مکرم مرزا عبدالصمد احمد صاحب سیکرٹری مجلس کارپرداز ربوہ کا انٹرویو
ماہنامہ ’’انصاراللہ ‘‘ ربوہ کا جون 2005ء کا شمارہ ’’وصیت نمبر‘‘ کے طور پر شائع ہوا ہے۔ اس شمارہ میں مکرم مرزا عبدالصمد احمد صاحب سیکرٹری مجلس کارپرداز صدرانجمن احمدیہ ربوہ پاکستان کا ایک انٹرویو شامل اشاعت ہے جو مکرم سید مبشراحمدایاز صاحب اور مکرم خواجہ ایازاحمد نے مرتّب کیا ہے۔
مکرم مرزا عبدالصمد احمد صاحب نے بتایا کہ اکتوبر1987ء میں میری تقرری بطور سیکرٹری مجلس کارپرداز ہوئی، تب سے کارکنان میں اضافہ کے ساتھ ساتھ موصیان کی سہولت کے لئے کچھ نئے شعبہ جات کااضافہ بھی کیاگیاہے جن میں شعبہ استقبال اور شعبہ کمپیوٹر بھی شامل ہے۔ شعبہ کمپیوٹر کے تحت تمام پرانے موصیان کاریکارڈاورجملہ کوائف کومحفوظ کیاجارہاہے اورنئے موصیان کے تمام کوائف کمپیوٹر میں محفوظ کئے جاچکے ہیں۔ سالانہ حساب کتاب کمپیوٹرائزڈ ہرموصی کو بھجوایا جا تاہے۔ ہرچند کہ یہ تمام ریکارڈ رجسٹروں میں بھی درج ہوتاہے ۔
ربوہ کانقشہ یکم فروری1949ء کومنظور ہوا جو پنجاب کے ٹاؤن پلینر مسٹر حبیب جے۔اے سومجی نے تیار کیا تھا اور اس پرنواب محمدعبداللہ خانصاحب نے بحیثیت چیف سیکرٹری صدرانجمن احمدیہ پاکستان دستخط کئے تھے۔ اس نقشہ میں ربوہ کی شمالی جانب پہاڑیوں کے دامن میں 75کنال پرمشتمل اراضی قبرستان بہشتی مقبرہ کے نام سے مختص کی گئی تھی۔ 1989ء میں اس میں توسیع کرتے ہوئے مزید 24کنال اراضی شامل کی گئی اوراب یہ کل 99کنال پرمشتمل ہے۔
بہشتی مقبرہ ربوہ میں سب سے پہلی تدفین محترمہ فاطمہ بی بی صاحبہ اہلیہ محترم چوہدری برکت علی صاحب وکیل المال اول تحریک جدید کی ہوئی جنہوں نے 27؍اپریل 1949ء کو وفات پائی تھی۔ بعد میں بعض دیگر موصیان بھی یہاں منتقل کئے گئے جو قیام پاکستان کے بعد امانتاً اپنے علاقوں میں دفن کئے گئے تھے۔ مثلاً حضرت مولوی شیرعلی صاحبؓ۔
بہشتی مقبرہ کو بلاکس اور قطعات میں 1952ء میں تقسیم کیا گیا۔ 1953ء میں حضرت اماں جانؓ کی وفات کے وقت موجودہ چاردیواری کاقیام عمل میں لایاگیااورحضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی ہدایات کے مطابق تقریباًدرمیان میں یہ جگہ مختص کی گئی اس طرح کہ اس کے چاروں طرف صحابہؓ کرام کی قبریں ہوں۔ 1987ء میں اس چاردیواری میں پہلی بار توسیع کی گئی۔ اس چاردیواری میں خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے وہی افراد دفن ہوسکتے ہیں جن کی غیرمعمولی جماعتی خدمات ہوں ۔اسی طرح خاندان مسیح موعود سے تعلق نہ رکھنے والے احباب بھی خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ کی اجازت سے چاردیواری میں دفن ہوسکتے ہیں۔
ویسے تو غیرموصی بہشتی مقبرہ میں دفن نہیں ہوسکتا لیکن رسالہ الوصیت کی ہی ایک شق کے تحت جب ایساامرسامنے آئے تواس پرغورہوسکتاہے لیکن یہ اختیار حضرت خلیفۃ المسیح کو ہی حاصل ہے کہ وہ جومناسب سمجھیں، حضرت مسیح موعودؑ نے بھی کئی ایسے بزرگان کوبہشتی مقبرہ میں دفن کئے جانے کی اجازت دی مثلاًحضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ،اسی طرح حضرت شہزادہ عبداللطیف صاحبؓ کی یادگار وہاں نصب کی گئی ۔ پھر حضرت صاحبزادہ پیرسراج الحق صاحب نعمانیؓ بھی حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر بغیر وصیت کے بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن کئے گئے ۔ نیز جمال احمد شہید بھی وہ خوش نصیب نوجوان ہیں جن کی وصیت تونہ تھی لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ارشاد پر بہشتی مقبرہ ربوہ میں ان کی تدفین ہوئی ،یہ مکرم جمال احمد صاحب ہیں ،جولاہورکے رہنے والے تھے۔ یہاں یہ وضاحت کرتاچلوں کہ بعض ایسے موصیان بھی دفن کئے جاتے ہیں کہ جن کی پہلے وصیت اس رنگ میں تونہیں ہوئی ہوتی کہ ان کی وصیت منظورہوئی ہو، بلکہ یہ علم میں آتاہے کہ فوت ہونے والے کی خواہش توتھی یایہ کہ وصیت فارم منگوایا تھا لیکن مکمل نہیں کرسکایااس جیسی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں دیکھنے والی بات صرف یہ ہے کہ اگر مرنے والا زندہ رہتا تو اپنی وصیت کوتکمیل تک پہنچاتا توایسے معاملات مجلس میں پیش ہوکرحضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں پیش ہوتے ہیں اور حضورانورکی منظوری سے انہیں باقاعدہ موصی قراردے کربہشتی مقبرہ میں دفن کیا جاتا ہے، یوں کہہ لیں کہ ان کی وصیت کا پروسیجر ان کی وفات کے بعد مکمل ہوا۔ اوریہ جومیں نے ذکرکیا ہے اس کی مثال کے طورپرمکرم صاحبزادہ مرزاغلام قادرصاحب بھی ہیں۔ اس ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ صاحبزادہ مرزامبارک احمد صاحب ابن حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب بہت بیمارہوئے اوربچنے کے امکانات بھی کچھ بہت زیادہ نہ تھے ۔۔۔۔۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ عیادت کے لئے جایا کرتے تھے اورایک دن اپنے ساتھ وصیت فارم لے گئے کہ وصیت کی تحریک کریں گے لیکن شایدشدت جذبات سے آپ اظہارنہ کرسکے ہوں، آپ واپس چلے آئے اوران کی والدہ صاحبہ کوفارم دے آئے۔ وصیت کرنے کی خواہش تویقینا ہوگی، فارم پُرہوکر دفتروصیت میں پہنچا تواس وقت کے سیکرٹری مجلس کارپرداز حضرت سید سرورشاہ صاحبؓ نے یہ کہہ کروصیت کومنظورنہ فرمایا کہ یہ قواعد کے مطابق نہیں کیونکہ مرض الموت کی وصیت ہے۔ حضورؓ نے اس پرکچھ نہیں فرمایااورخاموش رہے، لیکن جب مرزا مبارک احمدصاحب کی وفات ہوئی توآپؓ نے انہیں بہشتی مقبرہ میں دفن کئے جانے کاارشاد فرمایا۔
قبروں پرکتبات کی عبارت مجلس کی اجازت اورمنظوری کے بغیرنہیں لکھی جاسکتی، اورعبارت کے الفاظ معین اورواقعی قابل ذکرہونے چاہئیں، وگرنہ نیکی تقویٰ اورپرہیزگاری توموصی کی بنیادی شرائط میں ہی شامل ہے اس طرح یہ توقابل ذکراس لئے نہیں ہوسکتے کہ لفظ ’موصی‘میں ہی یہ ساری باتیں شامل ہیں، ہاں نمایاں جماعتی خدمات ہوں یا حضرت خلیفۃ المسیح کے ارشادات میں سے کوئی عبارت بنائی گئی ہوتواس کی ہرطرح کی تسلی اور تصدیق و توثیق کے بعد مجلس کی منظوری سے اجازت دی جاتی ہے۔ اسی طرح تدفین کے بعد موصی کے ورثاء اورلواحقین سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ خودکتبہ لگوانا چاہیں گے یا دفتر لگادے، کیونکہ اگرکوئی وارث کتبہ نہیں لگاتا تو یہ ذمہ داری دفترکی ہے کہ وہ لگائے گا، لیکن اگرموصی کے ورثاء کتبہ لگواناچاہتے ہوں توعبارت کے طریق کار کا تو ذکر ہوچکا، کتبے کا سائز بھی مقررشدہ ہے اس سے بڑا سائزقابل قبول نہیں ہوتا اورکتبے کی پشت پربھی کوئی نام یاعبارت لکھنے کی اجازت نہیں دی جاتی اوریوں ایک سادہ اور پروقار خوبصورتی ہم بہشتی مقبرے میں دیکھ سکتے ہیں۔
کچھ عرصہ سے تمام ملکوں میں یہ تحریک کی جارہی ہے کہ اپنے ملک میں ’مقبرہ موصیان ‘ قائم کریں۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے گویاپہلے ہی ہمیں ایسے حالات کا سامنا کرنے کے لئے ایک حل بتلادیا تھا چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ اگر کسی موصی کی موت ایسی ہو کہ جہاں سے میت کو لانا متعذر ہو تو ان کی وصیت قائم رہے گی اورخداتعالیٰ کے نزدیک ایساہی ہوگاکہ گویاوہ اسی قبرستان میں دفن ہوئے ہیں اور جائز ہوگا کہ ان کی یادگارمیں اسی قبرستان میں ایک کتبہ اینٹ یاپتھرپرلکھ کر نصب کیاجائے۔ چنانچہ بہت سے ملکوں میں ایسے مقبرہ ہائے موصیان کا قیام عمل میں آچکا ہے، اورایسے مدفون موصیان کے کتبہ جات ’یادگار‘کے طورپریہاں لگائے جاتے ہیں۔
چندایک استثنائی مثالیں توہیں کہ کسی نے خلیفۃالمسیح سے درخواست کرکے اپنے لئے جگہ ریزرو کروائی تھی، مثال کے طورپرڈاکٹرعبدالسلام صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سے درخواست کی تھی کہ انہیں اسی قطعہ میں دفن کئے جانے کی اجازت مرحمت فرمائی جائے اورقبرکی جگہ ریزرورکھی جائے جہاں ان کے والدین دفن ہیں، ایسا ہی محترم چوہدری شاہنواز صاحب کی اہلیہ مجیدہ شاہنواز صاحبہ، اورصاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے درخواست کی تھی جسے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے منظورفرمایا تو یہ استثنائی مثالیں ہیں وگرنہ عام ترتیب کے مطابق ہی تدفین ہوتی ہے، ہاں چاردیواری کے قریباً سامنے غربی جانب ایک قطعہ ایسا Reserve ہے جسے قطعہ خاص کہا جات اہے، حضرت مولاناعبدالمالک خان صاحب ناظراصلاح وارشاد کی وفات پرحضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے ارشاد فرمایا تھا کہ اس قطعہ کومخصوص کردیا جائے جہاں وہ موصیان دفن ہوں جن کی نمایاں جماعتی خدمات ہوں۔
وصیت کرنے والے کو چاہئے کہ رسالہ الوصیت کو باربارپڑھے،پھروہ وصیت فارم حاصل کرے۔ اور اسے مکمل طور پر پُر کرے، کسی قسم کی کٹنگ یا مٹانے کی چیز استعمال نہ کی گئی ہو۔ جائیداد کا کالم بھی پُر کرے۔ جائیداد کی دوقسمیں ہوسکتی ہیں پہلی قسم تو جائیداد منقولہ کہلائے گی مثلاً زیورات، شیئرز، حق مہر،پرائزبانڈز،نقدی وغیرہ اوردوسری قسم غیرمنقولہ ازقسم مکان،پلاٹ،زمین وغیرہ۔ اسکے علاوہ عام استعمال کی اشیاء جائیدادمیں شمارنہیں ہوں گی جیسے سائیکل، کمپیوٹر، سلائی مشین وغیرہ۔ ہاں ایسی مستعمل اشیاء جو موصی کے مرنے کے بعد ترکہ کہلائے اور قیمتی ہو تو وہ جائیداد شمار ہوگی مثلاًگاڑی وغیرہ۔
حصہ جائیداد اپنی زندگی میں ہی ادا کرنے کی آسانی کئی طرح سے پیدا کی گئی ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے کیونکہ وفات کے وقت بعض اوقات بڑی رقم کی فوری ادائیگی کاانتظام کرنامشکل ہوتا ہے ، گو کہ ایسے مواقع پریہ طریق بھی مقررہے کہ پھر دو ذمہ دار قابل قبول افرادکی شخصی ضمانت سے معاملہ طے پاجاتاہے لیکن کبھی ایسا ممکن نہیں ہوتا تو پھر موصی کی بہشتی مقبرہ کے باہرامانتاًتدفین ہوتی ہے اورادائیگی کے بعدپھربہشتی مقبرہ میں نعش منتقل کی جاتی ہے جو ورثاء اورخوددفترکے لئے ایک تکلیف دہ امر ہوتا ہے کہ موصی نے اس لئے وصیت نہیں کی تھی، اس کی تو خواہش یقینا یہی ہوگی کہ وہ ظاہری طورپربھی ایسی جگہ دفن ہوجس کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود ؑ نے دعائیں کی تھیں اوروہ ان دعاؤں کا مورد بنے ۔
حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں موصیان کی تعداد 303تھی، خلافت اولیٰ میں 500، خلافت ثانیہ میں 17200، خلافت ثالثہ میں 7650 اور خلافت رابعہ میں 9500 تعدادرہی ،اورخلافت خامسہ میں حضورانورکی تحریک سے پہلے کی تعداد 2000 تھی اور اوسطاً سالانہ تعداد کم و بیش 500 موصی سالانہ کے حساب سے اضافہ ہوتارہا۔ جبکہ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ کی حالیہ خصوصی تحریک کے بعد (انٹرویو دینے کی تاریخ کے مطابق) صرف نو ماہ میں 9200نئے موصیان ریکارڈہوچکے ہیں۔ بھارت کے موصیان کی تعداد اس میں شامل نہیں ہے۔ اسی طرح موصیان کی درخواستیں آرہی ہیں کہ ہم نے وصیت توکرلی ہوئی ہے اب حضورکی تحریک پرلبیک کہنے کے لئے ہماری شرح بڑھادیں۔