چودھری ظفراللہ خانؓ اور قرارداد پاکستان
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل، 24؍مارچ، یوم پاکستان 2025ء)
اخبار ’’فرائیڈے ٹائمز‘‘ 20؍ستمبر تا 8؍نومبر میں جناب اشتیاق احمد کے شائع شدہ مضمون کی قسط پنجم میں حضرت چودھری سرمحمد ظفراللہ خان صاحبؓ کے تاریخی اہمیت کے حامل نوٹ کے بارے میں بعض تحفّظات کا اظہار کیا گیا ہے جن کا جواب مکرم مرزا خلیل احمد قمر صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 27؍فروری2014ء میں شامل اشاعت ہے۔

قائداعظم اور چودھری صاحب کے تعلقات کا آغاز 1928ء سے ہوا۔ 1932ء میں آپؓ آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔ آپؓ کے دَور میں پہلی دفعہ مسلم لیگ کے منشور میں تبدیلی کرکے ’’مکمل آزادی‘‘ کو نصب العین قرار دیا گیا۔ آپؓ عارضی طور پر وائسرائے ہند کی کونسل کے مسلمان ممبر بھی رہے اور مسلمانانِ ہند کے حقوق کی جدوجہد کے لیے ہمیشہ سرگرم کردار ادا کیا۔ یہ وہ دَور تھا جب مسلمانوں کی ہندونواز جماعتیں (جمعیت العلمائے ہند، مجلس احرارِ اسلام، خاکسار پارٹی، مومن پارٹی وغیرہ) مسلمانوں کی قیادت پر قبضہ کرنے کے لیے کوشاں تھیں۔ قائداعظم نے آپؓ کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے فرمایا: ’’آنریبل سر محمد ظفراللہ خاں … میرا اُن کی تعریف کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک باپ اپنے بیٹے کی ستائش کرے۔ اس میں ذرہ بھربھی شک نہیں کہ انہوں نے معاہدے کے متعلق اپنے فرض کو احسن طور پر سرانجام دیا ہے اور اس کے لیے انہیں مبارکباد پیش کرتے ہوئے مختلف اطراف سے جو کچھ کیا گیا مَیں اُس کی تائید کرتا ہوں۔‘‘ (ہماری قومی جدوجہد از ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی)
چودھری صاحبؓ کا قائداعظم سے مکمل رابطہ تھا چنانچہ آپؓ نے مسلم لیگ کے مطالبہ ’’علیحدہ وطن‘‘ کو نہایت مدلّل انداز میں وضاحت سے اپنے 12؍مارچ1940ء کے نوٹ میں تحریر کیا جو 32؍صفحات اور 49؍پیراگرافس پر مشتمل ہے۔ اسی مطالبے کو 23؍مارچ 1940ء کو مسلم لیگ کے اجلاس میں پیش کیا گیا۔ اگر آپؓ کی تحریر (جو زیڈاے سلہری ایڈیٹر روزنامہ پاکستان ٹائمزکے قلم سے 29؍جنوری 1982ء میں شائع ہوئی) اور جلسے میں قائداعظم کی تحریر کو سامنے رکھا جائے تو خان عبدالولی خاں صاحب کے 20؍جنوری1982ء کے روزنامہ جنگ میں کیے گئے اس انکشاف کا ردّ ہوتا ہے کہ ’’پاکستان کا منصوبہ ظفراللہ خاں نے انگریز کے کہنے پر تیار کیا تھا۔‘‘ جبکہ حقائق یہ بھی بتاتے ہیں کہ وائسرائے ہند لارڈ Linlithgow نے وزیرہند لارڈ فرٹلینڈ کو لکھے گئے خط میں یہ اظہار کیا اس دستاویز سے نسبتاً انتہاپسندانہ نقطہ نظر مترشح ہوتا ہے اور مَیں نے اُن (چودھری صاحب) سے کہا ہے کہ مجھے اس نوٹ کے بارے میں کچھ تفصیل سے آگاہ کرو۔
مضمون نگار نے چودھری صاحبؓ کے محررّہ نوٹس کے متعدد نکات اورگیارہ روز بعد منعقد ہونے والے مسلم لیگ کے جلسے میں قائداعظم کی تقریر (یعنی قرارداد لاہور جو بعد میں قراردادِ پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی) کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ قائداعظم کی تقریر بھی من و عن انہی نکات پر مشتمل تھی جو چودھری صاحبؓ نے قبل ازیں تحریر کیے تھے۔ چنانچہ 13؍فروری1982ء کے ’’پاکستان ٹائمز‘‘ میں چودھری صاحبؓ کا ایک خط شائع ہوا ہے جس میں آپؓ کے محرّرہ نوٹس کی تاریخی اہمیت اور قرارداد پاکستان سے ان نوٹس کے تعلق کو واضح کرتا ہے۔ اس خط میں آپؓ فرماتے ہیں:
٭…’’…مَیں زبانی اور تحریری طور پر مسلسل یہ بات کہتا رہا ہوں کہ جہاں تک انسانی کوششوں کا تعلق ہے پاکستان کا قیام فردواحد یعنی قائداعظم محمد علی جناح مرحوم کی مخلصانہ کوششوں کا رہین منت ہے۔ وہ اکیلے شخص تھے جنہوں نے دم توڑتی ہوئی آل انڈیا مسلم لیگ میں زندگی کی روح پھونکی اور اسے اپنی جاندار اور انقلاب انگیز قیادت میں ایک مؤثر اور متحرک سیاسی تنظیم میں بدل دیا۔ اس راہ میں حائل ناقابل عبور مشکلات پر قابو پاکر انہوں نے اپنا وہ مقصد حاصل کرلیا جسے آپ نے خود ہی اپنے لیے متعیّن کیا تھا۔ اگرچہ اس کام میں کئی اصحاب نے اخلاص اور فرمانبرداری سے آپ کا ہاتھ بٹایا لیکن اس کامیابی کا سہرا صرف اور صرف جناب محمد علی جناح کے سر بندھتا ہے۔ اس بارے میں کسی طرح سے کوئی ادنیٰ سا شبہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
٭…’’مَیں پورے اعتماد سے قطعی طور پر کہتا ہوں کہ میرا نوٹ جس کا ذکر لارڈ لنلتھگو کے 14؍مارچ 1940ء کے خط میں ہے، اس حقیقت کو ظاہر کررہا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان ایک واضح طور پر علیحدہ قوم ہیں اور ان کے لیے واحد تسلّی بخش قابل قبول آئینی مسائل کا حل یہ ہے کہ شمال مشرقی اور شمال مغربی فیڈریشنیں قائم کی جائیں۔ اور یہ قطعی طور پر وہی مطالبہ تھا جو چند دنوں کے بعد مسلم لیگ کی قرارداد میں 23؍مارچ کو پیش کیا گیا۔ دو قومی نظریہ اور فیڈریشنوں کے قیام کا نظریہ جس تفصیل اور جس وضاحت سے میرے نوٹ میں پیش کیا گیا ہے یہ بات میرے ہم عصروں پر مجھ سے پہلے آنے والوں کی کسی دستاویز یا بیان میں قطعاً موجود نہیں تھا۔ … میرے نوٹ میں پیش کی گئی فیڈریشنوں کی تجویزسے ذرہ بھر بھی قیامِ پاکستان کے لیے قائداعظم کو دیے جانے والے کریڈٹ کو نقصان نہیں پہنچتا کیونکہ قائداعظم اکیلے ہی تھے جن پر پاکستان کا سہرا بندھ سکتا ہے۔‘‘
اکتوبر1941ء سے وائسرائے کی کونسل سے الگ ہونے کے بعد چودھری صاحبؓ فیڈرل کورٹ آف انڈیا کے جج کی حیثیت سے خدمات سرانجام دینے لگے۔ یہ عہدہ گو کہ غیرسیاسی تھا مگر آپؓ کو جہاں بھی موقع ملتا وہاں مسلمانوں کے حقوق اور ہندوستان کی آزادی کے لیے کوشاں رہتے۔ آپؓ کے اصرار اور اس مطالبے پر بارہا وائسرائے ہند اور برطانوی حکام بھی سیخ پا ہوجاتے جس کا ذکر ٹرانسفر آف پاور کی جلدوں میں بیسیوں جگہ ملتا ہے۔ حتیٰ کہ آپؓ نے امریکی صدر روزویلٹ سے ملاقات میں بھی یہ معاملہ اٹھایا تھا۔ قائداعظم کا آپؓ پر اعتماد ہی تھا کہ انہوں نے باؤنڈری کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس پیش کرنے کے لیے آپؓ کو نامزد کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کا سربراہ مقرر کیا اور 25؍دسمبر 1947ء کو پہلا وزیرخارجہ مقرر فرمایا۔