ایک شہید کی بیوہ کی قربانیاں

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 23؍دسمبر 2022ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 14؍دسمبر 2013ء میں مکرمہ الف۔رفیع صاحبہ کے قلم سے محترمہ مریم سلطانہ صاحبہ کی عزم و ہمّت کی غیرمعمولی داستان پیش کی گئی ہے۔
محترمہ مریم سلطانہ صاحبہ بنت محترم عنایت اللہ افغان صاحب کی شادی محترم ڈاکٹر محمد احمد صاحب ابن محترم خان میرخان صاحب (عملہ حفاظتِ خاص حضرت مصلح موعودؓ) کے ساتھ جنوری 1949ء میں لاہور میں ہوئی۔ محترم ڈاکٹر صاحب ضلع کوہاٹ کے قصبے ٹل میں چند سال سے پریکٹس کررہے تھے۔ آپ کے مریض جسمانی طور پر بھی صحت یاب ہوتے اور آپ اُن کو دعوت الی اللہ بھی کرتے۔ مالی آسودگی اور عزت خداتعالیٰ نے عطا کی ہوئی تھی کہ اچانک قریبی گاؤں المارہ میں مخالفت شروع ہوگئی۔ ایک روز ایک بدبخت تانگے پر آیا اور مریض دکھانے کے بہانے ڈاکٹر صاحب کو ہمراہ لے گیا۔ سہ پہر تک یہ خبر گاؤں میں ڈھنڈورچی نے دینی شروع کردی کہ ڈاکٹر صاحب کو المارہ گاؤں کے علاقے وزیری میں سڑک سے اتار کر گولی ماردی گئی ہے۔ پھر ظلم یہ کیا گیا کہ تین چار لوگوں کا پہرہ لگادیا گیا کہ کوئی اُن کی مدد کو نہ پہنچے۔ بعد میں لاش بھی دینے کا اُن کا ارادہ نہیں تھا لیکن شہر کے سرکردہ لوگوں نے تعاون کیا اور میت گھر میں پہنچادی۔ چار معصوم بچے بلک رہے تھے اور خاوند کی لاش خون میں لت پت رکھی تھی۔ کوئی غمگسار، مشورہ دینے والا نہیں تھا۔
محترمہ مریم سلطانہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ آخر کو مَیں نے فیصلہ کرلیا کہ چاہے جان چلی جائے مگر مَیں جان قربان کرنے والے موصی کو اس گندی زمین پر دفن نہیں کروں گی اور اُس کے مقام تک پہنچاؤں گی۔ گاؤں والوں نے جرأت کا یہ بےباک مظاہرہ دیکھا تو لاش لے جانے کی نہ صرف اجازت دے دی بلکہ انتظامات میں مدد بھی کی۔ تب غم کی ماری ہوئی خوفزدہ عورت اور چار ڈرے سہمے بچے اور سارا علاقہ غیروں کا، خدا کا فضل اور دعائیں مانگتے ہوئے وہاں سے بذریعہ ٹرک روانہ ہوئے۔ علاقہ غیر میں یہی خوف رہا کہ اب گولی آئی کہ اب گولی آئی۔ جب کوہاٹ پہنچے تو کچھ تسلّی ہوئی۔ پھر وہاں سے نخلہ (جابہ) پہنچے جہاں اُن دنوں حضرت مصلح موعودؓ مقیم تھے۔ حضورؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور مرحوم کو خراج تحسین پیش کیا۔ پھر جنازہ ربوہ لائے اور بہشتی مقبرہ میں سپرد خاک کیا گیا۔
پھر مَیں اپنے خسر کے ساتھ ٹل میں قاتل کا کھوج لگانے گئی تو وہاں ہر چیز لُوٹ لی گئی تھی۔ قاتل کی تلاش میں کسی نے مدد نہ کی۔ علاقہ غیر تھا اس لیے حکومت بھی کچھ نہ کرسکی۔ معاملہ جرگے میں پیش کیا تو اُن کا فیصلہ آیا کہ وہ ایک کافر اور قادیانی تھا اس لیے واجب القتل تھا۔ اگرچہ جرگے نے قاتل چھوڑ دیے لیکن خداتعالیٰ کی گرفت سے وہ نہ بچ سکے۔ قاتل اور اس کا ایک ساتھی پاگل ہوگئے اور نیم برہنہ حالت میں گلیوں میں گھوما کرتے۔ اُن کے تیسرے ساتھی پر اپنی بیوی اور بھتیجے کے قتل کا مقدمہ ہوا۔ اور وہ شخص جو ڈاکٹر صاحب کو دھوکے سے بلاکر لے گیا تھا، وہ اپنے بھائی کے ہاتھوں بیوی بچوں سمیت قتل ہوگیا۔ ساری بستی میں سرسامی بخار کی وبا پھیل گئی اور اس طرح مجرم کیفرکردار کو پہنچے۔
آپ بیان کرتی ہیں کہ بیوہ ہوجانے اور سامان لُوٹ لیے جانے کے بعد باری باری تین جوان بھائیوں کی موت کا صدمہ بھی میرے مقدّر میں تھا۔ کوئی وسیلہ نہ رہا، رشتہ داروں کی مالی حالت ایسی نہ تھی کہ وہ میری مدد کرسکتے۔ تب مَیں نے چھوٹی آپا کے ذریعے فضل عمر سکول میں ملازمت حاصل کرلی۔ لیکن تین سال وہاں کام کیا تو بیماری کی وجہ سے کام چھوڑنا پڑا۔ پھر گھر میں منیاری کا سامان اور کپڑے فروخت کرنے کے لیے رکھے، سلائی کا کام شروع کیا۔ اس طرح بچوں کی روزی کا سامان کرتی رہی۔ ماں باپ کی بھیگی ہوئی آنکھوں میں التجائیں دیکھیں تو مَیں نے دوسری شادی کے لیے حامی بھرلی۔ بیوگی کے چار سال بعد شادی ہوئی۔ کچھ عرصے بعد شوہر کی ملازمت ختم ہوگئی۔ پھر مَیں نے چنیوٹ سے مڈوائف کا کورس کیا اور رزق حلال کماکر اپنے بچوں کو پالنے لگی۔ خدا کا فضل اتنا ہوا کہ کبھی مجھے یہ احساس نہ ہوا کہ یہ بچے یتیم ہیں۔ الحمدللہ کہ دینی اور دنیاوی لحاظ سے خوش و خرم ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں