نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے (نمبر12)

نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے (نمبر12)
(کاوش: فرخ سلطان محمود)

سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے واقفین نو بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے مختلف پہلوؤں سے اُن کی راہنمائی کا سلسلہ جاری فرمایا ہوا ہے۔ اس میں اجتماعات اور اجلاسات سے خطابات، پیغامات کے ذریعہ ہدایات، رسائل کا اجراء اور وقف نو کلاسوں کا انعقاد بھی شامل ہے۔ مستقبل کے احمدی نونہالوں کی تعلیم و تربیت کا یہ سلسلہ اُس وقت بھی جاری رہتا ہے جب حضور انور کسی ملک کے دورہ پر تشریف لے جاتے ہیں۔ وہاں کے واقفین نو بھی یہ سعادت حاصل کرتے ہیں کہ براہ راست حضور انور کی رہنمائی سے فیض حاصل کرسکیں۔ ان واقفین نو کو کلاسوں کے دوران حضورانور جن نہایت اہم نصائح سے نوازتے ہیں اور جو زرّیں ہدایات ارشاد فرماتے ہیں وہ دراصل دنیا بھر میں پھیلے ہوئے واقفین نو کے لئے بیش بہا رہنمائی کے خزانے رکھتی ہیں۔ حضور انور کی واقفین نو کے ساتھ کلاسوں میں سے ایسے چند حصے آئندہ صفحات میں پیش کئے جارہے ہیں جنہیں واقفین نو کو ہمیشہ پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
(مطبوعہ رسالہ اسماعیل اپریل تا جون 2012ء)

ہالینڈ کے واقفین نَوکے ساتھ کلاس

پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ کے بعد حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا درج ذیل اقتباس پیش کیا:
’’اے تمام وہ لوگوجو زمین پر رہتے ہو اور اے تمام وہ انسانی روحو جو مشرق اورمغرب میں آبا د ہو ،مَیں پورے زورکے ساتھ آپ کو اس طرف دعو ت کرتاہوں کہ اب زمین پر سچا مذہب صرف اسلام ہے اورسچا خدا بھی وہی خداہے جوقرآن نے بیان کیاہے اور ہمیشہ کی روحانی زندگی دینے والا نبی اور جلال اورتقدس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کی روحانی زندگی اور پاک جلال کا ہمیں یہ ثبوت ملاہے کہ اس کی پیروی اورمحبت سے ہم روح القدس اور خدا کے مکالمہ اور آسمانی نشانوں کے انعام پاتے ہیں ‘‘۔ (تریاق القلوب ۔روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 141)
اس کے بعد حضرت مسیح موعودؑ کے عربی قصیدہ کے چند اشعار پڑھے گئے اور بعدازاں ’’احمدیت اورہالینڈ‘‘ کے موضوع پرایک مضمون پیش کیا گیا جس میں جماعت احمدیہ ہالینڈ کی مختصر تاریخ بتائی گئی۔
ہالینڈ میں سب سے پہلے احمدیت کاپیغام 1926ءمیں پہنچا۔ جب لندن سے مبلغ سلسلہ حضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحب ؓ ہالینڈ تشریف لائے اورآپ نے ہالینڈ کی مختلف سوسائٹیوں میں اسلام کے بارہ میں لیکچردئے اورآپ کے تیار کردہ دوکتابوں کاڈچ زبان میں ترجمہ ہوا۔ اورآپ نے پندرہ روزہ رسالہ بھی جاری کیا۔
دسمبر 1929ءمیں ایک پادری Mr.Cramer ہالینڈ سے جاوا جاتے ہوئے قادیان میں رکے اور حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کاشرف پایا۔ 1930ءمیں ہالینڈ سے ایک ڈچ کونسلر Mr. Andreas قادیان آئے اور انہوں نے واپس آکرحضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کو خط میں لکھاکہ مَیں نے قادیان میں نیکی کے سوا کچھ نہیں پایا۔
1947ءمیں حضر ت مصلح موعودؓ نے مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب کو ہالینڈ کے پہلے مبلغ کے طورپر بھجوایا۔ 1948ءمیں ہالینڈ میں جماعت کا پہلا باقاعدہ رسالہ ’’الاسلام‘‘ ڈچ زبان میں شروع ہوا۔ ڈچ زبان میں قرآ ن کریم کا ترجمہ 1953ءمیں ہوا۔ ہالینڈ میں تعمیر ہونے والی جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد ’’مسجد مبارک‘‘ کا سنگ بنیاد حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب ؓ نے ہیگ شہر میں رکھا۔ اس مسجد کی تعمیر میں لجنہ ا ماءاللہ پاکستان نے ایک بڑی مالی قربانی پیش کی۔ 1955ءمیں حضرت مصلح موعودؓ اپنے علاج کے سلسلہ میں جب یورپ تشریف لائے توسفر کے دوران ہالینڈ بھی تشریف لائے اوراس زیر تعمیرمسجد کے معائنہ کے دوران ہال والی جگہ میں کھڑے ہو کرایک لمبی پُر سوز دعا کروائی ۔
1968ءمیں لجنہ اماءاللہ اور 1974ءمیں خدام الاحمدیہ کا قیام عمل میں آیا۔ 1980ءمیں ہالینڈ کا سب سے پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا۔ 1981ءمیں مجلس انصاراللہ کا قیام عمل میں آیا۔
1985ءمیں نن سپیٹ کے علاقہ میں جماعت کا یہ دوسرا مرکز خریدا گیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کا نام ’’بیت النور‘‘رکھا اور ستمبر 1985ءمیں اپنے دورہ ہالینڈ کے دوران اس کا افتتاح فرمایا۔ 1987ءمیں خدام الاحمدیہ کاچوتھایورپین اجتماع یہاں ننسپیٹ میں ہوا۔
1989ءمیں مسجد مبارک ہیگ کوبعض نامعلوم افراد نے آگ لگا کر نقصان پہنچایا ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے 1996ءکے دورہ ہالینڈکے دوران اس مسجد کی توسیع کے کام کا سنگ بنیاد رکھا۔ 1998ءمیں یہ توسیع مکمل ہوئی اورامیر جماعت ہالینڈ مکرم ھبۃ النور فرحاخن صاحب نے اس کا افتتاح کیا۔ مسجد مبارک ہیگ کی تعمیر پر پچاس سالہ جوبلی کی تقریبات کے حوالے سے 2005ءمیں مسجد کے ساتھ ایک مینارتعمیر کیا گیا اور جوبلی کی ا یک تقریب میں دوجون 2006ءکوہالینڈ کی ملکہ Beatrix Queen شامل ہوئیں۔
2008ءمیں خلافت جوبلی کے موقع پر ایمسٹرڈیم شہر میں جماعت نے اپنا تیسرا سینٹر خریدا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ا س کا نام ’’بیت المحمود‘‘ رکھا۔ ہالینڈ میں اس وقت تک درج ذیل مبلغین کرام کو خدمت کی توفیق مل چکی ہے: مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب، مکرم چوہدری عبداللطیف صاحب، مکرم غلام احمد بشیر صاحب ،مکرم ابوبکر ایوب صاحب(آپ انڈونیشین تھے او رہیگ ہالینڈ میں مدفون ہیں۔)،مکرم عبدالحکیم اکمل صاحب ، مکرم صلاح الدین صاحب، مکرم ناصر احمد شمس صاحب ،مکرم چوہدری اللہ بخش صادق صاحب، مکرم عبدالرشید تبسم صا حب،مکرم صداقت احمد صاحب ،مکرم حامد کریم محمود صاحب، مکرم نعیم احمد وڑائچ صاحب ۔(مؤخرالذکردونوں مبلغین اس وقت ہالینڈ میں خدمت کی توفیق پارہے ہیں)۔
اس مضمون کے بعد حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا درج ذیل منظوم کلام پیش کیا گیا ؎

اسلام سے نہ بھاگو راہ ہدیٰ یہی ہے
اے سونے والوجاگو شمس الضحیٰ یہی ہے

حضور انور کی واقفینِ نَو کو نصائح
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بچوں سے دریافت فرمایا کہ روزانہ پا نچ نمازیں پڑھنے والے کتنے ہیں؟حضورانور نے فرمایا کہ سردیوں میں دن چھوٹے ہوتے ہیں اورنمازظہرو عصر کاوقت بہت کم رہ جاتاہے تو آپ کس طرح یہ نمازیں ادا کرتے ہیں؟ جس پر بعض بچوں نے کہا کہ ہم گھر واپس آتے ہیںتو ٹرین میں پڑھ لیتے ہیں ۔ اس پر حضورانور نے فرمایا کہ سکول میں پڑھ لیا کرو اورباقاعد ہ سکول انتظامیہ سے اجاز ت لے لیا کرو۔
حضورانور ایدہ اللہ نے بچوں سے دریافت فرمایا کہ کس کو انگریزی زبان سمجھ آتی ہے۔ اس پر بعض بچوں نے اپنے ہاتھ کھڑے کئے ۔حضورانور نے فرمایا ابھی گزشتہ دنوں لندن میں وقفِ نَوبچوں کااجتماع ہو اہے ۔ اس میں مَیں نے بچوں کو ہدایات دی ہیں ۔یہ پروگرام ایم ٹی اے پر آئے گا۔سب بچے اس کو دیکھیں اور سنیں۔ حضور انونے فرمایا کہ ہفتہ اتوارآپ کا جلسہ سالانہ ہے آئندہ دنوں میں دیکھیں۔حضور نے انتظامیہ کو ہدایت فرمائی کہ یہ پروگرام تین چارمرتبہ لگایا جائے تاکہ کسی ایک ویک اینڈ پر بچے سن لیں۔
ایک بچے نے عرض کیا کہ مَیں کام کے ساتھ ساتھ سول انجینئرنگ میں ماسٹرکرنا چاہتاہوں۔حضور انور نے فرمایاکہ اگر تم تعلیم کے اخراجات مہیا کرسکتے ہو توصرف پڑھائی کرو۔اورماسٹرمکمل کرو۔ورنہ کام کے ساتھ ساتھ کرلو۔ حضور انور کے دریافت فرمانے پربچے نے بتایا کہ پڑھائی کی تکمیل کے بعد جماعت کا ہی کام کرنا ہے۔
ا س کلاس میں پندرہ سال کی عمر کے دو بچے موجود تھے۔ایک اپنے قداور صحت کے لحاظ سے بڑا اورموٹا تھا۔ دوسرا قدکے لحاظ سے بھی چھوٹا اور کمزور تھا۔ حضور انور نے ازراہ شفقت دونوں کو اپنے پاس بلایا اور دونوں کو ساتھ کھڑا کیا اور فرمایا: دونوں پندرہ سال کے ہیں ان میں فرق دیکھو۔ حضور انورنے کمزور صحت والے کو ہدایت فرمائی کہ کھایا پیا کرواوراپنی صحت کا خیال رکھو۔
ایک چھوٹی عمر کے بچے نے سوا ل کیا کہ کیا قادیان میں خانہ کعبہ ہے؟ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ خانہ کعبہ صر ف ایک ہی ہے جوخدا کا گھرہے۔ہم ایک ہی خدا کو ماننے والے ہیں اور ایک ہی خانہ کعبہ کو ماننے والے ہیں ۔ایک کلمہ

لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ

ایک خدا ، ایک رسول اور ایک خدا کا گھر، وہی گھر جس کو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے بنایا تھا اوردعائیں کی تھیں کہ اس شہر کوسلامتی والا اور امن دینے والا بنادے۔ اوران میں ایسا رسول مبعوث کر جوان پر تیری آیا ت تلاوت کرے اور انہیں کتاب کی تعلیم دے ، حکمت بھی سکھائے اوران کا تزکیہ کردے۔
حضورانورنے فرمایا کہ یہاں کتاب کی تعلیم سے مراد قرآن کریم ہی ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم دے اورقرآن سکھائے۔
حضور انور نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کے ساتھ اسلام کادین مکمل ہوگیا۔ اسلام سے بڑا کوئی دین نہیں۔ خانہ کعبہ سے بڑا کوئی گھر نہیں۔ جو ہماری مساجد ہیں وہ اس کے نمونہ پر بنتی ہیں۔
حضورانور نے فرمایا کہ قادیان میں اس زمانے میں حضرت اقد س مسیح موعودعلیہ السلام تشریف لائے ۔ قرآن کریم میں آپ کے بارہ میں پیشگوئی تھی کہ

وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ:4)

اورانہی میں سے دوسروں کی طرف بھی اُسے مبعوث کیاہے جوابھی اُن سے نہیں ملے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے آنے کے بارہ میں پیشگوئی فرمائی تھی کہ آخری زمانہ میںایک نبی آئے گا۔ میرے اور اس کے درمیان کوئی نبی نہیں۔ اس کے آنے کا زمانہ وہ ہے جب لوگ اسلام کی تعلیم بھلا چکے ہوں گے۔ وہ اسلام کی حقیقی تعلیم کو پیش کرے گا اوریہودیوں اور عیسائیوں ،ہندوئوں اور لامذہبوں کو اسلام کا پیغام پہنچائے گااور ان کو مسلمان بنائے گا۔ وہ مسیح موعود قادیان میں پیدا ہوا۔ اس وجہ سے قادیان کی اہمیت ہے۔ سب سے پہلے مکّہ ہے جہاں خانہ کعبہ ہے۔جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دعویٰ نبوت کے بعد 13سال گزارے۔ پھرمدینہ ہے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دس سال رہے ۔پھر وہاں کی مسجد نبوی سب سے بڑی مسجد ہے جہاں آپ ؐ نے نمازیں پڑھیں۔ آپ ؐ ہجرت کرکے جب مدینہ تشریف لائے توسب سے پہلے قبا کے مقام پرمسجد بنائی۔ پھر مسجد نبوی بنائی۔آپ مدینہ میں فوت ہوئے اوروہیں دفن ہوئے۔یہاں آپ کا روضۂ مبارک ہے۔ تو خانہ کعبہ مکّہ کے بعد دوسرا اہم مقام مدینہ ہے۔ اورتیسرا قادیان اس لئے اہم ہے کہ وہاں امام مہدی علیہ السلام پیدا ہوئے۔ اور وہاں سے اسلام کی تبلیغ کی ۔ دنیا کو اسلام کے بارہ میں بتایا۔ اور پھر وہاں فوت ہوئے اور قادیان میں آپ کا مزار ہے۔ تو اس طر ح اس زمانے میں اسلام کی تبلیغ کا مرکز حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی وجہ سے قادیان بنا۔ اب دنیا میں بسنے والا ہراحمدی اور ہر جماعت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلتے ہوئے اسلام کی تبلیغ کرتی ہے۔
حضور انور نے فرمایا:اب آپ کو فرق کا پتہ چل گیاہوگا۔ خانہ کعبہ حضرت ابراہیم ؑ اور حضر ت اسماعیل ؑ نے بنایا۔ کئی ہزار سال بعد مکّہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیداہوئے اور وہاں سے دین اسلام کاآغاز ہوا۔ اور اسلام پھیلا ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے اور اسلام کاایک نیا دور شروع ہوا۔ احیائے اسلام ہوا اور ساری دنیا میں اسلام کاپیغام پہنچا۔ پس احمدیوں کے لئے اوّل خانہ کعبہ ہی ہے۔ احمدی حج پر جاتے ہیں۔ مدینہ میں بھی جاتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار پر دعا کرتے ہیں۔
حضور انور نے منتظمین کو ہدایت فرمائی کہ کلاسز میں بچوں کوبتایا کریں۔ پھر حضور انور نے بچوں کومخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ اپنے والدین سے پوچھا کریں۔ پھر فرمایا: خانہ کعبہ مکّہ میں ہے اور مکہّ سعودی عرب میں ہے۔ مدینہ بھی سعودی عرب میں ہے۔ جہاں آنحضرت ﷺ نے ہجرت کی اور آپ وہاں دفن ہوئے ۔ مکّہ سے مدینہ کا فاصلہ قریباً 300میل ہے ۔ قادیان انڈیا میں ہے جوکہ سعودی عرب سے ایک بہت بڑے فاصلہ پر ہے۔
