تذکرۂ مہدی، روایاتِ محمودؓ کی روشنی میں

(مطبوعہ انصارالدین یوکے جنوری و فروری 2020ء تا مارچ و اپریل 2021ء)

حبیب الرحمن زیروی صاحب

سیّدناحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سوانح کی نسبت حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں:
’’ایک اور بات جس کی طرف ہماری جماعت کی توجہ کی ضرورت ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے سوانح کی حفاظت ہے۔ ہمارے زمانہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے سب سامان موجود ہے۔ قلم ، دوات، سیاہی ، کاغذ، مطبع وغیرہ لیکن اگر ہم اس کام کو نہ کریں تو کیسے سخت افسوس کی بات ہے اور بعد میں آنے والے لوگ ہمیں کس نظر سے دیکھیں گے۔ نئے نئے آنے والے لوگ کیا جانتے ہیں کہ مسیح موعودؑ کیا تھے جب تک ان کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہ ہو جس سے وہ ان کا حال بہ تمام معلوم کر سکیں… پس ہمارے بہت بڑے فرائض میں سے ایک یہ بھی فرض ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے حالات اور آپ کے سوانح کو بعد میں آنے والے لوگوں کے لئے محفوظ کر دیں۔ ہمارے لئے آنحضرت ؐ کا اسوہ حسنہ اور پھر (آپؐ کے عاشق صادق) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کااسوہ حسنہ نہایت ضروری ہے۔ اس لئے حضرت مسیح موعود ؑ کے سوانح لکھنے نہایت ضروری ہیں۔ پس جس کسی کو آپ کا کوئی واقعہ کسی قسم کا یاد ہو وہ لکھ کر میرے نام بھیج دے۔ یہ ہمارے ذمہ بہت بڑا کام ہے جس کو ہم نے کرنا ہے۔ میں نے ایک آدمی کو لوگوں سے حالات دریافت کر کے لکھنے کے لئے مقرر کیا ہے اور وہ لکھ رہا ہے۔ تم میں سے بھی جس کو کوئی واقعہ یاد آئے وہ لکھ کر بھیج دے تاکہ کُل واقعات ایک جگہ جمع کر کے چھاپ دیے جائیں اور ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جائیں۔ آج بہت سے لوگ حضرت مسیح موعود ؑ کے دیکھنے والے اور آپ کی صحبت میں بیٹھنے والے موجود ہیں اور ان سے بہت سے واقعات معلوم ہو سکتے ہیں مگر جوں جوں یہ لوگ کم ہوتے جائیں گے۔ آپؐ کی زندگی کے حالات کا معلوم کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اس لئے جہاں تک ہو سکے بہت جلد اس کام کو پورا کرنا چاہیے۔‘‘ (برکات خلافت انوار العلوم جلد دوم صفحہ225-226)

محترم مہاشہ فضل حسین صاحب، جن کے سپرد یہ کام ابتدا میں ہوا، تحریر فرماتے ہیں:
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق روایات جمع کرنے کا کام کئی سال سے حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدّہ اللہ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے ماتحت نظارت تالیف و تصنیف قادیان کے زیراہتمام ہو رہا ہے۔ کچھ مدت گزری کہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ناظر تالیف و تصنیف کے ارشاد پر جب میں نے اس کام کا چارج لیا۔ …میں نے رجسٹرہذا کو کھولا تو سب سے پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا نام نامی نظر آیا کہ جن سے ابھی تک کوئی روایات دفتر حاصل نہیں کر سکا۔ … ایک تجویز ذہن میں آئی اور بندہ اسی وقت اپنے مخدوم و محسن حضرت صاحبزادہ میرزا شریف احمد ؐ صاحب ناظر تالیف و تصنیف کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ خاکسار کو چارج میں یہ رجسٹر بھی ملا ہے اور اس کے ساتھ ہی مجھے کہا گیا ہے کہ اس میں جن ناموں کے آگے خانے خالی ہیں۔ ان سے روایات کیلئے درخواست کروں۔ مگر اس میں سب سے اول حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا ہی اسم گرامی لکھا ہے۔ … چونکہ حضور کی روایات کا حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ اس لئے میرے ذہن میں ایک تجویز آئی ہے۔ اگر آنمخدوم پسند کریں اور منظوری عطا فرمائیں تو رجسٹر ہذا کا خانہ اوّل پُر ہوسکتا ہے۔ اور وہ تجویز یہ ہے کہ چونکہ حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز ابتداء زمانۂ خلافت سے اپنے خطبوں ، لیکچروں ، تقریروں اور زبانی گفتگوئوں میں اور بعض کتابوں میں مختلف امور اور مسائل پر اظہار خیالات فرماتے ہوئے ضمناً … زمانہ حضرت اقدس ؑ کے متعلق بہت سے واقعات بیان فرماتے رہے ہیں۔ اگر وہ جمع کر لئے جائیں تو اس طرح ایک اچھا خاصا ذخیرۂ روایات جمع ہو سکتا ہے … ایک نادر اوروقیع ذخیرہ جمع ہو جائے گا۔ چنانچہ حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف نے خاکسار کی اس تجویز کو پسند فرماتے ہوئے منظوری دیدی۔‘‘
(الحکم سیرت مسیح موعودؑ نمبر مورخہ 28/21 مئی و 14/7 جون 1943ء صفحہ 2-3 جلد 47 نمبر 19 تا 22)
محترم مہاشہ فضل حسین صاحب نے یہ کام بہت محنت سے شروع تو کیا لیکن مکمل نہ کر سکے ۔ دوسرے اس وقت خطبات محمود اور انوارالعلوم کی جلدوں کی جو سہولت اب میسر ہے وہ اُس وقت نہ تھی۔ خاکسار نے ان روایات کو الحکم قادیان، البدر قادیان، الفضل، خطبات محمود ،انوار العلوم اور تفسیر کبیر سے اکٹھا کیا ہے۔ درج ذیل تمام روایات سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کے الفاظ میں ہی ہدیۂ قارئین ہیں:
صحابہؓ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات جمع کئے جائیں
’’ایک بات جس کی طرف مَیں نے اِس سال جماعت کو خصوصیت سے توجہ دلائی ہے اور وہ اتنی اہم ہے کہ جتنی بار اس کی اہمیت کی طرف جماعت کو متوجہ کیا جائے کم ہے یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حالات اور آپ کے کلمات صحابہؓ سے جمع کرائے جائیں۔ ہر شخص جسے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی ایک چھوٹی سے چھوٹی بات بھی یاد ہو اُس کا اس بات کو چُھپا کر رکھنا اور دوسرے کو نہ بتانا یہ ایک قومی خیانت ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض باتیں چھوٹی ہوتی ہیں مگر کئی چھوٹی باتیں نتائج کے لحاظ سے بہت اہم ہوتی ہیں۔ اب یہ کتنی چھوٹی بات ہے جو حدیثوں میں آتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک دفعہ کدّو پکا تو آپ نے شوق سے شوربہ میں سے کدّو کے ٹکڑے نکال نکال کر کھانے شروع کر دیے یہاں تک کہ شوربہ میں کدّو کا کوئی ٹکڑا نہ رہا اور آپ نے فرمایا کدّو بڑی اعلیٰ چیز ہے۔ اب بظاہر یہ کتنی چھوٹی سی بات ہے۔ ممکن ہے کئی احمدی بھی سُن کر کہہ دیں کہ کدّو کے ذکر کی کیا ضرورت تھی؟ مگر اس چھوٹی سی بات سے اسلام کو کتنا بڑا فائدہ پہنچا۔ ہم آج اپنے زمانہ میں ان خرابیوں کا اندازہ نہیں کر سکتے جو مسلمانوں میں رائج ہوئیں مگرایک زمانہ اسلام پر ایسا آیا ہے جب ہندو تمدّن نے مسلمانوں پر اثر ڈالا اور اس اثر کی وجہ سے وہ اس خیال میں مبتلا ہو گئے کہ نیک لوگ وہ ہوتے ہیں جو گندی چیزیں کھائیں اور جب بھی وہ کسی کو عُمدہ کھانا کھاتے دیکھتے کہتے یہ بزرگ کس طرح کہلا سکتا ہے جب یہ ایسا عمدہ کھانا کھا رہا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ ایک دفعہ مسجد اقصیٰ میں درس دے کر واپس اپنے گھر تشریف لے جا رہے تھے کہ جب آپ وہاں پہنچے جہاں آج کل نظارتوں کے دفاتر ہیں تو یہاں ایک ڈپٹی صاحب ہوا کرتے تھے جو ریٹائرڈ تھے اور ہندو تھے۔ انہوں نے کسی سے سُن لیا تھا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پلائو کھاتے اور بادام روغن استعمال کرتے ہیں۔ وہ اُس وقت اپنے مکان کے باہر بیٹھا تھا۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ کو دیکھ کر کہنے لگا مولوی صاحب! ایک بات پوچھنی ہے۔ فرمانے لگے: کیا؟ وہ کہنے لگا جی بادام روغن اور پلائو کھانا جائز ہے؟ حضرت خلیفۂ اوّل نے فرمایا: ہمارے مذہب میں یہ چیزیں کھانی جائز ہیں۔ وہ کہنے لگا جی فقراں نوں بھی جائز ہے؟ یعنی جو بزرگ ہوتے ہیں کیا ان کے لئے بھی ان چیزوں کا کھانا جائز ہے۔ آپ فرمانے لگے: ہمارے مذہب میں فقروں کے لئے بھی یہ چیزیں جائز ہیں۔ وہ کہنے لگا اچھا جی! اور یہ کہہ کر خاموش ہو گیا۔ اب دیکھو اس شخص کو بڑا اعتراض یہی سُوجھا کہ حضرت مرزا صاحب مسیح اور مہدی کس طرح ہو سکتے ہیں جب وہ پلائو کھاتے اور بادام روغن استعمال کرتے ہیں۔ اگر صحابہؓ کا بھی ویسا ہی علمی مذاق ہوتا جیسے آج کل احمدیوں کا ہے اور وہ کدّو کا ذکر حدیثوں میں نہ کرتے تو کتنی اہم بات ہاتھ سے جاتی رہتی۔ حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ جمعہ کے دن اچھا سا جُبّہ پہن کر مسجد میں آئے۔ اب اگر کوئی شخص ایسا پیدا ہو جو یہ کہے کہ اچھے کپڑے نہ پہننا فقروں کی علامت ہے تو ہم اُسے اِس حدیث کا حوالہ دے کر بتا سکتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن نہایت تعہّد سے صفائی کرتے اور اعلیٰ اورعمدہ لباس زیبِ تن فرماتے بلکہ آپ صفائی کا اتنا تعہّد رکھتے کہ بعض صوفیا نے جیسے شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلویؒ گزرے ہیں یہ طریق اختیار کیا ہؤا تھا کہ وہ ہر روز نیا جوڑا کپڑوں کا پہنتے خواہ وہ دُھلا ہؤا ہوتا اور خواہ بالکل نیا ہوتا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی طبیعت میں چونکہ بہت سادگی تھی اور کام کی کثرت بھی رہتی تھی اس لئے بعض دفعہ جمعہ کے دن آپ کپڑے بدلنا یا غسل کرنا بُھول جاتے تھے اور اُنہیں کپڑوں میں جو آپؓ نے پہنے ہوئے ہوتے تھے جمعہ پڑھنے چلے جاتے تھے۔ میں نے جب آپؓ سے بخاری پڑھنی شروع کی تو ایک دن جب کہ مَیں بخاری لئے آپ کی طرف جا رہا تھا مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھ لیا اور فرمایا کہاں جاتے ہو؟ میں نے عرض کیا مولوی صاحب سے بخاری پڑھنے جا رہا ہوں۔ آپ نے فرمایا ایک سوال میری طرف سے بھی مولوی صاحب سے کر دینا اور پوچھنا کہ کہیں بخاری میں یہ بھی آیا ہے کہ جمعہ کے دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غسل فرماتے اور نئے کپڑے پہنتے تھے؟ لیکن اب ہمارے زمانہ میں صوفیت کے یہ معنے کر لئے گئے ہیں کہ انسان پراگندہ رہے۔ گویا اگر اُس کا وزن بنایا جائے تو یوں بنے گا کہ جتنا پراگندہ اُتنا ہی خدا کا بندہ۔ حالانکہ انسان جتنا گندہ ہو اُتنا ہی خدا تعالیٰ سے دُور ہوتا ہے۔ اسی لئے ہماری شریعت نے بہت سے مواقع پر غسل واجب کیا ہے اور خوشبو لگانے کی ہدایت کی ہے اور بدبودار چیزیں کھاکر مجالس میں آنے کی ممانعت کی ہے۔
غرض رسول کریم ﷺ کے حالات زندگی سے دنیا فائدہ اُٹھاتی چلی آئی اور اٹھاتی چلی جائے گی۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے حالات سے بھی دنیا فائدہ اُٹھائے گی اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کو جمع کر دیں۔ ایک نوجوان نے مجھے بتایا کہ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا صحابی ہوں مگر مجھے سوائے اس کے اَور کوئی بات یاد نہیں کہ ایک دن جبکہ مَیں چھوٹا سا تھا میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہاتھ پکڑ لیا اور آپ سے مصافحہ کیا اور تھوڑی دیر تک میں آپؑ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لئے برابر کھڑا رہا۔ کچھ دیر کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہاتھ چُھڑا کر کسی اور کام میں مشغول ہو گئے۔ اب بظاہر یہ ایک چھوٹی سی بات ہے مگر بعدمیں انہی چھوٹے چھوٹے واقعات سے بڑے بڑے اہم نتائج اخذ کیے جائیں گے۔ مثلاً یہی واقعہ لے لو اِس سے ایک بات تو یہ ثابت ہوگی کہ چھوٹے بچوں کو بھی بزرگوں کی مجالس میں لانا چاہیے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں لوگ اپنے بچوں کو بھی آپؑ کی مجلس میں لاتے۔ ممکن ہے آئندہ کسی زمانہ میں ایسے لوگ بھی پیدا ہو جائیں جو کہیں کہ بچوں کو بزرگوں کی مجالس میں لانے کا کیا فائدہ ہے؟ ان مجالس میں بڑوں کو شامل ہونا چاہیے کیونکہ جب فلسفہ آتا ہے تو ایسی بہت سی باتیں پیدا ہو جاتی ہیں اور یہ کہنا شروع کر دیا جاتا ہے کہ بچوں نے کیا کرنا ہے؟ پس جب بھی ایسا خیال پیدا ہوگا یہ روایت ان کے خیال کو باطل کر دے گی اور پھر اس کی مزید تائید اس طرح ہو جائے گی کہ حدیثوں میں لکھا ہوا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی مجلس میں بھی صحابہؓ اپنے بچوں کو لاتے تھے۔ اسی طرح اس روایت سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جب کوئی کام ہو تو اپنا ہاتھ چُھڑا کر کام میں مشغول ہو جانا چاہیے کیونکہ اس میں یہ ذکر ہے کہ جب اس بچے نے آپ کا ہاتھ پکڑا اور تھوڑی دیر تک پکڑے رکھا تو آپ نے اپنا ہاتھ کھینچ کر الگ کر لیا۔ آج یہ بات معمولی دکھائی دیتی ہے لیکن ممکن ہے کسی زمانہ میں لوگ سمجھنے لگ جائیں کہ بزرگ وہ ہوتاہے جس کا ہاتھ اگر کوئی پکڑے تو پھر وہ چُھڑائے نہیں بلکہ جب تک دوسرا اپنے ہاتھ میں اس کا ہاتھ لئے رکھے وہ خاموش کھڑا رہے۔ ایسے زمانہ میں یہ روایت لوگوںکے خیالات کی تردیدکر سکتی ہے اور بتا سکتی ہے کہ یہ لغو کام ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنا ہاتھ کھینچ لیا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی کام کرنا ہو تو محبت سے دوسرے کا ہاتھ الگ کر دینا چاہیے۔ تو اس قسم کے کئی مسائل ہیں جو ان روایات سے پیدا ہو سکتے ہیں۔ آج ہم ان باتوں کی اہمیت نہیں سمجھتے مگر جب احمدی فقہ، احمدی تصوّف اور احمدی فلسفہ بنے گا تو اُس وقت یہ معمولی نظر آنے والی باتیں اہم حوالے قرار پائیں گی اور بڑے بڑے فلسفی جب ان واقعات کو پڑھیں گے تو کُود پڑیں گے اور کہیں گے خدا اِس روایت کو بیان کرنے والے کو جزائے خیر دے کہ اس نے ہماری ایک پیچیدہ گُتھی سُلجھا دی۔
یہ ایسا ہی واقعہ ہے جیسے اب ہم حدیثوں میں پڑھتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ ایک دفعہ سجدہ میں گئے تو حضرت حسنؓ جو اُس وقت چھوٹے بچے تھے آپ کی گردن پر لاتیں لٹکا کر بیٹھ گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت تک سر نہ اُٹھایا جب تک کہ وہ خود بخود الگ نہ ہو گئے۔ اب اگر کوئی اس قسم کی حرکت کرے تو ممکن ہے بعض لوگ اُسے بے دین قرار دے دیں اور کہیں کہ اسے خدا کی عبادت کا خیال نہیں اپنے بچے کے احساسات کا خیال ہے؟ مگر ایسا شخص جب بھی یہ واقعہ پڑھے گا اُسے تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس کاخیال غلط ہے اور وہ چُپ کر جائے گا۔ گو ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو پھر بھی خاموش نہ رہ سکیں۔ چنانچہ ایک پٹھان کے متعلق کہتے ہیں کہ اُس نے قدوری میں یہ پڑھا کہ حرکتِ صغیرہ سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ اس کے بعد وہ حدیث پڑھنے لگا تو اس میں ایک حدیث یہ آ گئی کہ رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ جب نماز پڑھی تو اپنے ایک بچہ کو اُٹھا لیا۔ جب رکوع اور سجدہ میں جاتے تو اُسے اُتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے توپھر اُٹھا لیتے۔ وہ یہ حدیث پڑھتے ہی کہنے لگا خوہ! محمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا، قدوری میں لکھا ہے کہ حرکتِ صغیرہ سے نماز ٹوٹ جاتا ہے۔ گویا شریعت بنانے والا کنز یا قدوری کا مصنّف تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں تھے۔ تو ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو باوجود واضح مسئلہ کے اُسے ماننے سے انکار کر دیں مگر ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔ پس اس بات کی ہرگز پروا نہیںکرنی چاہیے کہ تمہیں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی جس بات کا علم ہے وہ چھوٹی سی ہے بلکہ خواہ کس قدر چھوٹی بات ہو بتا دینی چاہیے۔ خواہ اتنی ہی بات ہو کہ میں نے دیکھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام چلتے چلتے گھاس پر بیٹھ گئے کیونکہ ان باتوں سے بھی بعد میں اہم نتائج اخذ کئے جائیں گے۔
مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک دفعہ بعض دوستوں سمیت باغ میں گئے اور آپ نے فرمایا آئو بیدانہ کھائیں۔ چنانچہ بعض دوستوں نے چادر بچھائی اور آپ نے درخت جھڑوائے اور پھر سب ایک جگہ بیٹھ گئے اور انہوں نے بیدانہ کھایا۔ اب کئی لوگ بعد میں ایسے آئیں گے جو کہیں گے کہ نیکی اور تصوّف یہی ہے کہ طیب چیزیں نہ کھائی جائیں۔ ایسے آدمیوں کو ہم بتا سکتے ہیں کہ تمہاری یہ بات بالکل غلط ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو بیدانہ جھڑوا کر کھایا تھا۔ یا بعد میں جب بڑے بڑے متکبر حاکم آئیں گے اور وہ دوسروں کے ساتھ اکٹھے بیٹھ کر کچھ کھانے میں ہتک محسوس کریں گے تو ان کے سامنے ہم یہ پیش کر سکیں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو بے تکلّفی کے ساتھ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر کھایا پیا کرتے تھے۔ تم کون ہو جو اس میں اپنی ہتک محسوس کرتے ہو۔ تو بعض باتیں گو چھوٹی ہوتی ہیں مگر ان سے آئندہ زمانوں میں بڑے اہم مذہبی سیاسی اور تمدّنی مسائل حل ہوتے ہیں۔ پس جن دوستوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شکل دیکھنے یا آپ کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملا ہو انہیں چاہیے کہ وہ ہر بات خواہ چھوٹی ہو یا بڑی، لکھ کر محفوظ کر دیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص ایسا ہے جسے محض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لباس کی طرز یاد ہے تو وہ بھی لکھ کر بھیج دے اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ اگر آئندہ کسی زمانہ میں ایسے لوگ پیدا ہو جائیں جو کہیں کہ ننگے سر رہنا چاہیے تو ان کے خیالات کا ازالہ ہو سکے۔
اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ رسول کریم ﷺ کی حدیثیں موجود ہیں اور آپ ہی شارع نبی ہیں مگر اس میں بھی کوئی شُبہ نہیں کہ قریب کے مامور کی باتیں شارع نبی کی باتوں کی مُصدّق سمجھی جاتی ہیں۔ آج کل یہ کہا جاتا ہے کہ جن فقہ کی باتوں پر امام ابوحنیفہؒ نے عمل کیا ہے وہ زیادہ صحیح ہیں۔ اسی طرح آئندہ زمانہ میں رسول کریم ﷺ کی جن حدیثوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے عمل سے سچا قرار دیا ہے اُنہی کو لوگ سچی حدیثیں سمجھیں گے اور جن حدیثوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وضعی قرار دیا ہے ان حدیثوں کو لوگ بھی جھوٹا سمجھیں گے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ باتیں بھی ایسی ہی اہم ہیں جیسے حدیثیں کیونکہ یہ باتیں حدیثوں کا صِدق یا کذب معلوم کرنے کا ایک معیار ہوں گی۔ پس چھوٹی سے چھوٹی روایت بھی اگر کسی دوست کو معلوم ہو تو وہ اُسے بتانی چاہیے۔ اسی طرح مرکزی محکمہ کو اِس بات کا انتظام کرنا چاہیے کہ وہ یہ معلوم کرے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہؓ کہاں کہاں ہیں اور ان سے چھوٹی سے چھوٹی بات جمع کی جائے۔ ان روایات میں بے شک بعض ایسی باتیں بھی ہو سکتی ہیں جنہیں موجودہ وقت میں شائع کرنا مناسب نہ ہو مگر انہیں بھی بہرحال محفوظ کر لیا جائے اور بعد میں جب مناسب موقع ہو انہیں شائع کر دیا جائے۔ مثلاً حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ الہام ہؤا تھاکہ

سلطنتِ برطانیہ تا ہشت سال
بعد ازاں ایامِ ضُعف و اختلال

مگر یہ الہام اُس وقت شائع نہ کیا گیا بلکہ ایک عرصہ کے بعد شائع کیا گیا۔ ایسے واقعات کو ریکارڈ میں لے آیا جائے مگر شائع اُس وقت کیا جائے جب خطرے کا وقت گذر جائے۔ پس صحابہؓ کو چاہیے کہ وہ اِس قسم کے تمام واقعات اور حالات لکھ کر بھیج دیں یا اِس موضوع پر لیکچر کر کے دوسروں کو حالات بتا دیں۔ میں سمجھتا ہوں اب بھی وقت ہے کہ اِس کام کو مکمل کیا جائے۔ جو دوست اس کام میں حصہ لے سکیں انہیں اس ثواب سے محروم نہیں رہنا چاہیے اور جیسا کہ بتایا ہے دوست اس میں اس طرح شامل ہو سکتے ہیں کہ :
(۱) مرکزی محکمہ اس بات کاانتظام کرے۔
(۲) صحابہؓ ناظر تعلیم کو حالات لکھ کر بھجوا دیں یا یہاں اپنے حالات پر لیکچر دیں۔
(۳) تیسرے وہ دوست جو صحابی نہیں اُن صحابہؓ سے پوچھ پوچھ کراور کُرید کُرید کر حالات دریافت کریں اور خود وہ حالات لکھ کر مرکز میں بھجوا دیں۔ مثلاً یہ کہ آپؑ کا کھانا کیسا تھا؟آپؑ کا پینا کیسا تھا؟ آپؑ کا لباس کیسا تھا؟ آپؑ کی گفتگو کیسی تھی؟ آپؑ کا چلنا کیسا تھا؟ غرض یہ تمام باتیں ان سے پوچھ پوچھ کر خود لکھتے جائیں اور یہاں بھجواتے جائیں۔ اس طرح وہ بھی راوی بن جائیں گے اور انہیں بہت کچھ ثواب حاصل ہوگا۔ امام بخاریؒ کی آج دنیا میں کتنی بڑی عزت ہے مگر یہ عزت اسی لئے ہے کہ انہوں نے دوسروں سے روایات جمع کیں۔ پس جو صحابہؓ اَنۡ پڑھ ہیں یا جنہیں فُرصت نہیں اُن سے مل کر اور دریافت کر کے اگر تم حالات لکھتے چلے جائو تو کسی زمانہ میں تمہاری بھی ایسی ہی عزت و عظمت ہونے لگ جائے گی جس طرح آج ثعبان ثوری ؒوغیرہ کی ہوتی ہے اور لوگ تم پر درود اور سلام بھیجیں گے اور کہیں گے اللہ تعالیٰ فلاں کو جزائے خیر دے کہ اس نے اتنی قیمتی بات ہم تک پہنچا دی۔
میں نے دیکھا ہے کہ قدرتی طور پر ایسے مواقع پر از خود دعا کے لئے جوش پیدا ہوتا ہے۔ کل ہی کلیدِ قرآن سے میں ایک حوالہ نکالنے لگا تو مجھے خیال پیدا ہؤا کہ یہ آیت دیر سے ملے گی مگر اس کلیدِ قرآن سے مجھے فوراً آیت مل گئی۔ اس پر میں نے دیکھا کہ دو تین منٹ نہایت خلوص سے مَیں اس کے مُرتّب کیلئے دعا کرتا رہا کہ اللہ تعالیٰ اس کے مدارج بلند کرے کہ اُس کی محنت کی وجہ سے آج مجھے یہ آیت اتنی جلدی مل گئی۔ تو اب اگر لوگوں کے لئے صحابی بننے کا موقع نہیں تو کم از کم وہ تابعی ہی بن جائیں تا آئندہ جب لوگ ان کی روایات پڑھیں تو کہیں اللہ تعالیٰ فلاں پر رحم کرے کہ اس نے ہمارے لئے ان باتوں کو محفوظ کر دیا۔
(۴) اور جو اتنا کام بھی نہ کر سکتے ہوں وہ کم از کم یہ کریں کہ جن لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کبھی بھی صحبت اُٹھائی ہو اُن صحابہؓ کے پتوں سے دفتر کو اطلاع دے دیں۔ اگر انہیں علم ہو کہ فلاں شخص صحابیؓ ہے اور وہ ابھی فلاں جگہ زندہ موجود ہے ہمیں اطلاع دے دیں اور لکھ دیں کہ ہم تو سُست ہیں اور اُس کے پاس پہنچ کر حالات جمع کرنے سے قاصر، آپ اگر چاہیںتو اُن سے حالات پوچھ لیویں۔ اس پر ہم خود اُن سے حالات دریافت کرنے کی کوشش کریں گے۔
اس کے ساتھ ہی مرکزی دفتر کو بھی یہ کوشش کرنی چاہیے کہ جو حالات اور واقعات اس کے پاس جمع ہوں وہ ضائع نہ ہوں۔ ان کی حفاظت کا خاص انتظام ہو۔ پچھلے سالوں میں یہاں ذکرِ حبیب پر جلسے ہوتے رہے ہیں مگر ان جلسوں میں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے جو حالات بیان کیے گئے ہیں غالباً وہ بھی محفوظ نہیں۔ ہمارا ہرسال تین لاکھ کا بجٹ تیار ہوتا ہے مگر تالیف و تصنیف کا محکمہ اس میں پندرہ روپیہ کا کلرک نہیں رکھ سکتا جس کا کام محض یہ ہو کہ وہ ان واقعات کو محفوظ رکھے اور جیسے پُرانے زمانہ میں کتابوں کی نقلیں کی جایا کرتی تھیں اسی طرح تمام واقعات کی پانچ سات نقلیں کر کے ہر نسخہ ایک ایک دفتر میں محفوظ کر دیا جائے اور پھر ایسے واقعات کو ساتھ ساتھ اخبارات میں بھی شائع کرانے کی کوشش کی جائے تا کہ جلد سے جلد یہ ریکارڈ میں آ جائیں اور ایک ایک واقعہ کی ہزاروں کاپیاں ہوجائیں۔ کوئی ایک اخبار یا رسالہ اس کے لئے مخصوص نہ کیا جائے۔ ‘‘
(مصری صاحب کے خلافت سے انحراف کے متعلق تقریر، انوارالعلوم جلد14 صفحہ552تا558)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے ابتدائی حالات

فہرست مضامین show
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام

’’آپؑ کے شیرہونے کی علامت روزانہ الفضل میں شائع ہوتی ہے کہ آج اتنے احمدی ہوئے آج اتنے ہوئے۔ دنیا میں کوئی ایسا شیر نہیں جو تین چار سو سے زیادہ شکار سال میں کر سکتا ہو مگرحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہر سال چار پانچ سو آدمیوں کو ان لوگوں سے چھین لیتے ہیں اور ایسے وقت میں لاتے ہیں جب آپ فوت ہو چکے ہیں۔ ہم تو ان باتوں کی پروا نہیں کرتے اور ہمیں یقین ہے کہ خود ان میں سے شریف طبقہ بھی اس کی تردید کرے گا۔ انہیں خود سوچنا چاہیے کہ اگر ان گالیوں کا دسواں حصہ بھی ان کے گروؤں کے متعلق استعمال کیا جائے تو ان کی کیا حالت ہو گی۔ ان کو غصہ آئے گا یا نہیں؟ اگر وہ اپنے بزرگوں کی عزت کرانا چاہتے ہیں تو ان کو چاہئے کہ دوسروں کے بزرگوں کی بھی عزت کریں۔
بعض تقریروں میں کہا گیا ہے کہ ہمارا خاندان اس علاقہ کا قاضی تھا اور مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب نے ہمارے دادا کو جائیداد دی تھی۔ ممکن ہے یہ کہنے والا باہر سے آیا ہو، مگر اس علاقہ کے بڑے بوڑھوں سے دریافت کرو کہ ہمارا خاندان قاضی تھا یا حاکم ۔ اگر ہمارے بزرگ ملوانے تھے تو کیا سکھوں کی چارمسلیں اکٹھی ہو کر ملانوں سے مقابلہ کے لئے آئی تھیں، سکھوں کی کل مسلیں پندرہ سولہ تھیں جن میں سے چار نے مل کر قادیان پر حملہ کیا تھا اور اب بھی بسراواں میں قلعوں وغیرہ کے نشانات ہیں جن پر توپیں وغیرہ نصب کی گئی تھیں۔ کیا یہ چار پانچ مسلیں مل کر کسی مسجد کے امام یا مُلّا سے مقابلے کیلئے آئی تھیں؟ ہمارا خاندان خدا تعالیٰ کے فضل سے پہلے سے اس علاقہ کا حاکم تھا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب کا زمانہ تو بعد کا ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی ہتک کی ہے۔ مگر یہ بات بھی بالکل غلط ہے۔ میں نے سکھ تاریخ پوری طرح نہیں پڑھی۔ مگر میرے دل میں مہاراجہ صاحب کی عزت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ان کی تعریف سنی ہے۔ جن سکھوںکے خلاف آپ نے لکھا ہے وہ طوائف الملوکی کے زمانہ کے تھے اور ایسے زمانہ کو ہر قوم بُرا کہتی ہے اور خود سکھ بھی بُرا سمجھتے ہیں۔ مگر جب مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب نے ایک منظم حکومت قائم کرلی تو اس زمانہ کی میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تعریف ہی سنی ہے اور اسی وجہ سے میرے دل میں ان کی عزت ہے۔ انہوں نے ایک معمولی زمیندار کا فرزند ہو کر ایسی عقلمندی دکھائی کہ پنجاب میں ایک منظم حکومت قائم کر دی۔ پس یہ بالکل غلط ہے کہ ہم ان کی ہتک کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے کہ مہاراجہ صاحب نے یہ گائوں واپس کیا۔ پس جن کو برا کہا گیا ہے وہ طوائف الملوکی کے زمانہ کے سکھ ہیں۔ بے شک مہاراجہ صاحب نے یہ گائوں واپس کیا ہے۔ لیکن ہمارے خاندان نے بھی ہمیشہ ان کے خاندان سے وفاداری کی۔ جب انگریزوں سے لڑائیاں ہوئیں تو بعض بڑے بڑے سکھ سرداروں نے روپے لے لے کر علاقے انگریزوں کے حوالے کر دیے اور یہی وجہ ہے کہ آج ان کی جاگیریں موجود ہیں۔ یہاں سے پندرہ بیس میل کے فاصلہ پر سکھوں کا ایک گائوں بھاگووال ہے وہاں سکھ سردار ہیں مگر وہ بھی انگریزوں سے مل گئے تھے۔ تو اس وقت بڑے بڑے سکھ خاندانوں نے بھی انگریزوں کا ساتھ دیا اور مہاراجہ کے خاندان سے غداری کی۔ مگر ہمارے دادا صاحب نے کہا کہ میںنے اس خاندان کا نمک کھایا ہے اس سے غداری نہیں کرسکتا۔ کیا وجہ ہے کہ سکھ زمینداروں کی جاگیریں تو قائم ہیں مگر ہماری چھین لی گئیں۔ اسی غصہ میں انگریزوں نے ہماری جائیداد چھین لی تھی کہ ہمارے دادا صاحب نے سکھوں کے خلاف ان کا ساتھ نہ دیا تھا۔ تاریخ سے یہ امر ثابت ہے کہ مہاراجہ صاحب نے سات گائوں واپس کیے تھے۔ پھر وہ کہاں گئے؟ وہ اسی وجہ سے انگریزوں نے ضبط کر لیے کہ ہمارے دادا صاحب نے ان کا ساتھ نہ دیا تھا۔ اور کہا تھا کہ ہم نے مہاراجہ صاحب کی نوکری کی ہے۔ ان کے خاندان سے غداری نہیں کر سکتے۔ بھاگووال کے ایک اسّی پچاسی سالہ بوڑھے سکھ کپتان نے مجھے سنایا کہ میرے دادا سناتے تھے کہ ان کو خود سکھ حکومت کے وزیر نے بلا کر کہا کہ انگریز طاقتور ہیں ان کے ساتھ صلح کر لو۔ خواہ مخواہ اپنے آدمی مت مروائو۔ مگر ہمارے دادا صاحب نے مہاراجہ صاحب کے خاندان سے بے وفائی نہ کی اور اسی وجہ سے انگریزوں نے ہماری جائیداد ضبط کر لی۔ بعد میں جو کچھ ملا مقدمات سے ملا۔ مگر کیا ملا قادیان کی کچھ زمین دے دی گئی۔ باقی بھینی ، ننگل اور کھارا، مالکانِ اعلیٰ کا قرار دے دیا گیا۔ مگر یہ ملکیت اعلیٰ سوائے کاغذ چاٹنے کے کیا ہے۔ یہ برائے نام ملکیت ہے جو اشک شوئی کے طور پر دی گئی اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے دادا صاحب نے غداری پسند نہ کی۔ ہاں جب انگریزوں کی حکومت قائم ہو گئی تو پھر ان سے وفاداری کی ہے۔ پس یہ تعریف کے قابل بات تھی۔ سکھ لیکچراروں کو کہنا چاہیے تھا کہ ہمارے دادا صاحب نے مسلمان ہونے کے باوجود سکھوںسے غداری نہیں کی۔ مگر کہا یہ گیا کہ وہ گھاس منہ میں لے کر مہاراجہ صاحب کے پاس پہنچے کہ کچھ دیا جائے۔ یہ کہنے والے کو معلوم نہیں کہ ہمارے پاس آج تک وہ تحریر موجود ہے جو شاہ فرخ سیر نے ہمارے دادا صاحب کو لکھی ہے۔ اور اس میں ان کو عضد الدولہ کا خطاب اور سات ہزار فوج رکھنے کا حق دیا گیا ہے۔ اگر ہماری جاگیر مہاراجہ صاحب کی دی ہوئی ہے تو ان سے بہت پہلے یہ مناصب کیونکر حاصل ہو گئے۔ فرخ سیر تو اورنگزیب سے قریبی زمانہ میں گزرے ہیں۔ پس ایسی باتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا کرتا۔ سینکڑوں لوگ ابھی تک اس علاقہ میں ایسے موجود ہیں۔ جنہوں نے اپنے باپ داداؤں سے سنا ہو گا کہ ہمارا خاندان یہاں مُلّاں تھا یا حاکم۔ تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ جب ملتان کے صوبہ نے بغاوت کی تو ہمارے تایا صاحب نے ٹوانوں کے ساتھ مل کر اسے فرو کیا تھا اور اسی وقت سے ٹوانوں اورنون خاندان کے ساتھ ہمارے تعلقات چلے آتے ہیں۔ پس جہاں تک شرافت کا سوال ہے ہمارے خاندان نے سکھ حکومت کے ساتھ نہایت دیانتداری کا برتائو کیا اور اس کی سزا کے طور پر انگریزوں نے ہماری جائیداد ضبط کر لی ورنہ سری گوبندپور کے پاس اب تک ایک گائوں موجود ہے جس کا نام ہی مغلاں ہے اور وہاں تک ہماری حکومت کی سرحد تھی اور اس علاقہ کے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہاں تک ہماری حکومت تھی اور یہ مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب سے پہلے کی بات ہے۔ آج اگر گالیاں دی جائیں تو اس سے کچھ نہیں بنتا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہم اس علاقہ کے حاکم تھے اور سکھوں کا قادیان پر حملہ کرنا ہی بتاتا ہے کہ یہاں حکومت تھی۔ ہمارے دادا صاحب کپورتھلہ کی ریاست میں چلے گئے۔ تو مہاراجہ کپورتھلہ نے ان کو دو گائوں پیش کیے۔ گو انہوں نے لئے نہیں مگر کیا ایسے تحفے مُلّانوں کو پیش کیے جاتے ہیں؟ اسی احراری مُلّاں سے پوچھو کہ آج بھی وہاں کسی مُلّانے کو دو گاؤں پیش کئے جا سکتے ہیں؟ عنایت اللہ صاحب خود مُلّاں ہیں اور قاضی بھی کہلاتے ہیں۔ پھر ان کا دعویٰ ہے کہ ان کا سارے علاقے پر رُعب ہے۔ وہ خود وہاں چلے جائیں اور دیکھ لیں کہ مہاراجہ کپورتھلہ ان کو دو گاؤں پیش کرتے ہیں۔ اگر وہ اس طرح مُلّانوں کو دودو گاؤں دینے لگیں تو دو سال میں ان کی ریاست ختم ہوجائے گی۔ زیادہ سے زیادہ 3، 4 سو گاؤں اس ریاست میں ہوں گے اور اگر وہ دو دو گاؤں تقسیم کرنے لگیں تو دو سو روز میں ان کی ریاست ختم ہو جائے۔ پس ایسی باتوں سے جو تاریخ اور عقل کے خلاف ہوں، کچھ فائدہ نہیں۔ بات وہ کرنی چاہیے جو تاریخ اور عقل دونوں کے مطابق ہو اور جس سے امن پیدا ہوتا ہو۔ ہم ایک ہی جگہ کے رہنے والے ہیں اس لئے ہمارے درمیان فساد والی باتیں نہیں ہونی چاہئیں۔ کسی کا یہ خیال کرنا کہ احمدی تھوڑے ہیں اور کوئی بھی قوم انہیں مار سکتی ہے اور ان کے مکان اور جائیدادیں تباہ کرسکتی ہے بالکل غلط خیال ہے۔ ایک بچہ کو بھی اگر زبردست پہلوان کنوئیں میں پھینکنا چاہے تو وہ بھی مقابلہ کرتا اور اسے دق کر دیتا ہے۔ پھر ہمارا تو کسی طاقت پر بھروسا نہیں۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارا محافظ ہے۔ تلواروں، ٹکوؤں اور لاٹھیوں کا رُعب ہمیں دبا نہیں سکتا اور نہ ہم کسی کو دبانا چاہتے ہیں۔ گو یہ لوگ ہمارے شدید دشمن ہیں مگر ہم پھر بھی ان سے اور ان کی اولادوں سے محبت کرتے ہیں۔ ہم نے ان پر غلبہ ضرور حاصل کرنا ہے مگر تلوار یا بندوق سے نہیں بلکہ دلائل اور پیار سے۔‘‘
(خطبات محمود جلد 21صفحہ 431تا 435)

ہمارے آباء و اجداد کے تاریخی حالات

قادیان دارالامان

’’قادیان میرے آباء و اجداد کا بنایا ہوا قصبہ ہے اور اس کا اصل نام اسلام پور تھا جس کے آخر میں قاضی کا لفظ اس وجہ سے زائد کیا جاتا تھا تا یہ ظاہر کیا جائے کہ مغلیہ حکومت کی طرف سے ایک قاضی اس علاقہ کی نگرانی کے لئے رہتا ہے لیکن مرورِ زمانہ سے یہ نام صرف قاضی اور پھر قاضی سے قادی اور قادی سے قادیان بن گیا۔ میرے آباء و اجداد تین سو سال تک اس پر اور اس کے علاقہ پر پہلے تو مغلیہ حکومت کی طرف سے اور بعد میں طوائف الملوکی کے زمانہ میں آزادانہ طور پر حکومت کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ پرانی روایات اور سرلیپل گریفن کی کتاب ’’رئوسائے پنجاب‘‘ اس امر پر شاہد ہیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب کی حکومت سے پہلے ہمارے خاندان کی حکومت کے خلاف سکھ قبائل نے حملہ کیا۔ اور آہستہ آہستہ ان کے مقبوضات سے جو اسّی (80) دیہات پر مشتمل تھے، ان کو بے دخل کرتے گئے یہاں تک کہ صرف قادیان ان کے قبضہ میں رہ گیا۔ اس سے بھی ان کو بے دخل کرنے کے لئے سکھ قبائل پاس کے قصبات میں ایک نیم دائرہ کی صورت میں آباد ہو گئے اور آخر میرے دادا کے والد کے زمانے میں میرے آباء کو قادیان چھوڑنا پڑا لیکن مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانہ میں قبائل کا زور ٹوٹنے پر میرے دادا صاحب پھر قادیان میں واپس آ گئے اور قادیان اور اس کے ملحقہ سات دیہات پر انہیں دخل مل گیا۔ اس کے بعد انگریزی حکومت اس ملک میں آئی تو برخلاف فوج کے دوسرے افسروں کے میرے دادا صاحب نے انگریزی حکومت سے خفیہ سازباز نہ کیا اور غالباً اسی وجہ سے ان کے مقبوضہ علاقہ کو گورنمنٹ نے ضبط کر لیا اور لمبے مقدمات کے بعد صرف قادیان کی ملکیت اور اس کے پاس کے تین گائوں کی ملکیت اعلیٰ ہمارے خاندان کو ملی۔ میری غرض اس تمہید سے یہ ہے کہ قادیان اور اس کے پاس کے اکثر گائوں اسلامی زمانہ کے آباد شُدہ ہیں اور مسلمانوں کے ہاتھ سے ان کی بنا پڑی ہے۔ پس ان کے ساتھ کوئی ہندو روایات وابستہ نہیں ہیں۔ وہ شروع سے اسلامی روایات کے پابند رہے ہیں اور سوائے سکھوں کی حکومت کے چالیس پچاس سالہ عرصہ کے وہ کبھی بھی اسلامی حقوق کی بجاآوری سے محروم نہیں ہوئے۔ اس وقت بھی قادیان کی زرعی زمین کے مالک صرف میں اور میرے بھائی ہیں اور محض تھوڑی سی زمین بعض احمدی احباب کے قبضہ میں ہے جنہوں نے وہ زمین ہم ہی سے بغرض آبادی حاصل کی ہے ۔ ہندو اور سکھ صرف بطور مزارعان یا غیر مالکان آباد ہیں اور وہ بھی نہایت قلیل تعداد میں یعنی بمشکل کل آبادی کا قریباً ساتواں حصہ۔
باوجود ان حالات کے اول میرے دادا صاحب نے اور بعد میں میرے والد صاحب بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے اور ان کے بعد میں نے قادیان میں گائے کے ذبیحہ کو محض اس وجہ سے روکے رکھا کہ اس وقت تک اس کی اقتصادی طور پر زیادہ ضرورت نہیں معلوم ہوتی تھی اور ہم پسند نہیں کرتے تھے کہ خواہ مخواہ ہماری ہمسایہ اقوام کا دل دکھایا جائے۔
قادیان کے کئی ہندو اس امر کی شہادت دے سکتے ہیں کہ چند سال ہوئے کہ جب بعض لوگوں نے قادیان کے ملحقہ گائوں سے مذبح کی درخواست دی تو میں نے حکام کو کہلا کر مذبح کو رکوا دیا اور ایک معزز ہندو صاحب کی تحریر بھی اس بارہ میں میرے پاس موجود ہے جو بوقت ضرورت پیش کی جا سکتی ہے۔ علاوہ ازیں اس امر کا ثبوت کہ اپنے ہمسایوں کے احساسات کا میں نے پورا خیال رکھا ہے یہ بھی ہے کہ جس حد تک قانون گائے ذبح کرنے کو جائز قرار دیتا ہے، میں اس سے بھی جماعت کو برابر روکتا رہا ہوں بلکہ بعض لوگوں کو تو یہ معلوم ہونے پر کہ انہوں نے اس معاملہ میں فتنہ کا طریق اختیار کیا ہے، میں نے چھ چھ ماہ یا سال سال کے لئے قادیان سے نکال دیا۔‘‘ (مسئلہ ذبیحہ گائے۔ انوار العلوم جلد 11صفحہ 3-5)

کپورتھلہ کی طرف ہجرت

’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سنایا کرتے تھے جب سکھوں نے قادیان فتح کر لیا تو ہمارے خاندان کے افراد کپور تھلہ میں چلے گئے اوروہاں کی ریاست نے ان کو گزارہ کے لئے دو گاؤں دے دیے۔ کپورتھلہ میںہی ہمارے پردادا صاحب فوت ہوگئے تھے۔ہمارے دادا کی عمر اُس وقت سولہ سال تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے پردادا اپنے والد کے بر خلاف، جو بہت بڑے پارسا اور عزم کے مالک تھے، کم ہمت تھے اور اسی وجہ سے ہمارے خاندان کو یہ ذلّت پہنچی لیکن ہمارے دادا ہمت والے تھے۔ اُس وقت جب ہمارے پردادا فوت ہوئے وہ صرف سولہ سال کے تھے لیکن انہوں نے کہا میں اپنے باپ کو قادیان میں ہی دفن کروں گا۔ چنانچہ وہ اُن کی لاش یہاں لائے۔ سکھوں نے ان کا مقابلہ کرنا چاہا مگر کچھ تو اُن کی دلیری کی وجہ سے اور کچھ اِس وجہ سے کہ ہمارے آباء اِس علاقہ پر حکمران رہ چکے تھے سارے علاقہ میں شورش ہوگئی اور لوگوں نے کہا ہم اِس بات کو برداشت نہیں کرسکتے کہ ان کو اب یہاں دفن ہونے کے لئے بھی جگہ نہ دی جائے۔چنانچہ سکھوں نے اجازت دے دی اور وہ انہیں قادیان میں دفن کر گئے۔آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے دادا نے جب یہ سلوک دیکھا تو انہوں نے کہا چونکہ اِس زمانہ میں ساری عزت علم سے ہے اس لئے مَیں اب علم حاصل کر کے رہوںگا تا کہ ہمارے خاندان کو عزت حاصل ہو۔ چنانچہ انہوں نے گھر کو چھوڑدیا اور دلّی چلے گئے۔اُن کے ساتھ اُس زمانہ کے طریق کے مطابق ایک میراثی بھی چل پڑا۔ اُنہوں نے سنا ہوا تھا کہ مساجد میں تعلیم کا انتظام ہوتا ہے جہاں لڑکے پڑھتے ہیں۔ وہ بھی گئے اور ایک مسجد میں جاکر بیٹھ گئے مگر کسی نے اُن کو پوچھا تک نہیں یہاں تک کہ تین چار دن فاقہ سے گزرگئے۔ تیسرے چوتھے دن کسی غریب کو خیال آیا اور وہ رات کے وقت انہیں ایک روٹی دے گیا مگر معلوم ہوتا ہے وہ کوئی بہت ہی غریب شخص تھا کیونکہ روٹی سات آٹھ دن کی تھی اور ایسی سُوکھی ہوئی تھی جیسے لوہے کی تھالی ہوتی ہے۔ وہ اپنے ہاتھ میںروٹی لے کر انتہائی افسردگی کے عالم میں بیٹھ گئے اور حیرت سے منہ میں اُنگلی ڈال کر اپنی حالت پر غور کرنے لگے کہ کس حد تک ہماری حالت گر چکی ہے۔میراثی اُن کے چہرے کے رنگ کو دیکھ کر سمجھ گیا کہ اِس وقت یہ سخت غم کی حالت میں ہیں اور اُس نے خیال کیا کہ ایسا نہ ہو یہ صدمے سے بیمار ہو جائیں میراثیوں کو چونکہ ہنسی کی عادت ہوتی ہے اِس لئے اُس نے سمجھا کہ اب مجھے کوئی مذاق کر کے اِن کی طبیعت کا رُخ کسی اَور طرف بدلنا چاہئے۔ چنانچہ وہ مذاقاً کہنے لگا۔مرزا جی! میرا حصہ۔ وہ جانتا تھا کہ یہ کوئی حصے والی چیزنہیں مگر چونکہ وہ چاہتا تھا کہ ان کا صدمہ کسی طرح دُور ہو اِس لئے اُس نے مذاق کر دیا۔ اُنہیں یہ سن کرسخت غصہ آیا اور اُنہوں نے زور سے روٹی اُس کی طرف پھینکی جو اُس کی ناک پر لگی اور خون بہنے لگ گیا۔یہ دیکھ کر وہ اُٹھے اور میراثی سے ہمدردی کرنے لگے۔ اِس طرح اُن کی دماغی حالت جو صدمہ سے غیرمتوازن ہو گئی تھی درست ہوگئی ورنہ خطرہ یہی تھا کہ وہ اِس غم سے کہیں پاگل نہ ہوجائیں۔پھر خدانے اُن کے لئے ایسے سامان پیدا فرمادیے کہ وہ وہاں سے خوب علم پڑھ کر واپس آئے۔
تو جب انسان کسی بات کا پختہ ارادہ کر لیتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کے لئے سامان بھی پیدا کر دیتاہے۔ اصل میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے دل میں یہ مادہ رکھا ہے کہ وہ قربانی کی قدر کرتا ہے۔ اگر لوگ دیکھیں کہ واقعہ میں کوئی شخص تکلیف اُٹھا رہا ہے اور دوسروں کے فائدہ کے لئے اپنے نفس کو مشقّت میں ڈال رہا ہے تو اُن کے دلوں میں ضرور جوش پیدا ہوتا ہے کہ ہم بھی اِس سے کوئی نیک سلوک کر کے ثواب میں شامل ہو جائیں۔ ‘‘
(زندگی وقف کرنے کی تحریک، انوار العلوم جلد 17صفحہ 304تا 305)

دادا نے باقاعدہ علم طب حاصل کیا تھا

’’ہمارے دادا کا قصہ مشہور ہے۔ ایک دفعہ مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب سری گوبند پور میں شکار کے لئے آئے۔ ان کے ساتھ ایک باز والا تھا جسے اتفاقاً نزلہ ہوگیا۔ ہمارے دادا طب بھی کرتے تھے۔ دلّی میں انہوں نے باقاعدہ یہ علم حاصل کیا تھا اور گو انہوں نے علمِ طب کو پیشہ کے طور پر کبھی اختیار نہیں کیا لیکن مخلوق کی خدمت اور لوگوں کی خیر خواہی کے لئے اس فن سے بھی کام لیا کرتے تھے۔ جب باز والے کو نزلہ ہوا تو وہ گھبرایا کہ کل شکار کا دن ہے، اگر مَیں زیادہ بیمار ہو گیا تو مہاراجہ صاحب ناراض ہوں گے کہ عین کام کے دن بیمار ہو گیا۔ چنانچہ وہ ہمارے دادا کے پاس آیا اور علاج کی درخواست کی۔ آپ نے اس کے لئے نسخہ لکھا جو ایک پائی میں تیا رہو گیا اور اس کے استعمال سے اسے فوری طور پر افاقہ ہو گیا۔ اُسی دن مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب کے لڑکے کو بھی نزلہ ہو گیا۔ کسی نے ذکر کیا کہ باز والے کو یہی شکایت ہو گئی تھی جس پر مرزا صاحب نے اُسے ایک نسخہ لکھ کر دیا اور اسے فوراً آرام آ گیا۔ شہزادہ نے ہمارے دادا کو بلوایا اور اپنے نزلہ کا ذکر کیا۔ انہوں نے ایک نسخہ لکھ کر دے دیا۔ جب نسخہ بنوانے کے لئے پنساری کے پاس بھیجا گیا تو اس نے بتایا کہ اِس پر پانچ سو روپیہ خرچ آئے گا۔ شہزادہ یہ سن کر بہت ناراض ہوا۔ آخر معمولی زمینداروں سے وہ یکدم بادشاہ بن گئے تھے۔ اُن کے لئے یہ بات حیرت کا موجب ہوئی کہ ایک ہی مرض کا نسخہ لکھوایا گیا تھا مگر ایک شخص کو تو انہوں نے ایسا نسخہ لکھ کر دے دیا جس پر ایک پائی خرچ آئی اور ہمیں ایک ایسا نسخہ لکھ کر دیا جس پر پانچ سو روپیہ خرچ آتا ہے۔ اس لئے شہزادہ نے ہمارے دادا کو بلوایا اور کہا کہ آپ کو مجھ سے کیا دشمنی تھی کہ آپ نے مجھ سے یہ سلوک کیا؟ آخر مجھ کو بھی وہی بیماری تھی جو باز والے کو تھی۔ مگر باز والے کو تو آپ نے ایک پائی کا نسخہ لکھ کر دیا اور مجھے پانچ سو روپیہ کا نسخہ لکھ دیا۔ ہمارے دادا نے نسخہ لیا اور اسے پھاڑ کر پھینک دیا اور کہا اگر نسخہ استعمال کرنا ہے تو یہی کرنا ہو گا۔ نہیں تو کسی اَور سے علاج کروا لیں۔ پھر کہا یہ جو پنساری ہیں آخر ان کا بھی گزارہ چلنا ہے یا نہیں۔ اگر مَیں پائی پائی کا ہی نسخہ لکھ کر دوں تو ان کی دکان کس طرح چل سکتی ہے، ان کا تو ایک دن بلکہ ایک گھنٹہ کا خرچ بھی اِس طرح نہیں نکل سکتا۔ مَیں نے باز والے کو اس کی حیثیت کے مطابق نسخہ لکھ کر دیا ہے اور آپ کو آپ کی حیثیت کے مطابق نسخہ لکھ کر دیا ہے۔ اگر آپ ان لوگوں کی تجارت کو قائم رکھنا چاہتے ہیں اور خواہش رکھتے ہیں کہ ہمارا فن ترقی کرے تو مَیں آپ کے لئے ایسا ہی نسخہ لکھوں گا جو پانچ سو روپیہ میں تیار ہو۔ ورنہ آپ کی مرضی جس سے چاہیں آپ علاج کروا لیں۔ یہ بھی ایک طریق تو ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ بعض تجارتیں چلانے کے لئے امراء کو قیمتی دوائیں لکھ کر دی جا سکتی ہیں۔ مگر عام طور پر اس زمانہ میں سستے علاج کی طرف توجہ نہیں کی جاتی اور امیر و غریب سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بیماری کے معاملہ میں امیر اور غریب میں فرق کرنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے۔ غریب یا تو بغیر علاج کے مر جاتا ہے یا اپنی ساری پونجی دواؤں پر تباہ کر دیتا ہے۔‘‘
(خطبات محمود جلد27صفحہ 540تا541)

آباؤ اجداد کی خاندانی جائیداد

پرانے خاندانوں میں اپنی عزّت کو قائم رکھنے کی ہمیشہ کوشش کی جاتی ہے ہمارے دادا کے متعلق ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ وہ مختلف کام جومہاراجہ رنجیت سنگھ کی ملازمت میں اور پھر کشمیر میں کرتے رہے ان ایام میں انہوں نے ایک لاکھ کے قریب روپیہ جمع کیا۔ اس زمانہ میں روپیہ کی بہت بڑی قیمت ہوا کرتی تھی۔ چنانچہ قریب ہی ایک گائوں راجپورہ ہے۔ وہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ایک چچا نے پانچ سو روپیہ میں خریدا تھا۔ چھ سو ایکڑ اس کی زمین ہے اور گو وہ زمین اتنی اچھی نہیں مگر پھر بھی کجا چھ سو ایکڑ زمین ایک روپیہ ایکڑ سے بھی کم قیمت میں انہیں زمین مل گئی۔ پس اگر وہ چاہتے تو اس روپیہ سے بہت بڑی جائیداد پیدا کر سکتے تھے مگر جب انگریزوں کی حکومت آئی اور انہوں نے ان کی جائیداد ضبط کر لی تو وہ اس کے حصول کے لئے مقدمات میں لگ گئے۔ بعض دوستوں نے انہیں مشورہ دیا کہ آپ اس کام میں نہ پڑیں، اس میں چنداں فائدہ نہیں۔ اگر کچھ ملا بھی تو بالکل بے حقیقت ہو گا۔ اس وقت جائیداد کی قیمت کچھ نہیں۔ آپ کے پاس روپیہ ہے۔ آپ اگر چاہیں تو اس روپیہ سے پچاس اچھے اچھے قصبے خرید سکتے ہیں۔ اس میں آپ کی اولاد کی بھی بہتری ہو گی کیونکہ اس جائیداد سے ان کے لئے گزارہ کی معقول صورت پیدا ہو جائے گی۔ اس علاقہ میں ان دنوں چھوٹے چھوٹے زمیندار تھے مگر باہر گوجرانوالہ اور لاہور کے اضلاع میں اچھے اچھے زمیندار تھے جو پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ بلکہ سو سو گاؤں کے مالک تھے۔ اس لئے انہیں بعض دوستوں نے مشورہ دیا کہ بجائے اس جگہ روپیہ ضائع کرنے کے آپ باہر چالیس پچاس گاؤں خرید لیں مگر انہوں نے جواب دیا کہ اگر باہر ہم نے گاؤں خرید بھی لیے تو ہمارے بچے جب کبھی باہر نکلیں گے اور لوگ ایک دوسرے سے دریافت کریں گے کہ یہ کون ہیں تو وہ آگے سے کہیں گے کہ خبر نہیں کون ہیں کوئی باہر سے آئے ہوئے ہیں لیکن اگر قادیان اور اس کے ارد گرد ہمیں دو ایکڑ زمین بھی مل جائے اور ہماری اولاد فاقوں میں بھی مبتلا ہوجائے تو بھی جب ان کی نسبت کوئی سوال کرے گا کہ یہ کون ہیں؟ تو لوگ جواب دیں گے کبھی یہ ہمارے حاکم اور بادشاہ تھے مگر اب گردش ایّام سے غریب ہو گئے ہیں۔
چنانچہ اسی خیال کے ماتحت انہوں نے ایک لاکھ روپیہ ضائع کر دیا اور قادیان میں انہیں جو تھوڑی سی جائیداد ملی اس پر اکتفا کر لیا۔ میں سمجھتا ہوں وہ جائیداد جو انہیں ملی وہ اس جائیداد کا پانچ سوواں حصہ بھی نہیں تھی جو وہ اس روپیہ سے خرید سکتے تھے مگر بہرحال انہوں نے اس تھوڑی سی جائیدادکو خوشی سے قبول کیا لیکن اس مقام کو چھوڑنا پسند نہ کیا جہاں انہیں اپنے بزرگوں کی وجہ سے ایک رنگ کی حکومت حاصل تھی۔ غرض پرانے خاندانوں کے افراد اپنی خاندانی عزّت کو جاتے دیکھنا برداشت نہیں کر سکتے اور اس کے لئے ہر ممکن قربانی کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔
(الفضل قادیان مورخہ 8؍ دسمبر 1939ء نمبر 281 جلد 27صفحہ 6 )

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دادا کا ذکر خیر

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس ذکر میں کہ انسان کو کبھی ہمت نہیں ہارنی چاہئے ہمارے دادا صاحب کا ذکر سنایا کرتے تھے کہ جب ہمارے خاندان کی ریاست جاتی رہی تو ان کے والد صاحب کو یہاں سے نکلنا پڑا اور کپور تھلہ کی ریاست میں پناہ گزیں ہو گئے۔ اس وقت ریاست والوں نے چاہا کہ آپ کو دو گاؤں گذارہ کے لئے دے دیں لیکن آپ نے نہ لئے اور فرمایا۔ اگر ہم نے یہ گائوں لے لئے تو پھر ہم یہیں رہ پڑیں گے اور اس طرح اولاد کی ہمت پست ہوجائے گی اور اپنی خاندانی روایات قائم رکھنے کا خیال اس کے دل سے جاتا رہے گا لیکن وہ رہے ایک لمبے عرصہ تک وہیں۔ پھر جس وقت ہمارے دادا ذرا بڑے ہوئے تو اس وقت سولہ سترہ سال کی عمر تھی کہ ان کے والد فوت ہوئے۔ انہوں نے انہیں لاکر قادیان میں دفن کیا اور خود دہلی پڑھنے چلے گئے حالانکہ کوئی سامان میسر نہ تھا۔ ایک میراثی خدمتگار کے طور پر ساتھ گیا۔ شاید اس زمانہ کے لوگوں میں وفا کا مادہ زیادہ ہوتا تھا کہ اس غربت کی حالت میں اس شخص نے ساتھ نہ چھوڑا۔ جب دہلی پہنچے تو ایک مسجد میں جہاں مدرسہ تھا جاکر بیٹھ گئے۔ انہوں نے سنا ہؤا تھا کہ دہلی شاہی جگہ ہے اور وہاں لڑکوں کو مفت تعلیم ملتی ہے لیکن بیٹھے بیٹھے کئی دن گذر گئے مگر کسی نے ان کا حال تک دریافت نہ کیا اورنہ کھانے کو کچھ دیا۔ آخر جب تین دن کا فاقہ ہو گیا تو چوتھے دن کسی شخص کو جو خود بھی کنگال تھا خیال آیا کہ انہیں اتنے دن یہاں بیٹھے ہو گئے ہیں انہیں کچھ کھانے کو تودینا چاہئے۔ چنانچہ وہ ایک سوکھی روٹی لاکر انہیں دے گیا۔ اس نے جو روٹی ان کے ہاتھ میں دی تو ان کا چہرہ متغیر ہوگیا۔ ہمراہی نے سمجھ لیا کہ معلوم ہوتا ہے روٹی خراب ہے اور انہیں دیکھ کر اپنی گذشتہ حالت یاد آگئی ہے اور اس کا تصور کرکے تکلیف محسوس ہوئی ہے۔ اس موقعہ پر اس نے مذاق کے طور پر ان کا دل بہلانے کے لئے کہا۔ لائیں میرا حصہ مجھے دیں۔ ان کو پہلے ہی غصہ آیا ہؤا تھا اس کا یہ فقرہ سن کر انہوں نے زور سے روٹی اٹھاکر اس کی طرف پھینکی جو اتفاقاًاس کی ناک پر لگی اور چونکہ روٹی سوکھی ہوئی تھی اس لئے اس کے لگنے سے اس کی ناک کی ہڈی پر زخم ہو گیا اور خون بہنے لگا۔ مگر ان تمام مشکلات کے باوجود انہوں نے تعلیم حاصل کی، محنت کی اور اس قدر ہمت سے کام لیا کہ آخر ایک بہت بڑے عالم اور طبیب ہو گئے۔ واپس آئے تو مہاراجہ رنجیت سنگھ کا زمانہ شروع ہو گیا تھا۔ انہوں نے ان کی جائیداد سات گاؤں واگزار کر دیے اور جنرل کے عہدہ پر فوج میں مقرر کیا۔ (رپورٹ مجلس مشاورت 1937ء صفحہ 20-21)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پردادا

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پردادا کا ہی واقعہ ہے کہ ایک سکھ رئیس ان سے ملنے کے لئے آیا اور اس نے آ کر کہا کہ مرزا صاحب کو اطلاع دی جائے کہ مَیں ان سے ملنا چاہتا ہوں۔ میں نے خود یہ واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہے آپ فرمایا کرتے تھے کہ وہ اس وقت کوٹھے پر تھے۔ جب انہیں اطلاع ہوئی تو وہ ملاقات کے لئے نیچے اترے۔ پیچھے پیچھے وہ تھے اور آگے آگے ان کے بیٹے تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دادا تھے۔ گویا بیٹا پہلے اتر رہا تھا اور ان کے پیچھے ان کے والد چلے آرہے تھے جو بہت بڑے بزرگ ہوئے ہیں حتیّٰ کہ میں نے خود سکھوں سے سنا ہے کہ لڑائی میں انہیں گولی ماری جاتی تھی تو گولی ان پر اثر نہیں کرتی تھی۔ جب وہ نصف سیڑھیوں پر پہنچے تو نیچے سے انہیں آواز آئی۔ سکھ رئیس ان کے بیٹے سے مخاطب ہو کر کہہ رہا تھا: واہ گروجی کا خالصہ۔ اس پر ان کے بیٹے نے بھی اسی رنگ میں جواب دیا کہ واہ گروجی کا خالصہ۔ انہوں نے جب اپنے بیٹے کی زبان سے یہ الفاظ سنے تو اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھتے ہوئے وہیں سیڑھیوں سے واپس لَوٹ گئے اور فرمانے لگے: سردار صاحب سے کہہ دو کہ میری طبیعت خراب ہو گئی ہے میں ان سے مل نہیں سکتا۔ پھر اپنے بیٹے کا ذکر کرکے فرمانے لگے کہ اس کے زمانہ میں ہماری ریاست جاتی رہے گی۔ کیونکہ جس شخص کے اندر اتنی بے غیرتی پیدا ہو گئی ہے کہ اس نے اسلامی شعار کو اختیار نہیں کیا اور جب ایک سکھ نے واہ گورو جی کا خالصہ کہا تو اس نے بھی واہ گورو جی کا خالصہ کہہ دیا وہ ریاست کو کبھی سنبھال نہیں سکے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہو۱۔ (خطبات محمود جلد 23صفحہ 292-293)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دادا کا واقعہ

یقین رکھو کہ خداتعالیٰ تمہاری مدد کرے گا۔ اگر تم ایسا کرو تو وہ تمہاری ضرور مدد کرے گا۔ کہتے ہیں شیر کے سامنے اگر کوئی شخص لیٹ جائے تو وہ اُس پر حملہ نہیں کرتا بلکہ چُپکے سے پاس سے گزر جاتا ہے۔ اِسی طرح جو شخص خداتعالیٰ کے سامنے جھک جائے اور اُس کے آستانہ پر گر پڑے تو وہ بھی اس کو مرنے نہیں دیتا اور سمجھتا ہے کہ اس کی ذلت میری ذلت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیشہ اپنے والد صاحب کا ایک قصہ سنایا کرتے تھے۔ میاں بدر محی الدین صاحب جو بٹالہ کے رہنے والے تھے، ان کے والدجن کا نام غالباً پیر غلام محی الدین تھا، ہمارے دادا کے بڑے دوست تھے۔ اس زمانہ میں لاہور کی بجائے امرتسر میں کمشنری تھی اور کمشنر موجودہ زمانہ کے گورنر کی طرح سمجھا جاتا تھا اور امرتسر میں اپنا دربار لگایا کرتا تھا جس میں علاقہ کے تمام بڑے بڑے رؤسا شامل ہوا کرتے تھے۔ ایک دفعہ امرتسر میں دربار لگا تو ہمارے دادا کو بھی دعوت آئی اور چونکہ انہیں معلوم تھا کہ پیر غلام محی الدین صاحب بھی اس دربار میں شامل ہوں گے اس لئے وہ گھوڑے پر سوار ہو کر بٹالہ میں ان کے مکان پر پہنچے۔ وہاں انہوں نے دیکھا کہ ایک غریب آدمی پیر غلام محی الدین صاحب کے پاس کھڑا ہے اور وہ اس سے کسی بات پر بحث کررہے ہیں۔ جب انہوں نے دادا صاحب کو دیکھا تو کہنے لگے۔ مرزا صاحب! دیکھئے یہ میراثی کیسا بیوقوف ہے۔ کمشنر صاحب کا دربار منعقد ہو رہا ہے اور یہ کہتا ہے کہ وہاں جا کر کمشنر صاحب سے کہا جائے کہ گورنمنٹ نے اس کی 25 ایکڑ زمین ضبط کر لی ہے۔ یہ زمین اسے واپس دے دی جائے۔ بھلا یہ کوئی بات ہے کہ دربار کا موقعہ ہو اور کمشنر صاحب تشریف لائے ہوئے ہوں اور ایک میراثی کو ان کے سامنے پیش کیا جائے اور سفارش کی جائے کہ اس کی 25 ایکڑ زمین جو اسے اس کے کسی ججمان نے دی تھی ضبط ہو گئی ہے اسے واپس دی جائے۔ چونکہ وہ پیر تھے، گو درباری بھی تھے، اس لئے انہیں یہ بات بہت عجیب معلو م ہوئی۔ دادا صاحب نے اس میراثی سے کہا کہ تم میرے ساتھ چلو۔ چنانچہ وہ اسے ساتھ لے کر امرتسر پہنچے جب کمشنر صاحب دربار میں آئے تو درباریوں کا ان سے تعارف کرایا جانے لگا۔ جب دادا صاحب کی باری آئی تو انہوں نے کمشنر صاحب سے کہا کہ ذرا اس میراثی کی بانہہ پکڑ لیں۔ وہ کہنے لگا مرزا صاحب اس کا کیا مطلب؟ انہوں نے کہا آپ اس کی بانہہ پکڑ لیں۔ میں اس کا مطلب بعد میں بتاؤں گا۔ چنانچہ ان کے کہنے پر اس نے اس میراثی کی بانہہ پکڑ لی۔ اس پر ہمارے دادا صاحب کہنے لگے ہماری پنجابی زبان میں ایک مثال ہے کہ ’’بانہہ پھڑے دی لاج رکھنا‘‘ کمشنرپھرحیران ہوا اور کہنے لگا مرزا صاحب! اس کا کیا مطلب ہے؟ اس پر دادا صاحب نے کہا اس کا یہ مطلب ہے کہ جب آپ نے ایک شخص کا بازو پکڑا ہے تو پھر اس بازو پکڑنے کی لاج بھی رکھنا اور اسے چھوڑنا نہیں۔ وہ کہنے لگا مرزا صاحب! آپ یہ بتائیں کہ اس سے آپ کا مقصد کیا ہے؟ انھوں نے کہا اس کی 25 ایکڑ زمین تھی جو اسے اس کے کسی ججمان نے دی تھی اورحکومت نے اسے ضبط کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ ہمارے مغل بادشاہ جب دربار لگایا کرتے تھے تو اس موقعہ پر ہزاروں ایکڑ زمین لوگوں کو بطور انعام دیا کرتے تھے لیکن یہ غریب حیران ہے کہ اس کے پاس جو 25ایکڑ زمین تھی وہ ضبط کرلی گئی ہے۔ کمشنر پر اس بات کا ایسا اثرہوا کہ اس نے اس وقت اپنے منشی کو بلایا اور کہا یہ بات نوٹ کر لو اور حکم دے دو کہ اس شخص کی زمین ضبط نہ کی جائے۔ اب دیکھو دنیا میں جب ایک انسان بھی ’’ بانہہ پھڑے دی لاج‘‘ رکھتا ہے تو خدا تعالیٰ ’’ بانہہ پھڑے دی لاج‘‘ کیوں نہیں رکھے گا۔ جو خدا تعالیٰ کا ہوجاتا ہے خدا تعالیٰ اسے کبھی نہیں چھوڑتا۔ پس دعائیں کرو اور اس گُر پر قائم رہو۔ جو شخص اس گُر پر عمل کرتا ہے دنیا کی کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور وہ ہمیشہ اپنے دشمن پر غالب رہتا ہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 14 دسمبر 1956ء الفضل یکم مارچ 1957ء جلد 46/11 نمبر 53صفحہ 6,5)

خاندان بادشاہوں کی نسل سے

اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارا خاندان بادشاہوں کی نسل میں سے ہے۔ چنانچہ ہمارے خاندان کا مورثِ اعلیٰ مرزاہادی بیگ صاحب حاجی برلاس کی اولاد میں سے تھے جو امیر تیمور کے چچا تھے اور جو لوگ تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ علاقہ کش کے اصل بادشاہ حاجی برلاس ہی تھے، تیمور نے حملہ کر کے اِن کے علاقہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ اِسی وجہ سے ہمارے خاندان کے افراد جاہلیت کے زمانہ میں جبکہ احمدیت ابھی ظاہر نہیں ہوئی تھی اور جبکہ قرآنی تعلیم اِن کے دلوں میں راسخ نہیں ہوئی تھی، تیموری نسل کی لڑکیاں تو لے لیتے تھے مگر تیموری نسل کے مغلوں کو اپنی لڑکیاں نہیں دیتے تھے کیونکہ وہ اُن کو اپنے مقابلہ میں ادنیٰ سمجھتے تھے۔ لیکن بہرحال جہاں تک ظاہری وجاہت کا سوال ہے وہ قریباً قریباً تباہ اور برباد ہو چکی تھی۔ مغلیہ سلطنت کے مٹنے کے بعد جب سکھوں کا دَور شروع ہوا تو اُس وقت ہماری تمام ریاست سکھوں کے قبضہ میں چلی گئی۔ اِس کے بعد مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب نے ہمارے پانچ گاؤں واگزار کر دیئے۔ مگر جب انگریزی حکومت کا دَور شروع ہوا تو اُس وقت پھر ہماری خاندانی ریاست کو صدمہ پہنچا اور ہماری وہ جائیداد بھی ضبط کرلی گئی جو کسی قدر باقی رہ گئی تھی۔ یہ ہمارے خاندان کی حالت تھی جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دنیا کے سامنے اپنا دعویٰ پیش فرمایا۔ اگر ہماری یہ ریاست اپنی پہلی حالت میں قائم ہوتی تب بھی ایک چھوٹی سی ریاست ہوتی اور اتنی چھوٹی ریاست کو بھلا پوچھتا ہی کون ہے۔ مگر خداتعالیٰ نے اتنی ریاست بھی پسند نہ کی تاکہ اُس کی صفات پر کوئی دھبہ نہ آئے اور لوگ یہ نہ کہیں کہ سابقہ عزت کی وجہ سے انہیں ترقی حاصل ہوئی ہے۔ ہمارے دادا کو بڑا فکر رہتا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو کسی ایسے کام پر لگا دیں جس سے وہ اپنا گزارہ آسانی کے ساتھ کر سکے۔ مہاراجہ کپورتھلہ کے شاہی خاندان سے بھی ہمارے خاندان کے چونکہ پُرانے تعلقات ہیں اِس لئے انہوں نے کوشش کرکے بانی سلسلہ احمدیہ کے لئے وہاں ایک معزز عُہدہ تلاش کرلیا۔ چنانچہ اِن کے لئے انسپکٹر جنرل آف ایجوکیشن کے عُہدہ کی منظوری آگئی۔ قادیان کے قریب ہی ایک گاؤں ہے وہاں ایک سکھ صاحب رہا کرتے تھے جو اکثر ہمارے دادا کے پاس آیا جایا کرتے تھے۔ انہوں نے خود سنایا کہ مَیں اور میرا بھائی اکثر بڑے مرزا صاحب سے ملنے کے لئے آ جایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ہم دونوں اِن سے ملنے کے لئے گئے تو وہ کہنے لگے کہ مرزا غلام احمد کو دنیا کی طرف کوئی توجہ نہیں میں حیران ہوں کہ میرے مرنے کے بعد اِس کا کیا حال ہو گا۔ میں نے اِس کے متعلق کپور تھلہ میں کوشش کی تھی جس کے نتیجہ میں وہاں سے آرڈر آ گیا ہے کہ اِسے ریاست کا افسر تعلیم مقرر کیا جاتا ہے۔ میں اگر اسے کہوں تو شاید مجھے جواب نہ دے تم دونوں اِس کے ہم عمر ہو تم اِس کے پاس جاؤ اور کہو کہ وہ اِس عُہدہ کو قبول کر لے۔ وہ سناتے ہیں کہ ہم دونوں بھائی اِن کے پاس گئے اور انہیں کہا کہ مبارک ہو ریاست کپور تھلہ کی طرف سے چٹھی آئی ہے کہ آپؑ وہاں کے افسر تعلیم مقرر کئے گئے ہیں۔ آپؑ کے والد صاحب کی خواہش ہے کہ آپؑ یہ نوکری اختیار کرلیں اور ریاست کپورتھلہ میں چلے جائیں۔ وہ کہتے ہیں جس وقت ہم نے یہ بات کہی اُنہوں نے ایک آہ کھینچی اور کہا والد صاحب تو خواہ مخواہ فکر کرتے ہیں، مَیں نے تو جس کا نوکر ہونا تھا ہو گیا، اَب مَیں کسی اور کی نوکری کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ وہ کہتے ہیں ہم دونوں واپس آ گئے اور آپؑ کے دادا صاحب کو کہا کہ وہ تو کہتے ہیں کہ والد صاحب یونہی بے فائدہ فکر کررہے ہیں، میں نے تو جس کی نوکری کرنی تھی کرلی، اَب مَیں کسی اور کی نوکری کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ اِس پر وہ کہتے ہیں کہ آپؑ کے دادا صاحب نے کہا اگر اِس نے یہ کہا ہے تو خیر رہنے دو وہ جھوٹ نہیں بولا کرتا۔

قادیان دارالامان

پھر جب آپؑ بڑے ہوئے تو اُس وقت بھی ساری جائیداد آپؑ کے بھائی کے قبضہ میں رہی۔ آپؑ نے اُس میں سے اپنا حصہ نہ لیا۔ جائیدادخداتعالیٰ کے فضل سے کافی تھی بلکہ اَب تک اِس قدر جائیدادہے کہ باوجود اِس کے کہ ایک لمبے عرصے تک ہم اِس کو بیچ کر کھاتے رہے ہیں، پھر بھی وہ لاکھوں روپیہ کی موجود ہے۔ غرض جائیداد تھی مگر وہ سب ہمارے تایا صاحب کے قبضہ میں تھی۔ بانی سلسلہ احمدیہ اِس جائیداد میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے تھے۔ جب ہمارے تایا صاحب فوت ہو گئے تو آپؑ نے پھر بھی جائیدادنہ لی اور وہ تائی صاحبہ کے پاس چلی گئی۔ آپؑ کو کھانا ہماری تائی صاحبہ ہی بھجواتی تھیں اور چونکہ وہ آپؑ کی شدید مخالف تھیں اِدھر آپؑ بہت بڑے مہمان نواز تھے اِس لئے بسااوقات جب آپؑ ہماری تائی صاحبہ کو کہلا بھیجتے کہ آج ایک مہمان آیا ہوا ہے اُس کے لئے بھی کھانا بھجوا دیا جائے تو وہ صرف آپؑ کا کھانا بھجوا دیتیں اور مہمان کے لئے کوئی کھانا نہ بھجواتیں۔ اِس پر ہمیشہ آپؑ اپنا کھانا مہمان کو کھلا دیتے اور خود چنوں پر گزارہ کرلیتے۔
اُس زمانہ کے آدمی سنایا کرتے ہیںکہ جب بھی کوئی مہمان آپؑ کے پاس آتا آپؑ چُپ کرکے اپنا کھانا مہمان کے سامنے رکھ دیتے اور خود بھوکے رہتے یا چنوں وغیرہ پر گزارہ کرلیتے۔ ایک شخص نے سنایا کہ میں ایک دفعہ قریباً چالیس دن تک آپؑ کا مہمان رہا۔ آپؑ باقاعدہ صبح و شام اندر سے جو کھانا آتا وہ مجھے کھلا دیتے اور آپ دانے چبا کر گزارہ کر لیتے۔ آپؑ خود فرماتے ہیں:

لُفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ کَانَ اُکُلِیْ
وَصِرْتُ الْیَوْمَ مِطْعَامَ الْاَھَالِیْ

کہ اے لوگو! تم کو یاد نہیں ایک دن میرا یہ حال تھا کہ دسترخوانوں کے بچے ہوئے ٹکڑے میرے کھانے میں آیا کرتے تھے یعنی دوسروں کے رحم و کرم پر میرا گزارہ تھا لیکن آج یہ حال ہے کہ میرے ذریعہ سے کئی خاندان پرورش پا رہے ہیں۔
ایسی حالت میں آپؑ کو خبر دی گئی کہ اسلام کی خدمت کے لئے خداتعالیٰ نے آپؑ کو چُن لیا ہے۔ جس وقت یہ آواز آپؑ کے کان میں پڑی آپؑ کی حالت یہ تھی کہ اور لوگ تو الگ رہے خود قادیان کے لوگ بھی آپؑ کو نہیں جانتے تھے۔ میں نے خود قادیان کے کئی باشندوں سے سُنا ہے کہ ہم سمجھتے تھے بڑے مرزا صاحب کا ایک ہی بیٹا ہے دوسرے کا ہمیں علم نہیں تھا۔ آپؑ اکثر مسجد کے حجرے میں بیٹھے رہتے اور دن رات اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے رہتے۔ اُس وقت خداتعالیٰ نے آپؑ سے وعدہ فرمایا کہ وہ آپؑ کو بہت بڑی برکت دے گا اور آپؑ کا نام عزت کے ساتھ دنیا کے کناروں تک پھیلائے گا۔ یہ الہام بھی ایک عجیب موقع پر ہوا۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو اہلحدیث کے ایک مشہور لیڈر تھے جب وہ نئے نئے مولوی نذیرحسین صاحب دہلوی سے پڑھ کر آئے تو اُس وقت حنفیوں کا بہت زور تھا اور اہلحدیث کم تھے۔ مولوی محمد حسین صاحب جب تعلیم سے فارغ ہو کر بٹالہ میں آئے تو ایک شور مچ گیا کہ یہ مولوی لوگوں کو اسلام سے برگشتہ کرنا چاہتا ہے۔ اتفاقاً اُنہی دنوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی اپنے کسی کام کے لئے بٹالہ تشریف لے گئے۔ لوگوں نے زور دیا کہ آپؑ چلیں اور مولوی محمد حسین صاحب سے بحث کریں کیونکہ وہ بزرگوں کی ہتک کرتا ہے اور اسلام پر تبر چلا رہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُن کے ساتھ جامع مسجد میں چلے گئے۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی وہیں موجود تھے۔ آپؑ نے اُن سے کہا کہ مولوی صاحب!مجھے معلوم نہیں آپؑ کے کیا عقائد ہیں۔ پہلے آپؑ اپنے عقائد بیان کریں اگر وہ غلط ہوئے تو میں اِن کی تردید کروں گا اور اگر صحیح ہوئے تو اُنہیں تسلیم کر لوں گا۔ مولوی محمد حسین صاحب نے کھڑے ہو کر ایک مختصر تقریر کی جس میں بیان کیا کہ ہم اللہ تعالیٰ پر، قرآن کریم پر اور محمد رسول اللہﷺ پر ایمان رکھتے ہیں۔ قرآن چونکہ خداتعالیٰ کا ایک یقینی اور قطعی کلام ہے اِس لئے ہم اِسے سب سے مقدم قرار دیتے ہیں اور جو کچھ قرآن میں لکھا ہے اِسے مانتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر ہم سمجھتے ہیں کہ جو کچھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ ہمارے لئے قابل عمل ہے اور اگر کوئی حدیث قرآن کے مخالف ہو تو اِس صورت میں ہم قرآن کریم کے بیان کو ترجیح دیتے ہیں اور اگر کوئی بات ہمیں قرآن اور حدیث دونوں میں نظر نہ آئے تو پھر قرآن اور حدیث کی روشنی میں جو کچھ ہمیں سمجھ آئے اِس پر ہم عمل کرتے ہیں۔ جب انہوں نے یہ تقریر کی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سن کر فرمایا یہ تو بالکل ٹھیک باتیں ہیں اِن میں سے کسی کی تردید کی ضرورت نہیں۔
وہ ہزاروں آدمی جو آپؑ کو اپنے ساتھ لے کر گئے تھے اُن سب نے کھڑے ہو کر آپؑ کو گالیاں دینی شروع کر دیں اور بُرا بھلا کہنے لگے کہ تم ڈرپوک ہو، بزدل ہو، ہار گئے ہو۔ غرض آپؑ پر خوب نعرے کسے گئے۔ آپؑ گئے تھے ہزاروں کے ہجوم میں اور نکلے ایسی حالت میں جبکہ لوگ آپ کو بُرا بھلا کہہ رہے تھے۔ گئے تھے ایسی حالت میں کہ لوگ سُبْحَانَ اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ کہتے جا رہے تھے اور سمجھ رہے تھے کہ ہم اسلام کا ایک پہلوان اپنے ساتھ لئے جا رہے ہیں مگر نکلے ایسی حالت میں کہ لوگ آپؑ کو ایک بھگوڑا قرار دے رہے تھے اور آپؑ کے خلاف نعرے کَس رہے تھے۔ مگر آپؑ نے اِن باتوں کی کوئی پروا نہ کی اور وہاں سے واپس چل پڑے۔ اُسی رات آپ پر الہام نازل ہوا کہ
’’تیرا خدا تیرے اِس فعل سے راضی ہوا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔‘‘
غرض آپؑ پر یہ الہام ہوا اور آپؑ نے اُسی وقت اِس الہام کو دنیا میں شائع کردیا۔ تب دنیا میں چاروں طرف سے آپؑ کے خلاف آوازیں اُٹھنی شروع ہوگئیں۔ بعضوں نے کہا مکّار ہے اور اس ذریعہ سے اپنی عزت بڑھانا چاہتا ہے، بعضوں نے کہا یہ شخص یونہی اسلام کی تائید کر رہا ہے ورنہ درحقیقت اسلام میں سچائی پائی ہی نہیں جاتی۔ غرض جو لوگ اسلام کے قائل تھے انہوں نے بھی اور جو لوگ اسلام کے قائل نہیں تھے انہوں نے بھی ہر رنگ میں آپؑ کی تضحیک شروع کر دی۔ اُس وقت خصوصیت سے پنڈت لیکھرام نے شور مچایا کہ یہ جو معجزات دکھانے کے دعوے کئے جا رہے ہیں سب غلط اور بے بنیاد ہیں۔ اگر اسلام سچا ہے، اگر قرآن سچا ہے اور اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے سچے رسول ہیں تو ہمیں کوئی نشان دکھایا جائے۔ اِسی طرح ایک منشی اندر من صاحب مراد آباد کے رہنے والے تھے انہوں نے بھی شور مچایا کہ یہ نشان نمائی کے دعوے سب غلط ہیں اگر اسلام کی صداقت میں نشان دکھایا جا سکتا ہے تو ہمیں نشان دکھایا جائے۔ اِسی طرح قادیان کے ہندوؤں نے بھی یہ مطالبہ کیا اور مسلمانوں میں سے بہت سے لوگ اِن کے ہمنوا ہو گئے۔ چنانچہ انہی میں سے لدھیانہ کا ایک خاندان ہے جو اپنی مخالفت پر ہمیشہ فخر کیا کرتا ہے اُس کے خیال میں اُس کا یہ فعل قابل فخر ہے مگر ہمارے نزدیک یہ اِس خاندان کی بدقسمتی ہے کہ وہ ابتدا سے جماعت احمدیہ کی مخالفت کر رہا ہے۔ بہرحال جب اِن لوگوں نے بہت شور مچایا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خداتعالیٰ سے دعا کی کہ اے خدا! میرے ہاتھ پر اسلام کی تائید میں کوئی ایسا نشان دکھا جسے دیکھنے کے بعد ہر شخص یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو کہ ایسا نشان انسانی تدبیر اور کوشش سے ظاہر نہیں ہو سکتا۔ مزیدبرآں یہ نشان ایسا ہو جو رسول کریمﷺ اور قرآن کریم کی حقانیت کو روشن کرے اور خدا کا جلال دنیا میں ظاہر ہو۔ چنانچہ خداتعالیٰ نے آپؑ سے فرمایا کہ آپ ہوشیارپور جائیں اور وہاں اِس مقصد کے لئے دعا کریں۔ اِس پر آپؑ صرف تین آدمیوں کے ساتھ ہوشیارپور تشریف لے گئے۔ اِن میں سے ایک کھانا پکاتا تھا، ایک سَودا لاتا تھا اور ایک دروازے پر بیٹھا رہتا تھا تاکہ کوئی شخص آپؑ سے ملنے کے لئے اندر نہ جائے۔ وہاں ایک مکان میں جو اُن دنوں شیخ مہرعلی صاحب رئیس ہوشیارپور کا طویلہ کہلاتا تھا آپؑ فروکش ہوئے۔
اَب یہ مکان ایک معزز ہندو دوست سیٹھ ہرکشن داس صاحب کی ملکیت میں ہے۔ سیٹھ صاحب بڑے بھاری تاجر ہیں۔ـ اِن کی چین میں بھی تجارت ہے اور بعض دوسرے ممالک میں بھی، اِن کے چائے کے باغات بھی ہیں۔ غرض اس کے بالاخانہ پر بیٹھ کر آپ چالیس دن مسلسل اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ دعاکرتے رہے کہ اے خدا! اسلام کی شوکت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت کے اظہار کے لئے مجھے کوئی ایسا نشان دے جو لوگوں کے لئے ناقابل انکار ہو اور جس کو دیکھ کر وہی لوگ انکار کر سکیں جو ضد کی وجہ سے ہدایت سے محروم رہتے ہیں۔ چنانچہ اُس وقت آپ پر وہ الہامات نازل ہوئے جو 20؍ فروری 1886ء کے اشتہار میں درج ہیں۔ جس وقت آپ نے یہ اعلان کیا اُس وقت آپ کا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا نہ تھا، جبکہ جماعت احمدیہ کا وجود بھی ابھی تک قائم نہیں ہواتھا۔ یہ اشتہار 1886ء کا ہے اور آپ نے لوگوں سے بیعت اِس اشتہار کے تین سال بعد 1889ء میں لی ہے۔ گویا بیعت سے تین سال پہلے 1886ء میں خداتعالیٰ نے آپ کو یہ خبر دی کہ تمہارے ہاں ایک بیٹا ہو گا اور وہ یہ یہ صفات اور کمالات اپنے اندر رکھتا ہو گا جیسا کہ میں ابھی اُن کا کسی قدر تفصیل سے ذکر کروں گا۔ بہرحال آپ نے یہ پیشگوئی اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت شائع فرما دی اور دنیا میں اعلان فرمادیا کہ میرے ہاں ایک ایسا لڑکا پیدا ہونے والا ہے جو دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا اور اسلام کے عروج کا باعث ہو گا۔ جب آپ نے یہ پیشگوئی شائع فرمائی لوگوں نے شور مچا دیا کہ بیٹا ہونا کونسی بڑی بات ہے ہمیشہ لوگوں کے ہاں بیٹے پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں۔ حالانکہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب آپ کو یہ الہام ہوا اُس وقت آپ کی عمر باون سال کی تھی اور اُس وقت آپ نے یہ بھی شائع فرما دیا تھا کہ میری اور بھی بہت سی اولاد ہوگی جن میں سے کچھ زندہ رہیں گے اور کچھ بچپن میں فوت ہوجائیں گے اور یہ بھی پیشگوئی کی تھی کہ چار لڑکوں کا میرے ہاں پیدا ہونا ضروری ہے۔ غرض آپ نے یہ پیشگوئی اُس وقت کی جب آپ کی عمر باون سا ل کی تھی اور 52سال کی عمرمیں خاصی تعداد ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جن کی آئندہ اولاد ہونی بند ہو جاتی ہے لیکن اگر اولاد ہو بھی تو کون کہہ سکتا ہے کہ میرے ہاں بیٹے پیدا ہوں گے۔ یا اگر بیٹے ہوں تو کون کہہ سکتا ہے کہ وہ زندہ رہیں گے اور اگر بعض بیٹے زندہ بھی رہیں تو کون کہہ سکتا ہے کہ وہ چار ضرور ہوں گے۔ـ غرض کوئی شخص اپنی طرف سے ایسی بات نہیں کہہ سکتا جب تک خدا اُسے خبر نہ دے۔ بہرحال لوگوں نے اعتراض کیا کہ بیٹا ہونا کونسی بڑی بات ہے لوگوں کے ہاں ہمیشہ بیٹے پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں اور کبھی کسی نے اِس کو نشان قرار نہیں دیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جواب دیا کہ اوّل تو میر ی عمر اِس وقت بڑھاپے کی ہے۔ جوانی میں بھی انسان کی زندگی کا اعتبار نہیں ہوتا مگر بڑھاپے میں تو ایک دن کے لئے بھی انسان وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ زندہ رہے گا کجا یہ کہ وہ اِس قدر لمبا عرصہ رہے کہ اُس کے ہاں چار بیٹے پیدا ہو جائیں۔
پھر اصل سوال یہ نہیں کہ اِس عمر میں بچے پیدا ہو سکتے ہیں یا نہیں۔ بعض دفعہ سَو سال کی عمر میں بھی انسان کے ہاں بچہ پیدا ہو جاتا ہے لیکن کیا اِس شان کا بیٹا بھی اتفاقی طور پر پیدا ہو سکتا ہے جس شان کا بیٹا پیدا ہونے کی مَیں خبر دے رہا ہوں۔ کیا یہ میرے اختیار کی بات ہے کہ میں بیٹا پیدا کروں اور وہ بیٹا بھی ایسا جو دنیا کے کناروں تک شہرت پائے اور خداتعالیٰ کا کلام اُس پر نازل ہو۔ اگر ایسی پیشگوئی کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ مرزا صاحب نے اپنی طرف سے بنا لی تو ماننا پڑے گا کہ مرزا صاحب نَعُوۡذُ بِاللّٰہِ خدا ہیں کیونکہ باتیں آپ نے وہ کہیں جو خداتعالیٰ کے سِوا اور کوئی نہیں کہہ سکتا اور اگر وہ خدا نہیں اور اگر، مرزا صاحب کو خدا قرار دینا یقینا شرک ہے، وہ اُس کے بندوں میں سے ایک بندے تھے تو پھر یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ باتیں جو انہوں نے کہیں ناممکن ہے کہ کوئی انسان اپنی طرف سے کہے اور پھر وہ پوری ہو سکیں۔ چنانچہ انہی پیشگوئیوں میں سے ایک پیشگوئی یہ بھی تھی کہ وہ لڑکا تین کو چار کرنے والا ہو گا۔ اِس کے معنی اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سمجھ میں نہیں آئے مگر اِن الفاظ میں جو بات بیان کی گئی تھی وہ 1889ء میں آ کر پوری ہو گئی۔ پیشگوئی میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اُس لڑکے کا نام محمود ہو گا اور چونکہ اُس کا ایک نام بشیر ثانی بھی رکھا گیا تھا اِس لئے میرا پورا نام بشیرالدین محمود احمد رکھا گیا اور خداتعالیٰ کی عجیب قدرت ہے کہ وہ جو پیشگوئی میں بتایا گیا تھا کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا یہ اَمر کئی رنگوں میں میرے ذریعہ سے پورا ہو گیا۔ چنانچہ انہی میں سے ایک بات یہ ہے کہ یہ پیشگوئی 1886ء میں شائع کی گئی تھی۔ پس 1886ء ایک، 1887ء دو، اور 1888ء تین اور 1889ء چار ہوئے اور 1889ء ہی وہ سال ہے جس میں میری پیدائش ہوئی۔ پس تین کو چار کرنے والے کا مطلب یہ تھا کہ آج سے چوتھے سال وہ لڑکا تولد ہو گا۔ چنانچہ اِس پیشگوئی کے عین چوتھے سال 12؍جنوری 1889ء کو میری پیدائش ہوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اعلان شائع کیا کہ وہ جو مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بیٹے کی پیدائش کی خبر دی گئی تھی وہ پیدا ہو گیا ہے۔ مگر ابھی اِس بارے میں انکشافِ تام نہیں ہوا کہ یہی وہ لڑکا ہے جس کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے وعدہ دیا گیا تھا یاوہ کسی اور وقت پیدا ہو گا اور آپ نے تفاؤل کے طور پر میرا نام بشیر اور محمود رکھ دیا۔
پھر تین کو چار کرنے والی پیشگوئی ایک اور رنگ میں بھی میرے ذریعہ سے پوری ہوئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پہلی بیوی سے مرزا سلطان احمد صاحب اور مرزا فضل احمد صاحب دو بیٹے ہوئے تیسرا بیٹا ہماری والدہ سے بشیر احمد اوّل پیدا ہوا اور چوتھا مَیں پیدا ہوا۔ گویا پیشگوئی میں بتایا یہ گیا تھا کہ وہ چوتھا بیٹا ہو گا اور اپنی پیدائش کے ساتھ تین بیٹوں کو چار کر دے گا۔
اَب یہ جو پیشگوئی ہے اِس کے دو بہت بڑے اور اہم حصے ہیں۔ پہلا حصہ اِس پیشگوئی کا یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر دی گئی تھی کہ میں تیرے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔ اَب خالی بیٹا ہونے سے آپ کا نام دنیا کے کناروں تک نہیں پہنچ سکتا تھاجب تک ایسے کام آپ سے ظاہر نہ ہوتے جن سے ساری دنیا میں آپ مشہور ہو جاتے۔ بعض بڑے بڑے مصنف ہوتے ہیں اور وہ ساری عمر تصنیف و تالیف میں مصروف رہتے ہیں اِس وجہ سے اُن کا نام مشہور ہو جاتا ہے۔ بعض بُرے کام کرتے ہیں اور اِس وجہ سے مشہور ہو جاتے ہیں۔ بعض بڑے بڑے چوروں اور ڈاکوؤں کے نام سے بھی لوگ آشنا ہوتے ہیں لیکن بہرحال اُن کی اچھی یا بُری شہرت ساری دنیا تک نہیں ہوتی کسی ایک علاقہ یا ایک حصہ ملک میں اُن کی شہرت ہوتی ہے۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ خبر دی تھی کہ وہ آپ کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچائے گا۔
پس یہ پیش گوئی اِسی صورت میں عظیم الشان پیش گوئی کہلا سکتی تھی جب آپ کی شہرت غیرمعمولی حالات میں ہوتی، چنانچہ ہم دیکھتے ہیںکہ ایسا ہی ہوا۔ جب میں پیدا ہوا تو اِس کے دواڑھائی ماہ کے بعد آپ نے لوگوں سے بیعت لی اور اِس طرح سلسلہ احمدیہ کی بنیاد دنیا میں قائم ہو گئیـ۔
23؍مارچ 1889ء کو ہمارے سلسلہ کی بنیاد پڑی ہے اور اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جو حالت تھی وہ اِس سے ظاہر ہے کہ تمام مسلمان آپؑ کے دشمن تھے۔ اپنے کیا اور بیگانے کیا، رشتہ دار کیا اور غیررشتہ دار کیا، سب آپؑ کی مخالفت کرنے لگ گئے یہاں تک کہ گورنمنٹ کی نظروں میں بھی آپؑ کا دعویٰ کھٹکنے لگاـ کیونکہ آپؑ نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ میں مہدی ہوں اور مہدی کے متعلق مسلمانوں میں مشہور تھا کہ وہ کُفّار کا خون بہائے گا۔ پس گورنمنٹ کو شبہ پڑا کہ ایسا نہ ہو اِس کے ذریعہ دنیا میں کوئی فساد پیدا ہو۔ چنانچہ گورنمنٹ کی طرف سے اُس وقت قادیان میں ہمیشہ ایک کانسٹیبل رہتا تھا اور جو شخص بھی آپ سے ملنے کے لئے آتا اُس کا نام نوٹ کر کے وہ گورنمنٹ کو اطلاع دے دیتا اور اگر کبھی کوئی سرکاری افسر احمدی ہو جاتا تو بالا افسر اُسے اشاروں ہی اشاروں میں سمجھاتے کہ گورنمنٹ کی نظر میں یہ فرقہ اچھا نہیں سمجھا جاتا تمہیں اِس میںشامل ہونے سے اجتناب اختیار کرنا چاہئے۔ یہ مخالفت آخر بڑھتے بڑھتے اتنی شدید ہوئی کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو بچپن سے آپ کے دوست تھے اور ہمیشہ آپ سے تعلقات رکھتے تھے جنہوں نے براہین احمدیہ پر ایک زبردست ریویو بھی لکھا تھا وہ بھی آپ کے مخالف ہو گئے اور انہوں نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنۃ میں یہ الفاظ لکھے کہ مَیںنے اِس شخص کو بڑھایا تھا اور اَب مَیں ہی اِس کو گراؤں گا۔
اِسی شہر لاہور کا یہ واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک مریض کی عیادت کیلئے سنہری مسجد کی طرف تشریف لے گئے اور بندگاڑی میں سوار ہوئے۔ اُن دنوں بند گاڑی کو شکرم کہا جاتا تھا۔ جب آپ دہلی دروازہ سے روانہ ہوئے تو وہاں اُن دنوں ایک چبوترہ ہوا کرتا تھا۔ مَیں نے دیکھا کہ اِس چبوترے پر کھڑے ہوکر ایک شخص شور مچار رہا تھا کہ دیکھو! یہ شخص مرتد ہے، کافر ہے، اِس پر پتھر پھینکو گے تو ثواب حاصل ہو گا اور اُس کے اِردگرد بہت بڑا ہجوم تھا۔ جب گاڑی قریب سے گزری تو لوگ آپ پر لعنتیں ڈالنے لگے اور آوازیں کسنے لگے۔ بعض نے آپ پر پتھر بھی پھینکے اور گالیاں دینی شروع کر دیں۔ میرے لئے بچپن کے لحاظ سے ایک عجیب بات تھی۔ میں نے گاڑی سے اپنا سر باہر نکالا اور مَیں نے دیکھا کہ اُس شخص کے پاس جو یہ شور مچا رہا تھا ایک اور شخص کھڑاتھا اوربڑا ساجُبہ پہنے ہوئے تھا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ بھی کوئی مولوی ہے مگر اُس کا ایک ہاتھ کٹا ہوا تھا اور اُس پر زرد زرد ہلدی کی پٹیاں بندھی ہوئی تھیں مَیں نے دیکھا کہ وہ بڑے جوش سے اپنے ٹنڈے ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا مرزا نَٹھ گیا، مرزا نَٹھ گیا۔ گویا وہ اپنے زخمی ہاتھ کو بھی دوسرے ہاتھ پر مار کر یہ سمجھتا تھا کہ وہ ایک ثواب کا کام کر رہا ہے۔
پھر یہیں لاہور میں میلا رام کے منڈوہ میں 1904ء میں آپ کا ایک دفعہ لیکچر ہوا۔ محمود خان صاحب ڈپٹی انسپکٹر پولیس کے والد رحمت اللہ خان صاحب اُن دنوں شہر کے کوتوال تھے انہوں نے پولیس کا بڑا اچھا انتظام کیا مگر پھر بھی چاروں طرف سے اُنہیں اِس قدر فساد کی رپورٹیں پہنچیں کہ انہوں نے چھاؤنی سے گورا سپاہی منگوائے اور آپ کے آگے پیچھے کھڑے کر دیئے۔ پھر مجھے وہ نظارہ بھی خوب یاد ہے جبکہ قادیان میں جس کا واحد مالک ہمارا خاندان ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بائیکاٹ کیا گیا اور لوگوں کو آپ کے گھر کا کام کرنے سے روکا گیا، چوڑھوں کو کہا گیا کہ وہ صفائی نہ کریں، کمہاروں کو کہا گیا کہ وہ برتن نہ بنائیں، سقّوں کو کہا گیا کہ وہ پانی نہ بھریں، نائیوں کو کہا گیا کہ وہ حجامت نہ بنائیں، قلعی گروں کو کہا گیا کہ وہ آپ کے برتنوں پر قلعی نہ کریں۔ غرض نہ کوئی صفائی کرتا، نہ کوئی قلعی کرتا، بڑی مصیبت سے اِرد گرد کے گاؤں والوں سے اِن ضروریات کو پورا کیا جاتا۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دروازے پر آپ کی مسجد کے سامنے دیوار کھینچ دی گئی تاکہ کوئی شخص اِس میں نماز پڑھنے کے لئے نہ آ سکے۔
اِسی طرح آپ پر مختلف قسم کے مقدمات دائر کئے گئے اور بڑوں اور چھوٹوں سب نے مل کر چاہا کہ آپ کو مٹا دیا جائے۔ یہاں تک کہ ایک پادری نے آپ پر اقدامِ قتل کا نہایت جھوٹا مقدمہ دائر کر دیا اور ایک شخص کو پیش کیا جو کہتا تھا کہ مجھے مرزا صاحب نے اِس پادری کو قتل کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ آخر اِسی شخص نے عدالت کے سامنے اقرار کیا کہ مجھے جھوٹ سکھایا گیا تھا تاکہ کسی طرح مرزا صاحب سزا یاب ہوں ورنہ وہ اِس الزام سے بالکل بَری ہیں۔ کرنل ڈگلس جو ضلع گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر تھے اُن کے سامنے ہی مقدمہ پیش ہوا اور باوجود اِس کے کہ یہ مقدمہ عیسائیوں کی طرف سے تھا اور اِس بنا پر تھا کہ مرزا صاحب اسلام کی تائید کرتے اور عیسائیوں کو دجّال قرار دیتے ہیں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی عیسائیوںکی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف گواہی دینے کے لئے عدالت میں پیش ہوئے۔ یہ وہی شخص تھے جنہوں نے کہا تھا کہ میں نے ہی مرزا صاحب کو بڑھایا تھا اور اَب میں ہی انہیں گراؤں گا۔
مسٹر ڈگلس جن کے سامنے یہ کیس پیش ہوا (اور جو 25؍فروری 1957ء کو لنڈن میں وفات پا گئے ہیں) پہلے ایسے متعصب عیسائی تھے کہ جب وہ گورداسپور آئے تو انہوں نے آتے ہی اِس بات پر اظہارِ تعجب کیا کہ ابھی تک اِس شخص کو کیوں گرفتار نہیں کیا گیا جو اپنے آپ کو مسیح موعودکہتا ہے۔ لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بٹالہ میں اُن کے سامنے پیش ہوئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھتے ہی اُن کی طبیعت پر ایسا اثر پڑا کہ اُنہیں یقین ہو گیا کہ یہ شخص مجرم نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ مسٹر ڈگلس ڈپٹی کمشنر نے ڈائس پر اپنے پہلو میں کرسی بچھوائی اور اُس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تشریف رکھنے کے لئے کہا۔ یہ وہی دن تھا جب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی شہادت تھی وہ اِس امید پر آئے تھے کہ مرزا صاحب کو ہتھکڑی لگی ہوئی ہو گی اور وہ ملزموں کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے۔ مگر جب وہ اندر آئے تو انہوں نے دیکھا کہ مدعی اور اُس کے ساتھی تو باہر کھڑے ہیں اور ملزم کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ یہ دیکھ کر اُن کو آگ لگ گئی اور اُنہوں نے ڈپٹی کمشنر سے کہا کہ میرے لئے بھی کرسی کا انتظام کیا جائے۔ ڈپٹی کمشنر نے جواب دیاکہ میںنہیں سمجھ سکتا کہ آپ کو کیوں کرسی دی جائے۔ آپ ایک گواہ کی حیثیت سے آئے ہیں اور گواہوں کو کرسی نہیں ملا کرتی۔ اِس پر وہ زیادہ اصرار کرنے لگے کہ نہیں مجھے ضرور کرسی دی جائے۔ مسٹر ڈگلس کہنے لگے میں نے کہہ جو دیا ہے کہ آپ کو کرسی نہیں ملے گی۔ اِس پربھی وہ خاموش نہ ہوئے اور کہنے لگے میں لاٹ صاحب کے پاس ملنے جاتا ہوں تو وہ بھی مجھے کرسی دے دیتے ہیں آپ مجھے کیوں کرسی نہیں دیتے۔ یہ سن کر ڈپٹی کمشنر کو غصہ آ گیا اور کہنے لگا اگر ایک چوڑھا بھی ہم سے مکان پر ملنے کے لئے آئے تو ہم اُسے بھی کرسی دے دیتے ہیں مگر یہ عدالت کا کمرہ ہے یہاں تمہیں کرسی نہیں مل سکتی۔ وہ اِس پر بھی خاموش نہ ہوئے اور پھر کرسی کے لئے اصرار کرنے لگے۔ آخر ڈپٹی کمشنر نہایت غصہ سے کہنے لگا بک بک مت کر، پیچھے ہٹ اور جوتیوں میںکھڑا ہوجا۔
یہ اُس شخص کا حال ہوا جس نے کہا تھا کہ مَیں نے ہی اِس شخص کو بڑھایا تھا اور اَب میں ہی اِس کو گراؤں گا۔ وہاں سے اپنی ذلّت کروا کے باہر نکلے تو برآمدہ میں ایک کرسی پڑی ہوئی تھی اُس پر آ کر بیٹھ گئے۔ مگر مشہور ہے کہ نوکر آقا کے پیچھے چلتے ہیں۔ چپڑاسی جو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا کہ اندر ڈپٹی کمشنر اِن پر سخت ناراض ہوئے ہیں اُس نے جب دیکھا کہ برآمدہ میں یہ کرسی پر آ کر بیٹھ گئے ہیں تو وہ دَوڑا دَوڑا آیا اور آ کر کہنے لگا مولوی صاحب! کرسی سے اُٹھیے یہاں آپ کو بیٹھنے کی اجازت نہیں۔ وہاں سے اُٹھے تو باہر ہجوم میں آ گئے۔ وہاں کسی شخص نے زمین پر چادر بچھائی ہوئی تھی ۔یہ جاتے ہی اُس پر بیٹھ گئے اور خیال کیا کہ جب لوگ مجھے یہاں چادر پر بیٹھا دیکھیں گے تو خیال کریں گے کہ مجھے کمرہ عدالت میں بھی اچھی جگہ ملی ہو گی۔ مگر وہ جس نے خدا کے مأمور کے متعلق کہا تھا کہ مَیں نے ہی اِسے بڑھایا ہے اور اَب میں ہی اِسے نیچے گراؤں گا خدا نے اُسے یہاں بھی ذلیل کیا۔ابھی وہ چادر پر بیٹھے ہی تھے کہ ایک باغیرت مسلمان دَوڑا دَوڑا آیااور کہنے لگا میری چادرپلید مت کرو تم ایک مسلمان کے خلاف ایک عیسائی کے حق میں گواہی دینے آئے ہو۔آخر مولوی صاحب کو وہاں سے بھی ذلّت کے ساتھ اُٹھنا پڑا۔
پھر میں نے خود اِنہی مولوی محمد حسین صاحب کو اِس حالت میں دیکھا کہ عجز اور مسکنت ان کی صورت سے ظاہر ہوتی تھی۔میں ایک دفعہ بٹالہ گیا تووہ کسی کام کے لئے مجھ سے ملنے کے لئے آئے مگر انہیں شرم آتی تھی کہ جس شخص کی ساری عمر مَیں شدید مخالفت کرتا رہا اُس کے بیٹے سے کس طرح ملوں ۔چنانچہ میں نے دیکھا کہ وہ کمرے میں آتے اور پھر گھبرا کر نکل جاتے پھر آتے اور پھر گھبرا کر نکل جاتے۔ چار پانچ دفعہ انہوں نے اسی طرح کیا۔
ہمارے ہاں ایک ملازم ہوا کرتا تھا، پیرا اُس کا نام تھا، وہ بالکل اَنْ پڑھ اور جاہل تھا۔ نمازتک اُسے یاد نہیں ہوتی تھی، بیسیوں دفعہ اسے یاد کرائی گئی مگر وہ ہمیشہ بھول جاتا۔ اُسے کبھی تاریں دے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بٹالہ بھجوادیا کرتے تھے یا کوئی بِلٹی آتی تو اُسے چھڑوانے کے لئے اُسے بٹالہ بھجوا دیا جاتا۔ ایک دفعہ اِسی طرح وہ کسی کام کے سلسلہ میں بٹالہ گیا ہوا تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب اُسے مل گئے۔ مولوی صاحب کی عادت تھی کہ وہ اسٹیشن پر جاتے اور لوگوں کو قادیان جانے سے روکا کرتے ایک دن انہیں اور کوئی آدمی نہ ملا تو پیرے کو ہی انہوں نے پکڑ لیا اورکہنے لگے۔ پیرے تم مرزا صاحب کے پاس کیوں رہتے ہو وہ تو کافر اور بے دین ہیں۔ وہ کہنے لگا مولوی صاحب میں تو پڑھا لکھا آدمی نہیں، نماز تک مجھے نہیں آتی، کئی دفعہ لوگوں نے مجھے سکھائی ہے مگر مجھے یاد نہیں ہوتی۔ پس مجھے مسائل تو آتے ہی نہیں لیکن ایک بات ضرور ہے جو میں نے دیکھی ہے ۔مولوی صاحب کہنے لگے وہ کیا؟ پیرے نے کہا میں ہمیشہ تاریں دینے یا بلٹیاں لینے کے لئے بٹالے آتا رہتا ہوںاور جب بھی یہاں آتا ہوں آپ کو یہاں پھرتے اور لوگوں کو ورغلاتے دیکھتا ہوں کہ کوئی شخص قادیان نہ جائے۔مولوی صاحب! اب تک آپ کی اِس کوشش میں شاید کئی جوتیاں بھی گھس گئی ہوں گی مگر کوئی شخص آپ کی بات نہیں سنتا۔ دوسری طرف میں دیکھتا ہوں کہ مرزا صاحب اپنے حجرے میں بیٹھے رہتے ہیں اور پھر بھی ساری دنیا اُن کی طرف کھنچی چلی جاتی ہے۔ آخر اُن کے پاس کوئی سچائی ہے تبھی تو ایسا ہو رہا ہے ورنہ لوگ آپ کی بات کیوں نہ سنتے۔
(میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں، انوارالعلوم جلد 17 صفحہ199 تا 212)

