بلڈپریشر سے بچاؤ کے چند طریقے – جدید تحقیق کی روشنی میں

بلڈپریشر سے بچاؤ کے چند طریقے – جدید تحقیق کی روشنی میں
(فرخ سلطان محمود)

برطانوی سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے بلڈپریشر کو ریگولیٹ کرنے کا ایک نیاطریقہ ڈھونڈ نکالا ہے جس کے نتیجے میں فالج اور ہارٹ اٹیک سے مقابلے کے لئے نئی ادویات کی امید ظاہر ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں بلڈپریشر کے مریضوں میں جس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اس سے اندازہ ہے کہ آئندہ بیس سالوں میں دنیا بھر میں بلڈپریشر کے مریضوں کی تعداد دس کھرب سے تجاوز کرجائے گی۔ اس وقت برطانیہ کے ہر چار میں سے ایک بالغ فرد کے اس مرض کا شکار ہوسکنے کے امکانات موجود ہیں لیکن صرف چند لوگ ہی اپنے مرض کو قابو میں رکھ سکتے ہیں۔
جریدے سائنس کے مطابق لندن کے کنگز کالج میں کی گئی تحقیق میں آکسیڈیشن نام کے عمل کو بھی شامل کیا گیا جبکہ پہلے اس عمل کو فائدے سے کم اور نقصان سے زیادہ وابستہ کیا جاتا تھا۔ محققین کے نزدیک یہ درست ہے کہ ہائیڈروجن جیسے آکسیڈنٹس خلیوں کو نقصان پہنچاسکتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ خلیوں کے معمول کے کام میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ چنانچہ تمام خلیوں میں موجود ایک اہم پروٹین PKG دل کی شریانوں کے نظام میں بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں غیرمعمولی اہم کردار کی حامل ہے۔ اسی طرح خون کی شریانوں میں پیدا ہونے والا نائیٹرک ایسڈ بھی اس عمل میں اہم خیال کیا جاتا ہے۔ لیکن کنگز کالج کے سائنسدانوں نے معلوم کیا ہے کہ PKG کے ذریعے نائیٹرک ایسڈ کو آزادانہ طور پر بھی کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے پتہ لگایا ہے کہ ہائیڈروجن جیسا آکسیڈنٹس دو امینوایسڈز کو جوڑتا ہے جو PKG پروٹین کو سرگرم کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں بلڈپریشر کم ہوتا ہے۔ چنانچہ اس تحقیق کے نتیجے میں ایک نئی دوا کی ایجاد کی راہ ہموار ہوئی ہے۔
بلدپریشر کے نقصانات میں دل اور دماغ کی بیماریوں کے خطرات میں اضافہ بھی شامل ہے۔ جبکہ اس بیماری میں اضافے کی ایک وجہ علاج کا فقدان بھی بتایا گیا ہے۔ بہت سی ادویات اور مختلف طریقہ ہائے علاج کی موجودگی کے باوجود اس کا صحیح علاج بمشکل ہی دستیاب ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق موجودہ دَور میں مغربی ممالک میں اس بیماری میں مبتلا ہونے کے امکانات نوّے فیصد ہیں۔ تاہم طرز زندگی میں تبدیلی یعنی جسمانی طور پر چستی، نمک اور چکنائی سے بھرپور غذا میں کمی، نیز نشہ آور اشیاء سے نجات کے باعث اس مرض پر کافی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ چنانچہ اصل ضرورت یہی ہے کہ لوگ اس مرض سے بچنے کے لئے اپنے لائف سٹائل یعنی عمدہ خوراک اور چست زندگی کی عادت اپنائیں۔
٭ کینیڈا میں کی جانے والی ایک نئی طبی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ انڈوں کی زردی میں پایا جانے والا کولیسٹرول خون کے دبائو یعنی ہائیپرٹینشن کو کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ ’’سائنس سینٹرک‘‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انڈے کی زردی دل کے امراض کے ایک اہم سبب یعنی ہائی بلڈپریشر کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوسکتی ہے۔ چنانچہ تجربہ گاہ میں یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ انڈے کی زردی میں موجود پروٹین کے بعض اجزائ، خون کا دبائو کم کرنے والی اکثر ادویات میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انڈے اعلیٰ معیار کی پروٹین اور دوسرے صحت بخش اجزاء کے حصول کا ایک سستا ذریعہ ہیں لیکن اس خدشے کے باعث کہ ان کے استعمال سے خون میں کولیسٹرول کی سطح بڑھنے سے ہائی بلڈ پریشر اور دل کے امراض کے خطرے میں اضافہ ہوسکتا ہے، گذشتہ چالیس برسوں سے ان کا استعمال بتدریج کم ہو رہا ہے۔ جبکہ حالیہ کئی سائنسی تحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ صحت مند افراد کو انڈے کھانے سے دل کے امراض میں مبتلا ہونے کا خطرہ نہیں ہوتا۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ انسانی معدے اور چھوٹی آنت میں ہاضمے کے لئے پیدا ہونے والی رطوبتیں جب انڈوں کی زردی میں موجود مخصوص پروٹین پر عمل کرتی ہیں تو اس سے ایسے کیمیاوی اجزاء پیدا ہوتے ہیں جو خون کا دبائوکم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ انڈوں کی زر دی پر تجربہ گاہ میں کئے جانے والے کامیاب تجربات کے بعد اب ماہرین انسانوں کے بلڈپریشر پر بھی مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ شروع کرنے والے ہیں۔
٭ بلڈ پریشر کے مریضوں کو ایسی غذاؤں کے استعمال کا مشورہ دیا جاتا ہے جو پوٹاشیم سے بھرپور ہوتی ہیں۔ امریکی ماہرین نے کہا ہے کہ خربوزہ، تربوز اور سنگترہ بالخصوص پوٹاشیم سے لبریز ہوتے ہیں۔ اور ان کے علاوہ خشک خوبانی، انجیر، کیوی فروٹ، کینو، کشمش، کھجور، پھلی، آلو، ٹماٹر اور گریپ فروٹ میں بھی پوٹاشیم کی مقدار خاصی ہوتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پوٹاشیم سے لبریز غذائیں جسم میں موجود نمک کو بلڈپریشر بڑھانے سے روکتی ہیں جس سے گردوں میں پتھری بننے کا خطرہ بھی کم ہوجاتا ہے اور ممکنہ طور پر عمر میں اضافے کے ساتھ ہڈیوں کے کمزور ہونے کے امکان میں بھی بڑی حد تک کمی آجاتی ہے۔ خربوزہ بیٹا کیروٹین کی زیادتی کی وجہ سے وٹامن A کے حصول کا بہترین ذریعہ تسلیم کیا جاتا ہے جس سے آنکھوں میں موتیا اترنے کا خطرہ نمایاں طور پر کم ہوجاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خوشبودار خربوزہ یعنی Musk Melon آنکھوں کے لئے گاجر سے زیادہ مفید ہے۔ کنساس یونیورسٹی میں کی گئی تحقیق میں یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ خربوزہ کھانے سے اُن لوگوں میں پھیپھڑے کے سرطان کا خطرہ کم ہوجاتا ہے جو Passive Smoking کرتے ہیں یعنی خود تو سگریٹ نہیں پیتے البتہ دوسرے سگریٹ نوشوں کا دھواں اپنے پھیپھڑوں میں اتارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں