’’یاد حبیب‘‘
تعارف کتاب (تبصرہ: عبادہ عبداللطیف)
(مطبوعہ رسالہ انصارالدین مارچ اپریل 2015ء)
سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا مبارک وجود ایسا تھا کہ آپؓ کا دوست یا دشمن آپؓ کی عنایات سے محروم نہیں رہا اور آپؓ کے قرب سے فیضیاب ہونے والوں کی زندگیوں کے ہر موڑ پر کچھ ایسے نقش آپؓ کے حسن و احسان نے چھوڑے کہ وہ زندگی بھر آپؓ کے عشق میں گرفتار رہے۔ ایک ایسے ہی عاشق کی زبانی اپنے مقدّس آقا کی سیرت کے چند واقعات پڑھنے کا اتفاق خاکسار کو ہوا تو حضورؓکی غیرمعمولی شخصیت کچھ نئے زاویوں سے آشکار ہوئی۔
’’یاد حبیب‘‘ کامطالعہ کرتے ہوئے بارہا رُک کر یہ سوچنا پڑاکہ انسانی نفسیات کا جس قدر گہرا مطالعہ حضرت مصلح موعودؓ کی ذاتِ اقدس کو عطا کیا گیا تھا وہ اس دَور میں کم ہی لوگوں کو نصیب ہوا ہوگا۔ مثلاًآپؓ نے جب ایک دواخانہ (خدمت خلق) کی بنیاد رکھی تواس امر کی تشہیر کی ممانعت فرمادی کہ عام احمدیوں کو یہ علم ہو کہ یہ دواخانہ حضورؓ کی ملکیت ہے۔ چنانچہ حضورؓ نے متعلقہ منتظم (یعنی مرتّبِ کتاب) سے فرمایا کہ: ’’اس بات کو غورسے سن لوکہ نسخہ جات کو صحیح ادویات سے بنانا ہے، کبھی قیمتی ادویات کابدل استعمال نہیں کرنا۔خدا کے سامنے اب تم جوابدہ ہو۔ …اور کسی سے اس بات کا ذکر نہیں کرنا کہ یہ حضور کا دواخانہ ہے کیونکہ اگر کوئی مریض اس خیال سے تم سے دوا خریدے گا تو یہ ایک صورتِ صدقہ بھی ہوسکتی ہے جو میرے لئے جائز نہیں۔ نیز دوسرے احمدی اطبّاء کو چھوڑ کر میری وجہ سے تم سے ادویات نہ خریدنا شروع کردیں‘‘۔
محترم چودھری عبدالعزیز ڈوگر صاحب نے A5 سائز کے اڑہائی صد سے زائد صفحات میں بہت سی ایسی قیمتی روایات اکٹھی کردی ہیں جن کو پڑھنے سے نہ صرف حضورؓ کی عالی قدر شخصیت کے بعض منفرد پہلو بلکہ تاریخ احمدیت کے کئی گوشے بے نقاب ہوتے ہیں۔ اس کتاب میں چند دیگر بزرگان کے چشمدیدحالات کا ذکر بھی شاملِ اشاعت ہے جن میں حضرت مرزابشیر احمد صاحبؓ اور حضرت مرزاشریف احمد صاحبؓ کے علاوہ چند دیگر صحابہ کرام اور چنیدہ اصحاب شامل ہیں۔ اسی طرح بہت سے ایسے غیرازجماعت معزّزین کا بھی ذکر ہے جو حضورؓ کی ذات گرامی سے نہ صرف متأثر تھے بلکہ حضورؓ کی دین اسلام اور بنی نوع انسان کے لئے کی جانے والی خدمات کے دل سے معترف تھے۔
حضورؓ کی شخصیت کا ایک نہایت روشن پہلو اس خدائی خبر کا اظہار تھا کہ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا۔ چنانچہ حکمت و معرفت کے اُس بحر زخّار میں سے ( جو حضورؓ کے ذہن مبارک میں موجزن تھا) چند موتی اس کتاب میں بھی جا بجا بکھرے ملیںگے۔ مثلاً لکھنؤ کے ایک ماہر طبیب، ادیب و شاعر حکیم محمود علی خان ماہر لکھنوی حضورؓ کے بے حد مدّاح تھے۔ ایک صبح حضورؓ کے معائنہ کے لئے وہ ناشتہ پر حاضر تھے۔ حضورؓ نے میز پر رکھے ہوئے پھلوں میں سے امرود کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر یہ نہار کھایا جائے تو ایسا ہے جیسے سونے کا کشتہ کھایا، دوپہر کو کھائیں تو ایسے جیسے چاند کا کشتہ کھایا اور اگر شام کو کھایا جائے تو ایسے جیسے سکّہ کھایا۔ حکیم صاحب نے حضورؓ کی تائید کی۔ بعد میں کسی وقت حکیم صاحب موصوف نے مرتّب کتاب سے فرمایا کہ مَیں بہت خوش قسمت ہوں جو مجھے حضورؓ کی زیارت نصیب ہوگئی۔ ہماری قوم بڑی بدنصیب ہے کہ آج اس عظیم الشان انسان کی قدر نہیں کرتی۔ خدا کی قسم! ایک وقت آئے گاجب آئندہ آنے والے روئیں گے کہ ہمیں وہ زمانہ کیوں نصیب نہ ہوا…۔
1953ء کے انکوائری کمیشن کے ایک رُکن جناب جسٹس کیانی صاحب تھے۔ وہ کمیشن کے رُوبرو حضورؓ کے بیانات اور علمی اعتراضات کے جوابات سے ازحد متأثر تھے۔ لاہور میں ایک شادی کی تقریب میں حضورؓ سے اُن کی ایک بے تکلّفانہ ملاقات ہوئی۔ دونوں ایک ہی صوفہ پر تشریف فرما تھے۔ کیانی صاحب نے کسی علمی مسئلہ پر گفتگو شروع کردی اور سوالات کرنے شروع کئے۔ پھر حضورؓ کے جواب سن کر وہ گویا وجد میں آگئے اوراپنی عادت کے مطابق ایک عجیب حالت میں سر کو ہلاتے اور تائید کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کرتے۔
حضورؓ کی چشم پوشی اور درگزر کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی ہوسکتاہے کہ ایک بار میٹنگ کے دوران ملازم نے حضورؓ کی خدمت میں گرم چائے پیش کی۔ جب حضورؓ چائے پینے لگے تو کپ کی ڈنڈی اچانک ٹوٹ گئی اور گرم چائے حضورؓ کے کپڑوں پر گر گئی۔ شکر ہے جسم محفوظ رہا۔ سب ہی فکرمند ہوگئے اور ملازم سخت خوفزدہ اور شرمندہ تھا۔ لیکن حضورؓنے کوئی لفظ ناراضگی کا نہیں فرمایا۔ اُسی وقت گھرجاکر کپڑے تبدیل کئے اور دوبارہ تشریف لاکر میٹنگ میں شرکت فرمائی۔
اسی طرح یہ واقعہ بھی بہت سبق آموز ہے کہ حضورؓ اپنی صاحبزادی بی بی امۃالجمیل سے بہت پیار کرتے تھے۔ لیکن جب انہوں نے ایک بار اپنی ایک خادمہ کو سخت سرزنش کرکے گھر سے نکل جانے کو کہا تو وہ روتی ہوئی حضورؓ کے پاس چلی گئی۔حضورؓ کو اُس کی بات سن کر اِس قدر دکھ ہوا کہ بی بی کو بلواکر شدید ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ اب تم میرے پاس اس وقت تک نہیں آسکتی جب تک تم اُس سے معافی نہیں مانگتی اور وہ تمہیں معاف نہیں کردیتی۔
حضورؓ کی قبولیتِ دعا کے متعدد واقعات بھی کتاب کی زینت ہیں۔ مثلاً حضرت ڈپٹی میاں محمد شریف صاحبؓ نے ایک موقع پر حضورؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور ستّر بہتّر کا ہوگیا ہوں اور ہمارے خاندان کی عمر اس سے زیادہ نہیں ہے۔ حضورؓ نے فرمایا: نہیں، آپ کی عمر نوّے سال ہوگی، فکر نہ کریں۔ انہوں نے پھر انکساری سے اپنا پہلا فقرہ ہی دہرادیا تو حضورؓ نے فرمایا: ’’آپ کا خاندان آپ سے شروع ہورہا ہے، آپ کی عمر نوّے سال ہوگی‘‘۔ چنانچہ بعد میں وہ یہ واقعہ بیان کرکے لوگوں کو بتاتے کہ اُن کی عمر نوّے سال ہوگی۔ اُن کا وصال 92 سال کی عمر میں ہوا۔
حضورؓ کا بیان فرمودہ یہ سنہری اصول بھی اس کتاب کی زینت ہے کہ: ’’مومن عہدِ وفاداری پر دوستی کو ترجیح نہیں دیتا‘‘۔ یہ اصول ہم سب کو ہمہ وقت پیش نظررکھنے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی دنیاوی تعلق، دوستی، مصلحت یا حکمت اُس عہدِ بیعت کے کسی بھی جزو کو مجروح نہ کرسکے جو ہم نے خدا تعالیٰ کی خاطر اپنے پیارے امام کے ہاتھ پر کیا ہے۔
سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ ایک اعلیٰ درجہ کے طبیب، خطیب، مفسّر، مفکّر اور منتظم تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپؓ بہترین گھوڑسوارتھے، بہترین تیراک تھے اور بہت ہی اچھے کشتی ران تھے۔ اس کتاب میں حضورؓ کے بہت سے ایسے ایمان افروز واقعات شامل ہیں جو ہر پڑھنے والے کو اُس کے اخلاقی اور روحانی مقام کو ترقی دیتے چلے جانے کے گُر بتاتے ہیں اور اُس کی جسمانی صحت اور ذہنی بالیدگی کی نشوونما کو کمال تک پہنچانے کی طرف بھی متوجہ کرتے ہیں۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ اس کتاب کا مطالعہ شروع کرنے کے بعد قاری اس وقت تک چَین سے نہیں بیٹھ پاتا جب تک اس کتاب کو پڑھ کر ختم نہ کرلے ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک بار پڑھ لینے کے بعد بھی وہ ان منفرد واقعات میں سے بار بار گزرنے اور ان میں بیان شدہ حکمت کو جذب کرنے کی سعی میں ایک لذّت محسوس کرتا ہے۔
محترم چودھری عبدالعزیز ڈوگر صاحب کی یہ چھٹی کتاب ہے۔ آپ نے 1945ء میں زندگی وقف کرنے کی سعادت حاصل کی اور آپ کو 1947ء سے حضرت مصلح موعودؓ کی وفات تک حضورؓ کی غیرمعمولی خدمت کی سعادت عطا ہوئی۔ ذیلی تنظیموں کی مرکزی عاملہ کے رُکن رہنے کے علاوہ آپ احمدی تجّار ا ور احمدی اطبّاء کی تنظیموں کے لمبا عرصہ صدر رہے۔ 1967ء میں تحریک جدید سے پنشن پانے کے بعد آپ نے تعمیراتی فرم بنائی اور ذاتی کاروبار میں بھی عروج حاصل کیا۔
1982ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے وقف میں دوبارہ بلالیا جس کے بعد جماعتی تعمیرات کے سلسلہ میں ربوہ کی متعدد عمارتوںکے علاوہ سیرالیون، گیمبیا اور جرمنی میں بھی سالہاسال خدمت کرنے کی سعادت پائی۔ اس دوران ناصر باغ (جرمنی) میں مسلسل دو سال تک سرانجام پانے والے وقارعمل کی نگرانی بھی کی اور اس دوران رونما ہونے والے ایمان افروز واقعات کو اپنی کتاب کی زینت بنادیا۔ 1999ء میں بوجہ بیماری آپ نے ریٹائرمنٹ لے لی۔
اس کتاب میں اپنی زندگی میں وقف کے تقاضوں کو نباہنے کے حوالہ سے بہت سے کٹھن مراحل میں خداتعالیٰ کے بے پایاں افضال و انعامات بھی آپ نے بیان کئے ہیں۔ لیکن اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ جماعتی خدمات کی توفیق عطا ہونے کا ذکر ہو یا ذاتی ترقیات کے حصول کے بیان کا، ہر باب کے اختتام پر آپ یہی نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ کامیابیاں محض خدا تعالیٰ کے غیرمعمولی فضل اور خلافتِ احمدیہ کی برکات کی بدولت نصیب ہوئیں اور خلفاء سلسلہ کی شفقت اور دعائوں کی برکت سے راستہ کی ہر مشکل آسان ہوتی چلی گئی۔
اس تعارف کا اختتام کتاب میں درج ایک ایسی دردناک داستان سے کرنا چاہتا ہوں جس کا ذکر حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں بھی فرمایا تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد جب قیامتِ صغریٰ کا منظر تھا تو محترم عبدالعزیز ڈوگر صاحب کو قادیان میں حفاظتی ڈیوٹیاں دینے اور غیرمعمولی شجاعت کا مظاہرہ کرنے کی توفیق بھی ملی۔ آپ رقمطراز ہیں کہ جب ایک قافلہ میں ہم نے پاکستان کی طرف اپنے سفر کا آغاز کیا تو ہجرت کا غم اس قدر ہوا کہ والدہ صاحبہ قادیان کو چھوڑتے ہی بیہوش ہوگئیں۔ دو تین میل بڑی مشکل سے راستہ طے کیا تھا کہ ان کو ڈائریا ہوگیا۔ ہر دس منٹ بعد اسہال آنے لگے۔ کمزوری بڑھتی گئی اور پھر بیہوش ہوگئیں۔ تب مَیں نے فیصلہ کیا کہ اب اُن کو اپنی کمر پر اٹھاکر سفر کروں گا اور کسی حالت میں ان کو چھوڑ کر نہیں جائوں گا۔ دوسرے بھائیوں کی عمریں 3 سے 16 سال کے درمیان تھیں۔ والد صاحب 58 سال کے تھے اور غم نے ان کی کمر توڑ دی تھی۔ بڑی مشکل سے ساتھ چل رہے تھے۔ مَیں نے والدہ صاحبہ کو کمر پر اٹھالیا۔ چھ دن ہم نے سفر کیا۔ راستہ میں فاقے سے رہے۔ کچھ پتے اور کچھ امرود ایک باغ سے توڑ کر ابال کر کھائے۔ کچھ گندم ملی جو ابال کر استعمال کی لیکن خدا تعالیٰ کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ والدہ صاحبہ کو لے کر ایسے چلتا رہا جیسے کوئی وزن نہیںہے۔ انتہائی خطرناک سفر تھا مگر تکان کا احساس ہوا نہ بھوک کا خیال آیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے کیا کیا دعائیں میرے لئے کیں لیکن ان دعائوں کا پھل مَیں ساری زندگی کھاتا رہا۔