مکرم ملک منور احمد عارف صاحب جہلمی کی یادیں
مکرم ملک منور احمد عارف صاحب جہلمی اُسی دن ربوہ آگئے تھے جب 20؍ستمبر 1948ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے اس کی بنیاد رکھی تھی اور پہلی نماز ظہر پڑھائی تھی۔ آپ لکھتے ہیں کہ خاکسار نے 1954ء میں میٹرک کر لیا تھا اور پھر 1954ء سے 1995ء تک 41؍سال نظارت بیت المال آمد میں کام کرنے کا موقع مل گیا۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15؍اپریل 2004ء میں آپ نے بعض بزرگان سلسلہ سے متعلق اپنی یادیں رقم کی ہیں۔
خاکسار اکثر غیر احمدی افراد کو حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہ جہانپوریؓ کے پاس لے جایا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک شیعہ دوست کو ساتھ لے گیا اور حضرت حافظ صاحبؓ کو بتایا کہ یہ صاحب شیعہ فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب دوبارہ حاضر خدمت ہوا تو آپؓ نے فرمایا کہ میاں ہمیں بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ یہ صاحب فلاں فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم باتوں باتوں میں خود بھانپ لیتے ہیں کہ اس کا مسلک کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے حضرت حافظ صاحبؓ کو بلا کا حافظہ عطا فرمایا تھا۔ کتب حضرت مسیح موعود ؑ کے صفحات کے صفحات آپؓ کو ازبر تھے۔
ایک روز حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کی خدمت میں حاضر ہو کر حصول کوارٹر کے لئے دعا کی درخواست کی تو آپؓ نے دعا کرنے کے بعد فرمایا جب کوارٹر والی آئے گی تو کوارٹر بھی مل جائے گا۔ چنانچہ تھوڑے عرصہ بعد میری شادی ہو گئی اور جلد ہی کوارٹر بھی مل گیا۔
خاکسار کی اہلیہ اوّل سخت بیمار ہو گئی تو دعا کی غرض سے حضرت مولوی غلام رسول صاحبؓ راجیکی کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؓ نے دعا کرنے کے بعد فرمایا کہ مجھے روشنی نظر نہیں آئی چنانچہ تھوڑے عرصہ کے بعد وہ وفات پاگئیں۔ میری مرحومہ اہلیہ بہت نیک وصالحہ اور دعا گو خاتون تھیں، بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں۔
ایک مرتبہ حضرت مولوی محمد حسین صاحبؓ (سبز پگڑی والے) نے مجھے بتایا کہ مقدمہ مارٹن کلارک کے دوران مولوی محمد حسین بٹالوی کے نیچے سے جس شخص نے کپڑا کھینچ لیا تھا وہ میرے والد صاحب تھے جو پہلے مولوی محمد حسین بٹالوی کے بہت معتقد تھے مگر جب انہوں نے حضرت مسیح موعود ؑ کو دیکھا کہ آپ اتنی بزرگ ہستی ہیں اور مولوی محمد حسین ان پر جھوٹی گواہی دینے آیا ہے تو پھر سخت متنفر ہو گئے اور حضورؑ سے بیعت کرلی۔
حضرت ڈاکٹر ظفر حسن صاحبؓ ایک بار ہمارے غریب خانہ پر بھی تشریف لے گئے۔ مجھے پتلادبلا دیکھ کر فرمایا کہ اس بچے کوٹی بی معلوم ہوتی ہے۔ آپ نے اس زمانہ کی معروف دوائی واٹر بری کمپاؤنڈ تجویز فرمائی اور میری والدہ صاحبہ کو چالیس نوافل ادا کرنے کی تاکید فرمائی۔ اس بزرگ ہستی کی دعا اور مجوزہ دوا سے میں بالکل صحت یاب ہو گیا۔
محترم میاں عبد الحق رامہ صاحب سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ جب وہ بچپن میں اپنے والد صاحب کے ہمراہ قادیان گئے تو مسجد مبارک کے لوٹوں اورٹونٹیوں کو چھیڑنے لگے۔ آپ کے والد صاحب نے ڈانٹا تو رونے لگ گئے۔ وہاں موجود بزرگوں نے کہا کہ بیٹا چپ کر جاؤ، حضورؑ تشریف لانے والے ہیں۔ آپ نے جواب دیا کہ اس وقت تو چپ کر جاتا ہوں مگر جب حضرت صاحب آئیں گے تو میں پھر رونا شروع کر دوں گا۔ لوگوں نے سمجھا کہ بچہ ہے، وقتی طور پر چپ ہوجائے تو بعد میں بھول جائے گا۔ لیکن جب حضورؑ تشریف لائے تو آپ نے پھر سے رونا شروع کردیا۔ اس پر حضورؑ نے معاملہ دریافت فرمایا اور فرمایا کہ بچوں کو ڈانٹا نہیں چاہئے۔ یہ بھی شرک میں داخل ہے۔ کوئی اپنے زور بازو سے بچوں کی اصلاح نہیں کر سکتا۔ ان کے لئے دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان کو نیک وصالح بنائے۔