مکرم محمد لوئیس مآلا صاحب
سابق امیر جماعت احمدیہ انڈونیشیا مکرم محمد لوئیس مآلا صاحب 23؍اگست2004ء کو جکارتہ (انڈونیشیا) میں وفات پا گئے۔ ستمبر 1996ء سے جون 2001ء تک آپکو انڈونیشیا کے امیر کی حیثیت سے خدمت بجالانے کی توفیق ملی اور یہ سعادت بھی کہ آپ کے عہد امارت میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے انڈونیشیا کا دورہ فرمایا۔
آپ 22؍اکتوبر 1932ء کو نا گاری تالانگ، (مغربی سماٹرا) میں مکرم مالادا تک مودو صاحب کے ہاں پیدا ہوئے جو اپنے قبیلہ کے سردار تھے۔ انہوں نے اپنے خاندان میں سب سے پہلے (1938ء میں) احمدیت قبول کی تھی اور ان کے سا تھ دیگر سردارانِ قبیلہ اور ان کی مسجد کے امام نے بھی بیعت کرلی تھی۔ محترم لوئیس صاحب بچپن میں اپنی مسجد کے مدرسہ میں پڑھتے رہے اور قرآن کریم اور دین کی تعلیم حاصل کی۔ پھر پا ڈانگ ہائی سکول سے ابتدائی تعلیم مکمل کی۔ دوران تعلیم ہی مجلس خدام الاحمدیہ پاڈانگ کے ناظم مال کے طور پر کام کیا۔
1953ء میں گریجوایشن کرکے نیول اکیڈمی Surabaya میں شمولیت اختیار کرلی اور 1956ء میں اکیڈمی کی تعلیم مکمل کرکے سروس کے دوران آچے، ماکاسار، مغربی جاوا، پاڈانگ، مانا ڈو اور مغربی ایریان میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ مرحوم کی شادی 1963ء میں محترمہ نورمانی منان صاحبہ بنت مکرم عبدالمنان صاحب کے ساتھ ہوئی۔ آپ کی ساس محترمہ نوریہ صا حبہ پاڈانگ کی پہلی احمدی خاتون تھیں جنہوں نے 1926ء میں بیعت کی تھی۔
مرحوم 1963ء میں ماسکو میں انڈونیشیا کی ایمبیسی میں فوجی اتاشی مقرر ہوئے۔ روس سے واپس آنے کے بعد نیول سٹاف کمانڈ کالج میںبطور نیشنل سیکورٹی آفیسر مقرر ہوئے، پھر OPSTIB انسپکٹر جکارتہ مقرر ہوئے اور نیوی کرنل کے عہدہ سے ریٹائرڈ ہوئے۔ اپنی سروس میں کسی ایک جگہ زیادہ قیام نہ ہونے کی وجہ سے جماعتی خدمات میں کمی رہی تاہم جکارتہ قیام کے دوران سیکرٹری امور خارجہ رہے۔ 1983ء میں نیشنل سیکرٹری تربیت اور صدر جماعت کے بایوران خدمت کی توفیق پائی۔ 1987ء میں نائب صدر مجلس انصاراللہ مقرر ہوئے۔1990ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی زندگی وقف کردی۔ 1990ء تا 1996ء نائب امیر دوم رہے۔ ستمبر 1996ء میں نیشنل امیر مقرر ہوئے۔ ان کی امارت کے عرصہ میں نومبائعین کی تعداد 41000سے تجاوز کر گئی۔
2001ء میں مکرم لوئیس مآلا صاحب مرحوم کا دورہ امارت اختتام کو پہنچا۔ تاہم مرکزی مجلس عاملہ میں بطور سیکرٹری امور خارجہ خدمات انجام دیتے رہے۔ مرحوم کو 1977ء سے گردوں کی تکلیف اور جوڑوں کی تکلیف جیسے عارضے لاحق تھے۔ 1982ء اور پھر ایک مرتبہ 1994ء میں شدید بیمار رہے اور ہسپتال میں بھی داخل رہے۔ تاہم بیماری کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ملکی اور جماعتی خدمات انجام دیتے رہے۔
آپ کی اہلیہ محترمہ ستمبر 2002ء میں وفات پاگئیں ۔ مرحوم نے 4 بچے یادگار چھوڑے ہیں۔ جن میں مکرم خیرالباہری صاحب (مقیم امریکہ)، محترمہ خیر النساء صاحبہ (جنرل سیکرٹری لجنہ اماء اللہ انڈونیشیا) مکرم عبدالمکسیت صاحب (صدر خدام الاحمدیہ انڈونیشیا ) اور مکرم عبد المصور صاحب (نائب صدر خدام الاحمدیہ انڈونیشیا) شامل ہیں۔ مرحوم کی ساری اولاد نظام وصیت سے منسلک ہے اور خدا کے فضل سے تمام پوتے پوتیاں وقفِ نو کی مبارک تحریک میں شامل ہیں۔