کچھوا
کچھوا ایک لمبی عمر پانے والا جانور ہے جس کی اوسط طبعی عمر ڈیڑھ سو سال ریکارڈ کی گئی ہے۔ جون 2006ء میں آسٹریلیا میں ایک کچھوا مرا ہے جس کے بارہ میں DNA Test کے نتیجہ میں علم ہوا تھا کہ اُس کی پیدائش 1830ء میں ہوئی تھی۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17جون 2005ء میں کچھوے کے بارہ میں ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
ماہی گیروں کا خیال ہے کہ جس جگہ کچھوا موجود ہو وہاں مچھلیاں نہیں آتیں۔ لیکن درحقیقت عام طور پر کچھوے ہر قسم کی غذا کھا جاتے ہیں جو انہیں میسر آجائے۔ کچھوے کی غذا میں 37فیصد گھاس پھونس، پودے اور تیس فیصد مچھلیاں شامل ہیں۔ کچھوا تو طبعی طور پر نہایت سست اور کاہل ہوتا ہے۔ وہ شکار کی تلاش میں مارا مارا پھرنا پسند نہیں کرتا۔
کچھوے میں قوت برداشت اور صبر کا مادہ غیرمعمولی ہے۔ کئی ایسے حیران کن واقعات بھی مشاہدے میں آئے ہیں کہ کچھوؤں کی بڑی تعداد کسی خشک جھیل کی تہ میں مہینوں تک دفن رہنے کے بعد زندہ نکل آئی۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جنوب مغربی امریکہ کے صحراؤں میں پانی سے کوسوں میلوں دور رہ کر بھی کچھوے صحیح سلامت اور پھلتے پھولتے رہتے ہیں۔ اگر وہ سرد علاقوں میں ہوں اور برف کے اندر جم جائیں تب بھی کوئی زخم کھائے بغیر برف پگھل جانے پر زندہ نکل آتے ہیں۔
کچھوؤں کے انڈوں سے جب بچے نکلتے ہیں تو وہ فوراً ہی باہر نہیں نکلتے کیونکہ ان کے کئی ’’دشمن‘‘ باہر ان کی تاک میں ہوتے ہیں۔ خود ان بچوں کی حالت بھی اس قابل نہیں ہوتی کہ وہ اپنے لئے غذا تلاش کریں۔ وہ اسی سخت خول میں گھسے رہتے ہیں اور ایک سال بعد بڑی آسانی سے باہر نکل آتے ہیں۔ سائنس دان کہتے ہیں کچھوؤں کے جسم میں چربی بہت ہوتی ہے۔ یہی چربی ان کے جسم میں آہستہ آہستہ تحلیل ہوتی رہتی ہے اور غذا کا پورا کام دیتی ہے۔
کچھوے نرم زمین کے اندر انڈے دیتے ہیں لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب انڈوں سے بچے نکلنے کے دن ہوتے ہیں تو زمین کی سطح خشک ہو کر سخت ہوجاتی ہے اور بچے باہر نہیں نکل سکتے۔ پس وہ بغیر خوراک اور بغیر پانی کے بارش ہونے کا انتظار کرتے ہیں تاکہ زمین کی سطح نرم ہو اور وہ باہر آسکیں۔
انسان کو جب پہلی مرتبہ کچھوے کی اندرونی طاقت کا علم ہوا تو بیچارے کچھوے پر آفت نازل ہوگئی۔امریکہ سے ساڑھے چھ سو میل کے فاصلہ پر گالیپگس جزائر واقع ہیں۔ ہسپانوی زبان میں گالیپگس کچھوے کو کہتے ہیں۔ ان جزیروں میں کچھووں کی کثیر تعداد آبادی تھی لیکن سولہویں صدی عیسوی میں جہاز رانوں نے سفر کے دوران تازہ گوشت استعمال کرنے کا یہی بہتر طریقہ سمجھا کہ بے شمار کچھوے پکڑ لئے اور انہیں کھاتے رہے۔ حتی کہ ان جزائر میںکچھوے کی نسل کے ختم ہونے کا ڈر پیدا ہوگیا۔
آج ساری دنیا میں کچھوے کی تین سو سے زائد قسمیں پائی جاتی ہیں۔ ان میں بعض کا وزن ڈیڑھ سو پونڈ تک پہنچتا ہے۔ لیکن سائنسدانوں کو یقین ہے کہ زمانہ قدیم میں بعض دیوہیکل کچھوؤں کا وزن تیس تیس من تک تھا۔
کچھوے کا خول ایک قسم کی زرہ بکتر ہے۔ یہ خول اتنا سخت ہوتا ہے کہ بہت زیادہ وزن بھی برداشت کرلیتا ہے۔ کچھوا حسب عادت اس خول میں کئی کئی ہفتے چھپ سکتا ہے۔ خدا نے اسے یہ صفت بھی دی ہے کہ اگر وہ چاہے تو پانی کے اندر بھی کئی کئی دن بیٹھا رہے۔ اس خول میں پانی داخل نہیں ہو سکتا۔
مادہ کچھوا ایک وقت میں دو سو کے قریب انڈے دیتی ہے۔ یہ انڈے زیر زمین دئے جاتے ہیں تاکہ ’’دشمنوں‘‘ کی پہنچ سے دُور رہیں۔
جسمانی وضع اور ساخت کے اعتبار سے کچھوے میں کئی حیرت انگیز صفات ہیں۔ مثلاً یہ کہ کچھوا ہلکی سے ہلکی آواز بھی بخوبی سن لیتا ہے لیکن اس کے کان نہیں ہوتے یا یوں کہئے کہ اس کے بیرونی کان نہیں ہوتے۔ بلکہ اس میں حرکت کی ایسی عجیب و غریب حس پائی جاتی ہے جو کانوں کا پورا کام دیتی ہے۔ اسی طرح کچھوؤں کی بھی کوئی خاص آواز نہیں ہوتی لیکن کبھی کبھی ان کے منہ سے ایک سیٹی جیسی آواز نکلتی ہے جو قریباً چالیس فٹ تک سنی جاسکتی ہے۔ ان کے دانت نہیں ہوتے لیکن منہ کے کنارے بلیڈ کے مانند تیز ہوتے ہیں اور انہی کی مدد سے وہ ہر چیز ہڑپ کر جاتے ہیں۔ کچھوا رینگنے والا جانور ہے۔ زمین پر آہستہ آہستہ رینگتا ہے لیکن پانی میں اس کے تیرنے کی رفتار بڑی تیز ہوتی ہے۔
کچھوے کی سست رفتاری کی بڑی وجہ سردی ہے۔ وہ سردیوں سے خوف کھاتا ہے۔ موسم سرما نمودار ہوتے ہی زمین کے کسی گوشہ عافیت میں چھپ جاتا ہے اور پورے چھ ماہ تک باہرنہیں نکلتا۔ اس دوران اس پر سستی و کاہلی کا ایسا غلبہ رہتا ہے کہ اسے سانس لیتے ہوئے بھی تکلیف ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب دل کی حرکت ہی بند ہوجاتی ہے۔ لیکن اس عرصے میں اس کے بدن کی زائد قوت اس کے جسم میں آہستہ آہستہ تحلیل ہوکر اسے زندہ رکھتی ہے۔ موسم بہار نمودار ہوتے ہی وہ انگڑائی لے کر اٹھتا ہے اور باہر نکل آتا ہے۔