یادِ مصلح موعودؓ
قیام ربوہ کے فوراً بعد سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی دعوت پر پنجاب کے صحافیوں کا ایک وفد ربوہ آیا۔ اس موقعہ پر ایک بڑا شامیانہ لگایا گیا اور جملہ انتظامات کی نگرانی ہیڈماسٹر تعلیم الاسلام سکول حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب ؓ کے سپرد کی گئی جنہوں نے جماعت دہم کے طلباء کو مدد کے لئے بلا لیا۔ انہی طلباء میں محترم بشیرالدین سامی صاحب بھی تھے جن کے قلم سے سیدنا مصلح موعودؓ سے متعلق ان کی یادداشتوں پر مشتمل ایک مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ 27؍ستمبر 1995ء کی زینت ہے۔
ربوہ کی اس پہلی پریس کانفرنس کے موقع پر جناب عبدالمجید سالک پیش پیش تھے اور ان کی زبان حضرت صاحب، حضرت صاحب کہتے ہوئے نہ تھکتی تھی۔ اس موقعہ پر حضور ؓ کا یہ فرمان کہ ’’ہم انشاء اللہ اس کلّرزدہ وادی کو ہرا بھرا کردیں گے‘‘ آج ربوہ کے ہر زائر کے لئے روشن نشان ہے۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ مارچ 1955ء میں جب حضرت مصلح موعود علاج کی غرض سے یورپ جانے کے لئے کراچی پہنچے تو حضورؓ کے قیام کا انتظام کراچی شہر سے دور ملیر کی بستی میں گرینڈ ہوٹل کے عقب میں واقع ایک حویلی میں کیا گیا۔ اسی حویلی میں گورنر جنرل پاکستان جناب غلام محمد صاحب بھی حضورؓ کی تیمارداری کے لئے تشریف لائے۔ اگرچہ ان کی بیماری کے پیشِ نظر حضورؓ کا اصرار تھا کہ جناب غلام محمد صاحب اپنی صحت کا خیال رکھیں لیکن وہ اپنی شدید علالت کے باوجود تشریف لائے اور حضورؓ کے ہمراہ استقبالیہ کمرہ میں تشریف فرما رہے۔
حضرت مصلح موعودؓ یورپ سے واپسی پر جب کراچی میں قیام فرما ہوئے تو محترم مولوی عبدالحق صاحب بابائے اردو بھی ملاقات کے لئے حاضر ہوئے۔ وہ اس وقت زندگی کے نازک دور سے گزر رہے تھے، تجردانہ زندگی، عمر کے تقاضے، اردو کالج اور ٹرسٹ کے تعلقات میں کشیدگی… یہ ساری باتیں ان کی شخصیت پر براہ راست اثرانداز ہو رہی تھیں۔ ایسے میں نان نفقہ کا بندوبست حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کے توسط سے جماعت نے کیا ہوا تھا اور وہ امام جماعت احمدیہ کی شفقتوں سے فیض پا رہے تھے اور یہی کشش انہیں حضورؓ کے پاس لے آئی تھی۔