ایک عظیم الشان گواہ

(مطبوعہ انصارالدین یوکے مارچ و اپریل 2021ء)

(احسان احمد خان)

قرآنِ مجید کی سورۃ ہود کی آیت  17میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

أَفَمَنْ کَانَ عَلَی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّہِ وَیَتْلُوہُ شَاہِدٌ مِّنْہُ وَمِن قَبْلِہِ کِتَابُ مُوسَی إَمَاماً وَّرَحْمَۃً أُوْلٰـئِکَ یُؤْمِنُونَ بِہِ وَمَن یَکْفُرْ بِہِ مِنَ الأَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُہٗ فَلاَ تَکُ فِیْ مِرْیَۃٍ مِّنْہُ إِنَّہُ الْحَقُّ مِن رَّبِّکَ وَلٰـکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ

ترجمہ: پس کیا وہ جواپنے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل پر ہے اور اسکے پیچھے اس کاایک گواہ آنے والا ہے اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب بطور امام اور رحمت موجود ہے (وہ جھوٹا ہو سکتا ہے؟) یہی (اِس موعود رسول کے مخاطبین بالآخر) اسے مان لیں گے۔ پس جو بھی احزاب میں سے اس کا انکار کرے گا تو آگ اس کا موعود ٹھکانہ ہوگی۔ پس اس بارہ میں تو کسی شک میں نہ رہ۔ یقینًا یہی تیرے رب کی طرف سے حق ہے لیکن اکثرلوگ ایمان نہیں لاتے۔ (ترجمہ از حضرت مرزا طاہر احمد رحمہ اللہ)
اس آیت کریمہ میں جہاں گواہ کا ذکر ہے وہاں یہ چیز انسان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے کہ وہ عظیم ہستی جس کے انسانِ کامل خاتم النبیین اور رحمۃللعالمین ہونے کی گواہی آسمان سے ملائکہ اور زمین پر بسنے والے ہر اُس نیک بشر نے دی جس تک آپؐ کا سلوک اور تعلیم پہنچی۔ وہ جو خود تمام انبیاء کی سچائی پر گواہ ٹھہرا اور جس کی مہرِ نبوت سے ہر نبی اور رسول نے تصدیق پائی۔ جب اُس کے بارے میں عالم الغیب خدا نے فرمایا کہ اس پر ایک گواہ آنے والا ہے تو عقل محوِحیرت ہوجاتی ہے کہ یہ کون سا گواہ ہے اور کس چیز کی یہ گواہی دے گا اور خاص کر اس گواہ کے بعد خدا تعالیٰ کا یہ ذکرکرنا کہ ’’اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب بطور امام اور رحمت موجود ہے۔‘‘
بہرحال خدا تعالیٰ کی ہر بات میں خاص حکمت پوشیدہ ہوتی ہے اور یہاں بھی اگر گواہ کے بعد موسیٰ کی کتاب کا ذکر بطور امام اور رحمت کے آیا ہے تو یہ امر بھی یقینًا کسی بہت بڑی حکمت سے خالی نہیں۔ اس میں جو بات زیادہ غور طلب ہے وہ یہ کہ آنحضورﷺ کے بابرکت نزول سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زمانہ بطورنبی اور رسول کے گزر رہا تھا اور انجیل مقدس بھی موجود تھی۔ پھر ایسا کیا معاملہ تھا کہ قرآن نے ان کے ذکرکو یکسر فراموش کردیا اور گواہ کے ذکر کے بعد آنحضورﷺ سے پہلے موسیٰ کی کتاب کوبطور امام اور رحمت موجود قرار دیا ۔ جبکہ سورہ آل عمران کی آیات 4-5 میں تورات اور انجیل کا ذکر ان الفاظ میں موجود ہے: اُس نے تجھ پر یہ کتاب حق پر مشتمل اتاری ہے جو اُس (وحی) کو جو اس (کتاب) سے پہلے (آئی) تھی پورا کرنے والی ہے اور اُس نے لوگوں کو ہدایت دینے کے لئے اس سے پہلے تورات اور انجیل کو نازل کیا تھا اور (نیز) اُس نے فیصلہ کن نشان نازل کیا ہے۔ جن لوگوں نے اللہ کے نشانات کا انکار کیا ہے ان کے لئے یقینا سخت عذاب (مقدر) ہے اور اللہ غالب (اور) سزا دینے والا ہے۔
لیکن سورۃ ہود میں جب صرف تورات کا ذکر آتا ہے اور وہ بھی بطور امام کے تو ایک بات واضح ہوجاتی ہے کہ گواہ کے بعد موسیٰ کی کتاب کا ذکر یقینًا اپنے اندر ایک بہت بڑی حکمت لیے ہوئے ہے۔ اس حکمت کی تلاش سے پہلے، جو گواہ کے ساتھ موسیٰ کی کتاب کا ذکر کرنے میں ہے، آئیے اس گواہ کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس کا مقام، اس کی گواہی کی نوعیت اور اس کا زمانہ کون سا ہوسکتا ہے اور کیا اس گواہ کا ذکر قرآن میں کسی اور جگہ پر بھی موجود ہے۔
اس ضمن میں ایک بات طے شدہ ہے کہ اس گواہ کا تعلق آئندہ زمانے سے ہے کیونکہ آنحضورﷺ کے زمانے میں صحابہؓ،ملائکہ اور خود قرآن آپؐ پر گواہ تھے۔ چنانچہ گواہ کے بارے میں واضح اشارہ ہمیں قرآن مجید کی سورۂ الزخرف کی آیت 64 میں ملتا ہے:

وَلَمَّا جَاء عِیْسَی بِالْبَیِّنَاتِ قَالَ قَدْ جِئْتُکُم بِالْحِکْمَۃِ وَلِأُبَیِّنَ لَکُم بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُونَ فِیْہِ فَاتَّقُوا اللَّہَ وَأَطِیْعُون

ترجمہ: اور جب عیسیٰ کھلے کھلے نشانات کے ساتھ آگیا تو اُس نے کہا یقینا میں تمہارے پاس حکمت لایا ہوں اور اس لئے آیا ہوں کہ تمہارے سامنے بعض وہ باتیں جن میں تم اختلاف کرتے ہو کھول کر بیان کروں۔ پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو۔ (ترجمہ از حضرت مرزا طاہر احمد رحمہ اللہ)
اس سورت میں آیات نمبر 58 تا 64 کا تعلق پیش گوئی سے ہے۔اس لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے تفسیرِ صغیر میں اس آیت کا ترجمہ ’’آئے گا‘‘ لکھتے ہوئے حاشیہ میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ’’ کئی جگہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ ماضی بمعنے مضارع بھی آتا ہے۔‘‘ (دیکھو فقہ اللغہ ثعلبی 215)
حضرت خلیفہ ثانیؓ کی اسی بات کی تائید میں تورات کا ایک حوالہ بھی پیشِ خدمت ہے جس میں آنحضورؐ کی فتح مکہ کی پیشگوئی موجود ہے۔
’’اور یہ وہ برکت ہے جوموسیٰ مرد خدا نے اپنے مرنے سے آگے بنی اسرائیل کو بخشی اور اُس نے کہا کہ خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے اُن پر طلوع ہوا۔ فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا۔ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے دا ہنی ہاتھ میں ایک آتشی شریعت ان کے لئے تھی۔‘‘ (3۔استثنا ء باب 33آیت1-2)
اب یہاں تک اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ یہ گواہ وہی ہے جس کو قرآن مجیدمیں عیسیٰ ابن مریم کی دوبارہ بعثت کہا گیا ہے۔ لیکن اس گواہ نے آنحضورﷺ کی کس چیز کی گواہی کے لئے آنا تھا؟ دراصل مسلمان اقوام پر ایک وقت آنا تھا جب دنیا میں ہر طرف سے ناکامی،نامرادی اور ذلت ان کا مقدرہو جاناتھا۔اسلام اور اُس کی تعلیمات کا وجود صرف نام کی حد تک رہ جانا تھا۔ غیر اقوام میں اسلام اور قرآن کی عظمت کوروشناس کرانا تو دور کی بات الٹا ان اقوام کے بدرسوم ورواج اور بدعات نے ہر اسلامی قدر کی جگہ لے لینی تھی۔ ایسے میں خدا کی تقدیر نے ظاہر ہونا تھا اور اپنے پیارے نبی کی عظمت اور اُس کی تعلیم کو ایک بار پھر پوری دنیا میں ایک جری مرد کے ذریعے پھیلانا تھا۔ یہی وہ گواہ تھا جس نے آکر زمانے کو یہ باور کرانا تھا کہ اُس عظیم نبی کی شان آج بھی بلند ہے اور اُس کی تعلیمات کا قیامت تک کوئی مدّمقابل نہیں ہے۔ یہی وہ وجود ہے جس نے پرچمِ اسلام کو ایک بار پھر دنیا پر لہراکر حضرت محمد ﷺ کے نام کو بلند کرنا تھا اور اُس کی عظمت کی گواہی دینا تھی۔
جیسا کہ مضمون میں گواہ کے مقام اور اُس کی گواہی کی نوعیت اور اہمیت کا ذکر ہو چکا ہے تو ذہن میں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ کیا قرآن میں اس گواہ کے آنے کا کوئی وقت بھی مقررہے تو اس کے متعلق ایک واضح اشارہ ہمیں سورہ جمعہ کی آیت 4میں ملتا ہے:

وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوا بِہِمْ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ

اور انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی (اسے مبعوث کیا ہے) جو ابھی اُن سے نہیں ملے۔وہ کامل غلبہ والا (اور) صاحبِ حکمت ہے۔ (ترجمہ از حضرت مرزا طاہر احمد رحمہ اللہ)
اس آیت کی وضاحت میں حضورؐ کی حدیث موجود ہے جس میں آخرین کے حوالے سے حضرت سلمان فارسیؓ کاذکر ہے اور زمانے کے لحاظ سے جب ایمان ثریا پر چلا جائے گا۔
ہماری مذہبی تاریخ میں جب بھی کسی آنے والے کا ذکر ملتا ہے تو جہاں مختلف قسم کے زمینی اور آسمانی نشانوں کا ذکر ملتا ہے وہیں پر وقت اور زمانے کا تخمینہ لگانے کے لئے اعدادوشمار سے بھی مدد لی گئی ہے۔ان اعدادوشمار کا ذکر قرآن، حدیث، مورخین اور بزرگوں کی کتابوں میں مختلف رنگ میں ملتا ہے۔
سورہ ہود کی آیتِ مبارکہ میں گواہ کے ذکر کے بعد کتابِ موسیٰ کے ساتھ لفظ ’’بطور امام‘‘ ہمیں ان اعدادوشمار سے کام لینے کی طرف توجہ دلاتا ہے۔گو کہ لفظ امام کے بہت سے معنے اور مطالب ہیں لیکن اس آیت میں جہاں گواہ کے مقام، اُس کی حیثیت اور اہمیت کا پتہ چلتا ہے وہیں پر یہ آیت خود بھی اُس گواہ کے حق میں موسیٰؑ کی کتاب کا ذکر کرکے اُس کی آمد کا وقت بتارہی ہے اور یوں اُس گواہ کے حق میں بھی گواہی دے رہی ہے۔
چونکہ قرآن مجید میں اس آنے والے کو عیسیٰ ابن مریم سے مشابہت دی ہے لہٰذا ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ حضرت عیسیٰ کی بعثت کا کون سا زمانہ تھا۔ لیکن اس سے قبل ہمیں حضرت موسیٰ کی تاریخ پیدائش اور وفات کو ایک نظر دیکھنا ہوگا۔
Mattis Cantor نے Timeline of Jewish History میں حضرت موسیٰ کی پیدائش 1393قبل مسیح اور وفات 1273قبل مسیح لکھی ہے۔
Encyclopaedia of World Biography میں حضرت موسیٰ کی پیدائش 1392قبل مسیح جبکہ وفات 1272قبل مسیح۔ اسی طرح Rabbinical Judaism کے مطابق حضرت موسیٰ کی پیدائش 1391قبل مسیح اور وفات 1271 قبل مسیح۔
لیکن چونکہ Mattis Cantorنے مکمل شجرہ نسب جو کہ حضرت آدمؑ 3760قبل مسیح سے پیش کیا ہے جس میں حضرت ابراہیم ؑ 1813قبل مسیح سمیت تمام انبیاء کے زمانوں کی تاریخ کو ایک تسلسل کے ساتھ درج کیا ہے۔اس لئے اس کے حوالے کو زیادہ معتبر سمجھا جاتا ہے۔
حضرت عیسیٰ ؑ کی تاریخِ پیدائش کو Wikipedia میں مختلف تاریخوں میں درج کیا گیا ہے یعنی 6قبل مسیح اور 4قبل مسیح جبکہ Gospal Evidanceکے مطابق یہ 1قبل مسیح ہے۔ لیکن یہاں پر بھی مورخین نے 4قبل مسیح کی تاریخ کو زیادہ مستند سمجھا ہے۔ اس لحاظ سے اگر ہم حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کی درمیانی مدت کو Calculate کرنا چاہیں تو ہمیں 1273میں سے 4 کو منہا کرنا ہوگا۔ گویا حضرت موسیٰ ؑ کے 1269سال بعد مسیح ناصری کا ظہور ہوا۔اب ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ مسیح محمدیؐ کا ظہور اپنے پیشوا سے کتنے عرصہ بعد ہوا۔
سیرت خاتم النبین میں حضرت مرزا بشیر احمد ؓ نے نبی اکرم ﷺ کی پیدائش کی دو تاریخیں درج کی ہیں۔ ایک واقعہ اصحاب الفیل کے 25روز کے بعد 12ربیع الاول مطابق 20 اگست 570ء اور دوسری غالباً کسی تحقیق کی رُو سے 9ربیع الاول مطابق 20اپریل 571ء۔ جبکہ آپؐ کی وفات کی تاریخ مکرم ہادی علی چوہدری صاحب نے سیرت خاتم النبیین کے حصہ ’’7 ہجری سے وصال نبوی تک‘‘ میں 26مئی 632ء لکھی ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ 13؍فروری 1835ء بمطابق 1250ہجری سال میں پیدا ہوئے اور آپ کی وفات 26؍مئی 1908ء کو ہوئی۔ گویا مسیح محمدیؐ کا ظہور آنحضرتﷺ کے 1203عیسوی سال کے بعد ہوا اور اس طرح آنحضورﷺ کی یہ پیشگوئی اپنی پوری شان سے پوری ہوئی:

اَلاٰیاتُ بَعُدَالمِائتین (مشکٰوۃ مجتبائی 271)۔ کہ مسیح و مہدی کے ظہور کی نشانیاں بارھویں صدی کے گزرنے پر ہوں گی۔

لیکن سورہ ہود کی آیت نمبر17میں درج گواہ کے بعد موسیٰ ؑ کی کتاب بطور امام کے حوالہ سے جو پیشگوئی درج ہے اُس کا اعداد وشمار کے حساب سے جائزہ لینا ابھی باقی ہے۔ وقت اور مدت کے تخمینے کے لئے ہم نے ابھی تک جو پیمانہ استعمال کیا ہے وہ عیسوی کیلنڈر کا ہے لیکن اب ہم عیسوی سال کا ہجری سال کے ساتھ تقابلی جائزہ لیں گے۔ یاد رہے کہ ہجری سال آنحضورؐ کی وفات سے تقریباً 11سال پہلے شروع کیا جاتا ہے۔اسی طرح عیسوی سال بھی 4سال قبل مسیح سے شروع کیا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کی وفات کے 1269سال بعد حضرت عیسیٰ ؑ پیدا ہوئے۔یہاں پر بعض حساب دان یہ سوچیں گے کہ 4سال قبل مسیح کا مطلب تو 1273سال بنتا ہے تو یاد رہے کہ 6قبل مسیح، 4قبل مسیح اور ایک قبل مسیح کا اختلاف پیدائش کے حوالے سے ہے نہ کہ عیسوی کیلنڈر کے حوالے سے۔اس لیے ہم نے زیادہ مستند رائج الوقت 4قبل مسیح کو لیا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ 1250ہجری میں پیدا ہوئے گویا مسیح محمدی کا مسیح ناصری کے ساتھ عددی موازنہ اپنے پیش رَوکی مناسبت سے 1250 اور1269کے فرق سے ہے۔
امام الہند حضرت شاہ ولی اللہؒ محدث دہلوی کی کتاب ’’تفہیمات الٰہیہ‘‘ (جلد دوم صفحہ 133) پر درج ہے۔ (ترجمہ): ’’میرے رب جلّ جلالہ نے مجھے سکھایا ہے کہ قیامت قریب ہے اور مہدی کاخروج ہونے کوہے۔‘‘
حضرت شاہ ولی اللہؒ نے ظہورمہدی کی تاریخ لفظ ’’چراغ دین‘‘ سے 1268 نکالی ہے۔ (بحوالہ احمدیہ پاکٹ بک تیرھویں دلیل صفحہ نمبر 365)۔ جو کہ عددی لحاظ سے 1250اور1269کی درمیانی اور قریب ترین تاریخ بنتی ہے اور پیشگوئیوں میں اعدادوشمار کے اتنے معمولی فرق کو کوئی فرق نہیں سمجھا جاتا۔
اگر ان اعدادوشمار کو حضرت عیسیٰ ؑکی تینوں مختلف تاریخوں میں Calculate کریں یعنی 6قبل مسیح 4 قبل مسیح اور ایک قبل مسیح تب بھی ہمارا ROUND UP فگر 1250ہی بنتا ہے۔
پس وہ روشن دلیل جو اس عظیم نبی کے لئے خدا کی طرف سے تھی اُس کے گواہ نے بھی اس میں سے حصہ پایا اور موسیٰ ؑ کی کتاب کی طرف اشارہ کرکے اُس کے آنے کا وقت بھی بتادیا۔

وقت تھا وقتِ مسیحا نہ کسی اَور کا وقت
میں نہ آتا تو کوئی اَور ہی آیا ہوتا

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں