انسان کی عمر اور صحت میں مذہب کا کردار – جدید تحقیق کی روشنی میں

انسان کی عمر اور صحت میں مذہب کا کردار – جدید تحقیق کی روشنی میں
(محمود احمد ملک)

٭ ایک عالمی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک صدی کے دوران انسان کی اوسط عمر بڑھ کر تقریباً دوگنی ہوگئی اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اضافہ صحت و صفائی کی سہولتوں میں اضافے، بہتر خوراک اور عمدہ تعلیم کے باعث ممکن ہوا۔ اس وقت دنیا میں کئی ہزار ایسے لوگ ہیں اپنی زندگی کے سو سال سے تجاوز کرچکے ہیں لیکن اُن میں سے اکثر اپنے روزمرہ معمولات سرانجام دینے سے قاصر ہیں اور معذوری کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ تاہم سو سال سے زیادہ عمر کے ایسے بھی کئی سو افرادموجود ہیں جو بھرپور صحتمند زندگی گزار رہے ہیں۔ ماہرین نے ایسے ایک سو افراد کی زندگی کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ صحتمند سرگرمیوں میں دلچسپی نہ صرف ایسے افراد کی عمر میں اضافے کی ایک اہم وجہ ہے بلکہ اس کے باعث وہ اُس عمر میں بھی صحتمند اور زندگی کے معمولات سرانجام دینے کے قابل ہیں۔
سروے کے مطابق اُن میں سے اکثر افراد نے کبھی تمباکونوشی نہیں کی اور اگر کسی نے کی بھی تھی تو اُسے کئی دہائیاں پہلے چھوڑ دیا تھا۔ نیز اکثر اپنے کھانے کا خیال رکھتے تھے اور اپنی غذا میں شامل چکنائی، وٹامنز اور دیگر اجزاء کے تناسب کا بھرپور خیال رکھتے تھے۔ تقریباً تمام افراد نے معاشرتی تبدیلیوں اور نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ چلنے کی کوشش کی تھی اور اکثر موسیقی اور حقیقی زندگی پر مبنی ٹیلی وژن پروگراموں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ 15 فیصد افراد ویڈیو گیمز میں بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ تقریباً تمام افراد روحانیت پر پختہ یقین رکھتے تھے اور اپنے مذہبی رہنماؤں کا احترام کرتے تھے۔ اس سے قبل بھی ایک تحقیق سے معلوم ہوا تھا کہ ایسے افراد جو باقاعدگی سے عبادت کرتے ہیں، وہ کم بیمار ہوتے ہیں اور نسبتاً لمبی عمر پاتے ہیں۔
امریکی ماہرین نفسیات نے کہا ہے کہ روحانی پاکیزگی اور مذہب کی طرف رجحان کا مردوں اور خواتین کی دماغی صحت پر بھی اثر پڑتا ہے اور روحانی پاکیزگی اور عبادت میں زیادہ وقت گزارنے والے دماغی طور پر زیادہ صحت مند ہوتے ہیں۔ حال ہی میں شائع کی جانے والی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق ماہرین نے مردوں اور خواتین پر مشتمل 718 بالغ افراد کے ایک گروپ کا تحقیقی مطالعاتی جائزہ لیا جن میں سے اکثر نے بچپن کے مقابلے میں بلوغت تک پہنچنے کے بعد اپنی مذہبی و روحانی سرگرمیوں کو کافی حد تک تبدیل کرلیا تھا۔ ماہرین نے ان افراد سے کئے گئے سروے اور دیئے گئے سوالناموں کے جوابات کی روشنی میں اخذ کیا کہ ایسی خواتین جنہوں نے عبادت وغیرہ چھوڑ دی تھی، اُن میں عبادت کرنے والی خواتین کی نسبت افسردگی اور ڈپریشن لاحَق ہونے کا امکان تین گنا زیادہ ہوتا ہے۔
٭ یونیورسٹی آف پٹس برگ کے ماہرین نے ایک مطالعاتی جائزے کی روشنی میں بتایا ہے کہ زندگی کے روشن پہلو کو دیکھنا صحت کے لئے مفید ہوتا اور جو لوگ زندگی کے روشن پہلو کو دیکھنے کے عادی ہوجاتے ہیں ان میں دل کے حملوں یا حتیٰ کہ موت تک کا خطرہ کم ہوسکتا ہے۔ یونیورسٹی کے ڈاکٹر ہاری ٹنڈل کا کہنا ہے کہ لوگوں کو چاہئے کہ زندگی کے تاریک پہلوؤں کو دیکھنے کی عادت ترک کر دیں کیونکہ منفی انداز فکر صحت کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے۔
مثبت انداز فکر کے صحت پر اثرات کے حوالے سے کیا جانے والا یہ اب تک کا سب سے بڑا مطالعاتی جائزہ تھا جس میں 97 ہزار خواتین کی صحت اور ان کے انداز فکر کے درمیان تعلق کا مطالعہ کیا گیا۔ ماہرین کو معلوم ہوا کہ روشن پہلو دیکھنے کی عادی خواتین میں دل کی بیماری میں مبتلا ہونے کا خطرہ ان خواتین سے نو فیصد کم تھا جو منفی انداز فکر رکھتی تھیں ۔ نیز مثبت سوچ کی حامل خواتین میں موت کا خطرہ بھی 14فیصد کم دیکھا گیا۔ مثبت سوچ رکھنے والوں میں مایوسی اور تمباکونوشی کے رجحان میں کمی بھی مشاہدہ کی گئی۔ نیز وہ مذہبی بھی زیادہ تھیں۔
اس ریسرچ کے نتائج جرنل آف امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن میں شائع ہوئے۔
٭ مطالعاتی جائزہ ہے جس میں پہلے سے ثابت کی جانے والی اِس حقیقت کا اعادہ کیا گیا ہے کہ مذہبی افراد اور غیر مذہبی افراد کی ذہنی سرگرمیوں اور دماغ میں پیدا ہونے والے خیالات میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔ اور یہ بھی کہ مذہبی افراد، غیر مذہبی افراد کی نسبت ڈپریشن اوردیگر ذہنی بیماریوں میں کم مبتلا ہوتے ہیں۔ یہ تحقیق ٹورانٹو یونیورسٹی کے نیورالوجی اور سائیکالوجی سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے مکمل کی ہے جس کے دوران دماغ کی سرگرمیوں کی الیکٹرونک طریقۂ کار سے پیمائش کی گئی اور مختلف سوالات کی بنیاد پر ذہنی مسائل کا تجزیہ کیا گیا۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ خدا کی ذات پر بھرپور یقین رکھنے والے افراد کے دماغ کا ایک مخصوص حصہ، اُن کی غلطیوں پر اُنہیں متنبہ کرتا ہے اور اچھائی اور بُرائی کے فرق کو اُن کے لئے واضح کرتا ہے۔ نیز دماغ کا یہی حصہ مذہبی افراد کو کسی مشکل صورت حال کے دوران کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں فیصلہ کُن راہنمائی مہیا کرتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ مذہبی لوگ نہ صرف ذہنی پریشانیوں میں کم مبتلا ہوتے ہیں بلکہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرکے اصلاح احوال کرنے کے بھی عادی ہوجاتے ہیں۔ اس تحقیق میں مسلمانوں کے علاوہ عیسائیت، ہندو مت اور بدھ مت کے 28 پیرو کاروں اور 22 غیرمذہبی افراد کا ذہنی تجزیہ کیا گیا تھا۔ اور ماہرین کا مشاہدہ تھا کہ غیرمذہبی افراد میں اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے پر مشکل سے رضامند ہوئے جبکہ اُن میں اپنی ہر ناکامی پر جواز پیش کرنے کا مادہ زیادہ پایا گیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں