مکرم ڈاکٹر عبدالرحمن صدیقی صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 29 جنوری 2011ء میں مکرم ڈاکٹر محمد جلال شمس صاحب نے اپنے مضمون میں مکرم ڈاکٹر عبدالرحمن صدیقی صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔
مضمون نگار لکھتے ہیں کہ ہماری رہائش محمد آباد اسٹیٹ (سندھ) میں تھی، میں اس وقت پرائمری سکول کا طالبعلم تھا جب سٹیٹ کے منتظمین کو متعدد بار’’صدیقی صاحب‘‘ کا ذکر کرتے سنا۔ سٹیٹ کا کوئی کام ہو، کسی بڑے سرکاری افسر سے ملنا ہو یا کسی مریض کا مسئلہ ہو تب بھی مکرم ڈاکٹر صدیقی صاحب کا تذکرہ ہوتا۔ بعد میں جب مَیں نے اُن کو دیکھا تو اپنی سوچ سے کہیں بڑھ کر پایا ۔
مکرم ڈاکٹر عبدالرحمن صدیقی صاحب حیدرآباد ڈویژن کے امیر تھے ۔ وہ امراض سینہ وقلب کے ماہر تھے۔ سلسلہ احمدیہ اور خلافت کے شیدائی تھے۔ میرپور خاص میں سرکاری ہسپتال ہونے کے باوجود صبح سے شام تک آپ کے کلینک پر مریضوں کا تانتا بندھا رہتا۔ علاقہ بھر میں بے انتہا عزت تھی۔ آپ بے سہارا لوگوں کا سہارا تھے۔ غریبوں کا علاج مفت کرتے اور ہر طرح ان کا خیال بھی رکھتے۔
ڈاکٹر صاحب پارٹیشن کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر میرپورخاص میں آباد ہوئے اور ’’فضل عمر کلینک‘‘ بنا کر خدمت خلق میں مصروف ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے ہاتھ میں شفا رکھی تھی۔ کلینک میں لیبارٹری، ایکسرے اور فارمیسی کی سہولت اور خون کا انتظام بھی موجود تھا۔ بڑے بڑے سندھی وڈیرے اور رئیس علاج کے لئے آتے اور آپ کا بےحد احترام کرتے تھے۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو صاحب کی والدہ صاحبہ نے تو ڈاکٹر صاحب کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا یا ہوا تھا۔ چنانچہ آپ بسااوقات جونیجو صاحب کی گوٹھ ’’سندھڑی‘‘ جایا کرتے۔
محترم ڈاکٹر صاحب کی کوٹھی سلسلہ کے بزرگان اور خدام کی آماجگاہ تھی۔ خاکسار بطور مربی حیدرآباد متعین ہؤا تو جماعتی ضروریات کے لئے بسااوقات میرپور خاص جانا ہوتا۔ عمر کے لحاظ سے آپ کے بچوں جیسا ہونے کے باوجود آپ مربی ہونے کی وجہ سے عاجز کا بے حد احترام کرتے۔
اس زمانہ میں سندھ میں ملیریا بخار عام تھا۔ میری ایک چھوٹی ہمشیر ہ بیمار ہوگئی تو ہم اسے ڈاکٹر صاحب کے کلینک لے گئے۔ آپ نے معائنہ کرنے کے بعد ایکسرے کروانے کی ہدایت دی۔ ہم نے آپ کے کلینک میں ہی بچی کا ایکسرے کروایا۔ آپ نے ایکسرے کا معائنہ کیا اور کچھ سوچ کر فرمایا کہ دوبارہ ایکسرے کروائیں۔ چنانچہ ایک دفعہ پھر بچی کا ایکسرے کروایا گیا۔ آپ نے دوبارہ ایکسرے کو غور سے دیکھا اور فرمایا الحمدللہ کوئی خطرے کی بات نہیں، پہلی دفعہ ایکسرے دیکھ کر مجھے کچھ شک سا ہوا تھا مَیں نے سوچا بچی چھوٹی ہے کہیں میری غفلت سے بچی کی آئندہ زندگی خطرے میں نہ پڑ جائے۔ اب دوسرا ایکسرے دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ خطرے کی کوئی بات نہیں۔ پھر آپ نے اپنے کلینک کے میڈیکل سٹور سے دوائی لے کر دی اور ہم سے سارے عمل کی کوئی قیمت وصول نہیں کی۔
ایک د فعہ ڈاکٹر صدیقی صاحب اپنی کار میں ہم دو مربیان کے ہمراہ کہیں جارہے تھے ۔ راستہ میں کار خراب ہوگئی۔ کچھ ہی دیر کے بعد ایک سندھی وڈیرے کا وہاں سے گزر ہوا۔ انہوں نے فوراً اپنی جیپ کھڑی کی۔ جب ان کو پتہ لگا کہ ڈاکٹر صاحب کی کار خراب ہوگئی ہے توبڑی لجاجت سے کہنے لگے: ڈاکٹر صاحب !میری جیپ حاضر ہے۔ آپ جتنے دن چاہیں اپنے پاس رکھیں۔ ڈاکٹر صاحب نے شکریہ ادا کرتے ہوئے جواب دیا کہ میری دوسری گاڑی آرہی ہے۔ اس واقعہ سے بھی پتہ لگتاہے کہ محترم ڈاکٹر صاحب کی اس علاقہ میں کس قدر عزت تھی۔
محترم ڈاکٹر صاحب کے بیٹے ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب بھی غریبوں کے ہمدرد، یتیموں اور بیواؤں کا سہارا اور خلافت احمدیہ کے فدائی تھے۔ آپ نے اپنے بزرگ والد کی قائم کردہ حسین روایات کو زندہ رکھا اور غریبوں کامفت علاج کرنے کے علاوہ ان کی مالی مدد بھی کرتے رہے۔ ایک بار اُن کے ساتھ دورہ پر مِٹھّی جانے کا اتفاق ہوا جہاں جماعت کا ایک کلینک ہے۔ پہلے وہاں مریضوں کا معائنہ کیا۔ پھر مِٹھّی کے بعد بعض اَور مقامات پر بھی میڈیکل کیمپ لگاکر غریب مریضوں کاعلاج کیا ۔ پھر ایک بکرا صدقہ کیا اور جمعہ کی نماز محمد آباد اسٹیٹ میں ادا کی اور شام کو محمود آباد اسٹیٹ میں (بحیثیت امیر ضلع ) ایک میٹنگ میں شرکت کی اور رات گئے واپس اپنے گھر پہنچے۔
محترم ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب اپنے ایک ملازم کے بیٹے کی اعلیٰ تعلیم کے اخراجات اپنی جیب سے ادا کر رہے تھے جو اس ملازم کی ماہوار تنخواہ سے کہیں زیادہ تھے۔ ہر عید کے موقع پر احمدی بچوں اور بچیوں میں عیدی کے طور پر نقد رقم تقسیم کرتے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ہجرت کے بعد قریباً ہر سال جلسہ سالانہ انگلستان میں شرکت کرتے اور صرف اس لئے جلسہ گاہ میں رہائش رکھتے کہ حضور اقدسؒ کی ا قتدا میں نمازوں کی ادائیگی کرسکیں نیز تہجد کی ادائیگی کی توفیق مل سکے۔