ایک واقفِ نَو طالبعلم نے سوال کیاکہ کیلیگرافی میں جماعت کی خدمت ہوسکتی ہے؟ اس پر حضورانور نے فرمایا کہ خدمت یہی ہے کہ مسجد میں آیات ، دعائیں لکھی جاتی ہیں ۔اسمائے الٰہی لکھے جاتے ہیں، وہ لکھ سکتے ہیں۔ اگر شوق ہے تو یہ خدمت ہوسکتی ہے۔
حضورانور نے فرمایا: یہ زائد چیز ہونی چاہئے اس کے علاوہ تمہارا کوئی پروفیشن ہونا چاہئے۔
حضور انورنے فرمایاکیلی گرافی کے ذریعہ خداتعالیٰ کے ناموں سے نمائش لگائی جاسکتی ہے۔ خداتعالیٰ کے ناموں کا مطلب، مفہوم بتایا جاسکتا ہے۔ اس طرح تبلیغ بھی ہو سکتی ہے۔
ایک واقف نَو بچے نے سوا ل کیا کہ ہم ہالینڈ میں کس طرح بہتر رنگ میں تبلیغ کرسکتے ہیں؟
حضورانورنے فرمایااپنے ذاتی رابطے اور تعلق بڑھائیں۔ One to One رابطے کریں، پمفلٹس تقسیم کریں۔ وِلڈر کی وجہ سے اسلام کا جو غلط تصور پیدا ہوگیا ہے اس کوزائل کریں۔ اسلام کا امن کا ،محبت کا اورصلح و آشتی کا پیغام دیں۔ ہالینڈ تواتنا چھوٹا سا ملک ہے کہ اب تک ہرگھر تک پیغام پہنچ جانا چاہئے تھا۔ پھر اپنا عملی نمونہ بھی ظاہر کریں۔ آپ میں اور دوسرے مسلمانوں میں جو فرق ہے وہ آپ کے عمل سے ،آپ کے اخلاق سے ظاہرہو۔
حضورانور نے فرمایاجب اسلام کاامن کا پیغام پہنچ جائے تو پھر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی آمد کے بار ہ میں بتائیں کہ آپؑ آنحضرتﷺ کی تعلیم کے مطابق تشریف لائے ۔ یہ بھی پیشگوئی تھی کہ اسلام بگڑ جائے گا۔ لوگ اسلام کی تعلیم پر عمل نہیں کریں گے ۔ تویہ اسلام کی صحیح اورحقیقی تعلیم حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے دی ہے اس کے بروشر تقسیم کریں۔
مختلف قسم کے لوگ ہیں۔ جو لوگ دہریہ ہیں، خدا کے قائل نہیں ،ان کو پہلے توحید کا پیغام دیں۔ تاوہ خدا کے قائل ہوں۔ پھربعد میں دوسرے بروشر تقسیم کریں ۔ ہر ایک کے مزاج کے مطابق بروشرتیار ہونے چاہئیں ۔
حضور انور نے فرمایا : اگرآپ میں سے ہر لڑکا یہ عہد کرے کہ وہ دس لڑکوں کو بتائے گا۔ احمدیت کاپیغام پہنچائے گا۔ تو آپ جو 25 بیٹھے ہیں 250 کوتو بتاسکتے ہیں ۔ اس طرح جب ان دس تک پیغام پہنچ جائے تو پھردوسرے دس کو پہنچائیں۔ ا س طرح تعداد بڑھتی رہے گی۔ صر ف جماعتی پروگرام بنا لیا اورمربی صاحب کو بلالیا اور پروگرام کرلیا یا کسی جگہ بکسٹال لگا لیا ،یہ کافی نہیں۔ نئے نئے راستے نکالیں۔ کوئی پاکٹ لے لیں ۔ کسی علاقہ کاانتخاب کرلیں اورپھر سروے کریں اور دیکھیں کہ کس طرح ان لوگوں کو احمدیت کاپیغام پہنچانا ہے۔ عام روایتی تبلیغ سے کام نہیں چلے گا۔ اس لئے خاص پروگرام بنائیں اورنئے راستے دیکھیں اور پھر مجھے بتائیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں