مکرم چودھری سلیم احمد صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍اکتوبر 2001ء میں مکرم چودھری سلیم احمد صاحب کا ذکر کرتے ہوئے مکرم سید سجاد احمد صاحب رقمطراز ہیں کہ مکرم چودھری صاحب کے آباء و اجداد دھرمکوٹ بگہ نزد بٹالہ کے باسی تھے۔ آپ کے پردادا مہرالدین صاحب اور اُن کے بھائی امام الدین صاحب نے اپنے تیسرے بھائی فتح دین صاحب کو حصول تعلیم کے لئے کاشتکاری وغیرہ سے فارغ کردیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے ایک عربی عالم سے صرف و نحو کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کپڑے کی تجارت شروع کردی۔ ایک بار کسی نے ان سے حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ کا ذکر کیا تو وہ فوراً قادیان چلے گئے اور اپنی روشن ضمیری کے باعث بیعت کرکے واپس لَوٹے اور اپنے دوسرے بھائیوں کو بھی پیغام حق پہنچایا۔ اس طرح سارے خاندان نے احمدیت قبول کرلی۔
قیام پاکستان کے بعد مکرم چودھری سلیم احمد صاحب کا گھرانہ جڑانوالہ آکر آباد ہوا۔ آپ کی عمر چار سال تھی۔ میٹرک کرکے آپ تلاش معاش کے لئے لاہور آگئے اور پاکستان ریلوے میں بطور مکینک ملازم ہوگئے۔ پھر زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں کلرک ہوگئے اور 1965ء میں فوج میں بھرتی ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد وہاں سے فارغ ہوکر اپنے گاؤں آگئے۔ اسی دوران صدرانجمن میں ملازمت کے لئے درخواست دی اور منتخب ہونے کے بعد پہلے صیغہ امانت میں اور پھر فضل عمر ہسپتال میں متعین ہوئے۔ صدرانجمن کی ملازمت کا یہ عرصہ تقریباً 22 سال ہے۔ آپ محلہ نصیر آباد کے چار سال تک صدر بھی رہے۔ جب 20؍فروری 2001ء کو آپ کی وفات ہوئی تو مذکورہ دونوں ذمہ داریاں آپ احسن طریق پر ادا کر رہے تھے۔
آپ بہت معمورالاوقات تھے۔ امام الصلوٰۃ بھی تھے۔ درس خود دیتے، چندہ جمع کرتے، مسجد کی صفائی میں پیش پیش رہتے۔ مسجد کی توسیع اپنی نگرانی میں کروائی اور جب تک تعمیر مکمل نہ ہوگئی اُس وقت تک رات کو بھی مسجد میں ہی سوتے رہے۔ غرباء کا ہر پہلو سے خیال رکھتے لیکن اخفاء ہمیشہ مدنظر رہتا۔ کسی کو مدد کی ضرورت ہوتی تو فوراً پہنچ جاتے۔ نیکی کے کاموں میں ہمیشہ مستعد رہتے۔