گل شگفت

(مطبوعہ انصارالدین یوکے جولائی و اگست 2021ء)

عبدالرحمان شاکر صاحب

مرزانظام دین وہ شخص تھا جو کسی احمدی کو قادیان کے جوہڑ (یعنی ڈھاب ) سے مٹی نہ لینے دیتا تھا۔ ایک دفعہ سید احمد نورصاحب کابلی نے اپنے مکان کی تعمیر کے لئے مٹی لی تو مزدوروں سے اُن کی کُدالیں اورٹوکریاں چھین کرلے گیا۔ سیّد احمدنور صاحب نے پولیس میں نالش کی تو چونکہ ظالم خود تھا جلد صلح کرلی۔


لیکھرام کے قتل کے بعد جب پولیس حضرتِ اقدس کے مکان کی تلاشی لینے کے لئے آئی تو دیگر کاغذات میں خود مرزاامام دین کے ہاتھ کے لکھّے ہوئے کچھ خطوط بھی نکلے جن میں ایک خاص چیز کا ذکر تھا۔ انگریز نے پوچھا کہ یہ خاص چیز سے کیا مراد ہے ؟ تو حضرت اقدسؑ نے صاف صاف بتادیا کہ خط محمدی بیگم کے رشتہ کے متعلق ہیں اورامرِ معلومہ سے یہی مراد ہے۔ یہ خط مرزا امام دین نے میرے نام لکھے تھے جو میرا حقیقی چچازاد بھائی اورمحمدی بیگم کا حقیقی ماموں ہے۔ اس وقت مرزاامام دین پر ایک رنگ آتا اورایک جاتاتھا۔
(سیرۃ المہدی ؔ حصہ دوم صفحہ 146-147)

احمدیہ چوک قادیان میں جہاں فخرالدین صاحب کتب فروش کی دکان تھی وہ جگہ حضرت اقدسؑ کی تھی وہاں پر ایک مکان بنانا تھا مگر مرزاامام دین اورنظام دین کے فتنہ کے خوف کی وجہ سے بنا نہ سکتے تھے کہ یہ ضرورر کوئی شرارت کریں گے۔ اتفاق سے ایک دن یہ دونوں ظالم قادیان سے باہر گئے ہوئے تھے تو ان کی غیرحاضری میں وہاں مکان بنوالیاگیا۔ جب وہ واپس آئے تو بہت غیظ وغضب کا اظہار کیا مگر کچھ کرنہ سکے۔ (سیرۃ المہدی ؔ حصّہ سوم صفحہ 260)
مرزا امام دین کی طبیعت میں سخت بے دینی کا خمیر تھا۔ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ موسم گرما میں مسجد مبارک کے اوپر نماز عشاء ہونے لگی۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ؓ امام الصلوٰۃ تھے تو نیچے مرزاامام دین نظام دین کے احاطے سے کئی ڈھول والے آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے ڈھول بجانا شروع کردیا گویا وہ اپنی کارروائی سے نماز میں قرآن مجیدکی آواز پست کرنا چاہتے تھے مگر چونکہ مولوی صاحب ؓ بہت جہیرالصوت تھے انہوں نے بھی آواز بلند کر دی۔ ادھر ڈھول والے بھی تیز ہوگئے۔ مولوی صاحب سورۃ قیامہ ؔ کی آیت اَولیٰ لَکَ فَاَوْلیٰ ثُمَّ اَوْلیٰ لَکَ فَاَوْلی ( ہلاکت تیرے لئے ہلاکت۔ پھر ہلاکت تیرے لئے ہلاکت ) زور زور سے پڑھتے رہے۔ گویا شیطان سے مقابلہ تھا جو دیر تک جاری رہا۔ آیت بھی نہایت موقع کی تھی۔ (سیرۃ المہدیؔ حصہ سوم صفحہ 54)
آخر وہ دن بھی آیا کہ قادیان میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک میں طاعون پڑی۔ مرزانظام دین کے گھر کے بہت سے افراد مرگئے۔ مرزا نظام دین آیا اورحضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے دروازے کی چوکھٹ پر سررکھ کر زارزار رویا اورکہا کہ حضرت جی! ہماری مصیبت کا بھی کوئی علاج ہے؟ مَیں نے تو اب کوئی مخالفت نہیں کی۔ حضرتؓ نے فرمایا کہ مرزا جی! میں خدائی تقدیر کو کیسے بدل سکتاہوں؟ یہ واقعہ 1910ء کاہے۔ آخری وقت میں مرزانظام دین نے مخالفت کی شدّت ترک کردی تھی۔ (سیرۃ المہدیؔ حصہ سوم صفحہ 146-147)
مرزاامام دین نے ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول ؓ سے کہا: ’’میری طبیعت بچپن سے ہی سلیم تھی جب لوگ نماز پڑھتے اوررکوع وسجود کرتے تھے تو مجھے ہنسی آتی تھی۔ ‘‘
(روایت حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ۔ منصبِ خلافت 29)
واقعہ یہ ہے کہ مرزانظام دین کی طبیعت میں درشتگی پہلے بھی اتنی نہ تھی جتنی مرزا امام دین میں تھی مگر تاہم وہ اپنے بڑے بھائی کا شریک کارتوتھا۔ چونکہ حضرت اقدسؑ کو الہاماً بتایا گیا تھا کہ : ینقطعُ آبَاؤُکَ وَیَبۡدَؤُکَ یعنی تیرے آبا کی نسل قطع کی جائے گی اورتجھ سے نئی نسل کا آغاز ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ہاں مرزانظام دین کے گھر میں سے صرف اس کا لڑکا مرزاگل محمد حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی بیعت کرکے اس الہام کی زد سے بچ گیا۔
ایک قیافہ شناس یورپین خاتون نے حضرت اقدسؑ کی تصویر دیکھ کر کہا تھا کہ ’’یہ شخص بنی اسرائیل کا نبی معلوم ہوتاہے۔ ‘‘ اتفاق کی بات ہے کہ مرزاامام دین کا فوٹو موجود ہے۔ میں نے اصل فوٹو جو قد آدم سائز کاہے صاحبزادہ مرزا رشید احمد صاحب کے گھر میں دیکھاہے۔ مولوی عبدالرحیم صاحب دردؔ نے اپنی انگریزی تصنیف ’’لائف آف احمدؐ ‘‘ کے صفحہ 523 پر شائع کردیا ہواہے۔ گو بہت چھوٹا سائزہے تاہم حلیہ خوب نظر آتا ہے۔ مرزا امام دین حضرت مرزاسلطان احمد صاحب کی دوسری اہلیہ کے والد تھے اور مرزارشیداحمد صاحب کے ناناہوئے۔ مرزاامام دین کی حضرت اقدسؑ کے ساتھ شکل وصورت کے لحاظ سے مشابہت تو ضرور تھی مگر فرق وہی نورؔ اورنار ؔ کاہے ؎

گر نباشد در مقابل روئے مکروہ و سیاہ
کس چہ دانستے جمالِ شاہدِ گلفام را

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں