مکرم ملک مقصود احمد صاحب شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم اکتوبر 2010ء میں مکرم ملک اطہر احمد صاحب کا مضمون شامل اشاعت ہے جس میں وہ اپنے دادا محترم ملک مقصود احمد صاحب سرائے والہ کا ذکرخیر کرتے ہیں جو 28 ؍مئی 2010ء کو مسجد دارالذکر لاہور میں بعمر 80 سال شہید ہوئے۔
محترم ملک مقصود احمد صاحب شہید کے آباؤاجداد صاحب ثروت تھے جن کی بٹالہ میں مہمان سرائے تھی اور اسی لئے یہ خاندان سرائے والہ کے نام سے معروف تھا۔ شہید مرحوم کے والد محترم ایس اے محمود صاحب صدر پاکستان کے مشیر رہے ہیں جبکہ شہید مرحوم کے نانا حضرت ملک علی بخش صاحبؓ ریاست بھوپال کے وزیر تھے۔ شہید مرحوم کی والدہ محترمہ بھی صحابیہ تھیں۔
محترم ملک مقصود احمد صاحب بھوپال میں پیدا ہوئے۔ قادیان میں اپنی نانی کے پاس رہ کر تربیت اور تعلیم پائی۔ پھر بھوپال چلے گئے اور بعد میں یہ فیملی لاہور منتقل ہوگئی۔ آپ اکاؤنٹس کے ماہر تھے، انشورنس اورامپورٹ ایکسپورٹ سے بھی وابستہ رہے۔ ان کی قابلیت کے پیش نظر مشرقی پاکستان کی جملہ کمپنیوں کی املاک کے نگران بھی رہے۔
آپ کو حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کا شاگرد ہونے کا شرف بھی حاصل تھا اور اسی وجہ سے حضورؒ کی خلافت سے قبل اور بعد میں بھی آپ پر نوازشات جاری رہیں اور بعض خاص کام بھی آپ کے سپرد کئے جنہیں آپ نے سرانجام دیا۔ آپ نظام وصیت میں شامل تھے۔ اپنی جماعت میں اور ذیلی تنظیموں میں سالہاسال سے خدمت کی توفیق پارہے تھے۔ پنجوقتہ باجماعت نماز اور نماز تہجد کے پابند تھے۔ قرآن کریم کی گھنٹوں تلاوت کرتے اور غور کرتے رہتے۔کتب حضرت مسیح موعودؑ کا بھی باقاعدہ مطالعہ کرتے۔ MTA دیکھتے اور تبلیغ کا جنون تھا۔ ہر طبقہ کو تبلیغ کرتے اور اُن کی ذہنی صلاحیت کے مطابق دلائل دیتے۔
آپ بہت بااخلاق، کم گو، غریب پرور اور عالم باعمل تھے۔ باقاعدگی سے ورزش کرتے اور صحت بہت اچھی تھی۔ سادہ اور درویشانہ زندگی گزارتے۔ بے نفس اور نفیس طبیعت پائی تھی۔ تجسّس اور برائی کرنے کو شدید ناپسند کرتے۔ مستحق افراد کی خاموشی سے مدد کرتے۔
آپ مکرم ملک طاہر احمد صاحب امیر ضلع لاہور کے بہنوئی تھے۔ آپ نے پسماندگان میں اہلیہ محترمہ ڈاکٹر شمیم ملک صاحبہ کے علاوہ دو بیٹے اور چار بیٹیاں یادگار چھوڑے ہیں۔ ایک بیٹے مکرم ملک تبسم مقصود صاحب (ایڈووکیٹ سپریم کورٹ) زندگی وقف ہیں اور نائب ناظر امورعامہ کے طور پر خدمت کی توفیق پارہے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں