پروفیسر ڈاکٹر سیّد سلطان محمود شاہد صاحب

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 15 جولائی 2022ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11؍اکتوبر 2013ء میں مکرم محمد داؤد طاہر صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے جس میں محترم پروفیسر ڈاکٹر سلطان محمود شاہد صاحب کا ذکرخیر کیا گیا ہے۔

محترم پروفیسر ڈاکٹر سلطان محمود شاہد صاحب

حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے محترم شاہ صاحب کو 1988ء میں نائیجیریا بھی بھجوایا تھا تاکہ وہاں ایک بین الاقوامی نرسری یا پرائمری سکول کے اجراء کے بارے میں جائزہ لے سکیں۔ آپ کے دورے کی رپورٹ انگریزی ہفت روزہ ‘‘ٹروتھ’’ کے حوالے سے الفضل ربوہ میں بھی شائع ہوئی۔
محترم ڈاکٹر صاحب قیامِ پاکستان کے بعد لاہور میں کالج کی حالتِ زار کا نقشہ یوں کھینچا کرتے تھے کہ ڈی اے وی کالج کی متروکہ عمارت تعلیم الاسلام کالج کو الاٹ ہوگئی تو پڑھانے والے تو موجود تھے لیکن سائنس کے پریکٹیکلز کا کوئی سامان نہ تھا۔ اتفاق سے قریب ہی سناتن دھرم کالج کی متروکہ عمارت میں ایم اے او کالج شروع ہوا جہاں سائنس پریکٹیکلز کا بہت سامان پڑا ہو اتھا لیکن پڑھانے والے میسر نہ تھے۔ چنانچہ وہاں کے فزکس کے پروفیسر ہمارے پاس آئے اور تجویز پیش کی کہ ہمارے کالج کے پروفیسر اُن کے کالج کے طلباء کو پڑھا دیا کریں تو اس کے عوض ہمارے طلبہ اُن کے کالج میں پریکٹیکلز کرسکتے ہیں۔ حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ پرنسپل تھے، آپؒ نے یہ تجویز مان لی۔
آپ بیان کیا کرتے تھے کہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ طلبہ سے بہت محبت کرتے تھے۔ میرا ایک غریب رشتہ دار میٹرک میں اچھے نمبروں میں کامیاب ہوا تو آگے تعلیم جاری رکھنے کی کوئی صورت نہ تھی۔ مَیں اُسے حضرت میاں صاحبؒ کے پاس لے گیا اور اُس کی مالی حالت بیان کی۔ آپؒ نے اُس کی نہ صرف فیس معاف فرمادی بلکہ مزید مالی مدد دینے کا وعدہ بھی کیا۔
اسی طرح کالج کے طلبہ ہمہ وقت آپؒ کے دفتر کے سامنے سے گزرا کرتے تھے اس طرح وہاں شور سا رہتا تھا۔ مَیں نے ایک بار تجویز پیش کی کہ آفس کے دروازے کے باہر برآمدے کے دونوں طرف پھولدار گملے رکھوادیے جائیں تو طلبہ کی اس راستے سے آمدورفت بند ہوجائے گی اور پرنسپل صاحب سکون سے اپنا دفتری کام کرسکیں گے۔ آپؒ نے میری اس تجویز کو پسند نہ کیا اور فرمایا کہ اس طرح طلبہ سے میرا براہ راست رابطہ ختم ہوجائے گا۔

ایک دفعہ پرنسپل صاحب دفتر سے نکل کر اپنی رہائش گاہ کی طرف جانے لگے تو برآمدے میں ایک لڑکا سردی سے ٹھٹھر رہا تھا۔ آپؒ اُس کے پاس گئے تو معلوم ہوا کہ وہ صرف ایک قمیص پہنے ہوئے ہیں۔ آپؒ نے اُس بچے کی محرومی کو شدّت سے محسوس کیا اور گھر پہنچتے ہی بازوؤں والا ایک سویٹر میرے ذریعے اُس لڑکے کو بھجوادیا۔ بعد میں کچھ اَور سویٹر منگواکر مستحق لڑکوں میں تقسیم کیے۔ اسی طرح شادیؔ بھی کالج کا ایک جیتا جاگتا کردار تھا۔ چونکہ وہ ہر کس و ناکس کا کام بغیر کسی حیل و حجت کے کردیا کرتا تھا لہٰذا سب لوگ اُسے دن بھر دوڑاتے رہتے۔ یہی وجہ تھی کہ آپؒ کالج میں کہیں بھی ہوں، وہ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ضرور آپؒ کے سامنے سے گزرتا۔ نہایت ہی فرمانبردار تھا۔ پرنسپل صاحب کو وہ ہمیشہ ’’میاں صاحب جی‘‘ کہہ کر بات کرتا تھا۔ اس کے سادہ طرز تکلّم کی وجہ سے آپؒ اُس سے انتہائی شفقت سے پیش آتے اور اُس کی کوئی فرمائش ردّ نہ کرتے۔
ایک بار جب مَیں محترم شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر تھا۔ واپسی کی اجازت چاہی تو آپ نے مجھے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر یہ شعر لکھ کر دیا ؎

اے دوست کسی ہمدمِ دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے

اپنا تبصرہ بھیجیں