کاؤنٹ لیو ٹالسٹائے
ٹالسٹائے روس کا عظیم مصنف اور دنیا کے مشہور انشاپردازوں میں سے ایک ہے۔ اُس نے نوّے (90) سے زائد کتب لکھیں جن کا شمار دنیا کے بہترین شاہکاروں میں ہوتا ہے۔ اُس کے بارہ میں ایک تفصیلی مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13 و 15؍ستمبر 1999ء میں مکرم نعیم طاہر سون صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
لیو 28؍اگست 1828ء کو کاؤنٹ نکولس ٹالسٹائے کے ہاں پیدا ہوا۔ چونکہ روس میں خاندانی خطاب وراثت میں ملتے ہیں اس لئے لیو بچپن سے ہی کاؤنٹ لیو ٹالسٹائے کہلایا۔ اس کی والدہ میریا ولکنسکایا ایک امیر شہزادی تھی۔ لیوـ کا خاندان اپنی شرافت، شوکت اور علمی و ادبی خدمات کیلئے بھی مشہور تھا۔
لیو کی عمر صرف دو سال تھی جب اُس کی والدہ فوت ہوگئیں اور نو سال کا ہوا تو والد بھی چل بسے۔ پھر اُس کی پرورش اُس کی چچی تانیانہ نے کی جو ایک مہربان خاتون تھی۔ لیو جوشیلی طبیعت کا مالک اور خود پسند لڑکا تھا جو تقلید کا سخت مخالف تھا۔ اُسے رحم اور ظلم، دونوں سے رلایا جا سکتا تھا۔ بچپن میں وہ ایک بدیسی استاد سے تعلیم حاصل کرتا رہا۔ سکول میں اس نے فرانسیسی زبان میں اعزاز حاصل کیا اور جرمن، عربی، ترکی اور تاتار زبانوں میں اچھے نمبر حاصل کئے۔ انگریزی، روسی ادب، لاطینی، ریاضی، منطق میں وہ کوئی درجہ حاصل نہ کرسکا جبکہ تاریخ اور جغرافیہ میں فیل ہوگیا۔ 16؍سال کی عمر میں کاذان یونیورسٹی میں داخل ہوا اور کچھ عرصہ بعد تعلیم ادھوری چھوڑ کر اپنی جائیداد کی دیکھ بھال کا بہانہ کرکے گھر چلا آیا۔ 1849ء میں اُس نے کسانوں کی تعلیم کے لئے ایک سکول قائم کیا جو کسانوں کی عدم دلچسپی کے باعث بند ہوگیا۔ اس پر اُسے اتنا صدمہ پہنچا کہ وہ ماسکو چھوڑ کر سینٹ پیٹرز برگ منتقل ہوگیا اور وہاں 1851ء میں ملازمت اختیار کرلی۔ اسی دوران اُس نے اپنی آپ بیتی کی پہلی جلد مکمل کی۔
1854ء میں وہ فوج میں شامل ہوا اور اپنے تجربات کو ناول ’’جنگ اور امن‘‘ کی شکل میں پیش کیا۔ جلد ہی فوج کی ملازمت چھوڑ کر وہ کئی برس ماسکو میں رہا اور ادیبوں سے مراسم قائم کئے۔ 1957ء میں وہ یورپ آیا اور جدید تہذیب سے آشنا ہوا۔ 1962ء میں واپس روس جاکر اُس نے سونیا نامی ایک لڑکی سے شادی کرلی جو اُس سے سولہ برس چھوٹی تھی۔ یہ شادی کامیاب نہ ہوئی تاہم وہ کافی عرصہ اکٹھے رہے۔ 1969ء میں اُس نے مفکر شوپنہار کی کتب کا مطالعہ شروع کیا جس کے نتیجہ میں وہ خود بھی قنوطی مفکر بن گیا اور مرنے کی خواہش کرنے لگا۔ ٹالسٹائے کے زندگی کے بارہ میں اپنے نظریات تھے۔ ٹالسٹائے کی طبیعت میں متلون مزاجی اور انانیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔
ٹالسٹائے کے دَور میں روس کا سرکاری مذہب عیسائیت تھا۔ ایک عیسائی گھرانے میں پیدا ہونے کی وجہ سے وہ بھی عیسائی مذہب کا پیروکار تھا لیکن جلد ہی وہ عیسائیت کے عقائد سے بیزار ہوکر دین فطرت کی تلاش میں گامزن ہوا۔ وہ کہتا ہے کہ ’’جب مَیں سولہ برس کا تھا …جو کچھ مجھے بچپن میں پڑھایا گیا تھا اُس پر مجھے کوئی اعتبار نہ تھا، کسی چیز سے مجھے ارادت و عقیدت ضرور تھی مگر مَیں کہہ نہیں سکتا تھا کہ وہ کیا چیز تھی۔ مَیں خدا کو مانتا تھا مگر نہیں کہہ سکتا تھا کہ خدا کون تھا۔ آج مَیں دیکھتا ہوں کہ میرا یقین کامل ہی میرے ارتقاء کا سبب تھا۔ … مَیں خدا کی نگاہوں کی بجائے دوسرے لوگوں کی نظروں میں بلند و ارفع ہونے کا آرزومند تھا‘‘۔
ایک جگہ وہ لکھتا ہے کہ ’’مجھے ایک حیرت انگیز خیال سوجھا ہے جس کی تکمیل کے لئے مَیں اپنی تمام زندگی وقف کرسکتا ہوں اور وہ خیال ہے ایک ایسے مذہب کی تشکیل جو مستقبل کی مسرت کا وعدہ نہ کرے بلکہ اسی روئے زمین پر کیف و انبساط کی راہیں کھول دے … مذہب کے وسیلہ سے اتحاد انسانیت کا خیال مجھ پر ہمیشہ مسلط رہے گا‘‘۔
ٹالسٹائے کی زندگی میں 1874ء میں روحانی انقلاب شروع ہوا اور اُس نے عیسائی عقائد سے بیزاری کا اعلان کرتے ہوئے مذہب کی حقیقت کی تلاش شروع کردی۔ اُس نے مذہبی رہنماؤں اور عقیدت مندوں کی طرف بھی رجوع کیا اور پھر اس نتیجہ پر پہنچا کہ ’’ہر ایک آدمی خدا کی مرضی سے دنیا میں آتا ہے۔ خدا نے آدمی کو اس لئے دنیا میں پیدا کیا ہے کہ وہ (آدمی) اپنی روح کو فنا کردے یا بچالے۔ آدمی کا مقصد حیات اپنی روح کو فنا ہونے سے بچائے رکھنا ہے۔ روح کی حفاظت کے لئے زاہدانہ زندگی بسر کرنی چاہئے یعنی انسان سرمستیوں اور مسرتوں کی طرف سے آنکھیں بند کرلے، محنت کرے، رنج اٹھائے اور رحمدل و مہربان ہو جائے‘‘۔
کچھ سال وہ انسانی محبت اور عدم تشدد کا پرچار کرتا رہا اور اپنی ساری دولت غریبوں میں تقسیم کردی اور خود انتہائی سادگی اختیار کرلی، دن رات عبادت میں مشغول رہا لیکن عیسائیت میں اسے تشفی حاصل نہ ہوسکی چنانچہ وہ باغی ہوگیا۔ اُس نے ’’ایک اعتراف‘‘ کے عنوان سے لکھا کہ مَیں اُن لوگوں کے اعمال کی جو عیسائیت کا دعویٰ کرتے ہیں کڑی نگرانی کرتا رہا ہوں، مَیں جاننا چاہتا ہوں کہ جھوٹ کیا کچھ ہے اور سچ کیا کچھ ہے اور مَیں سچ اور جھوٹ کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرنا چاہتا ہوں۔ مارچ 1901ء میں اُسے مذہب سے خارج کردیا گیا اور اُس کی چار سالہ قلمی کاوش ’’ایک اعتراف‘‘ کو ضبط کرلیا گیا جو دراصل عیسائی عقائد پر ایک کاری ضرب تھی۔ پادریوں نے ٹالسٹائے کی جلاوطنی اور گرفتاری کے لئے شور برپا کردیا لیکن زار الیگزینڈر سوم نے (جو ٹالسٹائے کا پرستار تھا) پادریوں کو انکار کرتے ہوئے کہا کہ ’’مَیں اُسے شہید اور اپنے آپ کو عالمگیر مذمت کا نشانہ نہیں بنانا چاہتا‘‘۔ اس کے بعد ٹالسٹائے کھلم کھلا پادریوں کے خلاف ڈٹ گیا اور اپنے ایک ناول میں کیتھولک عیسائی لاٹ پادری کے کردار کا خوب مذاق اڑایا۔ اُن دنوں ٹالسٹائے بیمار اور قریب المرگ تھا چنانچہ لاٹ پادری نے تمام گرجوں کے نام ہدایت جاری کی کہ کوئی بھی ٹالسٹائے کی روح کی تسکین کے لئے دعا نہ کرے۔ لیکن اس کے باوجود بھی ٹالسٹائے کی شفایابی سے پادری بہت مایوس ہوئے۔ تاہم اُس کے خلاف ایک محاذ بناکر اخبارات کو اُس کے حق میں لکھنے سے منع کردیا گیا، اُسے ماسکو ٹمپرنس سوسائٹی کی رکنیت سے بھی نکال دیا گیا اور اُس کی کتب کو لائبریری سے نکال دیا گیا۔
28؍اپریل 1903ء کو حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے ٹالسٹائے کو ایک خط میں اُس کے بعض مذہبی خیالات (دعا وغیرہ) کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا کہ مَیں آپ کے ساتھ بالکل متفق ہوں کہ عیسیٰ مسیح ایک روحانی معلم تھے اور اس کو خدا سمجھنا سب سے بڑا کفر ہے۔ پھر آپؓ نے احمدیہ عقائد اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات مسیح کے بارہ میں کی گئی تحقیق بیان کی اور اس خط کے ساتھ حضرت اقدس کی ایک تصویر، قبر مسیح کی تصویر اور ریویو آف ریلجنز کا ایک شمارہ بھی بھجوادیا۔ اس خط کے جواب میں ٹالسٹائے نے 5؍جون کو اپنے خط میں لکھا کہ وفات عیسیٰ کے ثبوت اور اُس کی قبر کی تحقیقات میں مشغول ہونا بے فائدہ کوشش ہے کیونکہ عقلمند انسان حیاتِ عیسیٰ کا قائل کبھی ہو ہی نہیں سکتا… ہمیں معقول مذہبی تعلیم کی ضرورت ہے اور اگر مرزا احمد صاحب کوئی نیا معقول مسئلہ پیش کریں گے تو مَیں بڑی خوشی سے اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔ میگزین میں مجھے دو مضامین بہت پسند آئے یعنی ’’گناہ سے کس طرح آزادی ہو سکتی ہے‘‘ اور ’’آئندہ زندگی‘‘۔ نہایت شاندار اور صداقت سے بھرے ہوئے خیالات ان مضامین میں ظاہر کئے گئے ہیں۔
بعد ازاں حضرت مفتی صاحبؓ اور ٹالسٹائے کی خط و کتابت جاری رہی۔ ٹالسٹائے نے حضرت اقدس علیہ السلام کی کتاب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: “The ideas are very profound and true”۔
ٹالسٹائے اگرچہ اپنی پہلی بیماری سے شفایاب ہوگیا لیکن سنبھل نہ سکا اور بیمار رہنے لگا۔ 1907ء میں اُس پر غشی کے دورے پڑنے شروع ہوگئے۔ یادداشت بہت کمزور ہوگئی اور وہ بہت جذباتی ہوگیا۔ انہی دنوں اُس کی بیٹیوں اور بیوی کے درمیان اُس کی کتابوں اور ڈائریوں کے حقوق کے لئے جھگڑا ہونے لگا۔ اگرچہ اُس نے اپنی کتابوں کے حقوق عوام کے نام کردئے مگر قانونی طور پر ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ اس دوران اُس نے پانچ وصیتیں کیں اور پھر خفیہ طور پر گھر سے بھاگ جانے کا ارادہ کیا۔
ٹالسٹائے بلغاریہ جانا چاہتا تھا لیکن سردی، کھانسی اور بیماری کے حملے کی وجہ سے اُسے پچاس میل دور ایک اسٹیشن ’’استاپافو‘‘ پر اترنا پڑا جہاں وہ اسٹیشن ماسٹر کے کمرہ میں چند دن مقیم رہا۔ حکام اُس کی بیماری میں گھبرائے ہوئے تھے کہ اگر وہ مسیحی طریقہ پر دعا پڑھے بغیر مر گیا تو پھر اسے عیسائی طریقہ تدفین کے مطابق دفن نہ کیا جاسکے گا۔ پادریوں نے اُس سے ملنے کی کوشش کی لیکن اُس کے نگرانوں نے یہ کوشش کامیاب نہ ہونے دی۔ پھر مسلح پولیس کی خدمات حاصل کی گئیں۔ ٹالسٹائے کے ’’استاپافو‘‘ آنے کے بعد اُس کے بے شمار دوست، جرنلسٹ، پولیس، حکام، پیروکار، اخباری فوٹوگرافر اور ریازان کا گورنر سب وہیں آگئے۔
ٹالسٹائے سات روز موت و حیات کی کشمکش میں رہنے کے بعد 1910ء میں جہان فانی سے کوچ کرگیا۔ اُسے اس کی وصیت کے مطابق ندی کے پاس سرسبز درختوں کے سایہ تلے دفن کردیا گیا۔ ہنگاموں اور فسادات کے ڈر سے حکام نے دو دن تک ملک میں ریل گاڑیوں کی آمد ورفت بند کردی لیکن اس کے باوجود اُس کے جنازے کا جلوس ایک میل سے زیادہ لمبا تھا۔