میرے قصبہ، خاندان اور ذات پر احمدیت کے اثرات از مولانا دوست محمد شاہد صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ 9 و 10؍مئی 2002ء میں محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب مؤرخ احمدیت اپنے آبائی قصبہ، خاندان اور اپنی ذات پر احمدیت کے اثرات تفصیل سے بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میرا آبائی قصبہ پنڈی بھٹیاں ہے جسے اکبر بادشاہ کے وقت مسمی اجلالیہ بھٹی نے آباد کیا تھا۔ سکھوں کی غارت گری کے زمانہ میں بھی اس قصبہ کے مالک نے یہاں اپنا اقتدار بحال رکھا اور کسی کی اطاعت قبول نہ کی۔ بعد میں سکھوں کے خلاف انگریز فوج کی مدد کرنے پر اُس کی ساری جائیداد اُس کو واپس کردی گئی جو آج بھی اُس کے خاندانوں کی ملکیت چلی آرہی ہے۔ پہلے پنڈی بھٹیاں ضلع جھنگ میں شامل تھا، 1890ء میں اسے ضلع گوجرانوالہ میں شامل کردیا گیا اور 1993ء میں ضلع حافظ آباد کی تحصیل بنادیا گیا۔
1892ء میں اس قصبہ کے ایک صاحب منشی عنایت اللہ نائب مدرس نے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت 14؍اگست کو کی لیکن افسوس کے 27؍ستمبر کو خود ہی اپنا تعلق احمدیت سے توڑ لیا۔ پھر حضرت میاں رحیم بخش صاحبؓ کے حصہ میں یہ سعادت 16؍مئی 1897ء کو آئی۔ ایک ماہ بعد حضرت میاں اللہ ودھایا صاحبؓ نے بھی حضور علیہ السلام کی بیعت کی سعادت حاصل کرلی۔ پھر کئی لوگ اس قافلہ میں شامل ہوگئے۔ حضرت میاں محمد مراد صاحب ایک صاحب کشف بزرگ تھے جنہوں نے ایک خواب کی بناء پر خلافت اولیٰ میں بیعت کی سعادت حاصل کی۔ پھر آپ کی درخواست پر حضرت خلیفہ اوّلؓ نے حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ کو پنڈی بھٹیاں بھجوایا۔ وہاں غیراحمدیوں کی دعوت پر مشہور اہل حدیث عالم مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے مناظرہ کا پروگرام بنانے کے باوجود حضرت راجیکی صاحبؓ کی آمد کا سن کر عدیم الفرصتی کا بہانہ بناکر وہاں آنے سے انکار کردیا۔ بعد میں غیرازجماعت معززین نے شرمسار ہوکر معذرت کرلی۔
حضرت میاں محمد مراد صاحبؓ نے 14؍مارچ 1914ء کو کشف میں دیکھا کہ حضرت خلیفہ اوّلؓ کی وفات ہوگئی ہے اور اُن کی جگہ حضرت مرزا محمود احمد صاحبؓ خلیفہ ثانی مقرر ہوئے ہیں۔ اس آسمانی اطلاع پر آنے فوراً خلافت ثانیہ کی بیعت کرلی۔ آپ ایک مخلص اور جوشیلے احمدی تھے اور دعوت الی اللہ کے شیدائی تھے جن کی تبلیغ سے کئی افراد نے احمدیت قبول کی۔ آپ3؍فروری 1968ء کو فوت ہوئے اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔
حضرت میاں محمد مراد صاحبؓ کی تبلیغ سے میرے چھوٹے چچا میاں عبدالعظیم صاحب نے 1928ء کے وسط میں قبول احمدیت کا شرف پایا۔ اُن کی وفات یکم اپریل 1991ء کو عالم درویشی میں ہوئی۔ احمدیت قبول کرنے پر ہمارے دادا نے اُن پر مصائب کے پہاڑ توڑ ڈالے لیکن وہ ثابت قدمی سے صدق و صفا کا نمونہ پیش کرتے رہے۔ 1933ء کے جلسہ سالانہ پر میرے والد محترم حافظ محمد عبداللہ صاحب نے بھی احمدیت قبول کرلی تو وہ بھی میرے دادا کا شکار بن گئے لیکن انہوں نے بھی ثابت قدمی کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔ پہلے وہ حافظ عبدالکریم صاحب مجددی نقشبندی راولپنڈی کے مرید تھے۔ میرے دادا میرے والد کو پکڑ کر اُن کے پاس لے گئے اور غضبناک ہوکر کہا کہ اسے سمجھاؤ۔ انہوں نے فرمایا : جس کا سینہ قرآن پاک سے منور ہو وہ غلط فیصلہ نہیں کرسکتا۔ میرے والد 1962ء تک پنڈی بھٹیاں میں ہی مقیم رہے۔ پھر اپنی وفات (16؍فروری 1979ء) تک نظارت اصلاح و ارشاد مقامی کے ماتحت مختلف اضلاع میں خدمت کی توفیق پائی۔ کئی مناظروں میں کامیابی حاصل کی اور بہت سی سعید روحیں احمدیت کی آغوش میں آئیں۔
میرے نانا کا نام شہامت اور والدہ کا نام روشنائی تھا۔ والدہ صاحبہ نے قیام پاکستان تک بیعت نہیں کی لیکن احمدیت کو عزت کی نگاہ سے دیکھا بلکہ احمدی علماء کی خدمت بھی شوق سے کرتیں۔ اپریل 1949ء کے جلسہ سالانہ میں وہ شامل ہوئیں تو انہوں نے انکشاف کیا کہ ربوہ کی بستی انہیں پہلے ہی بذریعہ خواب دکھادی گئی تھی کہ یہاں مسیح موعود کا قافلہ اُترے گا۔ میرے ایک اَور چچا اللہ بخش صاحب (وفات 12؍جنوری 1993ء) نے بھی بیعت کرلی تھی۔ میرے یہ چچا، والد اور والدہ ماجدہ بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں۔
1931ء میں پنڈی بھٹیاں میں جماعت احمدیہ کا جلسہ سالانہ منعقد ہوا جس میں مسلمانوں کی بہبود کے لئے تقاریر کی گئیں۔جلسہ کے فوراً بعد ’’انجمن اصلاح المسلمین‘‘ کا قیام عمل میں آیا اور کئی جلسے بعد میں منعقد ہوئے جن میں احمدیوں اور غیراحمدیوں نے متحدہ پلیٹ فارم سے خطاب کیا۔ لیکن یہ فضا زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی۔
پنڈی بھٹیاں کی ایک بزرگ شخصیت محترم چودھری محمد حسین صاحب ایڈووکیٹ 1907ء میں پیدا ہوئے۔ 1929ء میں بی۔اے کیا۔ تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ قیام پاکستان سے قبل حافظ آباد میں اکلوتے مسلمان وکیل تھے۔ مارچ 1933ء میں انہوں نے ایک جلسہ کیا تو مخالفین جلسہ کی چیزیں اٹھاکر لے گئے اور پتھر مارتے ہوئے گندی گالیاں دیتے رہے۔ اُن کے ذریعہ ڈیڑھ سو افراد نے احمدیت قبول کرنے کی سعادت حاصل کی۔
اپریل 1935ء میں میرے دادا نے اپنے تینوں احمدی بیٹوں اور حضرت میاں محمد مراد صاحب اور دیگر مخلصین کو دعوت مباہلہ دی۔ اس مباہلہ کی بارہ شرائط تھیں۔ صدارت دو مقتدر شخصیات نے کی۔ اس مباہلہ کے نتیجہ میں احمدی مباہلین تو اپنے متعلقین سمیت معجزانہ طور پر محفوظ رہے مگر فریق ثانی کا جو حال ہوا اُس کا ذکر میرے والد صاحب نے الفضل کے شماروں میں بھی کیا۔ سب سے زیادہ غضب الٰہی کا نشانہ میرے دادا بنے۔ پہلے میری دادی فوت ہوئیں پھر ایک چچا جو ایک مسجد کا امام تھا، مسجد میں ہی خودکُشی کرکے راہی ملک عدم ہوا۔ میرے دادا کی وفات اس حالت میں ہوئی کہ چنیوٹ کے ایک لغو عقائد کے حامل شخص کے وہ مرید تھے۔
1936ء میں میرے والد صاحب مجھے قادیان میں ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ میں داخل کروا آئے۔ 16؍مئی 1944ء کو میرا پہلا مضمون ’’الفضل‘‘ میں شائع ہوا۔ پھر مختلف رسالوں میں کئی مضامین شائع ہوتے رہے۔ 24؍دسمبر 1944ء کو قادیان میں ایک عربی تقاریر کا مقابلہ ہوا جس میں مجھے اوّل قرار دیا گیا۔ 1946ء میں پنجاب یونیورسٹی کے مولوی فاضل کے امتحان میں مَیں یونیورسٹی میں سوم قرار پایا۔ 29؍اکتوبر 1951ء کو جامعۃالمبشرین ربوہ کی پہلی کامیاب ہونے والی شاہد کلاس کی الوداعی تقریب منعقد ہوئی جس میں حضرت مصلح موعودؓ بھی شامل ہوئے۔ مَیں نے جواب ایڈریس پیش کیا جس پر حضورؓ نے اپنے خطاب میں خوشنودی کا اظہار فرمایا۔ 25؍جون 1953ء کو حضورؓ نے مجھے ’’تاریخ احمدیت‘‘ کی تدوین کی ذمہ داری سونپی جس کی اب تک 19 جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔ نیز قریباً چالیس دیگر کتب بھی شائع ہوچکی ہیں جن میں سے بعض کے انگریزی اور انڈونیشین زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں۔ دسمبر 1954ء سے اکتوبر 1956ء تک ماہنامہ ’’خالد‘‘ کا نائب مدیر اور 1960ء سے جون 1962ء تک مدیر رہا۔ جلسہ سالانہ 1957ء کے شبینہ اجلاس میں پہلی بار تقریر کی جسے صیغہ اشاعت نے شائع کیا اور حضورؓ نے 1958ء کی مجلس شوریٰ میں اس کا بطور خاص ذکر فرمایا۔
1974ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی قیادت میں پاکستان قومی اسمبلی میں جماعت کی نمائندگی کی توفیق پائی۔ 1975ء میں مجلس افتاء کا نائب صدر بھی رہا۔ جلسہ سالانہ ربوہ میں 1976ء سے 1983ء تک تقاریر کا موقع ملتا رہا۔ جلسہ سالانہ انگلستان 1985ء میں صدر انجمن احمدیہ کی نمائندگی کی توفیق ملی۔ اس دوران حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر انگلستان کے علاوہ سویڈن، ناروے اور جرمنی کی جماعتوں کا دورہ کیا۔ جلسہ سالانہ جرمنی 2002ء میں شرکت کا موقع ملا۔
3؍اپریل تا 3؍مئی 1990ء گوجرانوالہ سنٹرل جیل میں دیگر نو مخلصین کے ساتھ اسیرراہ مولیٰ رہا۔ اس دوران حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے میرے بیٹے مکرم ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب کو اپنے قلم سے تحریر فرمایا: ’’اللہ کے شیروں سے ملنے جاؤ تو میرا محبت بھرا سلام اور پیار دینا … بن پڑے تو سلاخوں میں سے گلے لگاکر دل سے دل ملاکر میرا محبت بھرا سلام اور پیار بھرا عید مبارک کا تحفہ پیش کرنا۔ پھر اس چہرے کی کیفیت لکھنے کی کوشش نہ کرنا۔ مَیں اس وقت بھی تمہارے ابا کا وہ کِھلا ہوا چہرہ دیکھ رہا ہوں …‘‘۔ اس کیس میں مجھے دو سال قید بامشقت اور پانچ ہزار روپے جرمانہ کی سزائیں سنائی گئیں۔
1993 -1992ء میں مجھے کیمبرج (انگلینڈ) کے ایک عالمی ادارے انٹرنیشنل ببلوگرافیکل کی طرف سے مین آف دی ایئر کا اعزاز دیا گیا جس کا ذکر پاکستان کے مؤقر اخبارات نے بھی کیا۔