ایک احمدی کا مثالی کردار

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 11فروری 2022ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11؍جون 2013ء میں جناب فاروق انصاری صاحب کی تصنیف ’’یادِ ماضی‘‘ سے ایک اقتباس درج ہے۔ وہ رقمطراز ہیں کہ میرے کئی ایک احمدی دوست ہیں۔ اس مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والوں کو حکومت پاکستان نے قانوناً غیرمسلم قرار دیا ہے۔ یہ لوگ نماز سنّیوں کی طرح پڑھتے ہیں، قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، حضرت محمدؐ کو نبی مانتے ہیں لیکن اس کے ساتھ مرزا غلام احمد کو بھی نبی مانتے ہیں اس لیے احمدی کہلاتے ہیں۔
سول ایوی ایشن ڈیپارٹمنٹ میں میرے ایک ساتھی علوی صاحب الیکٹرانک انجینئر تھے۔ حکومت پاکستان کی طرف سے دو انجینئرز کو ٹریننگ کے لیے امریکہ بھیجا گیا جن میں سے ایک تو یہی احمدی تھے اور ایک دوسرے مسلمان۔ بارہ ممالک سے دو دو انجینئر آئے تھے جن میں چھ مسلم ممالک تھے۔ ٹریننگ کے اختتام پر ایک شام منائی گئی۔ عورتیں مرد سب ساحل سمندر پر گئے اور ساری رات وہاں گزاری۔ صرف علوی صاحب نہ گئے۔ دوسری صبح دوسرے پاکستانی واپس ہوٹل پہنچے تو علوی صاحب تلاوت کررہے تھے۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے۔ اُس نے علوی سے کہا: تم کیوں مسکرائے؟ علوی نے کہا: پہلے تم بتاؤ۔ اُس نے کہا کہ ہماری امریکہ میں یہ آخری رات تھی، شاید ہم پھر کبھی یہاں نہ آئیں۔ ایک پُرلطف موقع تم نے ہاتھ سے گنوادیا، تم بدقسمت ہو۔ اب تم بتاؤ کہ کیوں مسکرائے تھے؟علوی نے کہا: مَیں اس لیے مسکرایا کہ ایک مسلمان تو ساری رات شراب پیتا رہا اور غیرعورتوں کے ساتھ وقت گزارتا رہا اور ایک کافر ساری رات قرآن پڑھتا رہا۔ (صفحہ 209-208)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں