ڈاکٹر عبدالسلام کی یاد میں تقریب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6؍مارچ 2010ء میں مکرم پروفیسر راجا نصراللہ خانصاحب نے مختلف اخبارات سے اخذ کردہ رپورٹس سے اُس اجلاس کی روداد مرتب کی ہے جو 21؍ نومبر 2009ء کو عظیم سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کو اُن کی شاندار خدمات، اعلیٰ اوصاف اور عظیم الشان کامیابیوں پر خراج تحسین پیش کرنے کے لئے منعقد کیا گیا۔
=… ’’نوبیل انعام حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کو ہم سے بچھڑے ہفتہ کو 13 برس بیت گئے۔ پاکستان اور سائنس کی خدمت کے لئے زندگی وقف کرنے والے عبدالسلام 29 جنوری، 1926ء کو پنجاب کے علاقے جھنگ میں پیدا ہوئے۔ ابتداء ہی سے ریاضی اور طبیعات سے گہرا لگاؤ تھا‘‘۔
(روزنامہ پاکستان لاہور۔ 22 نومبر 2002ء ص2)
=… ’’نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام بیسویں صدی کے طبیعات کے نمایاں سائنسدانوں میں سے ایک تھے۔ ان خیالات کا اظہار وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران نے ڈاکٹر عبدالسلام کی 13ویں برسی کے موقع پر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالسلام ایک بلند پایہ سائنسدان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین انسان بھی تھے جو دوسروں کی مدد کرنے کے جذبے سے سرشار تھے۔ وہ عالمی حلقوں میں سائنس کے ذریعے پسماندہ انسانیت کی فلاح کے علمبردار تھے۔ … آج کی مشکل گھڑی میں ڈاکٹر عبدالسلام کی کمی بہت شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ …‘‘۔ ( روزنامہ وقت مورخہ 22 نومبر 2009ء)
ئ…صحافی حسین کاشف اپنی تحریر کا آغاز ان الفاظ سے کرتے ہیں (ترجمہ): ’’نوبیل لارئیٹ (ڈاکٹر عبدالسلام) کی ہفتہ کے روز تیرھویں برسی کے موقع پر خراج تحسین پیش کرنے والے سائنسدانوں نے کہا کہ پاکستان نے اب تک جو سب سے اعلیٰ اور عظیم دماغ پیدا کیا ہے وہ ڈاکٹر عبدالسلام ہے۔
پاکستان فزیکل سوسائٹی کے اشتراک سے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں سلام چیئر اور شعبہ طبیعات کے زیراہتمام ایک میموریل اجلاس کے موقع پر پروفیسر صاحبان اور دانشوروں نے ڈاکٹر عبدالسلام کو خراج تحسین پیش کیا۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر خالد آفتاب نے اجلاس کی صدارت کی اور کہا کہ ڈاکٹر سلام پاکستان میں سائنس کے زوال پذیر ہونے کے متعلق بہت فکر مند تھے۔ تیسری دنیا کے ممالک میں سائنس کے فروغ کے لئے ڈاکٹر سلام کی خدمات کو اجاگر کرتے ہوئے ڈاکٹر آفتاب نے کہا کہ نوبیل لارئیٹ ڈاکٹر عبدالسلام نے تاریخ میں سائنسی میدان کو اس کا جائز مقام دلانے کی جستجو میں سخت جدوجہد کی۔ وائس چانسلر (ڈاکٹر آفتاب) نے گورڈن فریزر (Gordon Fraser) کے قلم سے ڈاکٹر سلام کی سوانح عمری Cosmic Anger سے کئی اقتباسات پڑھ کر سنائے جو ایک چھوٹے سے قصبے سے آغاز کرنے والے ایک لڑکے سے ایک عالی مرتبہ سائنسدان بن جانے کے سفر کی نشاندہی کرتی ہے۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سلام چیئر کے ہیڈ ڈاکٹر غلام مرتضیٰ جو ڈاکٹر سلام کے شاگرد رہ چکے ہیں نے اس عظیم سائنسدان کی سادہ اٹھان اور تعلیم و تربیت، امنگوں، کامرانیوں، شہرت اور اعلیٰ اوصاف و حسنات کا ذکر کیا۔ …
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) کے پروفیسر ڈاکٹر عامر اقبال نے ڈاکٹر سلام کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے پروفیسر صاحبان اور پی ایچ ڈی حضرات کو ڈاکٹر سلام کے الیکڑوویک (Electro Weak) نظریے اور موجودہ دور میں اس کے مضمرات سے آگاہ کیا۔ تقریب کے آخر پر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے پروفیسر طارق زیدی نے شاعری اور اردو ادب میں ڈاکٹر عبدالسلام کی دلچسپی کو واضح کرتے ہوئے ان کے کچھ خطوط پڑھ کر سنائے جو انہوں نے اپنے اساتذہ اور قریبی دوستوں کو تحریر کئے تھے۔… اس تقریب میں شریک طلباء نے اپنی تشویش کا اظہار کیا کہ کیوں ایک عظیم ہیرو اور قوم کے محب کو فراموش کردیا گیا ہے؟‘‘ ( ڈیلی ٹائمز، 22 نومبر 2009ء)
=…گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں ڈاکٹر عبدالسلام کے نوبیل پرائز کا اصل سرٹیفیکیٹ محفوظ کیا گیا ہے۔ یہ سرٹیفیکیٹ عبدالسلام بین الاقوامی مرکز برائے نظریاتی طبیعات (ICTP) اٹلی کے ڈائریکٹر Prof. Dr. Katepalli R Sreenivasan نے ڈاکٹر عبدالسلام کی مادر علمی (گورنمنٹ کالج لاہور) کو بطور تحفہ عنایت کیا تھا۔ ڈاکٹر سلام نے یہ نوبیل پرائز سرٹیفیکیٹ سویڈن کے بادشاہ King Carl XVI Gustaf سے 10 دسمبر 1979ء کو وصول کیا تھا۔
پاکستان میں سائنس اور ثقافت کے فروغ کے لئے ڈاکٹر عبدالسلام کا کردار خوب معروف ہے اور وطن عزیز کے لئے ان کی خدمت دُور رَس اور بااثر ہے۔ بیرون وطن قیام کے دوران وہ سائنسی پروگرام کے مشیر کے طور پر وقتاً فوقتاً پاکستان آتے رہتے تھے۔ وہ 1961ء سے لے کر 1974ء تک صدر پاکستان کے سائنسی مشیر بھی رہے۔ ترقی پذیر ممالک میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے لئے اقوام متحدہ کی متعدد کمیشنوں میں بھی خدمات انجام دیتے رہے۔ سلام 1961ء میں ایوب خان کے دور میں قائم ہونے والے ریسرچ کمیشن سپارکو کے پہلے چیئرمین تھے۔ حکومت پاکستان نے سائنس کے میدان میں ان کی قدردانی کرتے ہوئے پاکستان میں سائنسی منصوبوں پر ان کی نمایاں اور غیرمعمولی کارکردگی پر 1979ء میں انہیں ’’نشان امتیاز‘‘ اور ملک میں سائنس کے فروغ کے لئے ان کی خدمات پر 1959ء میں انہیں ’’ستارہ پاکستان‘‘ کے اعزازات سے نوازا۔
وہ 1961ء میں میکسول میڈل اور فزیکل سوسائٹی کا ایوارڈ حاصل کرنے والے پہلے سائنسدان تھے۔ انہوں نے 1964ء میں رائل سوسائٹی کا ھیوز ایوارڈ حاصل کیا۔ انہیں 1968ء میں ایٹم برائے امن فاؤنڈیشن نے ایٹم برائے امن ایوارڈ دیا۔ 1979ء میں ڈاکٹر عبدالسلام کو دنیا کے تین سب سے زیادہ شان و شوکت کے حامل انعامات سے نوازا گیا یعنی فزکس کا ’’نوبیل پرائز‘‘۔ یونیسکو کا ’’آئن سٹائن میڈل‘‘ اور انڈین فزکس ایسوسی ایشن کا ’’شری آر ڈی برلا ایوارڈ‘‘۔
اگرچہ ڈاکٹر سلام کو احمدی ہونے کی وجہ سے اپنے ملک میں مذہبی امتیاز کا سامنا کرنا پڑا لیکن نوبیل پرائز حاصل کرتے ہوئے وہ سراپا پاکستانی دکھائے دے رہے ہیں۔ انہوں نے روایتی پاکستانی شیروانی زیب تن کررکھی تھی۔ ICTP ٹریسٹے سے متعلق Miriam Lewis کی تحریر کردہ ڈاکٹر سلام کی سوانح عمری کے مطابق ڈاکٹر سلام ایک سچے اور پکے مسلمان تھے۔ ان کے نزدیک مذہب ان کی روزمرہ کی زندگی سے الگ نہیں تھا۔ ایک بار ڈاکٹر سلام نے لکھا ’قرآن کریم ہمیں اللہ تعالیٰ کے تخلیق کردہ قوانین فطرت کی سچائیوں پر غوروفکر کرنے کا حکم دیتا ہے‘۔ …‘‘
(ڈیلی ٹائمز مورخہ 22 نومبر 2009ء)
=… اس تقریب کے حوالہ سے دیگر متعدد اخبارات نے بھی رپورٹس شائع کی ہیں جن میں ’’فرنٹیئر‘‘ 22 نومبر 2009ء، ’’دی نیوز‘‘ 22 نومبر 2009ء،
=… وطن عزیز کے ایک قابل سائنسدان اور استاد ڈاکٹر محمد اختر بیان کرتے ہیں: ’’ڈاکٹر عبدالسلام غیرمعمولی سائنسدان اور کرشماتی شخصیت تھے۔ وہ ملک کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ نوبیل انعام حاصل کرنے والے سائنسدانوں میں ان کی حیثیت شہزادے کی سی تھی‘‘۔
(روزنامہ ایکسپریس کراچی 25 نومبر 2009ء ص16)
=… علمی و ادبی شخصیت ڈاکٹر صفدر محمود اپنے کالم صبح بخیر میں ڈاکٹر عبدالسلام کے ذکر میں تحریر کرتے ہیں:
’’عالم اسلام میں نوبیل پرائز حاصل کرنے والوں میں پاکستان کے ممتاز سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام بھی شامل ہیں جن کا تعلق ضلع جھنگ پنجاب سے تھا۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں گورنمنٹ کالج لاہور کے نیو ہوسٹل میں اسی کمرے میں ایک سال قیام پذیر رہا جو طالبعلمی کے زمانے میں ڈاکٹر عبدالسلام کا کمرہ ہوا کرتا تھا۔ مجھے ڈاکٹر صاحب سے دو دفعہ ملنے اور طویل نشست کرنے کا اتفاق ہوا اور میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ڈاکٹر عبدالسلام نہ صرف نہایت اچھے انسان تھے اور ان میں پاکستانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی بلکہ وہ ایک مذہبی شخصیت بھی تھے۔ قادیانی ہونا اپنی جگہ لیکن ڈاکٹر صاحب اس بات کے قائل تھے کہ سائنسی ایجادات قرآنی تعلیمات اور معجزات کی تصدیق کررہی ہیں‘‘۔ ( روزنامہ جنگ 7 دسمبر 2009ء)