کشمیر کا مقدس مقام …حضرت بَل

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 15 اپریل 2022ء)

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 27؍اگست 2013ء میں مکرم پروفیسر ڈاکٹر محمد شمیم صاحب کے قلم سے کشمیر کے مقبول ترین مقدّس مقام حضرت بَل کا تعارف شامل اشاعت ہے۔یہ عمارت مشہور جھیل دَل کے کنارے واقع ہے۔ سو دو سو سال قبل یہ مقام درس و تدریس کی عظیم جگہ تھی۔ نہایت درجہ علمی کتب سے معمور کتب خانہ تھا۔ نہایت قابل اساتذہ تھے۔ مرورِ زمانہ نے اسے مسجد تک محدود کردیا ہے۔ مدرسہ مدینۃالعلوم موجود تو ہے لیکن اس کا علمی درجہ نہایت کمزور ہے۔
حضرت بَل کے تقدّس کی وجہ اس عمارت میں محفوظ رسول کریمﷺ کا ایک بال ’’موئے مبارک‘‘ ہے جو ہرسال مخصوص ایّام میں زیارت کے لیے باہر نکالا جاتا ہے۔

یہ بابرکت بال کس طرح یہاں پہنچا اس حوالے سے مؤرخ مرزا قلندر بیگ اپنی کتاب ’’حجت قاصرہ‘‘ میں اور محمد اعظم دیدہ مری ’’واقعاتِ کشمیر‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ صاحب جو رسول کریمﷺ کی اولاد میں سے تھے اور مدینہ منوّرہ کے منتظم تھے، اُن کو مُوئے مبارک کے علاوہ آنحضرتﷺ کا سر پر باندھا جانے والا کپڑا اور حضرت علیؓ کے گھوڑے کی کاٹھی بھی حضرت امام حسینؓ سے وراثت میں منتقل ہوتی ہوئی 1635ء میں ملی تھی۔ جب اُن کے ایک عزیز سیّد ہاشم سے اختلاف کے نتیجے میں انہیں اُن کے عہدے سے معزول کرکے ترکی کے سلطان نے اُنہیں شاہی عدالت میں طلب کیا تو آپ بوجوہ وہاں پیش نہ ہوئے۔ اس پر حضرت عبداللہ صاحب کی ساری جائیداد بحق سرکار ضبط کرلی گئی اور انہیں مدینہ بدر کردیا گیا۔
حضرت عبداللہ صاحب بصرہ سے ہوتے ہوئے دو سال کی طویل مسافت کے بعد ہندوستان کی ریاست دکن کے شہر بیجاپور پہنچے جہاں کا راجہ آپ کے مقام اور آپ کے پاس موجود نوادرات سے بڑا متأثر ہوا اور اپنے پاس سے وسیع جاگیر دے کر آپ کو وہاں قیام کی اجازت دے دی۔ تئیس سال کے بعد حضرت عبداللہ وفات پاگئے تو یہ نوادرات آپ کے بیٹے سیّد حامد کی تحویل میں آگئے۔
جب مغل شہنشاہ شاہجہاں کی بیماری کے دوران اُس کے بیٹوں میں بادشاہت کے لیے رسّہ کشی شروع ہوئی تو سیّد حامد نے داراشکوہ کی حمایت کی۔ چنانچہ جب اورنگزیب نے بادشاہت پر قبضہ کرلیا تو اُس نے بطور سزا سیّد حامد کی ساری جائیداد ضبط کرلی۔ اگرچہ سیّد حامد نے دلّی جاکر جائیداد کی واپسی کی بہت کوشش کی لیکن اس میں کامیابی نہ ہوئی۔ اسی اثنا میں ایک کشمیری تاجر نورالدین آشواری کی دلّی میں سیّد حامد سے ملاقات ہوئی تو وہ اتنا متأثر ہوئے کہ اکثر ملاقات کی غرض سے آنے جانے لگے اور بڑی رقوم بھی پیش کرتے رہے۔ ایک دن اتفاق سے انہیں مقدّس نوادرات کا علم ہو اتو انہوں نے سیّد حامد سے ایک تبرک عطا کرنے کی درخواست کی تاکہ وہ اسے کشمیر لے جائیں اور وہاں کے رہنے والے بھی برکت حاصل کریں لیکن سیّد حامد نے انکار کردیا۔ اُسی رات انہیں خواب میں رسول کریمﷺ کی زیارت ہوئی اور آپؐ کے ارشاد فرمانے پر اگلے روز ہی سیّد حامد نے آشواری صاحب کو بلاکر مُوئے مبارک اُن کے حوالے کردیے اور اپنے خادم مائیدانش کو بھی اُن کے ہمراہ کردیا۔
جب آشواری صاحب مُوئے مبارک لے کر لاہور سے ہوتے ہوئے کشمیر جانے لگے تو اورنگزیب کو یہ خبر پہنچ گئی اور اُس نے آشواری صاحب کو اپنے دربار میں بلاکر یہ مُوئے مبارک لے لیے اور ان کی اصلیت معلوم کرنے کی کوشش شروع کی۔ بادشاہ کے پیرومُرشد حضرت ابوصالح نے مُوئے مبارک کے اصل ہونے کے حق میں رائے دی تو تحقیق جاری رکھنے کے ساتھ بادشاہ نے یہ حکم بھی دیا کہ یہ تبرک حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کی درگاہ اجمیر شریف میں رکھ دیے جائیں۔ لیکن کچھ روز بعد ہی اورنگزیب کو آنحضورﷺ کی خواب میں زیارت ہوئی اور آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ مُوئے مبارک آشواری صاحب کو واپس دے دیں۔ چنانچہ آشواری صاحب کو دربار میں طلب کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اُن کا انتقال ہوچکا ہے۔ البتہ مائیدانش نے دربار میں حاضر ہوکر بتایا کہ آشواری صاحب کی خواہش تھی کہ اُنہیں مُوئے مبارک کے قُرب میں دفنایا جائے۔ اس پر شاہی حکم کے مطابق مُوئے مبارک کو کشمیر لے جایا گیا اور وہاں خواجہ معین الدین نقشبندی کی خانقاہ میں رکھوادیے گئے۔ بعدازاں زائرین کی کثرت کی وجہ سے وہاں کچھ جانی نقصان ہونے کے بعد مغل گورنر فاضل خان نے ایک اجلاس بلاکر فیصلہ کیا کہ مُوئے مبارک ’’باغ صادق خان‘‘ میں رکھے جائیں۔ یہی باغ اب حضرت بَل کے نام سے مشہور ہے۔ صادق خان مغل شہزادہ تھا جس نے یہ خوبصورت عمارت بنوائی تھی۔ 1993ء میں یہ عمارت اور قیمتی کتب خانہ نذرآتش ہوگیا تو پھر سنگ مرمر کی نئی عمارت بنواکر مُوئے مقدّس اس میں محفوظ کردیے گئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں