پادری عبداللہ آتھم کی شکست
1823ء میں ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے والے بچے کا نام ’’عبداللہ‘‘ رکھا گیا لیکن اس بد نصیب نے خدا کا عبد بننے کی بجائے 1873ء میں کراچی میں عیسائیت قبول کر کے مریم کے بیٹے یسوع کی بندگی کا طوق گلے میں ڈالا اور اپنا نام ’’عبدیاہ‘‘ رکھ لیا اور پھر گناہ گار ہونے کی علامت کے طور پر ’’آثم‘‘ کا داغ اپنی پیشانی پر سجایا ۔(یہ تھا عبداللہ آتھم)۔
مئی 1893ء میں امرتسر کے مقام پر عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان ایک زبردست مباحثہ ہوا جسے عیسائیوں نے ’’جنگ مقدس‘‘ کا نام دیا اور اس معروف مباحثہ میں عیسائیوں کی طرف سے آتھم اور مسلمانوں کی طرف سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نمائندہ تھے۔ اس پندرہ روزہ مباحثہ کی ضروری تفصیلات حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب ’’جنگ مقدس‘‘ میں بیان کی گئی ہیں۔ مباحثہ کے بعد حضور علیہ السلام نے حق کی طرف رجوع نہ کرنے کی صورت میں آتھم کی موت کی پیشگوئی بھی کی۔ لیکن جب اُس نے توبہ کرلی اور موت کی سزا سے بچ گیا تو مسلمانوں اور عیسائیوں نے بہت واویلا کیا جیسے پیشگوئی پوری نہ ہوئی ہو۔ چنانچہ اُن کے رویہ کو دیکھتے ہوئے حضور علیہ السلام نے یہ اعلان فرمایا کہ آتھم اگر قسم کھا کر یہ بیان کردے کہ پیشگوئی جھوٹی نکلی یا اس نے توبہ نہیں کی تو پھر وہ جلد ہی جہنم رسید کیا جائے گا۔ لیکن آتھم نے قسم نہ اٹھائی، انکار اور اقرار کچھ نہ کیا اور حضورؑ کے مخالفین ناحق شور مچاتے رہے۔ چنانچہ حضورؑ نے آتھم کے اخفاء حق کی پاداش میں اس کے ہاویہ میں گرائے جانے کی پیشگوئی دوبارہ کی اور اس طرح پہلے آتھم کی زندگی اور پھر اس کی موت حضرت اقدسؑ کی صداقت کا ثبوت ٹھہری۔
محترم سید مبشر احمد صاحب ایاز کے قلم سے ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ جولائی 1996ء کے اداریہ میں آج سے سو سال قبل عبداللہ آتھم کے مقابلہ پر حضرت اقدسؑ کی عظیم الشان فتح کی تفصیل شامل اشاعت ہے۔