’’میں بہت رویا مجھے آپ بہت یاد آئے‘‘

جماعت احمدیہ برطانیہ کے ’’سیدنا طاہرؒ سووینئر‘‘ میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ

کی یادوں کے حوالہ سے مکرم عبدالباری ملک صاحب

بیان کرتے ہیں کہ جب حضورؒ ربوہ کے لنگر نمبر2 کے افسر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے تھے تو انتہائی محنتی ، دعاگو، ہر چھوٹے سے چھوٹے کارکن کا خیال رکھنے والے، نظام جماعت کے سختی سے پابند، خلافت احمدیہ سے انتہا درجہ کی عقیدت اور محبت رکھنے والے اور خلیفہ وقت کی اطاعت کا مثالی نمونہ تھے۔ جلسہ سالانہ کے ایام میں آپ ہمہ وقت لنگر میں ڈیوٹی سرانجام دیتے اورعام کارکنان کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر مٹی کے برتنوں میں کھانا تناول فرماتے۔افسر ہونے کے باوجود آپ عام کارکن کی طرح کام کرتے اور سارے کام کی خود نگرانی فرماتے۔ ایک دفعہ ایک خادم جس کی ڈیوٹی کسی اور جگہ لگی ہوئی تھی، اپنی ڈیوٹی چھوڑ کر لنگر میں اپنے دوستوں کے ساتھ ڈیوٹی کرنے کے لئے آگیا۔ جب حضرت میاں صاحب کو اس بات کی خبر ہوئی توآپ نے اس کو اپنے دفتر میں بلایا اور سمجھایا کہ جوذمہ داری دی جائے وہ پسند ہو یا ناپسند، مکمل اطاعت کرتے ہوئے اس کوادا کرنا چاہئے۔ پھر حکم دیا کہ فوراً اپنی اصل ڈیوٹی پر حاضر ہو جاؤ اوروہاں کے افسر سے تحریری خط مجھے بھجوانا کہ تم اپنی ڈیوٹی کر رہے ہو۔
1984ء میں جب حضورؒ ہجرت کر کے لندن تشریف لائے تو ہم حضورؒ کا فلیٹ تیار کر رہے تھے ۔اوپر والی منزل سے خاکسار نے ایک چھوٹا صوفہ اٹھایا اور سیڑھیوں سے نیچے لے جا رہا تھا کہ اچانک حضورؒ سامنے سے تشریف لے آئے۔ خاکسار کو فرمایا کہ تمہیں تو آرتھرائٹس کی تکلیف ہے تم اکیلے کیوں وزن اٹھا رہے ہو اور ساتھ ہی ایک طرف سے حضورؒ نے صوفے کو اٹھایا اور خاکسار کو پوچھا کہ کس کمرہ میں لے کر جانا ہے۔ خاکسار نے بہت کوشش کی کہ حضورؒ نہ اٹھائیں لیکن حضورؒ نے نہ مانا اور ایک طرف سے حضورؒ نے اور دوسری طرف سے خاکسار نے صوفہ اٹھایا اور حضورؒ کے کمرہ میں پہنچایا۔
1987ء میں دورہ یورپ کے موقع پر حضور انور نے انتہائی شفقت سے خاکسار کو بھی قافلہ میں شامل ہونے کی اجازت دی۔ اس سفر کے دوران ایک روز حضورانور نے باربی کیو کے پروگرام کی اجازت عنایت فرمائی۔ چنانچہ دوسرے دن حضور افراد قافلہ اور سوئٹزرلینڈ کی جماعت کے چند خدام کے ہمراہ رائن فالز تشریف لے گئے جہاں باربی کیو کرنا تھا۔ لیکن وہاں مُردہ مچھلیوں کی اتنی بدبو تھی کہ کھڑا ہونا بھی مشکل تھا۔ حضورؒ نے حکم دیا کہ یہاں سے کہیں اَور چلتے ہیں۔ رفیق چانن صاحب اگلی کار میں تھے اور وہ واکی ٹاکی پر حضورؒ سے جگہ جگہ پوچھتے رہے کہ یہاں رُک جائیں لیکن حضورؒ فرماتے کہ ابھی چلتے جائیں۔ ایک جگہ حضورؒ نے حکم دیا کہ اب اگلی سڑک پر بائیں جانب جاکر آگے جو فارم نظر آرہا ہے، وہاں رُک جائیں چنانچہ ہم اس فارم کے باہر پہنچ کر رُک گئے۔فارم کا سوئس مالک باہر آیا تو اس سے چانن صاحب اور جہلمی صاحب نے اجازت مانگی کہ ہم یہاں باربی کیو کرلیں ۔وہ حضورؒ کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور ہم سب کو اپنے نئے بارن کے اندر لے گیا ۔ہم سب کی اندر جاکرحیرت کی انتہا نہ رہی جب ہم نے دیکھا کہ بارن کے اندر باربی کیو کے لئے ہر چیز موجود تھی اور صرف آگ جلانے کی ضرورت تھی۔ اس نے بتایا کہ اس نے یہ نیا بارن تعمیر کیا ہے اور اگلے ویک اینڈ اس نے فیملی اور دوستوں کو مدعو کیا ہوا ہے اور اس کا باقاعدہ افتتاح ہونا ہے۔اس کی یہ خوش قسمتی تھی کہ اس کے نئے بارن کا افتتاح خدا تعالیٰ کے پاک مسیح کے خلیفہ کے مبارک ہاتھوں سے ہورہا تھا۔ کسان نے بعد میں اپنی وزیٹرز کی کتاب پر حضور انور سے دستخط بھی لئے۔ ہم سب اس بات پرحیران تھے کہ کس طرح حضور انور عین اس جگہ پر آکر رکے جہاں خدا نے پہلے ہی باربی کیو کا مکمل اہتمام فرمایا ہوا تھا۔ سبحان اللہ۔
حضور انور کے پاس ایک خوبصورت چھڑی تھی جو حضورؒ کو افریقہ کے ایک بادشاہ نے تحفہ میں دی تھی۔ اس کے نچلے حصے میں پیتل کا خوبصورت خول چڑھا ہوا تھا۔ ایک دفعہ لیک ڈسٹرکٹ (Lake District) میں سیر کے دوران وہ خول کہیں گر گیا۔ جب حضورؒ کو پتہ چلا تو اس کو ڈھونڈنے کیلئے حضورؒ خود اور جملہ خدام نے سارا علاقہ چھان مارا لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ کافی دیر تک ڈھونڈنے کے باوجود جب خول نہ ملا تو کچھ مایوسی سی محسوس ہوئی کیونکہ اس چھڑی کی ساری خوبصورتی اس خول سے تھی۔ تب حضور انور نے فرمایا کہ اَور سب حیلے تو ہم نے کرلیے لیکن اصل چیز یہ ہے کہ ہم

انّاللہ و انّا الیہ راجعون

پڑھیں۔ حضور نے یہ پڑھا ہی تھا کہ حضور کے قدموں میں پتوں کے نیچے وہ خول پڑاہوا نظر آیا۔سبحان اللہ۔
1992ء میں یارکشائرڈیلز میں خدام الاحمدیہ یوکے کی میراتھن واک کے موقع پر خاکسار نے حضورانور کو گلاس میں پانی پیش کیا تو حضور نے گلاس واپس دیا اور فرمایا کہ گلاس بھر کر لاؤ۔ جب گلاس بھر کر پانی پیش کیا تو فرمایا جب بھی کوئی مشروب پیش کروتو گلاس بھر کر پیش کرو۔ اسی طرح ایک دفعہ حضور خدام کو کچھ دے رہے تھے۔ ایک خادم نے دائیں ہاتھ میں کچھ پکڑا ہوا تھا اس لیے اس نے بایاں ہاتھ آگے کر دیا۔ حضور نے فرمایا سیدھا ہاتھ آگے کرو اور اس کے دائیں ہاتھ میں دیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں