ہر ایک سے مسکراتے چہرے کے ساتھ ملتا۔ میں نے اسے کبھی بھی لغویات میں مشغول نہ دیکھا۔ اس کی زندگی میں صرف دو ہی کام تھے، ایک اپنی نوکری پر جانا اور دوسرا جماعت کا کام کرنا اور وہ اکثر اوقات جماعت کے کاموں کو نوکری پر ترجیح دیتا۔ دارالذکر جیسے اس کا دوسرا گھر تھا۔ اسے ربوہ شفٹ ہونے کی بہت خواہش تھی تاکہ وہاں اپنے بچوں کی پرورش کرے۔ اس کی یہ خواہش شہادت کے بعد پوری ہوئی جب اس کی فیملی ربوہ شفٹ ہوئی۔
مضمون نگار لکھتی ہیں کہ میرے والد محترم محمد اسلم بھروانہ شہید کی یاد کبھی بھی میرے دل سے نہیں نکل سکتی۔ وہ میرے لیے ایک سائبان کی طرح تھے۔ نہایت نیک دل، ایماندار، تہجد گزار شخص تھے۔ جماعت سے انہیں عشق کی حد تک لگاؤ تھا۔ ساری زندگی کبھی بھی شام کا وقت یا چھٹی والا دن گھر میں نہیں گزارا۔ بلکہ جتنا بھی وقت ملتا خدمت دین میں صَرف کرتے۔ لیکن اتنی مصروفیت کے باوجود وہ اکثر ہمیں سیر پر بھی لے جاتے تھے۔ ریلوے میں افسر ہونے کے باوجود ہمیشہ رزق حلال کمایا۔ اپنے سب بچوں کو ریلوے کے سرکاری سکولوں میں تعلیم دلوائی۔ کبھی امی نے دوسرے افسروں کے بچوں کی مثال دے کر شکوہ کیا تو جواب دیتے کہ میں بھی تو ٹاٹ کے سکولوں میں پڑھ کر یہاں تک پہنچا ہوں، یہ بھی اگر محنت سے پڑھیں گے تو ضرور کچھ بن ہی جائیں گے، اور شہر کے مہنگے سکولوں کو میری تنخواہ افورڈ نہیں کرسکتی۔
ہم بچوں نے ہوش سنبھالتے ہی ابو کو ہمیں ایک ہی بات کی تلقین کرتے سنا اور وہ تھی نماز میں باقاعدگی۔ آپ گھر میں فجر، مغرب اور عشاء کی نماز باجماعت پڑھاتے اور اکثر نماز مغرب کے بعد ملفوظات کا درس دیتے۔ کبھی بھی پڑھائی کے معاملہ میں ہم پر زیادہ سختی نہ کی لیکن نماز کے معاملے میں بہت ہی سخت تھے۔ غصہ بہت جلدی آجاتا تھا لیکن اتنی جلدی اتر بھی جاتا اور دل بہت ہی جلدی صاف ہو جاتا۔ کبھی بھی بغض دل میں نہ رکھتے اور اگر ان کو کوئی بات پسند نہ ہوتی تو اس کا برملا اظہار کر دیتے چاہے سننے والا ان کا کوئی افسر ہی کیوں نہ ہو۔
ریلوے کالونی کے گھر خاصے کشادہ ہوتے ہیں۔ آپ کو کبھی بھی گھر بنانے کا شوق نہیں تھا۔ کبھی امی نے پریشان ہونا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ہم کہاں رہیں گے اور کرائے کے گھر تو بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ آپ ہمیشہ یہ جواب دیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ہمیشہ بڑے گھروں میں رکھا ہے آگے بھی وہ ہی تمہیں بڑا گھر دے گا اور اس کا شکر ادا کرو۔ کہتے تھے کہ اس دنیا میں کیا گھر بنانا، اصلی گھر تو اگلی دنیا میں بنانا چاہیے۔
آپ کو کپڑوں اور جوتوں کا بھی شوق نہیں تھا۔ آپ کے زیر استعمال پتلونیں اور جوتے سات سے آٹھ سال پرانے تھے۔ الغرض بہت ہی بے نفس انسان تھے۔ اپنی ضروریات کا بالکل خیال نہیں رکھتے تھے لیکن بیوی بچوں کی ضروریات کو احسن طریق سے پورا کرتے تھے۔ بیماری کے علاوہ کبھی جمعہ نہ چھوڑتے۔ جمعہ سے قبل اعلانات کرنے کی ذمہ داری آپ لمبا عرصہ نبھاتے رہے۔ خلیفہ وقت اور خلافت سے بہت پیار تھا اور وفا کا تعلق تھا۔ باقاعدگی سے حضور کا خطبہ جمعہ سنتے اور ہمیں بھی سناتے۔ بچپن میں MTA کے آنے سے پہلے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی خطبہ جمعہ کی کیسٹیں ہمیں سناتے اور کہتے غور سے سنو، میں بعد میں خطبہ کے بارے میں سوال پوچھوں گا۔ جب تک ہمارے گھر میں MTA نہ تھا آپ اپنے بچوں کو لمبے فاصلے سے ہر جمعہ اور رمضان المبارک میں روزانہ دارالذکر لاتے اور اس میں کبھی ناغہ نہ کیا۔ ہمارا سارا گھرانہ ہی اکثر دارالذکر میں پایا جاتا اور حسب توفیق خدمت کی سعادت حاصل کرتا۔
آپ نے ریٹائرمنٹ کے بعد زندگی وقف کی تھی اور اس سے وہ بہت خوش تھے اور خاص طور پر اپنی صحت کا خیال رکھتے تاکہ بہتر طور پر خدمت دین کرسکیں۔ آپ بہت بہادر انسان تھے اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے تھے۔ جن دنوں لاہور کے حالات خراب تھے تو سابق امیر صاحب لاہور کے گھر کے باہر رات کو پہرہ بھی دیتے رہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں