مکرم ملک محمد الدین صاحب اور مکرمہ ناصرہ بیگم صاحبہ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8ستمبر 2011ء میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں مکرمہ م۔فیروز صاحبہ نے اپنے والدین کا ذکرخیر کیا ہے۔
محترم ملک محمدالدین صاحب 1924ء میں کبیروالہ میں پیدا ہوئے۔ 18سال کی عمر میں 1942ء میں بیعت کی سعادت حاصل کی۔ آپ سے قبل آپ کے بڑے بھائی مکرم ملک نورالدین صاحب قبولِ احمدیت کی سعادت حاصل کرچکے تھے۔ دونوں بھائی تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل تھے اور دونوں نے صدر جماعت کے علاوہ کئی شعبوں میں بھی خدمت دین سرانجام دینے کی توفیق پائی۔ کبیروالہ میں ان کا گھرانہ احمدیت کا گڑھ سمجھا جاتا تھا اور مخالفین کہتے تھے کہ ان دونوں بھائیوں کو ختم کر دو تو کبیروالہ سے احمدیت ختم ہو جائے گی۔
محترم ملک محمد الدین صاحب بتایا کرتے تھے کہ بیعت کرنے کے بعد انہوں نے کبھی نماز تہجد بھی ترک نہیں کی۔ 9اور10 مارچ2011ء کی درمیانی شب بھی آپ کی وفات اُس وقت ہوئی جب آپ تہجد کی تیاری کررہے تھے۔
آپ کچھ عرصہ مدرسہ احمدیہ قادیان میں بھی زیرتعلیم رہے لیکن بعض وجوہات کی بِنا پر تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ لیکن مطالعہ کا انتہائی شوق تھا اور بڑی نادر کتب جمع کی ہوئی تھیں ۔ حافظہ بھی بلا کا تھا اور تبلیغ کے دوران کوئی حوالہ پیش کرنا ہوتا تو کتاب کی ضرورت نہ پڑتی بلکہ کتاب کا نام اور حوالہ زبانی یاد ہوتا۔
1953ء کے فسادات میں آپ کو مالی طور پر بہت نقصان اٹھانا پڑا لیکن ایمان نہایت اعلیٰ درجہ کا تھا۔ آپ کی بیٹی کی عمر اس وقت قریباً دو سال تھی۔ وہ شدید بیمار ہوگئی اور حالات اتنے خراب تھے کہ ڈاکٹر کے پاس لے جانا بھی مشکل تھا۔ آپ کے بڑے بھائی نے پریشانی سے کہا کہ اگر یہ بچی مر گئی تو ہم لوگوں کے سامنے جھوٹے پڑ جائیں گے۔ اس پر دونوں بھائیوں نے گڑگڑاکر دعا شروع کی تو اگلے ہی روز سے بچی خدا کے فضل سے تندرست ہونا شروع ہو گئی اور تین چار دن میں مکمل طورپر صحت مند ہوگئی۔
مکرم محمدالدین صاحب بہت مہمان نواز تھے۔ جو بھی میسر ہوتا مہمان کو پیش کردیتے۔ مرکز سے آنے والے اکثر مہمان آپ کے ہاں ہی ٹھہرا کرتے۔ مسجد کی تعمیر سے قبل لمبا عرصہ آپ کے گھر پر ہی جمعہ بھی ادا کیا جاتا رہا۔ آپ ہی امام الصلوٰۃ اور خطیب بھی ہوتے۔
آپ کی اہلیہ محترمہ ناصرہ بیگم صاحبہ شادی کے وقت احمدی نہیں تھیں ۔ بعد میں دو سال تک مختلف کتب کا مطالعہ کیا اور مطمئن ہوکر بیعت کرلی تو پھر کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ 1953ء اور 1974ء کے فسادات میں بہت صبر و ثبات کا مظاہرہ کیا اور کئی معجزے بھی دیکھے۔ مثلاً 1953ء میں سوشل بائیکاٹ کی وجہ سے کوئی سبزی دودھ دینے کو تیار نہ تھا۔ لیکن ایک بزرگ آتا گلی میں آواز لگاتا سبزی لے لو۔ آپ اور آپ کی جٹھانی اس سے سبزی خرید لیتیں ۔ حالات ٹھیک ہونے کے بعد وہ دوبارہ نظر نہ آیا۔ جب آپ نے گلی والوں سے پوچھا تو انہوں نے بھی بتایا کہ گلی میں کبھی کوئی سبزی والا نہیں دیکھا گیا۔