ابتدائی خاندانی حالات

ہماری تائی صاحبہ کے احمدی ہونے میں بڑا دخل مرزا احسن بیگ صاحب کا تھا۔ وہ ان کی بہن کے بیٹے تھے۔ ان کی ایک بہن اعظم آباد میں بیاہی ہوئی تھی اور اس کے دو بیٹے تھے۔ ایک مرزا اسلم بیگ صاحب اور دوسرے مرزا احسن بیگ صاحب، مرزا احسن بیگ صاحب ہمارے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ سب سے پہلے ان کی میرے ساتھ دوستی ہوئی اور پھر انہوں نے اسی زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کر لی۔ بعد میں ریاست بوندی میں ان کو بیس ہزار ایکڑ زمین ملی۔ چونکہ ریاست آباد نہیں ہوئی تھی۔ اس لئے ریاست کے حکام نے بعض لوگوں کو بڑے بڑے علاقے دے دیئے تھے کہ ان کو آباد کرو۔ آخر میں ریاست نے کچھ زمین واپس لے لی کیونکہ وہ اسے آباد نہ کر سکے۔ مگر پھر بھی چار پانچ گاؤں ان کے پاس رہ گئے۔ اب ان کے ایک بیٹے وہاں کام کرتے ہیں۔ گو ادھر آ جانا ان کے لئے مبارک ہے مگر انہیں لالچ ہے کہ پانچ گائوں کیسے چھوڑوں۔ اگر میں پاکستان آ گیا تو پیچھے گورنمنٹ یہ جائیداد ضبط کر لے گی۔ اس لئے وہ وہیں بیٹھے ہوئے ہیں حالانکہ ان کی ماں ایک بڑی مخلص احمدی تھیں اور ان کا باپ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کرنے والا تھا۔ غرض تائی صاحبہ کی یہ بہن اعظم آباد میں بیاہی گئی تھیں اور اعظم آباد والے اپنے آپ کو بڑا رئیس سمجھتے تھے۔ سارا شاہدرہ ان کے پاس تھا۔ مرزا اعظم بیگ صاحب جو ان کے بڑے ہیڈ تھے وہ سب سے پہلے ہندوستانی تھے جو سیٹلمنٹ آفیسر بنے اس سے پہلے صرف انگریز ہی اس عہدہ پر پہنچتے تھے۔ پھر وہ کابل میں بھی رہے اور وہاں ایمبسی میں ان کو بڑے عہدہ پر رکھا گیا۔ بعد میں وہ ہزارہ میں سیٹلمنٹ آفیسر بن گئے۔ وہاں انہوں نے اپنی امارت کے گھمنڈ میں بڑے بڑے ظلم بھی کئے۔ چنانچہ ایک دفعہ میں کشمیر سے واپس آ رہا تھا تو مولوی سید سرور شاہؓ صاحب نے جو ہزارہ کے ہی رہنے والے تھے مجھے سنایا کہ جب مرزا صاحب یہاں سیٹلمنٹ آفیسر بن کر آئے تو انہوں نے اپنے غرور میں فلاں رئیس کو کہا کہ تمہارا گھوڑا مجھے بہت پسند آیا ہے۔ وہ مجھے بھیج دو اور پھر کہا کہ دیکھنا یہ گھوڑا آج شام تک میرے پاس پہنچ جائے۔ مولوی سرور شاہ صاحبؓ نے بتایا کہ وہ رئیس اتنا مالدار تھا کہ سارا علاقہ اس کے پاس تھا مگر جب انہوںنے اس کو حکم دیا تو وہ بھی چونکہ نواب اور رئیس تھا اڑ گیا اور کہنے لگا مرزا صاحب اگر آپ مجھے کسی اور کی معرفت کہلا بھیجتے کہ مجھے گھوڑا دے دو تو ایک نہیں میں دس گھوڑے بھی دے دیتا مگر آپ نے حکم دیا ہے تو اب چاہے آپ میری ساری جائیداد تباہ کر دیں اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں میں گھوڑا نہیں دوں گا۔ چنانچہ انہوں نے سیٹلمنٹ میں اس کی تمام جائیداد اس کے رشتہ داروں کے نام لکھ دی اور اس کو تباہ کر دیا۔ مولوی صاحب کہنے لگے وہ اب تک غریب چلے آتے ہیں۔ حالانکہ پہلے وہ بہت ہی صاحب رسوخ تھے غرض ان کے خاندان میں ہماری وہ پھوپھی بیاہی گئی تھیں اور ہمارے دادا کی ناپسندیدگی کے باوجود بیاہی گئی تھیں۔ مرزا اعظم بیگ صاحب جو اس خاندان کے مورث اعلیٰ تھے انہوں نے ہمارے دادا کے پاس پیغام بھیجا کہ ہم قادیان دیکھنا چاہتے ہیں وہ چغتائی خاندان کے مغل تھے اور ہم برلاس خاندان کے ہیں اور برلاس چغتائیوں کو ذلیل سمجھتے ہیں۔ پرانے زمانہ میں یہ طریق رائج تھا کہ اگر کوئی کہے کہ ہم آپ کا گائوں دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم آپ کی لڑکی لینا چاہتے ہیں۔ جب مرزا اعظم بیگ صاحب نے یہ پیغام بھیجا تو ہمارے دادا جلال میں آ گئے اور کہنے لگے تم چغتائیوں کو بھی یہ جرأت ہو سکتی ہے کہ ہم سے لڑکیاں مانگو۔ جاؤ اور ان سے کہہ دو کہ ہمیں نہیں منظور۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ ہمارے باپ کے غرور کا ہی یہ نتیجہ نکلاکہ ان کی وفات کے بعد ہماری تین لڑکیاں ان کے خاندان میں بیاہی گئیں جن میں سے ایک تو یہی ہماری پھوپھی تھیں اور ایک اور چچا کی لڑکی تھی۔ اس طرح ان کے گھر میں ہماری لڑکیوں کا اچھا خاصا اجتماع ہو گیا۔ پھر نہ صرف ہماری لڑکیاں ہی ان کے ہاں گئیں بلکہ ہماری جائیدادیں بھی ان کے قبضہ میں جانی شروع ہوئیں یہاں تک کہ قادیان کے سوا ہماری ساری جائیداد ان لوگوں کے پاس چلی گئی۔ چنانچہ راج پورہ جو میں نے بعد میں بیس ہزار روپیہ میں خریدا وہ انہی لوگوں کے پاس چلا گیا تھا۔ پھر محلہ دارالرحمت جہاں بنا ہے وہ حصہ بھی ان لوگوں کے پاس چلا گیا تھا۔ یہ جائیداد ان کے پڑپوتے مرزا اکرم بیگ نے ایک سکھ کے پاس اٹھارہ ہزار روپے میں بیچ دی تھی جو بعد میں حق شفعہ کے ذریعے ہم نے واپس لی۔
مرزا اکرم بیگ کے والد مرزا افضل بیگ صاحب ایک ریاست میں سپرنٹنڈنٹ پولیس تھے اور ناچ گانے کا انہیں شوق تھا شراب کی بھی عادت پڑی ہوئی تھی مگر آخر میں انہوں نے ان تمام عادتوں سے توبہ کر لی اور قادیان آ گئے بیعت کے بعد وہ ایک دفعہ بیمار ہوئے اور علاج کے لئے لاہور گئے تو ڈاکٹر نے کہا کہ اگر آپ تھوڑی سی شراب پی لیں تو آپ بچ سکتے ہیں۔ وہ کہنے لگے ایک دفعہ میں نے شراب سے توبہ کر لی ہے اب میں نہیں پیوں گا۔ چنانچہ وہ مرَ گئے لیکن انہوں نے شراب کو نہیں چھؤا۔ غرض بیعت کے وقت جو انہوں نے عہد کیا تھا اُس پر وہ پورے اُترے لیکن ان کا بیٹا اچھا نہ نکلا۔ اُس نے دارالرحمت والی زمین ایک سکھ کے پاس بیچ دی تھی۔ شیخ مختار احمد صاحب ایک غیراحمدی بیرسٹر تھے جو ہم سے بہت محبت رکھتے تھے۔ اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ انہوں نے مجھے لکھا کہ آپ کی اتنی قیمتی جائیداد ہے جو اکرم بیگ نے فلاں سکھ کو اٹھارہ ہزار روپیہ میں دے دی ہے۔ یہ بڑی قیمتی جائیداد ہے۔ اگر آپ اٹھارہ ہزار روپیہ کا بندوبست کر لیں تو یہ جائیداد آپ واپس لے لیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ بہت ہی قیمتی جائیداد تھی۔ چنانچہ بعد میں ہم نے اس سے پانچ لاکھ روپیہ کمایا۔
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 28 مارچ 1958ء الفضل ربوہ 12؍اپریل 1958ء جلد 47/12 نمبر 86 صفحہ 4-5)

خلوت نشینی

بیت الفکر

کبھی وہ وقت تھا کہ وہ شخص جس کے متعلق بعض دفعہ اس کے والد کے گہرے دوست بھی اس کا نام سن کر کہا کرتے تھے کہ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کا کوئی اور بیٹا بھی ہے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے والد کے دوستوں میں سے کئی ایسے تھے جو سالہا سال کی ملاقات کے بعد یہ معلوم نہ کر سکے تھے کہ مرزا غلام قادر صاحب کے سوا ان کا کوئی اور بیٹا بھی ہے کیونکہ بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ گوشہ تنہائی میں رہتے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے عادی تھے۔ (افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1934ء ، انوارالعلوم جلد 13صفحہ 308 )

خاندان کی نسلیں منقطع

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا گیا کہ تیرے سوا اس خاندان کی نسلیں منقطع ہوجائیں گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہؤ ا۔ اب اس خاندان میں سے وہی لوگ باقی ہیں جو سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوگئے اور باقی سب کی نسلیں منقطع ہو گئی ہیں۔
جس وقت حضرت مسیح موعودؑ نے دعویٰ کیا اس وقت خاندان میں ستر کے قریب مرد تھے لیکن اب سوائے ان کے جو حضرت مسیح موعودؑ کی جسمانی یا روحانی اولاد ہیں ان ستر میں سے ایک کی بھی اولاد نہیں ہے۔
(الفضل 7 اکتوبر 1919ء جلد 7 نمبر 28 صفحہ 7-8)

مطالعہ کی عادت

آپؑ فرمایا کرتے تھے کہ بعض دفعہ آپ کے والد نہایت افسردہ ہو جاتے تھے اور کہتے تھے کہ میرے بعد اس لڑکے کا کس طرح گزارہ ہوگا اور اس بات پر ان کو سخت رنج تھا کہ یہ اپنے بھائی کا دست نگر رہے گا اور کبھی کبھی وہ آپ کے مطالعہ پر چڑ کر آپ کو ملّاں بھی کہہ دیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ ہمارے گھر میں ملّاں کہاں سے پیدا ہو گیا ہے لیکن باوجود اس کے خود ان کے دل میں بھی آپ کا رعب تھا۔ اور جب کبھی وہ اپنی دنیاوی ناکامیوں کو یاد کرتے تھے تو دینی باتوں میں آپ کے استغراق کو دیکھ کر خوش ہوتے تھے اور اس وقت فرماتے تھے کہ اصل کام تو یہی ہے جس میں میرا بیٹا لگا ہؤا ہے لیکن چونکہ ان کی ساری عمر دنیا کے کاموں میں گذری تھی اس لئے افسوس کا پہلو غالب رہتا تھا مگر حضرت مرزا صاحب اس بات کی بالکل پرواہ نہ کرتے تھے بلکہ کسی کسی وقت قرآن و حدیث اپنے والد صاحب کوبھی سنانے کے لئے بیٹھ جاتے تھے۔ اور یہ ایک عجیب نظارہ تھا کہ باپ اور بیٹا دو مختلف کاموں میں لگے ہوتے تھے اور دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کو شکار کرنا چاہتا تھا۔ باپ چاہتا تھا کہ کسی طرح بیٹے کو اپنے خیالات کا شکار کرے اور دنیاوی عزت کے حصول میں لگا دے اور بیٹا چاہتا تھا کہ اپنے باپ کو دنیا کے خطرناک پھندے سے آزاد کرکے اللہ تعالیٰ کی محبت کی لَو لگا دے۔ غرض یہ عجیب دن تھے جن کا نظارہ کھینچنا قلم کا کام نہیں۔
(رسالہ ریویو آف ریلیجنز اردو جلد 15 نمبر 9 ستمبر 1916ء صفحہ 333)

خدمت دین کی لگن

مجھے سب سے زیادہ ایک بوڑھے شخص کی شہادت پسند آیا کرتی ہے۔ یہ ایک سکھ ہے جو آپ کا بچپن کا واقف ہے۔ وہ آپ کا ذکر کرکے بے اختیار رو پڑتا ہے۔ اور سنایا کرتا ہے کہ ہم کبھی آپ کے پاس آکر بیٹھتے تھے تو آپ ہمیں کہتے تھے کہ جاکر میرے والد صاحب سے سفارش کرو کہ مجھے خدا اور دین کی خدمت کرنے دیں اور دنیوی کاموں سے معاف رکھیں۔ پھر وہ شخص یہ کہہ کر رو پڑتا کہ’’وہ تو پیدائش سے ہی ولی تھے۔‘‘ (احمدیت یعنی حقیقی اسلام ۔انوارالعلوم جلد 8صفحہ 207)

محبت الٰہی

جب آپ(حضرت مسیح موعود ؑ) کی عمر نہایت چھوٹی تھی تو اس وقت آپ ایک اپنی ہم سن لڑکی کو جس سے بعد میں آپ کی شادی بھی ہو گئی کہا کرتے تھے کہ ’’نامرادے دعا کر کہ خدا میرے نماز نصیب کرے۔‘‘ اس فقرہ سے جو نہایت بچپن کی عمر کا ہے پتہ چلتا ہے کہ نہایت بچپن کی عمر سے آپ کے دل میں کیسے جذبات موجزن تھے اور آپ کی خواہشات کا مرکز کس طرح خدا ہی خدا ہو رہا تھا۔
(رسالہ ریویو آف ریلیجنز اردو بابت ماہ ستمبر 1916ء جلد 15 نمبر 9 صفحہ 328)

بکریاں چروانا

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بچپن کاواقعہ ہے۔ ایک غیر احمدی جو اَب فوت ہو چکا ہے اس نے سنایا کہ حضرت صاحب جب بچہ تھے گاؤں سے باہر شکار کے لئے گئے اور شکار کے لئے پھندا تیار کرنے لگے، پھر اس خیال سے کہ کھانا کھانے کے لئے گھر نہیں جا سکیں گے ایک دھیلہ ایک بکری چرانے والے کو دیا کہ جاکر چنے بھنوالاؤ ( اس زمانہ میں روپیہ کی بہت قیمت تھی اور کوڑیوں سے بھی خریدوفروخت ہؤا کرتی تھی) اور اس سے وعدہ کیا کہ میں اتنی دیر تمہاری بکریوں کا خیال رکھوں گا۔ وہ شخص جا کر کسی کام میں لگ گیا اور وہ واپس نہ آیا۔ ایک دوسرے شخص نے دیکھ کر کہا کہ آپ اس قدر دیر سے انتظار کر رہے ہیں۔ میں جا کر اسے بھیجوں اور یہ شخص جا کر اس لڑکے کو تلاش کرتا رہا اور کہیں شام کے قریب اسے جا ڈھونڈا اور آپ شام تک بکریاں چرایا کئے اور اپنے وعدہ پر قائم رہے۔ جب وہ آیا تو آپ اس پر ناراض بھی نہ ہوئے۔ یہ اخلاق ہیں جو جیتنے والوں میں ہوتے ہیں نہ یہ کہ عمر آخر ہونے کو آئی ہے اور ہر کام میں سستی، ہر کام میں غفلت، کوئی ہوشیار کرے تو ہوشیار ہوں ورنہ پھر غفلت کی حالت میں چلے جائیں۔
(خطبات محمود جلد 15صفحہ368)

میں نے جس کا نوکر ہونا تھا ہو چکا

مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ آپ کے ایام جوانی میں آپ کے والد صاحب اور ہمارے دادا صاحب اکثر اوقات افسوس کا اظہار کیا کرتے تھے کہ میرا ایک بچہ تو لائق ہے۔ (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بڑے بھائی اور ہمارے تایا مرزا غلام قادر صاحب) مگر دوسرا لڑکا (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ) نالائق ہے کوئی کام نہ اسے آتا ہے اور نہ وہ کرتا ہے۔ مجھے فکر ہے کہ میرے مرنے کے بعد یہ کھائے گا کہاں سے؟


یہاں سے جنوب کی طرف ایک گاؤں ہے، کاہلواں اس کا نام ہے وہاں کا ایک سکھ مجھ سے اکثر ملنے آیا کرتا تھا۔ اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ایسی محبت تھی کہ باوجود سکھ ہونے کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قبر پر جاکر سلام کیا کرتا تھا۔ دعا کا طریق ان میں نہیں۔ خلافت کے ابتدائی ایام میں جبکہ نو دس بجے کے قریب ڈاک آیا کرتی تھی اور میں مسجد مبارک میں بیٹھ کر ڈاک دیکھا کرتا تھا ایک دن وہ سکھ اس وقت جبکہ میں ڈاک دیکھ رہا تھا آیا اور مسجد مبارک کی سیڑھیوں پر سے ہی مجھے دیکھ کر چیخ مار کر کہنے لگا۔ آپ کی جماعت نے مجھ پر بڑا ظلم کیا ہے۔ مجھے چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اس کے تعلقات کا علم تھا۔ میں نے اسے محبت سے بٹھایا اور پوچھا کیا ہؤا ہے۔ آپ بیان کریں اگر میری جماعت کے کسی شخص نے آپ کو کسی قسم کی تکلیف اور دکھ دیا ہے تو میں اسے سزا دوں گا۔ میرے یہ کہنے پر اس نے جو دکھ بتایا وہ یہ تھا کہ میں مرزا صاحب کی قبر پر متھا ٹیکنے کے لئے گیا تھا۔ مگر مجھے متھّا ٹیکنے نہیں دیا گیا۔ میں نے کہا ہمارے ہاں یہ شرک ہے اور ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اس نے کہا۔ اگر آپ کے مذہب میں یہ بات ناجائز ہے تو آپ نہ کریں مگر میرے مذہب سے آپ کو کیا واسطہ! مجھے کیوں نہ متھّا ٹیکنے دیا جائے۔ جب اس کا جوش ٹھنڈا ہؤا تو کہنے لگا۔ ہمارا آپ کے خاندان سے پرانا تعلق ہے، میرا باپ بھی آپ کے دادا صاحب کے پاس آیا کرتا تھا۔ ایک دفعہ جب وہ آیا تو میں اور میرا ایک بھائی بھی ساتھ تھے۔ اس وقت ہم چھوٹی عمر کے تھے، آپ کے دادا صاحب اس وقت افسوس سے میرے باپ کو کہنے لگے۔ مجھے بڑا صدمہ ہے، اب میری موت کا وقت قریب ہے، میں اپنے اس لڑکے کو بہت سمجھاتا ہوں کہ کوئی کام کرے، مگر یہ کچھ نہیں کرتا۔ کیا میرے مرنے کے بعد یہ اپنے بھائی کے ٹکڑوں پر پڑا رہے گا۔ پھر کہنے لگے لڑکے لڑکوں کی باتیں مان لیتے ہیں اور ہم دونوں بھائیوں سے کہا۔ تم جاکر اسے سمجھائو اورپوچھو کہ اس کی مرضی کیاہے؟ہم دونوں بھائی گئے۔ دوسرے بھائی کو تو میں نے نہیں دیکھا وہ پہلے فوت ہو چکا تھا مگر جس نے یہ بیان کیا وہ مجھ سے ملتا رہتا تھا۔ اس نے بتایا ہم آپ کے والد صاحب کے پاس گئے اور جاکر کہا آپ کے باپ کو شکوہ ہے کہ آپ کوئی کام نہیں کرتے۔نہ کوئی ملازمت کرنا چاہتے ہیں اس سے اُن کے دل پر بہت صدمہ ہے۔ آپ ہمیں بتائیں، آپ کا ارادہ کیا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بات سن کر فرمایا بڑے مرزا صاحب خواہ مخواہ فکر کرتے ہیں میں نے جس کا نوکر ہونا تھا اس کا نوکر ہو چکا ہوں۔ ہم نے آکر بڑے مرزا صاحب سے کہہ دیا کہ وہ تو یہ کہتے ہیں کہ مجھے جس کا نوکر ہونا تھا ہو چکا۔ اس پر آپ کے دادا صاحب نے کہا: اگر وہ یہ کہتا ہے تو ٹھیک کہتا ہے۔ (الفضل 31دسمبر 1933ء جلد 21 نمبر 78 صفحہ3)

مقدمات میں پیش ہونا

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے والد مرحوم بہت مدبّر اور لائق آدمی تھے مگر دنیا دار انہ رنگ رکھتے تھے جب آپ جوان تھے تو آپ کے والدصاحب مرحوم کو ہمیشہ آپ کے متعلق یہ فکر رہتی تھی کہ یہ لڑکا سارا دن مسجد میں بیٹھا رہتا ہے اور کتابیں پڑھتا رہتا ہے یہ بڑا ہو کر کیا کرے گا اور کس طرح اپنی روزی کماسکے گا؟ آپ کے والد صاحب مرحوم آپؑ کو کئی کاموں کی انجام دہی کے لئے بھیجتے مگر آپ چھوڑ کر چلے آتے یہاں تک کہ زمین کے مقدمات کے بارہ میں ان کو آپ کے خلاف شکایت رہتی تھی کہ وقت پر نہیں پہنچتے۔ ایک دفعہ آپ کسی مقدمہ کی پیروی کے لئے گئے تو عین پیشی کے وقت آپ نے نماز شروع کر دی۔ جب آپ نماز ختم کر چکے تو کسی نے آکر کہا آپ کامقدمہ تو آپ کی غیرحاضری کی وجہ سے خارج ہوگیا ہے آپ نے فرمایا اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ اِس سے بھی جان چھوٹی۔ جب آپ گھر پہنچے تو والد صاحب مرحوم نے ڈانٹا اور کہا تم اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ مقدمہ کی پیشی کے وقت عدالت میں حاضر رہو۔ آپ نے فرمایا نماز مقدمہ سے زیادہ ضروری تھی (گو مقدمہ کے متعلق میں نے سنا ہے کہ بعد میں معلوم ہواکہ مقدمہ آپ کے حق میں ہی ہوگیا تھا۔)
کاہلواں کے دو بھائی جو سکھ تھے ان کو آپ کے ساتھ عشق تھا۔ وہ ہمیشہ آپ کے پاس آیا کرتے تھے اور باوجو د سکھ ہونے کے وہ آپ کے بہت زیادہ معتقد تھے۔ آپ کی وفات کے بعد ایک دفعہ مَیں نماز پڑھا کر اندر جانے لگا تو انہی دونوں بھائیوں میں سے ایک نے مجھے روک لیا اور کہا خدا کے لئے آپ اپنی جماعت کے لوگوں کو روکیں کہ وہ ہم پر ظلم نہ کریں۔ میں حیران ہوا کہ ہماری جماعت کے لوگوں نے آپ پر کیا ظلم کیا ہے؟ میں نے اُسے تسلی دی اور کہا کہ اگر کسی نے کوئی ایسی حرکت کی ہے تو میں اُسے سزادوں گا تم بتاؤ کہ کس نے تمہارے ساتھ ظلم کیا ہے؟ اُس نے بتایا کہ میں بہشتی مقبرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قبر پر گیا تھا اور میں نے وہاں سجدہ کرنا چاہا لیکن آپ کے آدمیوں نے روک دیا۔ میں نے کہا یہ چیز تو ہمارے مذہب میں ناجائز ہے اسی لئے انہوں نے آپ کو روکا ہے۔ وہ کہنے لگا آپ کے مذہب میں بیشک ناجائز ہے مگر ہمارے مذہب میں تو ناجائز نہیں۔ اس سے ان کی محبت کا پتہ لگتا ہے۔ ان بھائیوں نے خود مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک واقعہ سنایا اور کہا کہ حضرت مرزا صاحب کے ساتھ ہماری دوستی تھی اور ہم اکثر ان کے پاس آیا جایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ آپ کے دادا نے جب ہم اپنے باپ کے ساتھ آئے ہمیں کہا کہ میں نے تو غلام احمد(مسیح موعود) کو بہت سمجھایا ہے مگر اس کی اصلاح نہیں ہوتی یہ سارا سارا دن مسجد میں بیٹھا رہتا ہے بڑا ہو کر کیا کرے گا؟ کیا یہ اپنے بھائی کے ٹکڑوں پر جئے گا؟ میرا خیال ہے کہ تم اس کے ہمجولی ہو اور ہم عمر ہو تم جا کر اس کو سمجھاؤ شاید تمہارے کہنے سے سمجھ جائے۔ چنانچہ ہم آپ کے پاس گئے اور ان کو سمجھانا شروع کیا۔ جب ہم بات ختم کر چکے تو آپ نے کہا والد صاحب تو یونہی گھبراتے ہیں میں نے جس کی نوکری کرنی تھی کرلی ہے۔ وہ سکھ سنایا کرتے تھے کہ ہم نے جب آپ کا یہ جواب آپ کے والد صاحب کو جا کر سنایا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انہوں نے کہا غلام احمد کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ اگر وہ کہتا ہے کہ میں نے جس کی نوکری کرنی تھی کرلی ہے تو وہ ضرور سچ کہتا ہوگا۔
پس مومن صرف اللہ کی نوکری کرتا ہے۔ عام طور پر لوگ سَترہ اٹھارہ روپیہ پر فوجوں میں بھرتی ہوتے ہیں اور اِسی حقیر رقم کے لئے اپنی جانیں لڑا دیتے ہیں تو کیا ایک مومن اسلام کی خاطر اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنے کے لئے تیار نہ ہوگا؟ ہوگا اور ضرور ہوگا کیونکہ مومن جانتا ہے کہ وہ خدا کا مینار ہے جس کی روشنی میں دنیا کی تمام تاریکیاں اور ظلمتیں دُور ہو جاتی ہیں۔
(انصاف پر قائم ہو جاؤ، انوار العلوم جلد 18 صفحہ603،604)

والد صاحب کے مقدمات کی پیروی

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے والد کے دوستوں میں سے کئی ایسے تھے جو سالہاسال کی ملاقات کے بعد یہ معلوم نہ کر سکتے تھے کہ مرزا غلام قادر صاحب کے سوا ان کا کوئی اور بیٹا بھی ہے کیونکہ بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ گوشۂ تنہائی میں رہتے اور اﷲ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے عادی تھے۔ اس وقت ہمارے ایک دوست سٹیج پر میرے پاس ہی بیٹھے ہیں۔ وہ سنایا کرتے ہیں۔
ابتدائے ایام میں یعنی اپنی ابتدائی زندگی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ان کے والد صاحب مقدمات کی پیروی کے لئے بھیج دیا کرتے تھے۔ ایک اہم مقدمہ چل رہا تھا جس کی کامیابی پر خاندانی عزت اور خاندان کے وقار کا انحصار تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو آپ کے والد صاحب نے لاہور بھیج دیا کہ وہاں جا کر پیروی کریں چنانچہ آپ لمبا عرصہ جو مہینہ ڈیڑھ مہینہ کے قریب تھا لاہور رہے۔ قادیان کے سید محمد علی شاہ صاحب لاہور میں رہتے تھے ان کے پاس آپ ٹھہرے اور انہوں نے اپنے ایک دوست کی گاڑی کا انتظام کر دیا کہ جب چیف کورٹ کا وقت ہو آپ کو وہاں پہنچا آیا کرے اور جب وقت ختم ہوجائے آپ کو لے آئے۔ یہ بیان کرنے والے دوست کے والد صاحب کی گاڑی تھی۔ کئی دنوں کے انتظار کے بعد جب فیصلہ سنایا گیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام گاڑی کے پہنچنے سے پہلے ہی سید محمد علی شاہ صاحب کے گھر آگئے۔ سید صاحب نے پوچھا۔ آج آپ گاڑی کے پہنچنے سے پہلے ہی آگئے؟ آپ بڑے خوش خوش تھے۔ فرمانے لگے مقدمہ کا فیصلہ ہو گیا ہے اس لئے میں پہلے ہی آگیا۔ سید صاحبؓ نے آپؑ کی خوشی کو دیکھ کر سمجھا مقدمہ میں کامیابی ہوئی ہوگی مگر جب پوچھا کہ کیا مقدمہ جیت گئے؟ تو آپؑ نے فرمایا۔ مقدمہ تو ہار گئے مگر اچھا ہؤا جھگڑا تو مٹا، اب ہم اطمینان سے خداتعالیٰ کو یاد کر سکیں گے۔ یہ سن کر سید صاحب بہت ناراض ہوئے۔ اس وقت تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعویٰ نہیں کیا تھا اور جب آپؑ نے دعویٰ کیا تو بھی کچھ عرصہ تک سید صاحب ؓمخالف رہے۔ انہوں نے ناراض ہو کر کہا۔ اس مقدمہ کے ہار جانے سے تو آپ کے خاندان پر تباہی آجائے گی اور آپ خوش ہو رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ جو خداتعالیٰ نے کہا تھا وہ پورا ہو گیا۔ تو دعویٰ سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ حالت تھی۔ آپؑ دنیا سے بالکل الگ تھلگ رہتے تھے۔ آپؑ فرماتے اسی خداکی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے جب تک اس نے مجھے مجبور نہیں کر دیا کہ دنیا کی اصلاح کے لئے کھڑا ہوں اس وقت تک میں نے دنیا کی طرف توجہ نہ کی۔ گویا روحانی طور پر آپؑ غار حرا میں رہتے تھے جس میں رہتے ہوئے آپؑ کو دنیا کی کوئی خبر نہ تھی اور دنیا کو آپؑ کی کوئی خبر نہ تھی۔ (الفضل یکم جنوری 1935ء جلد 22 نمبر 79 صفحہ 3)

باقاعدہ نماز پڑھنے کی عادت

سیدمنظور علی شاہ صاحب کے والد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ اوائل کے واقف تھے۔ ان کے تعلقات ملک غلام محمد صاحب کے والد صاحب کے ساتھ بہت گہرے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملک صاحب بھی آئے ہوئے ہیں۔ شاہ صاحبؓ ایام جوانی میں لاہور نوکر تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب لاہور جاتے تو ان کے پاس ٹھہرتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مقدمہ ہارنے کا جو واقعہ لکھا ہے اس میں انہی کا ذکر ہے۔ آپؑ مقدمہ کا فیصلہ سننے کے لئے لاہور گئے ہوئے تھے اور روزانہ چیف کورٹ میں جاتے تھے۔ ایک دن خوش خوش واپس آئے تو شاہ صاحب نے کہا کیا مقدمہ جیت آئے؟ آپؑ نے فرمایا۔ مقدمہ تو نہیں جیتا مگر اچھا ہوا حکم سنا دیا گیا کیونکہ وہاں جانے کی وجہ سے نمازیں پڑھنے میں تکلیف ہوتی تھی۔ اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ابھی دعویٰ نہ کیا تھا۔ شاہ صاحبؓ نے غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ آپؑ کے باپ کا اتنا بڑا نقصان ہو گیا ہے اور آپؑ خوش ہو رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ نہایت ابتدائی زمانہ سے شاہ صاحب کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تعلقات تھے اور بہت محبت رکھتے تھے۔ آج ان کی پوتی کی شادی ہے۔ ‘‘ (خطبات محمود جلد سوم صفحہ 455)

سیالکوٹ ملازمت میں حکمت

خدا تعالیٰ جو آپ کو سیالکوٹ لے گیا تو اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ آپ کو گھر میں کھانے کو نہ ملتا تھا اور معاش کے لئے آپ کو کسی نوکری کی تلاش تھی۔ خدا کے فضل سے گورنمنٹ ہمارے خاندان کو رؤسائے پنجاب میں شمار کرتی ہے۔ ہماری جائیداد کو دیکھ لو قادیان کے ہم مالک ہیں اور اُن لوگوں سے قبل جنہوں نے سکونت کی غرض سے ہم سے زمین خریدی کسی کی چپہ بھر زمین بھی وہاں نہ تھی۔ اس کے علاوہ تین اور گاؤں ہماری ملکیت ہیں اور دو میں تعلقہ داری ہے۔ پس سوچنا چاہئے کہ اگر مرزا صاحب نے نوکری کی تو ضرور اس میں کوئی اور غرض ہوگی آپؑ کے دل کی یا خدا تعالیٰ کی اور حقیقت یہ ہے کہ اس میں دونوں کی ایک ایک غرض تھی۔ حضرت مرزا صاحب کی ایک تحریر ملی ہے جو آپؑ نے والد صاحب کے نام لکھی تھی۔ آپؑ کے والد صاحب آپؑ کو دنیوی معاملات میں ہوشیار کرنے کیلئے مقدمات وغیرہ میں مصروف رکھنا چاہتے تھے اور آپؑ کی جو تحریر ملی ہے اس میں آپؑ نے اپنے والد صاحب کو لکھا ہے کہ دنیا اور اس کی دولت سب فانی چیزیں ہیں مجھے ان کاموں سے معذور رکھا جائے۔ مگر انہوں نے جب آپ کا پیچھا نہ چھوڑا تو آپ سیالکوٹ چلے گئے کہ دن کو تھوڑا سا کام کرکے رات کو بے فکری کے ساتھ ذکر الٰہی کرسکیں۔ دوسری حکمت اس میں یہ ہے کہ قادیان ساراہماری ملکیت ہے اور اب بھی جن لوگوں نے وہاں زمینیں لی ہیں وہ سب احمدی ہیں اس لحاظ سے بھی گویا وہاں کے لوگ ہماری رعایا ہیں۔ اس لئے وہاں کے لوگوں کی حضرت مرزا صاحب کے متعلق شہادت پر کوئی کہہ سکتا تھا کہ’’ خواجہ کا گواہ مینڈک‘‘ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو سیالکوٹ لا ڈالا۔ جہاں آپؑ کو غیروں میں رہنا پڑا اور اس طرح خداتعالیٰ کا منشاء یہ تھا کہ ناواقف لوگوں میں سے وہ لوگ جن پر آپؑ یا آپؑ کے خاندان کا کوئی اثر نہ ہو۔ آپؑ کی پاکیزہ زندگی کے لئے شاہد کھڑے کئے جائیں۔ پھر سیالکوٹ پنجاب میں عیسائیوں کا مرکز ہے وہاں آپ کو ان سے مقابلہ کا بھی موقعہ مل گیا۔ آپؑ عیسائیوں سے مباحثات کرتے رہتے تھے اور مسلمانوں نے آپؑ کی زندگی کو دیکھا۔ قادیان کے لوگوں کو آپ کے مزارع کہا جاسکتا تھا مگر سیالکوٹ کے لوگوں کی یہ حیثیت نہیں تھی۔ وہاں کے تمام بڑے بڑے مسلمان آپؑ کی عُلو شان کے معترف ہیں۔ مولوی میر حسن صاحب جو ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے استاد تھے اور جن کے متعلق ڈاکٹر صاحب ہمیشہ اظہار عقیدت کرتے رہے ہیں۔ اگرچہ آخر تک سلسلہ کے مخالف رہے مگر وہ ہمیشہ اس بات کے معترف تھے کہ مرزا صاحب کا پہلا کیریکٹر بے نظیر تھا اور آپؑ کے اخلاق بہت ہی اعلیٰ تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو سیالکوٹ میں معمولی نوکری اس غرض سے کرائی تھی۔ اس زمانہ میں عیسائیوں کا بڑا رعب ہوتا تھا۔ اب تو کانگرس نے اسے بہت کچھ مٹا دیا ہے۔ اس زمانہ میں پادریوں کا رعب بھی سرکاری افسروں سے کم نہ تھا اور اعلیٰ افسر تو الگ رہے ادنیٰ ملازموں تک کی یہ حالت تھی کہ چٹھی رسان دیہات میں بڑی شان سے جاتے اور کہتے لاؤ مٹھائی کھلاؤ تمہارا خط لایا ہوں۔ تو اس وقت پادریوں کا بہت رعب تھا لیکن جب سیالکوٹ کا انچارج مشنری ولایت جانے لگا تو وہ حضرت مرزا صاحب کے ملنے کے لئے خود کچہری آیا۔ ڈپٹی کمشنر اسے دیکھ کر اس کے استقبال کے لئے آیا اور دریافت کیا کہ آپ کس طرح تشریف لائے ہیں؟ کوئی کام ہو تو ارشاد فرمائیں مگر اس نے کہا۔ میں صرف آپ کے اس منشی سے ملنے آیا ہوں۔ یہ ثبوت تھا اس امر کا کہ آپؑ کے مخالف بھی تسلیم کرتے تھے کہ یہ ایک ایسا جوہر ہے جو قابل قدر ہے۔
(تحقیق حق کا صحیح طریق، انوارالعلوم جلد 13صفحہ 407تا408)

سیدمیرحسن صاحب کی سچی گواہی

حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ میں قریباً دو سال رہے ہیں اور … سیالکوٹ کے لوگوں پر آپؑ کی زندگی کا جو اثر تھا وہ اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ سیدمیرحسن صاحب جو ایک بہت مشہور شخص گزرے ہیں ڈاکٹر سر اقبال بھی ان کے شاگردوں میں سے ہیں،سیالکوٹ اور پنجاب کا علمی طبقہ ان کی عظمت، صاف گوئی اور سچائی کا قائل ہے ۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قیامِ سیالکوٹ کے ہر وقت کے ساتھی تھے وہ نیچری تھے اور سرسید کے متبع تھے اور آخر تک احمدیت کے مخالف رہے ہیں۔ مگر جب بھی کسی نے آپ کی قبل از بعثت زندگی پر اعتراض کیے انہوں نے ہمیشہ اس کی تر دید کی اور عَلَی الْاِعْلَانْ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بزرگی اور نیکی اور اسلام سے محبت کا ذکر کرتے رہے ۔پس کیا یہ عجیب بات نہیں کہ سیالکوٹ جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام لمبے عرصہ تک رہے وہاں کے لوگ تو آپ کی زندگی میں کوئی عیب نہ نکال سکے بلکہ آپؑ کی بزرگی اور ولایت کے قائل رہے لیکن یہ سید محمد مظہر کہتا ہے کہ قادیان کی واپسی کے وقت سید چنن شاہ صاحب سے آپؑ راستہ میں یہ بات کہتے آئے کہ انسان ذرا ڈھیٹھ بن جائے تو نبی بن سکتا ہے ۔در اصل یہ الفاظ کہہ کر اس شخص نے اپنی گندی فطرت کا اظہار کیا ہے اور اُس ڈھیٹھ پن کا مظاہرہ کیا ہے جو اس کے اندر موجود ہے ۔ غرض احرار کی طرف سے گالیوں میں کمی نہیں آئی بلکہ ان میں زیادتی ہو رہی ہے ۔گالیاں دی جاتی ہیں اور اتنی ناپاک اور گندی گالیاں دی جاتی ہیں کہ کوئی انسان انہیں سننے کی تاب نہیں رکھتا۔ اس کے مقابلہ میں حکومت خاموش ہے اور مسلسل خاموش ہے حالانکہ اگر یہی گالیاں حضرت مسیح ناصری کو دی جائیں،اگر یہی گالیاں حضرت کرشن کو دی جائیں اور اگر یہ گالیاں سکھوں کے گروئوں کو دی جائیںتو گورنمنٹ کے حلقہ ہائے اعلیٰ تھرا جائیں اور ملک میں فساد اور خونریزی کی ایسی رَو پیدا ہو جائے جس کا سنبھالنا حکومت کے بس میں نہ ہو مگر کیا چیز ہے جو حکومت کو خاموش رکھے ہوئے ہے ،کس چیز نے اس کی قلموں کو روکا ہؤا ہے اور کس چیز نے اس کے ہاتھوں کو حرکت کرنے سے روکا ہؤا ہے۔ صرف اس بات نے کہ احمدی امن پسند ہیں اور وہ ملک کے امن کو برباد نہیں کریں گے ۔ (خطبات محمود جلد16 صفحہ682)

یادالٰہی میں مشغول رہنا پسند کرتے تھے

جب آپ اس قسم کے (دنیاوی مقدمات و ملازمت وغیرہ) معاملات سے تنگ آ گئے۔ تو آپؑ نے ایک خط اپنے والد صاحب کو لکھا جس میں اس قسم کے کاموں سے فارغ کر دیئے جانے کی درخواست کی۔ اس خط کو میں یہاں نقل کر دیتا ہوں تاکہ معلوم ہو کہ آپ ابتدائی عمر سے کس قدر دنیا سے متنفر تھے اور یاد الٰہی میں مشغول رہنے کو پسند کرتے تھے۔ یہ خط آپؑ نے اس وقت کے دستور کے مطابق فارسی زبان میں لکھا تھا۔ (دعوۃ الامیر۔انوارالعلوم جلد 7صفحہ576)
(حضرت اقدسؑ کا یہ خط مع اردو ترجمہ اخبار الحکم میں شائع ہوچکا ہے جس میں سے اس کا ترجمہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے):
حضرت والد مخدوم من سلامت غلامانہ مراسم اور فدویانہ آداب کی بجاآوری کے بعد آپ کی خدمت میں یہ عرض کرتا ہوں کہ ان دنوں یہ امر مشاہدہ میں آ رہا ہے اور ہر روز یہ بات دیکھی جا رہی ہے کہ تمام ممالک اور قطعات زمین میں ہر سال اس قسم کی وبا پھوٹ پڑتی ہے جوکہ دوستوں کو دوستوں سے اور رشتہ داروں کو رشتہ داروں سے جدا کر دیتی ہے اور ان میں دائمی مفارقت ڈال دیتی ہے اور کوئی سال بھی اس بات سے خالی نہیں گزرتا کہ یہ عظیم الشان آگ اور المناک حادثہ ظاہر نہ ہوتا ہو۔ یا اس کی تباہی کی وجہ سے شور قیامت برپا نہ ہوتا ہو۔ ان حالات کو دیکھ کر میرا دل دنیا سے سرد ہو گیا ہے اور چہرہ اس غم سے زرد ہے اور اکثر حضرت شیخ سعدی شیرازی رحمۃ اﷲ علیہ کے یہ دو مصرعہ زبان پر جاری رہتے ہیں۔ اور حسرت و افسوس کی وجہ سے آنکھوں سے آنسو بہ پڑتے ہیں۔

مکن تکیہ بر عمر ناپائیدار
مباش ایمن از بازیٔ روزگار

ناپائیدار عمر پر بھروسا نہ کر اور زمانہ کی کھیل سے بے خوف نہ ہو۔
نیز فرخ قادیانی کے دیوان سے یہ دو مصرعے بھی میرے زخموں پر نمک چھڑکتے رہتے ہیں:

بدنیائے دوں دل مبند اے جواں
کہ وقت اجل مے رسد ناگہاں

اپنے دل کو دنیائے دوں میں نہ لگا کیونکہ موت کا وقت ناگہاں پہنچ جاتا ہے۔
اس لئے میں چاہتا ہوں کہ باقی عمر گوشۂ تنہائی اور کنج عزلت میں بسر کروں اور عوام کی صحبت اور مجالس سے علیحدگی اختیار کروں اور اﷲ تعالیٰ سبحانہٗ کی یادمیں مصروف ہو جاؤں تاکہ تلافی مافات کی صورت پیدا ہو جائے۔

عمر بگذشت و نماند ست جز ایامے چند
بہ کہ در یاد کسے صبح کنم شامے چند

عمر کا اکثر حصہ گزر گیا ہے اور اب چند دن باقی رہ گئے ہیں۔ بہتر ہے کہ یہ چند (روز) کسی کی یاد میں بسر ہوں کیونکہ دنیا کی کوئی پختہ بنیاد نہیں اور زندگی کا کوئی اعتبار نہیں اور حیات مستعار پر کوئی اعتماد نہیں۔ والکیس من خاف علیٰ نفسہٖ من اٰفۃ غیرہٖ جس شخص کو اپنا فکر ہو اسے کسی آفت کا کیا غم۔
(الحکم سیرت مسیح موعود نمبر۔ جلد 47 نمبر 19 تا 22 مورخہ 21 تا 28 مئی و 7 تا 14 جون 1943ء صفحہ 6-7)

والد صاحب کی وفات

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے والد صاحب بڑے طاقتور تھے۔ غرغرۂ موت شروع ہؤا تو فرمانے لگے: غلام احمد یہ غرغرہ ہے اور پھر چند منٹ کے بعد فوت ہو گئے۔ (تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 203)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیشہ اپنے والد صاحب کا ایک واقعہ لطف لے کر بیان کیا کرتے تھے کہ آپ جب فوت ہوئے اس وقت اسّی سال کے قریب عمر تھی مگر وفات کے ایک گھنٹہ پہلے آپ پاخانہ کے لیے اٹھے۔ آپ کو سخت پیچش تھی اور پاخانہ کے لئے جا رہے تھے کہ راستہ میں ایک ملازم نے آپ کو سہارا دیا مگر آپ نے اس کا ہاتھ جھٹک کر پرے کر دیا اور کہا کہ مجھے سہارا کیوں دیتے ہو؟ اس کے ایک گھنٹہ کے بعد آپ کی وفات ہو گئی۔ ( خطبات محمود جلد 17صفحہ 303)

جائیداد سے لاتعلقی

جب آپؑ کے والد صاحب فوت ہو گئے تو آپؑ نے تمام کاموں سے قطع تعلق کر لیا اور مطالعہ دین اور روزہ داری اور شب بیداری میں اوقات بسر کرنے لگے اور اخبارات ورسائل کے ذریعہ دشمنان اسلام کے حملوں کاجواب دیتے رہے اس زمانہ میں لوگ ایک ایک پیسہ کے لئے لڑتے ہیں مگر آپؑ نے اپنی کل جائیداد اپنے بڑے بھائی صاحب کے سپرد کر دی۔ آپؑ کے لئے کھانا ان کے گھر سے آجاتا اور جب وہ ضرورت سمجھتے کپڑے بنوا دیتے اور آپؑ نہ جائیداد کی آمدن کا حصہ لیتے اور نہ اس کا کوئی کام کرتے لوگوں کو نماز روزے کی تلقین کرتے ، تبلیغ اسلام کرتے، غریبوں مسکینوں کی بھی خبر رکھتے۔ اور تو آپؑ کے پاس اس وقت کچھ تھا نہیں بھائی کے یہاں سے جو کھانا آتا اسی کو غرباء میں بانٹ دیتے اور بعض دفعہ دو تین تولہ غذا پر گزارہ کرتے اور بعض دفعہ یہ بھی باقی نہ رہتی اور فاقہ سے ہی رہ جاتے، یہ نہیں تھا کہ آپؑ کی جائیداد معمولی تھی اور آپ سمجھتے تھے کہ گزارہ ہو رہا ہے اس وقت ایک سالم گاؤں آپ اور آپ کے بھائی کا مشترکہ تھا اور علاوہ ازیں جاگیر وغیرہ کی بھی آمدن تھی۔ (دعوت الامیر۔ انوار العلوم جلد 7صفحہ 576-577)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ابتدائی زمانہ

حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام خود فرماتے ہیں:

لُفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ کَانَ اُکُلِیْ
وَصِرْتُ الْیَوْمَ مِطْعَامَ الْاَھَالِیْ

ایک وہ زمانہ تھاجب بچے ہو ئے ٹکڑے مجھے دیئے جا تے تھے اور آج میر ا یہ حال ہے کہ میں سینکڑوں خا ندانوں کو پال رہا ہوں۔
آپ کی ابتدا کتنی چھوٹی تھی مگر آپؑ کی انتہا ایسی ہوئی کہ علا وہ ان لو گوں کے جو خدمت کرتے تھے لنگر میں روزانہ دو اڑھائی سو آدمی کھانا کھاتے تھے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپؑ اپنے والد کی جائیداد میں اپنے بھا ئی کے برابر شریک تھے لیکن زمینداروں میں یہ عام دستور ہے کہ جو کا م کرے وہ تو جا ئیداد میں شریک سمجھا جاتا ہے اورجو کام نہیں کرتا وہ جا ئیداد میں شریک نہیں سمجھا جا تا اور یہ دستور ابھی تک چلا آتا ہے۔ لوگ عموماً کہہ دیتے ہیں کہ جو کام نہیں کرتا اُس کاجا ئیداد میں کیا حصہ ہو سکتا ہے۔ آپ کے پاس جب کوئی ملاقاتی آتا اور آپ اپنی بھا وجہ کو کھا نے کے لئے کہلا بھیجتے تو وہ آگے سے کہہ دیتیں کہ وہ یو نہی کھا پی رہا ہے کام کاج توکوئی کرتا نہیں۔ اس پر آپ اپنا کھانا اُس مہمان کو کھلا دیتے اور خود فاقہ کرلیتے یاچنے چباکر گذارہ کر لیتے۔ خدا کی قدرت ہے کہ وہی بھاوجہ جو اُس وقت آپ کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتی تھیں بعد میں میرے ہا تھ پر احمدیت میں داخل ہوئیں۔ غرض اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب کوئی کام شروع کیاجا تا ہے تو اُس کی ابتدا بڑی نظر نہیں آیا کرتی لیکن اُس کی انتہا پر دنیا حیران ہو جا تی ہے۔ (تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 101-102)

والد صاحب کی غرباء کی خبر گیری

حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے تھے کہ آپؑ کے والد صاحب کا قاعدہ تھا کہ ایک موسم میں خاص مقدار میں غرباء میں غلہ اور نقدی تقسیم کرتے ایک شخص بٹالے کا بھی آیا کر تا تھا اس کو آپ نے ایک دفعہ چنے اور کچھ پیسے دیئے۔
(خطبات محمود جلد7 صفحہ97)

قادیان کے دو مُلّا

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ قادیان کے اندر دو مُلّا تھے جن میں بسا اوقات اس قسم کی باتوں پر جھگڑا ہو جایا کرتا تھا کہ کسی شخص کے مرنے پر اس کے کفن کی چادر کے متعلق ایک کہتا تھا کہ یہ میرا حق ہے اور دوسرا کہتا تھا کہ میرا حق ہے۔ آپؑ فرماتے تھے کہ ہمارے والد صاحب نے ان جھگڑوں کو دیکھ کر قادیان کے دو حصے کرکے ان میں بانٹ دیے تا کہ ان میں لڑائی نہ ہو مگر ان میں سے ایک مُلّا دو تین دن کے بعد روتا ہؤا والد صاحب کے پاس آیا۔ والد صاحب نے پوچھا کیا بات ہے۔ وہ چیخ مار کرکہنے لگا مرزا صاحب آپ نے انصاف سے کام نہیں لیا۔ والد صاحب نے پوچھا تمہارے ساتھ کیا بے انصافی ہوئی تو وہ اپنی ہچکی کو بند کرتے ہوئے کہنے لگا ’’تُساں جیہڑے آدمی میرے حصے وچ دتے نے اونہاں دا قد اتنا چھوٹا اے کہ اونہاں دے کفن دی چادر دی چنی بھی نہیں بن سکدی‘‘ یعنی آپ نے میرے حصہ میں جن لوگوں کو رکھا ہے ان کا قد تو اتنا چھوٹا ہے کہ ان کے کفن کی چادر سے ایک چھوٹا سا دوپٹہ بھی نہیں بن سکتا۔ اب اندازہ لگاؤ جہاں ملاؤں کے اخلاق اتنے پست ہوں وہاں ترقی کی کیا امید ہو سکتی ہے۔
(خطبات محمود جلد سوم صفحہ625-626)

چھ ماہ کے روزے رکھنا

جب دادا صاحب فوت ہوگئے تو باوجود اس کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی توجہ دین کی طرف اس قدر تھی کہ بڑے بھائی سے جائیداد وغیرہ کے متعلق کوئی سوال نہ کیا۔ آپؑ دن رات مسجد میں پڑے رہتے۔ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سنا۔ آپؑ فرمایا کرتے تھے ان دنوں میں بُھنے ہوئے چنے اپنے پاس رکھ لیا کرتا اور آخری عمر تک باوجودیکہ بڑھاپا آگیا تھا آپؑ کو چنوں کا شوق رہا اور شاید یہ ورثہ کا شوق ہے جو مجھے بھی ہے اور مجھے دنیا کی بہت سی نعمتوں کے مقابلہ میں چنے اچھے لگتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے کہ میں بھنے ہوئے چنے اپنے پاس رکھ لیتا اور جب کئی دفعہ گھر سے کھانا نہ آتا اور میں پوشیدہ طور پر روزے رکھتا تو چنوں پر گذارہ کرلیا کرتا تھا۔ آپؑ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے چھ ماہ تک متواتر روزے رکھے۔ اس عرصہ میں بسا اوقات دو پیسے کے چنے بھنوا کر آپ رکھ لیتے۔ تبلیغ اسلام کا شوق آپؑ کو شروع سے ہی تھا۔ ہندو لڑکوں کو آپ اپنے پاس جمع کر لیتے اور ان سے مذہبی گفتگو کرتے رہتے۔ حافظ معین الدین صاحب جو آپؑ کے خادم تھے اور نابینا تھے فرمایا کرتے کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب گھر سے کھانا لانے کے لئے بھیجتے تو بعض اوقات اندر سے عورتیں کہہ دیا کرتیں کہ انہیں تو ہر وقت مہمان نوازی کی فکر رہتی ہے، ہمارے پاس کھانا نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنا کھانا دوسروں کو کھلا دیتے اور خود چنوں پر گذارہ کرتے۔ (تقریر جلسہ سالانہ 1933ء انوارالعلوم جلد 13صفحہ 300-301)

والدہ ماجدہ کی وفات

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنی والدہ سے بہت محبت تھی۔ غالباً آپؑ جن دنوں میں سیالکوٹ میں تھے یا اور کسی مقام پر قادیان سے باہر تھے کہ آپؑ کو خبر پہنچی کہ آپؑ کی والدہ سخت بیمار ہیں یہ سن کر آپؑ فوراً قادیان کی طرف روانہ ہو گئے جب آپ بٹالہ سے یکہ میں بیٹھ کر قادیان کی طرف روانہ ہوئے تو جو شخص لینے آیا ہوا تھا۔ وہ بار بار یکہ والے سے کہنے لگا کہ ذرا جلدی کرو، بی بی صاحبہ کی طبیعت بہت ہی خراب تھی، خدا خیر کرے۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد اور زیادہ یکہ والے کو تاکید کرنے لگا، یوں کہنا شروع کیا کہ کہیں خدانخواستہ فوت ہی نہ ہو گئی ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے تھے۔ میں نے اس فقرہ سے سمجھ لیا کہ وہ فوت ہو چکے ہیں اور یہ مجھے اس صدمہ کے لئے تیار کر رہا ہے اور میں نے اس سے کہا کہ تم ڈرو نہیں اور جو سچ سچ بات ہے وہ بتا دو۔ اس پر اس نے کہا کہ بات تو یہی ہے کہ وہ فوت ہو چکی ہیں۔‘‘ (رپورٹ مجلس مشاورت 1938ء صفحہ 141)

دنیا کی عزت خود ملتی ہے

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تو دنیا طلبی سے اتنی نفرت تھی کہ ہمارے بڑے بھائی مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم نے تحصیلداری کا امتحان دیا تو حضرت صاحب کو بھی انہوں نے دعا کے لئے لکھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ان کا رقعہ پڑھ کر سخت غصہ آیا اور آپؑ نے اسے پھاڑ دیا۔ مگر ادھر آپ نے رقعہ پھاڑا اور ادھر آپ کو الہام ہوا کہ ’’پاس ہو جائے گا‘‘ (تذکرہ صفحہ125)۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ وہ پاس ہو گئے اور پھر قائمقام ڈپٹی کمشنر ہو کر ریٹائر ہوئے تو اللہ تعالیٰ جن کو روحانی مراتب عطا فرماتاہے ان کو ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ دنیا کے لوگوں کے پاس جائیں بلکہ دنیا کے لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے کہ وہ ان کے پاس آئیں اور ان سے فیض اٹھائیں۔ ایک دفعہ کشمیر کے فسادات کے سلسلہ میں شملہ گیا اور لارڈ ولنگڈن سے ملا۔ ملاقات کے بعد لارڈ ولنگڈن کا سیکرٹری میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میرا اسسٹنٹ جو مسٹر گریفن کا پوتا ہے، وہ آپؑ سے ملنا چاہتا ہے۔ میں نے اس سے کہیں ذکر کیا تھا کہ مسٹر گریفن کا میرے دادا سے بڑا تعلق رہا ہے اور اس کی کئی چٹھیاں ہمارے دادا کے نام موجود ہیں۔ اس نے اس بات کا اپنے اسسٹنٹ سے ذکر کر دیا کیونکہ وہ مسٹر گریفن کا پوتا تھا اور اس نے مجھ سے ملنے کی خواہش کی۔ چنانچہ وہ مجھ سے ملا اور کہنے لگا کہ میں اپنے دادا کی وہ چٹھیاں دیکھنا چاہتا ہوں جو انہوں نے آپؓ کے دادا کو لکھی تھیں۔ میں نے کہا کہ وہ کتاب البریہ میں چھپی ہوئی ہیں۔ آپ جب چاہیں وہاں سے دیکھ سکتے ہیں۔ مسٹر گریفن امرتسر کا کمشنر تھا اور اس زمانے میں کمشنر کے اختیارات گورنر کے برابر ہوا کرتے تھے اور کمشنری بھی صرف امرتسر کی ہی ہوا کرتی تھی۔
(الفضل 3؍ اکتوبر 1958ء جلد 47/12 نمبر 228صفحہ 7)

سچی گواہی

وہ عظیم الشان مقصد جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت ہوئی اسے پورا کرنے کیلئے ہمیں بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے۔ اعتقادی رنگ میں ہم نے دنیا پر اپنا سکہ جمالیا ہے مگر عملی رنگ میں اسلام کا سکہ جمانے کی ابھی ضرورت ہے کیونکہ اس کے بغیرمخالفوں پر حقیقی اثر نہیں ہوسکتا۔ موٹی مثال عملی رنگ میں سچائی کی ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جسے دشمن بھی محسوس کرتا ہے۔ دل کا اخلاص اور ایمان دشمن کو نظر نہیں آتا مگر سچائی کو وہ دیکھ سکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت سے پہلے کا واقعہ ہے کہ خاندانی جائیداد کے متعلق ایک مقدمہ تھا اسی مکان کے چبوترے کے متعلق جس میں اب صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر ہیں اس چبوترے کی زمین دراصل ہمارے خاندان کی تھی مگر اس پر دیرینہ قبضہ اس گھر کے مالکوں کا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بڑے بھائی صاحب نے اس کے حاصل کرنے کیلئے مقدمہ چلایا اور جیسا کہ دنیاداروں کا قاعدہ ہے کہ جب زمین وغیرہ کے متعلق کوئی مقدمہ ہو اور وہ اپنا حق اس پر سمجھتے ہوں تو اس کے حاصل کرنے کیلئے جھوٹی سچی گواہیاں مہیا کرتے ہیں۔ انہوں نے بھی اپنی ملکیت ثابت کرنے کیلئے جھوٹی سچی گواہیاں دلائیں۔ اس پر اس گھر کے مالکوں نے یہ امر پیش کردیا کہ ہمیں کسی دلیل کی ضرورت نہیں، ان کے چھوٹے بھائی کو بُلاکر گواہی لی جائے اور جو وہ کہہ دیں ہمیں منظور ہوگا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بطور گواہ عدالت میں پیش ہوئے اور جب آپؑ سے پوچھا گیا کہ کیا آپؑ ان لوگوں کو اس رستہ سے آتے جاتے اور اس پر بیٹھتے عرصہ سے دیکھ رہے ہیں؟ تو آپؑ نے فرمایا کہ ہاں۔ اس پر عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ آپؑ کے بڑے بھائی صاحب نے اسے اپنی ذلّت محسوس کیا اوربہت ناراض ہوئے مگر آپؑ نے فرمایا کہ جب واقعہ یہ ہے تو میں کس طرح انکار کرسکتا تھا۔
اسی طرح آپ کے خلاف ایک مقدمہ چلایا گیا کہ آپ نے ڈاک خانہ کودھوکا دیا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ اس زمانہ میں یہ قانون تھا کہ اگر کوئی شخص پیکٹ میں کوئی چٹھی ڈال کر بھیج دے تو سمجھا جاتا تھا کہ اس نے ڈاک خانہ کو دھوکا دیا ہے اور ایسا کرنا فوجداری جُرم قرار دیا جاتا تھا جس کی سزا قید کی صورت میں بھی دی جاسکتی تھی۔ اب وہ قانون منسوخ ہوچکا ہے اب زیادہ سے زیادہ ایسے پیکٹ کوبیرنگ کردیا جاتاہے۔ اتفاقاً آپ نے ایک پیکٹ مضمون کااشاعت کیلئے ایک اخبار کو بھیجا اور اس قانون کے منشاء کو نہ سمجھتے ہوئے اس میں ایک خط بھی لکھ کرڈال دیا جو اس اشتہار کے ہی متعلق تھا اور جس میں اسے چھاپنے وغیرہ کے متعلق ہدایات تھیں۔ پریس والے غالباً عیسائی تھے اُنہوں نے اِس کی رپورٹ کردی اور آپؑ پر مقدمہ چلادیا گیا۔ آپؑ کے وکیل نے کہا کہ پیش کرنے والوں کی مخالفت تو واضح ہے اس لئے ان کی گواہیوں کی کوئی حقیقت نہیں اگر آپؑ انکار کردیں تو کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ اُس زمانہ میں اکثر مقدمات میں آپؑ کی طرف سے شیخ علی احمد صاحب وکیل گورداسپوری پیروی کیا کرتے تھے اور آپؑ کی پاکیزہ زندگی کو دیکھ کر دعویٰ کے بعد بھی گو وہ احمدی نہ تھے آپ پر بہت حُسنِ ظن رکھتے تھے۔ انہوں نے آپؑ سے کہا کہ اور کوئی گواہ تو ہے نہیں۔ پھر وہ خط اسی مضمون کے متعلق ہے اور اسے اشتہار کا حصہ ہی کہا جاسکتاہے اس لئے آپؑ بغیر جھوٹ کا ارتکاب کیے کہہ سکتے ہیں کہ میں نے تو اشتہار ہی بھیجا تھا خط کوئی نہیں بھیجا۔ مگر آپؑ نے ایسا کرنے سے انکار کردیا اور فرمایا کہ یہ نہیں ہوسکتا، جوبات میں نے کی ہے اس کا انکار کس طرح کرسکتا ہوں۔ چنانچہ جب آپؑ پیش ہوئے اور عدالت نے دریافت کیا کہ آپؑ نے کوئی خط مضمون میں ڈالا تھا تو آپؑ نے فرمایا ہاں۔ اس راستبازی کا دوسروں پر تو اثرہونا تھاہی خود عدالت پر بھی اس قدر اثر ہؤا کہ اس نے آپؑ کو بَری کردیا اور کہا کہ ایک اصطلاحی جُرم کے لئے ایسے راستباز آدمی کو سزا نہیں دی جاسکتی۔
اسی طرح کئی واقعات مقدمات میں آپؑ کو ایسے پیش آتے رہے جن کی وجہ سے اِن وکلاء کے دلوں میں جن کو ان مقدمات سے تعلق رہا کرتا تھا آپؑ کی بہت عزت تھی۔ چنانچہ ایک مقدمہ میں آپ نے شیخ علی احمد صاحب کووکیل نہ کیا تو انہوں نے لکھا کہ مجھے افسوس ہے کہ آپؑ نے اس مقدمہ میں مجھے وکیل نہیں کیا اس لئے نہیں کہ میں کچھ لینا چاہتا تھا بلکہ ا س لئے کہ مجھے خدمت کا موقع نہیں مل سکا۔ تو سچائی اور راستبازی ایک ایسی چیز ہے کہ دشمن بھی اس سے اثر قبول کیے بغیرنہیںرہ سکتا۔ شیخ علی احمد صاحب آخر تک غیراحمدی رہے اور انہوں نے بیعت نہیں کی مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ظاہری رنگ میں آپ کا اخلاص احمدیوں سے کسی طرح کم نہ تھا اور اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے آپؑ کی سچائی کو ملاحظہ کیا تھا اور صرف شیخ علی احمد صاحب پر ہی کیا موقوف ہے جن جن کوبھی آپؑ سے ملنے کا اتفاق ہؤا ان کی یہی حالت تھی۔ جب جہلم میں مولوی کرم دین صاحب نے آپؑ پر مقدمہ کیا تو ایک ہندو وکیل لالہ بھیم سین صاحب کی چٹھی آئی کہ میرا لڑکا بیرسٹری پاس کرکے آیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اسے آپؑ کی خدمت کرنے کی سعادت حاصل ہو اس لئے آپؑ اس کو اجازت دیں کہ وہ آپ کی طرف سے پیش ہو۔ جس لڑکے کے متعلق انہوں نے یہ خط لکھا تھا وہ اب تک زندہ ہیں۔ پہلے لاء کالج کے پرنسپل تھے پھر جموں ہائیکورٹ کے چیف جج مقرر ہوئے اور اب وہاں سے ریٹائر ہوچکے ہیں۔ انہوں نے الحاح سے یہ درخواست اِس واسطے کی کہ اُن کوسیالکوٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ کچھ عرصہ رہنے کا اتفاق ہؤا تھا اور وہ آپ کی سچائی کو دیکھ چکے تھے۔ پس معلوم ہؤا کہ سچائی ایک اعلیٰ پایہ کی چیز ہے جسے دیکھ کردشمن کو بھی متأثر ہونا پڑتا ہے۔ سچائی ایک ایسی چیز ہے جو اپنوں پر ہی نہیں بلکہ غیروں پر بھی اثر کیے بغیر نہیں رہ سکتی۔ انبیاء دنیا میں آکر راستی اور سچائی کو قائم کرتے ہیں اور ایسا نمونہ پیش کرتے ہیں کہ دیکھنے والا متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور نقل کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے دنیا میں آکر کوئی توپیں اورمشین گنیں ایجاد نہیں کی تھیں، بینک جاری نہیں کیے تھے یا صنعت و حرفت کی مشینیں ایجاد نہیں کی تھیں۔ پھر وہ کیا چیز تھی جو آپؐ نے دنیا کو دی اورجس کی حفاظت آپ کے ماننے والوں کے ذمہ تھی۔ وہ سچائی کی روح اور اخلاق فاضلہ تھے۔ یہ چیز پہلے مفقود تھی آپؐ نے اسے کمایا او رپھر یہ خزانہ دنیا کو دیااور صحابہؓ اور اُن کی اولادوں اور پھر ان کی اولادوں کے ذمہ یہی کام تھا کہ ان چیزوں کی حفاظت کریں۔ (خطبات محمود جلد17 صفحہ542تا545)

رشتہ داروں کی مخالفت اور بائیکاٹ

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کا بائیکاٹ کیا گیا۔ لوگوں کو آپؑ کے گھر کا کام کرنے سے روکا جاتا، کمہاروں کو روکا گیا، چوہڑوں کو صفائی سے روکا گیا۔ ہمارے عزیزترین بھائی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بھاوج اور دیگر عزیز رشتہ دار حتّٰی کہ آپؑ کے ماموں زاد بھائی علی شیر یہ سب طرح طرح کی تکلیفیں دیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ گجرات کے علاقہ کے کچھ دوست جو سات بھائی تھے قادیان میں آئے اور باغ کی طرف اس واسطے گئے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی طرف منسوب ہوتا تھا۔ راستہ میں ہمارے ایک رشتہ دار باغیچہ لگوا رہے تھے انہوں نے ان سے دریافت کیا کہاں سے آئے ہو؟ اور کیوں آئے ہو؟ انہوں نے جواب میں کہا گجرات سے آئے ہیں اور حضرت مرزا صاحب کے لئے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا دیکھو میں ان کے ماموں کا لڑکا ہوں، میں خوب جانتا ہوں یہ ایسے ہیں ویسے ہیں۔ ان میں سے ایک نے جو دوسروں سے آگے تھا بڑھ کر ان کو پکڑ لیا اوراپنے بھائیوں کو آواز دی کہ جلدی آؤ اس پر وہ شخص گھبرایا تو اس احمدی نے کہا میں تمہیں مارتا نہیں کیونکہ تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے رشتہ دار ہو، میں اپنے بھائیوں کو تمہاری شکل دکھانی چاہتا ہوں کیونکہ ہم سنا کرتے تھے کہ شیطان نظر نہیں آتا مگر آج ہم نے دیکھ لیا ہے کہ وہ ایسا ہوتا ہے۔پس ہم میں سے کوئی نہیں جس نے اپنے رشتہ داروں، قریبیوں اور اپنے احساسات کی قربانی نہیں کی۔ ‘‘ (الفضل 4دسمبر 1935ء جلد 23 نمبر 132 صفحہ4,3)

چوہڑوں کا پیر

اس گُر کو یاد رکھواور قیامت تک اسے یاد رکھتے چلے جاؤ کہ ہر مصیبت پر خداتعالیٰ کو پکارو۔ اگر تم ایسا کرو گے تو دنیا میں تم پر کوئی مصیبت ایسی نہیں آ سکتی جس میں خدا تعالیٰ تمہاری مدد نہ کرے اور دشمن کا خطرناک سے خطرناک حملہ بھی خداتعالیٰ کی مدد کی وجہ سے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ بشرطیکہ تم حرام خوری نہ کرو، بے ایمانی نہ کرو، بددیانتی نہ کرو، خدا تعالیٰ کا خوف کرو، تقویٰ کرو، ظلم نہ کرو، کسی پر تعدی نہ کرو، کسی کی ذلت اور بدنامی نہ کرو، منافقت نہ دکھاؤ، فساد نہ کرو۔ اگر تم ایسے ہو جاؤ گے تو ہر قدم پر اور ہر میدان میں خدا تعالیٰ تمہارا ساتھی ہو گا۔ یہ قرآن کریم کا وعدہ ہے جو اصدق الصادقین ہے اور خدا تعالیٰ کا کلام جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ اگر تم اس پر عمل کرو گے تو تم ہمیشہ کامیابی اور بامرادی دیکھو گے اور تمہارا دشمن ناکام و نامراد ہوگا کیونکہ تمہارا دشمن خدا تعالیٰ کو نہیں پکارتا۔ اسے کوئی مصیبت پہنچے تو وہ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو پکارتا ہے۔ لیکن تم مصیبت کے وقت خدا تعالیٰ کی طرف جھکتے ہو اور اس سے مدد چاہتے ہو۔
ہمارے ایک تایا تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چچا کے بیٹے تھے اور آپؑ کے سخت مخالف تھے اور دہریہ تھے۔ انہیں آپؑ سے اتنی ضد تھی کہ ہر موقع پر وہ اپنا بغض نکالتے تھے۔ آپؑ نے جب مسیح موعودؑ ہونے کا دعویٰ کیا تو انہوں نے بھی دعویٰ کر دیا کہ میں چوہڑوں کا پیر ہوں اور ان کے بزرگوں کا اوتار ہوں۔ ایک دفعہ لدھیانہ کے بعض چوہڑے جو اپنے پیر سمیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مرید ہوگئے تھے۔ اپنے پیر سے اجازت لے کر قادیان آئے۔ مرزا امام دین صاحب کو پتہ لگا تو انہوں نے انہیں بلایا اور کہا میاں ادھر آؤ۔ جب وہ ان کے پاس گئے تو انہوں نے کہا میاں تم کو کیا ہو گیا ہے کہ تم مرزا غلام احمدؑ  کے مرید بن گئے ہو۔ چوڑھوں کا لال بیگ تو میں ہوں۔ تم مرزا صاحبؑ کے پاس کیوں چلے گئے ہو۔ تمہیں وہاں کیا ملا ہے۔ انہوں نے کہا مرزا صاحب! ہم تو ان پڑھ ہیں ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ ہمیں کیا ملا ہے۔ صرف اتنا علم ہے کہ آپ مغل تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مخالفت کی وجہ سے چوڑھے کہلانے لگ گئے اور ہم لوگ چوڑھے تھے لیکن مرزا صاحب کو مان لینے کی وجہ سے مرزائی کہلانے لگ گئے ہیں۔ ہمیں دلائل نہیں آتے۔ صرف اتنا نظر آتا ہے کہ ہم آپؑ پر ایمان لانے کی وجہ سے مرزا بن گئے اور آپ مخالفت کرنے کی وجہ سے چوڑھے بن گئے ہیں۔
مرزا امام دین صاحب کو ایک دفعہ پیٹ درد ہؤا۔ ان دنوں قادیان میں حضرت خلیفہ اولؓ کے سوا اور کوئی طبیب نہیں ہوتا تھا۔ اس لیے انہوں نے حضرت خلیفۃالمسیح اولؓ کو بلایا۔ آپؓ ان کے گھر تشریف لے گئے۔ آپؓ نے دیکھا کہ وہ درد کے مارے دالان میں فرش پر لَوٹتے پھرتے ہیں اور کہتے ہیں ہائے اماں۔ ہائے اماں۔ حضرت خلیفہ المسیح اولؓ نے فرمایا۔ مرزا صاحب! اس تکلیف کے وقت بھی آپ خدا تعالیٰ کو نہیں پکارتے اور اپنی والدہ کا نا م لیے جا رہے ہیں۔ وہ کہنے لگے مولوی صاحب ماں تو میں نے دیکھی ہے لیکن خدا تعالیٰ نظر نہیں آتا اس لئے میں خداتعالیٰ کو کیا پکاروں، اپنی ماں کو ہی پکارتا ہوں۔ یہی مومن اور کافر میں فرق ہے۔ مرزا امام دین صاحب کو پیٹ میں درد ہوا۔ تو انہیں اپنی ماں یاد آئی، خدا یاد نہ آیا لیکن اس کے مقابل پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایک دفعہ کھانسی کی سخت تکلیف ہوئی۔ بہتیرا علاج کیا گیا لیکن آرام نہ آیا۔ ایک دن کسی نے کچھ کیلے اور سنگترے بھیج دئیے۔ مَیں چونکہ آپؑ کو دوا پلایا کرتا تھا اس لیے سمجھتا تھا کہ آپؑ کی صحت کا ذمہ دار میں ہی ہوں۔ آپؑ نے کیلے دیکھے تو ایک کیلا کھانے کی خواہش کی۔ میں نے کہا حضور آپؑ کو کھانسی کی تکلیف ہے اور دوا کا استعمال کر رہے ہیں اور ابھی تک بیماری میں افاقہ نہیں ہوا۔ اب آپ کیلا کھانے لگے ہیں۔ اس سے تکلیف بڑھ جائے گی۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے میری اس بات کی پروا نہ کی اور آپؑ نے ایک کیلا اٹھایا اور کھا لیا۔ بعد میں فرمایا: میاں! مجھے اس کیلے کی وجہ سے مرض میں زیادتی کا کوئی ڈر نہیں کیونکہ خداتعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اب مجھے شفا ہو جائے گی۔ اب دیکھو مرزا امام دین صاحب بیماری کے وقت اماں اماں پکارتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود انہیں حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کی دوا کی ضرورت پیش آئی۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کھانسی کی تکلیف ہوئی اور دوائوں کے باوجود آرام نہ آیا تو آپؑ نے کیلا کھالیا اور پھر فرمایا: مجھے خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ مجھے شفا ہو جائے گی اور واقعہ میں آپؑ کو شفا ہو گئی۔
پس جو خدا تعالیٰ کو پکارتا ہے وہ اس کی برکت پاتا ہے اور جو خداتعالیٰ کو نہیں پکارتا وہ خدا تعالیٰ کی برکت سے محروم رہتا ہے۔ مسلمانوں کو 1300سال سے یہ مقام بھولا ہوا تھا۔ خداتعالیٰ نے حضرت مرزا صاحبؑ کے ذریعہ انہیں یہ مقام یاد کرایا ہے۔ مگر اب بھی اکثر لوگ اسے بھول جاتے ہیں لیکن یہ ایسا ہتھیار ہے کہ توپ وتفنگ بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ کوئی مصیبت تم پر آئے، تم خدا تعالیٰ کے سامنے جھک جائو اور پھر یقین رکھو کہ خدا تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا۔ اگر تم ایسا کرو تو وہ تمہاری ضرورمدد کرے گا۔ (الفضل یکم مارچ 1957ء جلد 46/11 نمبر 53 صفحہ 5)

دادا کے دربار میں پانچ سوحفاظ

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے داد ا مرزاگل محمدصاحب کے متعلق بیان فرمایا کرتے تھے کہ ان کے دربار میں پانچ سو حافظ تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سپاہی وغیرہ ہر قسم کے پیشہ کے لوگ جو ان کے دربار میں تھے ان میں سے ایک کثیر حصہ نے قرآن کریم کو حفظ کیا ہؤا تھا۔ اس زمانہ میں مسلمانوں کی حالت سخت کمزور ہے اور وہ تنزل کے دَور سے گذر رہے ہیں مگر اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ لاکھوں لاکھ حفاظ ہندوستان میں سے ہی نکل سکتے ہیں۔ غرض دوسرا ذریعہ قرآن کریم کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے یہ کیا کہ حفاظ وقراء کی کثرت پیدا کر دی اور یہ چیز بھی ایسی ہے جو کسی کے بس کی نہیں۔ غرض قرآن کریم کی حفاظت کا ایک سامان خداتعالیٰ نے یہ کیا کہ دلوں میں اس کے حفظ کی رغبت پیدا کر دی اور اس طرح لاکھوں لوگوں کے سینوں میں اس کا ایک ایک لفظ بلکہ زیر اور زبرتک محفوظ کر دی۔ (تفسیرکبیر جلد ہشتم صفحہ424-425)

خاندان کے اعزازات

ہمارے پاس وہ کاغذات موجود ہیں جن میں گورنمنٹ نے ہمارے خاندان کی خدمات کا اعتراف کیا اور یہ وعدہ کیا ہؤا ہے کہ اس خاندان کو وہی اعزاز دیا جائے گا جو اسے پہلے حاصل تھا۔ ہمارے پڑ دادا کو ہفت ہزاری کا درجہ ملا ہؤا تھا جو مغلیہ سلطنت میں صرف شہزادوں کو ملا کرتا تھا۔ پھر عضدالدولہ کا خطاب حاصل تھا۔ یعنی حکومت مغلیہ کا بازو مگر ہم نے کبھی گورنمنٹ کے سامنے ان کاغذات کو پیش نہیں کیا۔ (الفضل 23 اکتوبر 1934ء جلد 22 نمبر 50 صفحہ3)

حکومت کی طرف سے اعزاز دینے کی پیشکش

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بھی کہا گیا اور دو دفعہ مجھے بھی کہلایا گیا کہ کیا حکومت اگر کوئی خطاب دے تو اسے قبول کرلیا جائے گا۔ میں نے کہا اگر حکومت ایسا کرے گی تو وہ میری ہتک کرے گی۔ ہمیں خداتعالیٰ سے جو کچھ مل چکا ہے اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتا ہے اور اس سے بڑھ کر حکومت کیا دے سکتی ہے۔ اپنے متعلق خطاب کا ذکرتو الگ رہا، اگر جماعت احمدیہ کا کوئی شخص بھی خطاب کے متعلق کچھ پوچھتا ہے تو میںاسے یہی کہتا ہوں کہ مجھے تو انسانی خطاب سے گھن آتی ہے۔ احمدی کہلانے سے بڑا خطاب اور کیا ہو سکتا ہے۔(انوار العلوم جلد 13 صفحہ 512)

خاندان کی جنگی تاریخ

ہمارے خاندان کی تاریخ جنگی تاریخ ہے اور اب بھی ہمارا فوج کے ساتھ تعلق ہے۔ میں نے خود مرزا شریف احمد صاحب کو فوج میں داخل کرایا ہے اور اب ان کا لڑکا فوج میں شامل ہو رہا ہے۔ ہمارے تایا صاحب نے غدر کے موقعہ پر جنگ میں نمایاں حصہ لیا۔ ہمارے دادا فوجی جرنیل تھے۔ دلّی کے بادشاہوں کی چٹھیاں ہمارے پاس محفوظ ہیں جن میں اس امر کا اعتراف ہے کہ ہمارا خاندان ہی تھا جس نے سکھوں کے زمانہ میں اسلام کی حفاظت کے لئے قربانیاں کیں۔‘‘
(الفضل 30 جولائی 1937ء جلد 25 نمبر 175 صفحہ8)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت

1889ء میں پیدا ہوا۔ 1898ء میں مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی۔ گو بوجہ احمدیت کی پیدائش کے میں پیدائش سے ہی احمدی تھا مگر یہ بیعت گویا میرے احساس قلبی کے دریا کے اندر حرکت پیدا ہونے کی علامت تھی۔ (یادِ ایام، انوارالعلوم جلد 8 صفحہ 365)

دعاؤں کی عادت

خدا کا فرستادہ مسیح موعود علیہ السلام جسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا۔ اُجِیبُ کُلَّ دُعَائِکَ اِلَّافِی شُرَکَائِکَ ۔جس سے وعدہ تھا کہ میں تیری سب دعائیں قبول کروں گا، سوائے ان کے جو شرکاء کے متعلق ہوں۔ وہ ہنری مارٹن کلارک والے مقدمہ کے موقع پر مجھے جس کی عمر صرف 9سال کی تھی دعا کے لئے کہتا ہے ۔ گھرکے نوکروں اور نوکرانیوں کو کہتا ہے کہ دعائیں کرو۔ پس جب وہ شخص جس کی سب دعائیں قبول کرنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہؤا تھا، دوسروں سے دعائیں کرانا ضروری سمجھتا ہے اور اس میں اپنی ہتک نہیں سمجھتا تو ایک ڈاکٹر کا دوسرے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا کس طرح ہتک کا موجب ہو سکتا ہے۔ پس دیانت، ایمان اور دین کے لحاظ سے ایک معالج کا فرض ہے کہ جب حالت خطرناک دیکھے تو مشورہ دے کہ کسی اور کو بلا لیاجائے۔ (خطبات محمود جلد 14صفحہ131-132)

مرزا علی شیر صاحب کی سخت مخالفت

جب سے جماعت احمدیہ قائم ہوئی ہے خدا تعالیٰ ہی اس کی حفاظت کرتا رہا ہے۔ اس وقت تحریک جدید اور صدر انجمن احمدیہ دونوں کا ماہوار چندہ پچاسی ہزار روپیہ کے لگ بھگ ہے۔ لیکن شروع میں اتنا چندہ سال میں بھی جمع نہیں ہوتا تھا۔ مجھے یاد ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس بات کا علم ہوا کہ لنگر خانہ کا خرچ ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار تک پہنچ گیا ہے تو آپؑ بہت گھبرائے کہ یہ رقم کہاں سے آئے گی۔ پھر اﷲ تعالیٰ جماعت کی آمد میں دن بدن ترقی عطا کرتا چلا گیا۔ صرف میری خلافت کے شروع زمانہ میں سلسلہ پر مالی لحاظ سے ایک نازک دور آیا۔ جب میں خلیفہ ہوا تو خزانہ میں صرف آنے تھے۔ اس کے بعد اﷲ تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ کے چندوں میں ترقی ہوتی چلی گئی اور ہر سال پہلے سال سے زیادہ چندہ جمع ہوتا رہا اور اب بنکوں اور جماعت کے اپنے خزانہ میں جو روپیہ اس وقت جمع ہے۔ وہ دس لاکھ سے اوپر ہے اور یہ سب اﷲ تعالیٰ کا فضل ہے۔ خدا تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ تھا کہ ینصرک رجال نوحی الیھم من السماء یعنی تیری مدد ایسے لوگ کریں گے جنہیں ہم آسمان سے وحی کریں گے۔ سو خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوا ہے، ورنہ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ سلسلہ زیادہ دیر تک نہیں چلے گا۔ یہ چند دن کا کھیل ہے جو ختم ہو جائے گا۔ کل ہی ایک شخص مجھے ملنے کے لیے آیا۔ جب اس نے اپنا وطن بتایا تو مجھے ایک واقعہ یاد آگیا۔ ضلع گجرات کے ایک گاؤں چک سکندر کے بعض لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں قادیان آیا کرتے تھے۔ ان کے بڑے بڑے قد تھے۔ اس زمانہ میں ابھی بہشتی مقبرہ نہیں بنا تھا اور لوگ تبرک کے طور پر باغ اور مساجد دیکھنے چلے جایا کرتے تھے۔ وہ بھی باغ دیکھنے کے لئے اس سڑک پر جا رہے تھے جو بہشتی مقبرہ کو جاتی ہے۔ اس زمانہ میں اس سڑک پر پختہ پل نہیں بنا تھا۔ حضرت نانا جان نے لوہے کی ریلیں ڈال کر اس جگہ پار گزرنے کے لئے راستہ بنایا ہوا تھا۔ اس پل کے قریب ہماری سوتیلی والدہ کے بھائی مرزا علی شیر صاحب باغ لگایا کرتے تھے۔ وہ مذہبی قسم کے آدمی تھے اور حضرت مسیح موعودؑ کے شدید مخالف تھے۔ ممکن ہے ان کی مخالفت کا یہ سبب ہو کہ آپ ان کی بہن پر سوکن لے آئے تھے لیکن بہر حال وہ آپؑ کے بڑے سخت مخالف تھے انہوں نے چک سکندر کے ان لوگوں کو باغ کی طرف جاتے دیکھا تو انہیں آواز دے کر اپنے پاس بلایا۔ ان کے آواز دینے پر ان میں سے ایک آدمی جو باقی ساتھیوں سے کچھ فاصلہ پر تھا یہ سمجھ کر کہ یہ بڑے بزرگ ہیں ان کی بات سُن لی جائے ان کے پاس گیا۔ مرزا علی شیر صاحب نے اس سے کہا میاں تم کہاں سے آئے ہو اور کس لئے آئے ہو۔ اس شخص نے جواب دیا ہم گجرات سے آئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کرنے آئے ہیں۔ اس پر مرزا علی شیر صاحب نے کہا میاں مرزا غلام احمد میرا بھائی ہے اور اس کا واقف جتنا مَیں ہوں تم نہیں ہو اور مَیں جانتا ہوں کہ اس نے محض دکان بنائی ہوئی ہے، تم کیوں یہاں اپنا دین خراب کرنے آگئے ہو۔ اس پر اس شخص نے مرزا علی شیر صاحب کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا اور مرزا صاحب نے یہ سمجھ کر کہ یہ شخص ان کی باتوں سے متاثر ہو گیا ہے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھا دیا۔ اس شخص نے ان کا ہاتھ بڑی مضبوطی سے پکڑ لیا اور اپنے دوسرے ساتھیوں کو آواز دی کہ جلدی آئو جلدی آئو۔ جب وہ آگئے تو اس نے کہا مَیں نے آپ لوگوں کو اس لئے بلایا ہے کہ ہم قرآن کریم میں پڑھا کرتے تھے کہ کوئی شیطان ہے جو لوگوں کو گمراہ کرتا ہے لیکن ہم نے وہ دیکھا نہیں تھا۔ اب وہ شیطان مجھے مل گیا ہے اور اسے مَیں نے پکڑ رکھا ہے اسے اچھی طرح دیکھ لو۔ مرزا علی شیر صاحب بہت گھبرائے لیکن اس شخص نے ان کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑے رکھا اور کہا ہمیں شیطان دیکھنے کی مدت سے آرزو تھی۔ سو الحمد ﷲ کہ آج ہم نے شیطان دیکھ لیا۔
غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق غیر تو کیا اپنے قریبی رشتہ دار بھی یہی کہتے تھے کہ انہوں نے ایک دکان کھولی ہوئی ہے اور وہ آپؑ کی سخت مخالفت کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے ہماری سوتیلی والدہ ہم سے بہت محبت کیا کرتی تھیں اور باوجود اس کے کہ ہم ان کی سوکن کی اولاد تھے وہ ہمارے ساتھ بڑی محبت کا سلوک کرتی تھیں۔ ان کی والدہ بھی جو ہماری دادی صاحبہ کے علاقہ کی تھیں ہم سے بہت پیار کرتی تھیں۔جب ہمارے رشتہ دار مرزا امام دین صاحب اور ان کے لڑکے اور لڑکیاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دیتے تھے تو چونکہ وہ بہت اونچا سنتی تھیں اس لئے دریافت کرتی تھیں کہ یہ لوگ کس کو گالیاں دے رہے ہیں۔ اس پر جب انہیں بتایا جاتا کہ یہ مرزا غلام احمد ؑ کو گالیاں دے رہے ہیں تو وہ رو پڑتیں اور کہتیں، ہائے یہ لوگ میری چراغ بی بی کے بیٹے کو گالیاں دیتے ہیں۔ غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اپنے رشتہ دار بھی سمجھتے تھے کہ یہ ایک کھیل ہے جو کھیلا جا رہا ہے اور لوگ انہیں چھوڑ کر چلے جائیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں لدھیانہ کے ایک نور محمد صاحب تھے جنہیں یہ خیال تھا کہ وہ مصلح موعود ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق کہتے تھے کہ چونکہ وہ میرے روحانی باپ ہیں اس لیے جب میں اپنے روحانی باپ کے پاس جائوں گا تو پونڈاُن کی خدمت میں بطور نذرانہ پیش کروں گا۔ اس غرض سے وہ روپیہ جمع کرتے رہتے تھے۔ جب ان کے مرید ان سے سوال کرتے کہ وہ اپنے روحانی باپ کے پاس کب جائیں گے تو انہیں کہتے۔ جب مَیں جائوں گا تو تمہیں بتا دوں گا۔ جب انہوں نے اس میں زیادہ دیر لگا دی تو ان کے مریدوں نے کہا کہ آپ اگر نہیں جاتے تو ہمیں جانے کی اجازت دے دیں۔ اس پر انہوں نے بعض مریدوں کو اس شرط سے قادیان آنے کی اجازت دی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں سونا پیش کریں گے۔ چنانچہ وہ قادیان آئے مرزا امام دین صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چچازاد بھائی تھے وہ چوہڑوں کے پیر بنے ہوئے تھے اور اپنے آپ کو ان کے بزرگوں کا اوتار قرار دیتے اور کہتے کہ چوہڑوں کا لال بیگ میں ہوں۔ انہوں نے جب دیکھا کہ ادنیٰ اقوام کے بعض لوگ آئے ہیں تو انہوں نے انہیں بُلایا اور ان کے آگے حُقّہ رکھ دیا اور پوچھا کہ تم یہاں کیا لینے آئے ہو۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم حضرت مرزا صاحب کو ملنے کے لیے آئے ہیں اس پر مرزا امام دین صاحب نے کہا چوہڑوں کا لال بیگ تو میں ہوں، تم مرزا غلام احمد ؑ کے پاس کیوں چلے گئے؟ وہ تو ٹھگ ہے اور اس نے یونہی دکان بنائی ہوئی ہے، تمہیں وہاں سے کیا ملا ہے؟ وہ لوگ اَ ن پڑھ تھے لیکن تھے حاضر جواب۔ انہوں نے جواب دیا۔ مرزا صاحب! ہم ادنیٰ اقوام سے تعلق رکھتے تھے، مرزا غلام احمد ؑ صاحب پر ایمان لائے تو لوگ ہمیں مرزائی مرزائی کہنے لگ گئے۔ آپ مغل تھے اور ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے انکار کی وجہ سے آپ چوہڑے کہلانے لگ گئے۔ اس پر وہ گھبرا کر خاموش ہو گئے۔
غرض غیر تو غیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اپنے قریبی رشتہ داربھی یہ سمجھتے تھے کہ سلسلہ احمدیہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں بلکہ یہ محض دکانداری ہے لیکن اﷲ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو بڑھایا اور دنیا کے کونہ کونہ میں اس کے پودے لگا دیے۔
مَیں نے بتایا ہے کہ مرزا امام دین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سخت مخالف تھے لیکن جیسے اﷲ تعالیٰ نے ابوجہل کے ہاں عکرمہؓ جیسا بزرگ بیٹا پیدا کر دیا تھا اسی طرح مرزا امام دین صاحب کی لڑکی خورشید بیگم جو ہمارے بڑے بھائی مرزا سلطان احمد صاحب سے بیاہی ہوئی تھیں بڑی نیک اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور سلسلہ احمدیہ کی سچی عاشق تھیں۔ انہوں نے اپنی وفات تک ایسا اخلاص دکھایا کہ حیرت آتی ہے۔
(الفضل 30؍ مئی 1959ء جلد 48/13 نمبر 127 صفحہ3,2)

مرزا امام دین صاحب کی مخالفت

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دشمن آپ پر وہی اعتراض کرتے ہیں جو رسول کریم ﷺ پر آپ کے دشمنوں نے کیے اور ان میں اتنی مطابقت اور مشابہت ہوتی ہے کہ حیرت آتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دشمن جب آپؑ پر اعتراض کرتے تو آپ فرماتے یہی اعتراض آج سے 1300سال پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر آپؐ کے مخالفین نے کیے تھے۔ جب وہ باتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے قابلِ اعتراض نہ تھیں بلکہ آپ کی صداقت کی دلیل تھیں تو وہ میرے لئے کیوں قابلِ اعتراض بن گئی ہیں۔ پس جو جواب رسول کریم ﷺ نے اِن کا دیا وہی جواب میں تمہیں دیتا ہوں۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جواب میں یہ طریق اختیار فرماتے اور لوگوں پر اِس طریق سے حجّت قائم کرتے تو مخالفین شور مچاتے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی برابری کرتا ہے حالانکہ یہ صاف بات ہے کہ جو اعتراض ابوجہل کرتا تھا جو شخص ان اعتراضوں کو دُہراتا ہے وہ مثیلِ ابوجہل ہے اور جس شخص پر وہ اعتراض کیے جاتے ہیں وہ مثیلِ محمد (ﷺ) ہے۔ پس ہر زمانہ میں مؤمنوں اور کافروں کی پہلے مومنوں اور کافروں سے مشابہت ہوتی چلی آئی ہے لیکن دنیا ہمیشہ اِس بات کو بھول جاتی ہے اور جب کبھی نیا دَور آتا ہے تو نئے سرے سے لوگوں کو یہ سبق دینا پڑتا ہے اور اِس اصول کو دنیا کے سامنے دُہرانا پڑتا ہے اور خدا کی طرف سے آنے والا لوگوں کے اِس اصول کو بھول جانے کی وجہ سے لوگوں سے گالیاں سنتا ہے اور ذلتیں برداشت کرتا ہے۔ اس کے اپنے اور بیگانے، دوست اور دشمن سب مخالف ہو جاتے ہیں اور قریبی رشتہ دار سب سے بڑے دشمن بن جاتے ہیں۔
حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم ﷺ کے رشتہ دار پاس کے مکانوں میں نئے آنے والوں کو روکنے کے لیے بیٹھے رہتے تھے اور جب کوئی شخص مسلمانوں کے پاس آتا تو وہ رستہ میں اُسے روک لیتے اور سمجھاتے کہ یہ شخص ہمارے رشتہ داروں میں سے ہے، ہم اس کے قریبی رشتہ دار ہونے کے باوجود اِس کو نہیں مانتے کیونکہ ہم لوگ جانتے ہیں کہ سوائے جھوٹ کے اور کوئی بات نہیں۔ ہم آپ لوگوں سے اِس کو زیادہ جانتے ہیں، ہم سے زیادہ آپ کو واقفیت نہیں ہو سکتی، ہم اِس کے ہر ایک راز سے واقف ہیں بہتر ہے کہ آپ یہیں سے واپس چلے جائیں اِسی میں آپ کا فائدہ ہے۔ یہی حال ہم نے اُن کا دیکھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رشتہ دار تھے۔ اُن کی باتوں کو سن کر جو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف کیا کرتے اور ان کی حرکات کو دیکھ کر جو وہ باہر سے آنے والوں کو روکنے کے لیے کرتے انسان حیرت زدہ ہو جاتا ہے کہ ان کی باتوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے رشتہ داروں کی باتوں میں کس قدر مشابہت ہے۔
مرزا امام الدین سارا دن اپنے مکان کے سامنے بیٹھے رہتے۔ دن رات بھنگ گھٹا کرتی اور کچھ وظائف بھی ہوتے رہتے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھ کر انہوں نے پیری مریدی کا سلسلہ شروع کر لیا تھا۔ جب کوئی نیا احمدی باہر سے آتا یا کوئی ایسا آدمی جو احمدی تو نہ ہوتا لیکن تحقیق کے لئے قادیان آتا تو اُس کو بلاکر اپنے پاس بٹھا لیتے اور اُسے سمجھانا شروع کر دیتے۔ میاں! تم کہاں اِس کے دھوکے میں آگئے یہ تو محض فریب اور دھوکا ہے اگر حق ہوتا تو ہم لوگ جو کہ بہت قریبی رشتہ دار ہیں کیوں پیچھے رہتے۔ ہمارا اور مرزا صاحب کا خون ایک ہے تم خود سوچو بھلا خون بھی کبھی دشمن ہو سکتا ہے؟ اگر ہم لوگ انکار کرتے ہیں تو اس کی وجہ سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ شخص صحیح راستے سے لوگوں کو پھیرنے والا ہے اور اس نے لوگوں سے پیسے بٹورنے کیلئے یہ دکان کھول رکھی ہے۔ اب حیرت آتی ہے کہ کونسا ابوجہل آیا جس نے مرزا امام الدین کو یہ باتیں سکھائیں کہ تم باہر سے آنے والوں کو اس طریق سے روکا کرو یہ نسخہ میرا آزمایا ہوا ہے۔ یا پھر یہ ماننا پڑتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وہی باتیں مسمریزم کے ذریعہ مرزا امام الدین سے کہلوا لیں، دونوں میں سے ایک بات ضرور صحیح ہوگی۔(نبوت اور خلافت اپنے وقت پر ظہور پذیر ہوجاتی ہے۔ انواارالعلوم جلد18 صفحہ 234 تا 239)

جماعت احمدیہ لاہور کا اخلاص

ہماری جماعت کے دوستوں کو یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ احمدیت کو قائم ہوئے ایک لمبازمانہ گزر چکا ہے۔ اگر براہین احمدیہ سے اس زمانہ کو لیا جائے تو 71-70سال ہو گئے ہیں اور اگر بیعت کے آغاز سے اس زمانہ کو شمار کیاجائے تو پھر 65 سال ہو گئے ہیں اور یہ ایک بہت بڑا وقت ہے اور گو قوموں کی عمر کے لحاظ سے اتنے سال کوئی زیادہ لمبا زمانہ نہیں سمجھے جا سکتے۔ لیکن انسانوں کی عمر میں یہ ایک بہت بڑا وقت ہے۔ اس تمام عرصہ میں ابتدائے زمانہ سے ہی لاہور کا ایک حصہ احمدیت کے ساتھ شامل رہا ہے۔ ہم چھوٹے ہوتے تھے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ سفروں میں ہم آتے جاتے تھے۔ اس وقت عموماً جب آپؑ کو رستہ میں ٹھہرنا پڑتا تو لاہور یا امرتسر میں ہی ٹھہرتے۔ یوں ابتدائی زمانہ میں آپؑ کا قیام زیادہ تر لدھیانہ میں رہا ہے۔ لیکن جماعت کے لحاظ سے لاہور کی جماعت ہمیشہ زیادہ رہی ہے اور دوسری جماعتوں کی نسبت زیادہ مستعد رہی ہے۔ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے والد صاحب کے زمانہ میں مقدمات کے لیے اکثر لاہور آتے تھے اور آپؑ کے والد صاحب کے تعلقات بھی زیادہ تر لاہور کے رؤساء سے تھے۔ اس لئے ابتدائی ایام میں ہی یہاں ایک ایسی جماعت پائی جاتی تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اخلاص رکھتی تھی۔ الٰہی بخش اکاؤنٹنٹ، جو بعد میں شدید مخالف ہو گئے، وہ بھی یہیں کے تھے۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو بعد میں کفر کا فتویٰ لگانے والوں کے سردار بنے وہ بھی یہیں چینیاں والی مسجد کے امام تھے اور ان کا زیادہ تر اثر اور رسوخ لاہور ہی میں تھا گو وہ رہنے والے بٹالہ کے تھے۔ اسی طرح میاں چراغ دین، میاں معراج دین صاحب اور میاں تاج دین صاحب سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت پرانے تعلقات تھے۔ میاں چراغ دین صاحب اور میاں معراج دین صاحب کا خاندان اپنے پرانے تعلقات کی وجہ سے جو بیعت سے بھی پہلے کے تھے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نگاہ میں بہت قربت رکھتا تھا۔ پھر حکیم محمد حسین صاحب قریشی جنہوں نے دہلی دروازہ والی مسجد بنوائی ان کے تعلقات بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام سے بہت قدیم اور مخلصانہ تھے۔ میاں چراغ دین صاحب مرحوم کے تعلقات تو الٰہی بخش اکاؤنٹنٹ سے بھی پہلے کے تھے۔ حتٰی کہ میرے عقیقہ میں جن دوستوں کو شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی ان میں چراغ دین صاحب بھی تھے۔ اتفاقاً اس دن سخت بارش ہو گئی۔ وہ سناتے تھے کہ ہم باغ تک پہنچے مگر آگے پانی ہونے کی وجہ سے نہ جا سکے اور وہیں سے ہمیں واپس لوٹنا پڑا۔ پس اس جگہ کی جماعت کی بنیاد ایسے لوگوں سے پڑی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اس وقت سے اخلاص رکھتے تھے جب آپؑ نے ابھی دعویٰ بھی نہیں کیا تھا اور براہین لکھی جا رہی تھی۔ پھر خدا تعالیٰ نے ان کے خاندانوں کو ترقی دی اور وہ اخلاص میں بڑھتے چلے گئے۔ (تاریخ احمدیت لاہور صفحہ 17-18)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں