درودشریف کی برکت

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6ستمبر 2005ء میں مکرم لیفٹیننٹ کرنل (ر) بشارت احمد صاحب دعا اور درودشریف کی برکت کے حوالہ سے اپنی یادیں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میری پلٹن 13 آزاد کشمیر بٹالین نے چھمب جوڑیاں کے محاذ پر 4 اور 5 دسمبر 1971ء کی درمیانی رات دریائے توی کے اس پار دشمن کے توپ خانہ کے ایریا پر حملہ کیا۔ اگلی شام تک لڑائی چلتی رہی اور کوئی بارہ گھنٹے کی اعصاب شکن لڑائی کے بعد میرا گولہ بارود اور وائرلیس کا نظام کمزور پڑنے لگا۔ ہوائی مدد اور بکتر بند دستوں کی سپورٹ نہ ملنے کی وجہ سے حالت مزید خراب ہونے لگی۔ میرا بٹالین ہیڈکوارٹر دشمن کی دو انفنٹری کمپنیوں نے گھیرے میں لے لیا۔ ان کی مدد کو ایک ٹروپ ٹینک بھی ساتھ ساتھ آگے بڑھنے لگا۔ دنیاوی اسباب تقریباً ختم تھے لیکن ایک مضبوط اور طاقتور ہتھیار ابھی میرے پاس موجود تھا۔ اس حالت زار میں مجھے دو رکعت نفل ادا کرنے کی توفیق ملی۔ پھر گردوپیش کا جائزہ لیا تو اندازہ ہوا کہ اگر میں اپنے بٹالین سمیت یہاں مورچہ زن رہا تو جس طرح چوہے اپنے بلوں میں مارے جاتے ہیں اس طرح ہمارا حشر ہوگا۔ میں نے سوچا اس طرح مرنے سے بہتر ہے کہ باہر میدان میں نکلا جائے اور میدان میں ہی ہمارا آخری وقت آئے۔ خیر ایک نعرے اور ہلّے کے بعد ہم نے اپنی پوزیشن خالی کر دی اور باہر کھلے میدان میں ہتھیار سنبھالے نکل کھڑے ہوئے۔ دائیں جانب 50گز کے فاصلہ پر دو ٹینک کھڑے نظر آئے۔ بائیں جانب نظر دوڑائی تو دشمن کی تقریباً کم و بیش دو انفنٹری کمپنیاں زمین پر لیٹی پوزیشن سنبھالے ہوئے تھیں۔ میں دونوں کے درمیانی 100گز کے چوڑے علاقہ میں آہستہ آہستہ اپنے جوانوں کے ساتھ دوڑ رہا تھا کہ اتنے میں ایک سکھ ٹینک کا ڈھکنا کھول کر باہر نکلا اور اونچی آواز سے ہمیں سرنڈر (Surrunder) کرنے کا کہا۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو کہا کہ سب اونچی آواز سے درود شریف کا ورد کرنا شروع کر دو اور بھاگتے رہو۔ اُس سوار نے دوبارہ بڑے تحکمانہ انداز میں اپنی بات کو دوہرایا۔ میرا سیکنڈ لیفٹیننٹ کہنے لگا سر! دشمن کہہ رہا ہے کہ سرنڈر کرو۔ میں نے اسے کہا کہ میں یہ بات سن چکا ہوں۔ تم صرف درود شریف پڑھتے چلے جاؤ، یہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ اگر تم میں سے کسی نے ہتھیار پھینکنے کی کوشش کی تو میں ہینڈ گرینیڈ پھینک کر تم سب کو ختم کر دوں گا۔ جب دشمن نے دیکھا کہ ہم اس کی ہدایت پر عمل نہیں کر رہے تو اس نے ایک فیلڈ سگنل کا اشارہ دیا تاکہ انفنٹری کی نفری پیچھے ہٹ جائے اور ٹینک فائر کرسکے۔ پھر ٹینک کی 30 اور 50 براؤننگ مشین گنوں نے تاڑ تاڑ فائر ہمارے اوپر کھول دیا اور یہ گولیاں ہمارے درمیان، آگے پیچھے اور اوپر نیچے بالکل اس طرح گرتی رہیں جس طرح ژالہ باری کا نقشہ بن جایا کرتا ہے۔ ادھر میں اور میرے 17,16 ساتھی درود شریف اونچی اونچی پڑھنے میں مشغول تھے۔ ہم اس مار کے علاقہ سے بفضل تعالیٰ خیر و عافیت سے نکل کر ایک اور جگہ جا کر چھپ گئے۔ اس سیکنڈ لیفٹیننٹ کی پنڈلی میں ایک گولی آن لگی مگر دوسری طرف سے نکل گئی اور وہ بھی ہمارے ساتھ ہی رہا۔
آج تک حیران ہوں کہ ان دو ٹینکوں اور ٹینک شکن توپ جو جیپ پر لگی ہوئی تھی اور دشمن کی کوئی 200 یا 250 پیدل فوج کو کس غیر مرئی طاقت نے ہمیں پکڑنے سے روکے رکھا۔ وہ کونسا نہ نظر آنے والا ہاتھ تھا جس نے اپنے پیارے حبیب ﷺ پر بھیجے جانے والے درود کے طفیل ہم کو موت، گرفتاری، قید اور ذلت سے بچا لیا۔ میرے دل و دماغ میں تو صرف یہی بات آتی ہے کہ وہ فضیلت درود شریف کی ہی برکت تھی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں