مکرم مقصود احمد صاحب کو ئٹہ شہید
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ 25 جنوری 2019ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10 دسمبر 2012ء میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق مکرم مقصود احمد صاحب ابن مکرم نواب خان صاحب آف کوئٹہ کو سیٹلائٹ ٹائون کوئٹہ میں 7؍دسمبر2012ء کو دو نامعلوم موٹرسائیکل سواروں نے فائرنگ کرکے اُس وقت شہید کردیا جب آپ اپنے بچوں کو سکول چھوڑ کر واپس آرہے تھے۔ آپ کی پیشانی پر 4 اور کاندھے میں ایک گولی لگی۔ ا ٓپ کو ہسپتال منتقل کیا جارہا تھا کہ آپ راستے میں ہی شہید ہوگئے۔ آپ کی تدفین احمدیہ قبرستان کوئٹہ میں عمل میں آئی۔شہید مرحوم کی عمر 31سال تھی۔ آپ کے پسماندگان میں والد مکرم نواب خانصاحب کے علاوہ بیوہ مکرمہ ساجدہ مقصود صاحبہ، ایک بیٹی اور ایک بیٹا مسرور شامل ہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 14؍دسمبر 2012ءکے خطبہ جمعہ میں شہید مرحوم کا ذکرخیر فرمایا اور بعدازاں نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی۔
مکرم مقصود احمد صاحب کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے والد محترم کی پڑدادی حضرت بھاگ بھری صاحبہؓ کے ذریعہ ہوا جو قادیان کے قریبی گاؤں ننگل کی رہنے والی تھیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہ خاندان ہجرت کرکے ضلع ساہیوال میں رہائش پذیر ہوگیا اور 1965ء میں کوئٹہ چلاگیا۔
مکرم مقصود احمد صاحب کوئٹہ میں ہی پیدا ہوئے۔ وہیں مڈل تک تعلیم حاصل کی اور پھر والد صاحب کے ساتھ ٹھیکیداری کے کام میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔
11؍نومبر 2012ء کو مکرم مقصود احمد صاحب کے بڑے بھائی مکرم منظوراحمد صاحب کو بھی نامعلوم افراد نے شہید کر دیا تھا۔ اُن کی شہادت سے پہلے مکرم مقصود احمد صاحب بلڈنگ کنسٹرکشن کی ٹھیکیداری کا کام کرتے تھے اور اپنے بڑے بھائی مکرم منظوراحمد صاحب کے ساتھ ہارڈویئر کی دکان میں ہاتھ بھی بٹاتے تھے،لیکن بھائی کی شہادت کے بعد انہوں نے دکان کی مکمل دیکھ بھال سنبھال لی تھی۔
مکرم مقصود احمد صاحب کو 20؍ اگست 2009ء کو نامعلوم افراد نے اغوا بھی کر لیا تھا اور12دن کے بعدبھاری تاوان دینے کے عوض آپ باز یاب ہوئے تھے۔ مرحوم خدمتِ خلق کا بے حد شوق رکھتے تھے اور جب بھی میڈیکل کیمپس لگائے جاتے تو مرحوم نہ صرف ان میڈیکل کیمپس کیلئے اپنی گاڑی مہیا کرتے بلکہ خود ڈرائیو کرکے بھی ساتھ جاتے تھے۔ اسی طرح دعوت الی اللہ کے پروگراموں میں بھی اپنی گاڑی پیش کرتے اور ساتھ بھی جاتے۔ کوئٹہ میں آنے والے مربیان کا بہت خیال رکھتے اور اُن کی خدمت کرکے خوشی محسوس کرتے۔ آپ کم گو مگر بہت خوش اخلاق، ملنسار اور مہمان نواز شخص تھے۔ سادہ طبیعت کے مالک تھے اور کسی کو ناراض نہیں کرتے تھے۔ سیکیورٹی کی ڈیوٹی بڑے شوق سے دیا کرتے تھے۔ جمعہ پر ڈیوٹی خاص طور پر دیا کرتے تھے۔ شہادت سے تین چار روز قبل خود اپنا چندہ مکمل طور پر ادا کیا۔ آپ کا گھر مرکزِ نمازبھی تھا۔