حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا انداز تربیت

(مطبوعہ انصارالدین یوکے جنوری و فروری + مارچ و اپریل + مئی وجون 2021ء)

( محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد)

خدا تعالیٰ کے مامورین اور انبیا ء علیہم السلام اس لئے دنیا میں آتے ہیں تاکہ لوگ ان کو قبول کریں اور اپنی زندگیوں کو ان کی لائی ہوئی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔اس غرض کے لیے خدا کے مامور خود بھی ان تعلیمات پر عمل کر کے ایمان لانے والوں کے لیے ایک نمونہ پیش کرتے ہیں اور اپنے ماننے والوں سے امید کرتے ہیں کہ وہ اس نمونہ کے مطابق اپنی زندگیاں بسر کریں گے۔اس مقصد کے حصول کیلئے ضروری ہے کہ انبیاء کی زندگی کے حالات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل ہوں۔اسی اصول کے پیش نظر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے حضورؑ کے بارے میں چھوٹی سے چھوٹی بات بھی احادیث میں بیان کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات زندگی بھی صحابہ نے جمع کئے اور آئندہ آنے والوں کے لئے زندگی کے مختلف پہلوؤں میں آپؑ کے نمونہ کو محفوظ کیا ہے۔
انسانی زندگی میں اولاد کی تربیت کی جو اہمیت ہے وہ ظاہرو باہر ہے اس اہمیت کے پیش نظر آج کے اس مضمون میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمودات دربارہ تربیت اولاد اور خود حضور کا اپنا نمونہ پیش ہے۔ اس بارہ میں حضور نے ہمیں بہت واضح، اہم اور بنیادی ہدایات سے نوازا ہے اورخود ان پر عمل کرکے ہمارے لئے نمونہ پیش کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
’’میں لوگوں کی خواہش اولاد پر تعجب کیا کرتا ہوں۔کون جانتا ہے اولاد کیسی ہوگی۔اگر صالح ہو تو انسان کو دنیا میں کچھ فائدہ دے سکتی ہے اور پھر مستجاب الدعوات ہو تو عاقبت میں بھی فائدہ دے سکتی ہے۔اکثر لوگ تو سوچتے ہی نہیں کہ ان کو اولادکی خواہش کیوں ہے اورجو سوچتے ہیں وہ اپنی خواہش کو یہاں تک محدود رکھتے ہیں کہ ہمارے مال و دولت کا وارث ہواور دنیا میں بڑا آدمی بن جائے۔ اولاد کی خواہش صرف اس نیت سے درست ہو سکتی ہے کہ کوئی ولد صالح پیدا ہو جو بندگانِ خدا میں سے ہو۔ لیکن جو لوگ آپ ہی دنیا میں غرق ہوں وہ ایسی نیت کہاں سے پیدا کر سکتے ہیں۔انسان کو چاہیے کہ خدا سے فضل مانگتا رہے تو اللہ تعالیٰ رحیم وکریم ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 295)
نیز فرماتے ہیں کہ:
’’بہت سے لوگ ہیں جواہل و عیال کا تہیہ کرتے ہیں اور ان کے سارے ہم وغم اسی پر آکر ختم ہو جاتے ہیں کہ ان کی اولاد ان کے بعد ان کے مال واسباب اور جائیداد کی مالک اور جانشین ہو۔اگر انسان اسی حد تک محدود ہے اور وہ خدا کے لئے کچھ بھی نہیں کرتا تو یہ جہنمی زندگی ہے۔ اس کو اس سے کیا فائدہ؟ جب یہ مرگیا تو پھر کیا دیکھنے آئے گا کہ اس کی جائیداد کا کون مالک ہوا ہے اوراس سے اس کو کیا آرام پہنچے گا۔ اس کا تو قصہ پاک ہو چکا اور یہ کبھی پھر دنیا میں نہیں آئے گا۔ اس لئے ایسے ہم وغم سے کیا حاصل جو دنیا میں جہنمی زندگی کا نمونہ ہے اور آخرت میں بھی عذا ب دینے والا۔‘‘ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 598)
اس سلسلہ میں حضور نے ایک بنیادی بات یہ بیان فرمائی ہے کہ اولاد کی اچھی تربیت کے لئے کوشش اور جدوجہد اولاد کی پیدائش سے قبل شروع ہونی چاہیے اور اولاد کے پیدا ہونے کے بعد والدین کو خود اپنے اندر ایسی مثبت تبدیلی لانی چاہیے کہ بچے ان کو اپنے لئے ایک نمونہ بنائیں۔چنانچہ فرماتے ہیں:
’’انسان کو سوچنا چاہیے کہ اسے اولاد کی خواہش کیوں ہوتی ہے؟ کیوں کہ اس کو محض طبعی خواہش ہی تک محدود نہ کر دینا چاہیے کہ جیسے پیاس لگتی ہے یا بھوک لگتی ہے… جب تک اولاد کی خواہش محض اس غرض کے لئے نہ ہو کہ وہ دین دار اور متقی ہو اور خدا تعالیٰ کی فرمانبردار ہو کر اس کے دین کی خادم بنے،بالکل فضول بلکہ ایک قسم کی معصیّت اور گناہ ہے اور باقیات صالحات کی بجائے اس کا نام باقیات سیّآت رکھنا جائز ہو گا۔ لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں صالح اور خدا ترس اور خادم دین اولاد کی خواہش کرتا ہوں،تو اس کا یہ کہنا بھی نِرا ایک دعویٰ ہی دعویٰ ہو گاجب تک کہ وہ اپنی حالت میں ایک اصلاح نہ کرے۔ اگر خود فسق وفجور کی زندگی بسر کرتا ہے اور منہ سے کہتا ہے کہ میں صالح اور متقی اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو وہ اپنے اس دعویٰ میں کذّاب ہے۔ صالح اور متقی اولاد کی خواہش سے پہلے ضروری ہے کہ وہ خود اپنی اصلاح کرے اور اپنی زندگی کو متقیانہ زندگی بناوے تب اس کی ایسی خواہش ایک نتیجہ خیز خواہش ہوگی اور ایسی اولاد حقیقت میں اس قابل ہو گی کہ اس کو باقیات صالحات عبدت کا مصداق کہیں۔‘‘(ملفوظات جلداول صفحہ 561,560)
اولاد کی خواہش ایک فطری امر ہے۔ لیکن حضور کے نزدیک دیگر جملہ فطری خواہشات اور تمناؤں کی طرح اولاد کی تمنا کو بھی خدا تعالیٰ کو خوش کرنے اور راضی کرنے کے ساتھ جوڑ دینا چاہیے اور اگر انسان اپنی اس تمنا کو خدا تعالیٰ کی رضا کے تابع لے آئے تو بعض اوقات خداتعالیٰ معجزانہ طور پر بھی اولاد سے نواز دیتا ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اورحضرت زکریا علیہ السلام کو باوجود بڑھاپے کے اللہ تعالیٰ نے اولاد سے نوازا۔ اس لئے اولادکے طالب اگر اپنی اس فطری خواہش کو خداکی مرضی کے تابع کر لیں تو خدا تعالیٰ ان کے ساتھ بھی یہی سلوک فرما سکتا ہے۔چنانچہ حضور فرماتے ہیں:
’’اگر اولاد کی خواہش کرے تو اس نیت سے کرے وَاجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَاماً پر نظر کر کے کرے کہ کوئی ایسا بچہ پیدا ہو جائے جو اعلاء کلمۃ الاسلام کا ذریعہ ہو۔ جب ایسی پاک خواہش ہو تو اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ زکریا کی طرح اولاد دے دے۔‘‘ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 579)
ضمناً اس موقعہ پر یہ بیان کر نابھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جیسا کہ حضور نے بیان فرمایا ہے کہ:
’’خدا تعالیٰ قادر ہے زکریا کی طرح اولاد دے دے‘‘حضور کا یہ فرمان فقط منہ کی باتیں نہ تھیں بلکہ خود حضور کے صحابہ ؓ کی زندگی میں یہ بات پوری ہوئی اور خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت کے جلوے دکھائے جس طرح اس نے حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا پر اپنی قدرت کا جلوہ دکھایا تھا۔
چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے حضرت منشی عطاء محمد صاحب پٹواری کا واقعہ بیان فرمایا ہے کہ ان کی تین بیویاں تھیں اور شادیوں پر کئی سال گزرنے کے باوجود اولاد کسی سے بھی نہ ہوئی تھی۔انہوں نے حضور کی خدمت میں خط لکھا کہ میں چاہتاہوں کہ میری بڑی بیوی کے بطن سے لڑکا پیدا ہو۔جواب میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ؓ نے تحریر فرمایا کہ حضور نے دعا کی ہے اور اللہ تعالیٰ آپ کو ’’فرزند ارجمند۔صاحب اقبال خوبصورت لڑکا جس بیوی سے آپ چاہتے ہیں عطا کرے گا۔مگر شرط یہ ہے کہ آپ زکریا والی توبہ کریں۔‘‘
منشی صاحب کہتے ہیں میں ان دنوں سخت بے دین اور شرابی کبابی راشی مرتشی تھا۔ایک احمدی بزرگ سے میں نے پوچھا کہ زکریا والی توبہ کیسی ہوتی ہے انہوں نے کہا بے دینی چھوڑ دو۔حلال کھاؤ۔ نماز روزہ کے پابند ہو جاؤ اور مسجد میں زیادہ آیا جایا کرو۔ وہ کہتے ہیں میں نے یہ سب چیزیں چھوڑ دیں اور نماز روزہ کا پابند ہوگیا۔ چار پانچ ماہ کا عرصہ گزرا تھا میں ایک روز گھر گیا تو اپنی بڑی بیوی کو دیکھا وہ رو رہی تھی۔ وہ کہتے ہیں میں نے پوچھا کہ تمہیں کیا ہوا ہے تو اس نے کہا کہ پہلے تو یہی مصیبت تھی کہ میرا بچہ نہیں ہوتا اوراسی وجہ سے آپ میری دوسوکنوں کو لے آئے اب تو بالکل ہی امید ختم ہو گئی ہے کہ میرے حیض آنا ہی بندہو گئے ہیں۔ کہتے ہیں میں نے دائی کو بلایا کہ وہ بیوی کو دیکھے تواس نے دیکھ کر کہا کہ میں تجھے ہاتھ بھی نہیں لگاتی نہ دوائی دونگی کیونکہ مجھے تو لگتا ہے کہ تیرے اندر خدا بھول گیا ہے یعنی بانجھ ہونے کے باوجود تیرے پیٹ میں تو لگتا ہے کہ بچہ ہے۔ منشی صاحب کہتے ہیں میں نے بیوی کو بتایا کہ میں نے مرزا صاحب سے دعا کرائی تھی مزید کہتے ہیں کچھ عرصہ بعد ہی حمل کے پورے آثار ظاہر ہوگئے وہ کہتے ہیں میں نے سب لوگوں کو بتانا شروع کر دیا کہ اب دیکھ لینا میرے لڑکا پیدا ہو گا اور ہو گا بھی خوبصورت لوگ میری بات پر تعجب کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر ایسا ہوا تو واقعی بڑی کرامت ہوگی۔آخر ایک رات لڑکا پیدا ہوا اور خوبصورت بھی تھا۔ یہ لڑکاجس کا نام عبدالحق تھا جوان ہوا، بوڑھا ہوا اور ایک کامیاب کامران زندگی گزار کر بڑھاپے میں فوت ہوا۔
(ملخص سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 241صفحہ 221-220)
اسی بات کو آپ ؑ آگے چل کر یوں بیان فرماتے ہیں کہ:
’’غرض اولاد کے واسطے صرف یہ خواہش ہوکہ وہ دین کی خادم ہو۔اسی طرح بیوی کرے تاکہ اس سے کثرت سے اولاد پیدا ہو اور وہ اولاد دین کی سچی خدمت گزار ہو اور نیز جذبات ِنفس سے محفوظ رہے … اس صورت میں اگر مال بھی چھوڑتا ہے اور جائیداد بھی اولاد کے واسطے چھوڑتا ہے تو ثواب ملتا ہے لیکن اگر صرف جانشین بنانے کا خیال ہے اور اس نیت سے سب ہم وغم رکھتا ہے تو پھر گناہ ہے۔اس قسم کے قصور اور کسریں ہوتی ہیں جن سے تاریکی میں ایمان رہتا ہے۔ لیکن جب ہر حرکت و سکون خدا ہی کے لئے ہو جاوے تو ایمان روشن ہوجاتا ہے۔اور یہی غرض ہر مومن کی ہونی چاہیے کہ ہر کام میں اس کے خدا ہی مد نظر ہو۔‘‘
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 600)
ایک دوست کو جن کا بیٹا چند روز بیمار رہ کر فوت ہو گیا تھا۔ نصیحت کرتے ہوئے حضور نے ایک عجیب نکتہ بیان فرمایا۔ فرماتے ہیں:
’’نیت صحیح پیدا کرنی چاہیے ورنہ اولاد ہی عبث ہے۔ دنیا میں ایک بے معنی رسم چلی آتی ہے کہ لوگ اولاد مانگتے ہیں اور پھر اولاد سے دکھ اٹھاتے ہیں۔ دیکھو حضرت نوح کا لڑکا تھا کس کام آیا؟ اصل بات یہ ہے کہ انسان جو اس قدر مرادیں مد نظر رکھتا ہے اگر اس کی حالت اللہ تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہو تو خدا اس کی مرادوں کو خود پوری کر دیتا ہے اور جو کام مرضی الٰہی کے مطابق نہ ہوں ان میں انسان کو چاہیے کہ خود خدا کے ساتھ موافقت کرے۔‘‘ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 295)
دوسری بنیادی بات جو حضور کے طریق ِ تربیت میں نمایاں نظر آتی ہے اور جس کی طرف آپ نے بار بار ہمیں توجہ دلائی ہے وہ یہ ہے کہ والدین کے لئے ضروری ہے کہ وہ باقاعدگی اور التزام کے ساتھ اپنے بچوں کے لئے دُعا کرتے رہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
’’میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں جس میں مَیں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی کے لئے دُعا نہیں کرتا۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 562)
پھر فرماتے ہیں:
’’والدین کی دُعا کو بچوں کے حق میں خاص قبول بخشا گیا ہے … میں التزاماً چند دُعائیں ہر روز مانگا کرتا ہوں۔ اوّل اپنے نفس کے لئے دُعا مانگتا ہوں کہ خدا وند کریم مجھ سے وہ کام لے جس سے اس کی عزت و جلال ظاہر ہو اور اپنی رضا کی پوری توفیق عطا کرے۔ دوم پھر اپنے گھر کے لوگوں کے لئے دُعا مانگتا ہوں کہ ان سے قرۃ عین عطا ہو اور اللہ تعالیٰ کی مرضیات کی راہ پر چلیں۔ سوم پھر اپنے بچوں کے لئے دُعا مانگتا ہوں کہ یہ سب دین کے خدام بنیں۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 309)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کس طرح اپنی اولاد کے لئے دعائیں کرتے تھے اس کا ایک نمونہ ہمیں آپ کی ان نظموں میں نظر آتا ہے جو محمود کی آمین اور بشیر احمد، شریف احمد اور مبارکہ کی آمین کے نام سے جماعت میں متعارف ہیں اور جماعتی اور انفرادی تقریبات میں پڑھی جاتی ہیں۔ محمود کی آمین میں اپنے بچوں کا ذکر کرتے ہوئے دعاکرتے ہیں:

سب کام تو بنائے ، لڑکے بھی تجھ سے پائے
سب کچھ تری عطا ہے ، گھر سے تو کچھ نہ لائے
تو نے ہی میرے جانی! خوشیوں کے دن دکھائے
یہ روز کر مبارک سبحٰن من یرانی
کر ان کو نیک قسمت ، دے ان کو دین و دولت
کر ان کی خود حفاظت ، ہو ان پہ تیری رحمت
دے رُشد اور ہدایت اور عمر اور عزت
یہ روز کر مبارک سبحٰن من یرانی
اے میرے بندہ پرور! کر ان کو نیک اختر
رتبہ میں ہوں یہ برتر اور بخش تاج و افسر
تو ہے ہمارا رہبر ، تیرا نہیں ہے ہمسر
یہ روز کر مبارک سبحٰن من یرانی
شیطاں سے دور رکھیو اپنے حضور رکھیو
جاں پُر زِ نُور رکھیو دل پر سرور رکھیو
ان پر میں تیرے قرباں رحمت ضرور رکھیو
یہ روز کر مبارک سبحٰن من یرانی
یہ تینوں تیرے بندے رکھیو نہ ان کو گندے
کر ان سے دور یا ربّ! دنیا کے سارے پھندے
چنگے رہیں ہمیشہ ، کریو نہ ان کو مندے
یہ روز کر مبارک سبحٰن من یرانی
اے میرے دل کے پیارے! اے مہرباں ہمارے!
کر ان کے نام روشن جیسے کہ ہیں ستارے
یہ فضل کر کہ ہوویں نیکو گُہر یہ سارے
یہ روز کر مبارک سبحٰن من یرانی
اے واحد و یگانہ! اے خالق زمانہ!
میری دعائیں سن لے اور عرضِ چاکرانہ
تیرے سپرد تینوں ، دیں کے قمر بنانا
یہ روز کر مبارک سبحٰن من یرانی
یہ تینوں تیرے چاکر ہوویں جہاں کے رہبر
یہ ہادیٔ جہاں ہوں ، یہ ہوویں نور یکسر
یہ مرجعِ شہاں ہوں ، یہ ہوویں مہر انور
یہ روز کر مبارک سبحٰن من یرانی
اہلِ وقار ہوویں ، فخرِ دیار ہوویں
حق پر نثار ہوویں ، مولیٰ کے یار ہوویں
بابرگ و بار ہوویں ، اک سے ہزار ہوویں
یہ روز کر مبارک سبحٰن من یرانی

بشیر احمد، شریف احمد اور مبارکہ کی آمین میں اپنے بچوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرتے ہیں:

نجات ان کو عطا کر گندگی سے
برات ان کو عطا کر بندگی سے
رہیں خوشحال اور فرخندگی سے
بچانا اے خدا! بد زندگی سے
وہ ہوں میری طرح دیں کے منادی
فَسُبۡحَانَ الَّذِیۡ اَخۡزَی الۡاَعَادِیۡ
عیاں کر ان کی پیشانی پہ اقبال
نہ آوے ان کے گھر تک رُعبِ دجّال
بچانا ان کو ہر غم سے بہر حال
نہ ہوں وہ دکھ میں اور رنجوں میں پامال
یہی امید ہے دل نے بتا دی
فَسُبۡحَانَ الَّذِیۡ اَخۡزَی الۡاَعَادِیۡ
دعا کرتا ہوں اے میرے یگانہ!
نہ آوے ان پہ رنجوں کا زمانہ
نہ چھوڑیں وہ ترا یہ آستانہ
مرے مولیٰ! انہیں ہر دم بچانا
یہی امید ہے اے میرے ہادی
فَسُبۡحَانَ الَّذِیۡ اَخۡزَی الۡاَعَادِیۡ
نہ دیکھیں وہ زمانہ بے کسی کا
مصیبت کا ، اَلم کا ، بے بسی کا
یہ ہو میں دیکھ لوں تقویٰ سبھی کا
جب آوے وقت میری واپسی کا
بشارت تو نے پہلے سے سنا دی
فَسُبۡحَانَ الَّذِیۡ اَخۡزَی الۡاَعَادِیۡ

تیسری بنیادی بات جو حضرت اقدس علیہ السلام نے بیان فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ بچوں کی تربیت کے لئے بچپن سے ہی مناسب اقدام کرنے چاہئیں۔ چنانچہ بچپن کے زمانے میں ہی اولاد کی تربیت کا خیال رکھنے کے سلسلے میں حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’دینی علوم کی تحصیل کے لئے طفولیت کا زمانہ بہت ہی مناسب اور موزوں ہے۔ جب داڑھی نکل آئی تب ضَرَبَ یَضۡرِبُ یاد کرنے بیٹھے تو کیا خاک ہو گا۔ طفولیت کا حافظہ تیز ہوتا ہے۔ انسانی عمر کے کسی دوسرے حصہ میں ایسا حافظہ کبھی بھی نہیں ہوتا۔ مجھے خوب یاد ہے کہ طفولیت کی بعض باتیں تو اب تک یاد ہیں لیکن پندرہ برس پہلے کی اکثر باتیں یاد نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی عمر میں علم کے نقوش ایسے طور پر اپنی جگہ کر لیتے ہیں اور قویٰ کے نشوونما کی عمر ہونے کے باعث ایسے دلنشیں ہو جاتے ہیں کہ پھر ضائع نہیں ہو سکتے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 44)
نیز فرمایا:
’’تعلیمی طریق میں اس امر کا لحاظ اور خاص توجہ چاہیے کہ دینی تعلیم ابتداء سے ہی ہو اور میری ابتداء سے یہی خواہش رہی ہے اور اب بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو پورا کرے … اگر مسلمان پورے طور پر اپنے بچوں کی تعلیم کی طرف توجہ نہ کریں گے تو میری بات سُن رکھیں کہ ایک وقت ان کے ہاتھ سے بچے بھی جاتے رہیں گے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 44-45)
ابتدائی ایام میں دعویٰ سے قبل جب حضور علیہ السلام اتنے مصروف نہ ہوئے تھے خود بچوں کو پڑھاتے اور تعلیم دیتے تھے چنانچہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب اپنے بچپن اور جوانی کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ اس زمانے کے دستور کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہی ان کو ابتدائی طور پر لکھنا پڑھنا سکھایا اور فارسی کی بعض کتب مثلاًتاریخ فرشتہ، گلستان، بوستان،نحو اور منطق کے ابتدائی رسالے درساً پڑھائے تھے۔آپ بیان فرماتے ہیں کہ میں کتابیں سرہانے رکھ کر سو جایا کرتا تھا بہت محنتی نہ تھا۔ سبق سمجھ لیا کچھ یاد بھی رکھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میرا پہلا سبق بھی سنا کرتے تھے میں بھول بھی جاتا مگر یہ کبھی نہیں ہوا کہ پڑھنے کے متعلق مجھ سے ناراض ہوئے ہوں یا مجھے مارا ہو۔ مزید بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ناراضگی صرف دینی معاملات میں ہوتی تھی۔
(سیرت المہدی حصہ اول روایت نمبر 186۔ سیرت حضرت مسیح موعوؑدمؤلفہ شیخ یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ377)
تربیت اولاد کے لیے بچوں کے جن سے تعلقات ہوں ان پر نظر رکھنا بھی بہت ضروری امر ہے۔حضرت اقدس ؑ اس بارہ میں فرماتے ہیں:
’’اگر تم اپنے بچوں کو عیسائیوں، آریوں اور دوسروں کی صحبت سے نہیں بچاتے یاکم از کم نہیں بچانا چاہتے تو یاد رکھو کہ نہ صرف اپنے اوپر بلکہ قوم پر اور اسلام پر ظلم کرتے اور بہت بڑا بھاری ظلم کرتے ہو۔اس کے یہ معنے ہیں کہ گویا تمہیں اسلام کے لئے کچھ غیرت نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت تمہارے دل میں نہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 45)
چنانچہ حضرت اقدس ؑ نہ صرف یہ کہ اپنے بچوں کی طرف بہت توجہ فرماتے تھے تاکہ ان کی تربیت میں کسی قسم کی کمی نہ رہ جائے بلکہ ان کے دوستوں سے بھی ویسا ہی سلوک کرتے تھے۔حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ آپ کی سیرت مبارکہ کے اس پہلو پر یوں روشنی ڈالتے ہیں کہ:
مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ صاحبزادگان کے ساتھ کھیلنے والے بچوں کے ساتھ بھی اسی طرح کا سلوک فرمایا کرتے جیسے اپنے بچوں سے شفقت فرماتے۔
ایک روز آپ ؑ نے ہنس کر ایک واقعہ بیان فرمایا کہ فلاں لڑکا جو آج کل افریقہ میں ملازم ہے اور ان ایام میں اپنے باپ کے ساتھ حضرت اقدس کے گھر میں رہا کرتا تھاکیونکہ اس کا باپ لنگر خانہ میں کام کرتاتھا۔ حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب یا شریف احمد صاحب دونوں میں سے کسی ایک سے کہہ رہا تھا کہ ہمارا باپ تو ہم کو بہت سے آم دیتا ہے۔صاحبزادہ صاحب موصوف نے حضرت اقدس سے کہا (ان ایام میں آم آئے ہوئے تھے اور حضرت اقدس ؑ بچوں کو خود تقسیم فرما رہے تھے) حضرت اقدس ؑ بہت ہنسے اور بہت سے آم صاحبزادہ صاحب کو دیئے۔آپ کی غرض یہ تھی کہ وہ اپنے ہم جولیوں میں اچھی طرح تقسیم کریں۔یہ تو ان کے ہاتھ سے دلائے۔اور خود ان سب کو جو ساتھ ہوتے بر ابرحصہ دیتے اور وہ حضرت کے گھرمیں ایک شاہانہ زندگی بسر کرتے۔
عام سلوک میں حضرت اقدس کو کبھی کسی سے بھی فرق نہ ہوتا۔ کھانے پینے کے لئے برابر پوری آزادی اور فراغت حاصل تھی۔
(سیرت حضرت مسیح موعود ؑ صفحہ 372,371مولفہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی)
حضرت اقدس علیہ السلام کے اپنے بچوں کے ساتھ محبت و شفقت اور ان کی بیماری کے دوران ان کے ساتھ حسن سلوک کے متعلق حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی لکھتے ہیں:
’’حضرت مسیح موعود ؑ کی شفقت اور لطف اپنی اولاد کے ساتھ مخصوص نہ تھا۔ بلکہ عام طور پر تمام بچوں کے ساتھ تھا۔جماعت کے کسی فرد کے ہاں بچہ پیدا ہوتا تو آپ بہت خوش ہوتے اور اکثر ان کے نام آپ خود تجویز فرمایا کرتے … مدرسہ کے غریب سے غریب طالب علم کی بیماری پر بھی آپ کا وہ جوش ہمدردی مشاہدہ کیا گیا ہے جو کہ کم لوگوں کو اپنی اولادکے لئے بھی نصیب ہو تا ہو گا۔ آپ بارباراضطراب سے پھرتے اور دعا مانگتے تھے۔اور بار بار حالات پوچھتے تھے۔اور اس کی صحت پر آپ کو ایسی خوشی ہوتی جیسے کسی اپنے بچہ کی صحت پر۔ ایسے بہت سے واقعات ہیں۔ عبدالکریم صاحب حیدر آبادی اور میاں عبدالرحیم خان صاحب خالد بیرسٹر ایٹ لاء اس شفقت کے اعجازی نشان ہیں۔‘‘ (سیرت حضرت مسیح موعود ؑ صفحہ 386)
تربیت کے ضمن میں حضور کس طرح چھوٹی چھوٹی بات کا خیال رکھتے اور اس کی طرف توجہ فرماتے تھے اس بارے میں چند واقعات پیش ہیں ۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اپنے بچپن کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ نے اپنے ساتھ کھیلنے والے لڑکے کو مرزا نظام دین صاحب کے مکان کی طرف اشارہ کرکے بتایا ’’دیکھو وہ نظام دین کا مکان ہے‘‘۔
اس پر حضور نے حضرت میا ں صاحب کو فوراً ٹوک دیا اور فرمایا: ’’میاں آخر وہ تمہارا چچا ہے۔ اس طرح نام نہیں لیا کرتے‘‘۔
(سیرت المہدی جلد اول صفحہ 28روایت نمبر 38)
یاد رہے کہ مرزا نظام دین صاحب حضور کے چچا زاد بھائی تھے لیکن دعویٰ کے بعد سے جانی دشمن ہو گئے تھے اور حضور کو تنگ کرنے اور تکلیف پہنچانے میں ہمہ وقت کوشاں رہتے تھے۔
پھر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا ہی ایک واقعہ ہے۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے مسجد میں آگئے اور حضرت اقدس کے پاس آکر بیٹھ گئے اور اپنے لڑکپن کے باعث کسی بات کے یاد آجانے پر دبی آواز سے کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ حضور نے فرمایا کہ’’مسجد میں ہنسنا نہ چاہیے‘‘۔
(سیرت حضرت مسیح موعود ؑ مولفہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صفحہ 367)
ایک اور واقعہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ حضرت سیدہ امۃ الحفیظ ؓ کے بارے میں بیان فرماتی ہیں کہ:
جب کہ وہ ابھی بالکل چھوٹی تھیں کسی جاہل خادمہ سے ایک گالی سیکھ لی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے دہرا دی۔حضور نے سخت خفگی کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ’’اس چھوٹی عمر میں جو الفاظ زبان پر چڑھ جاتے ہیں وہ دماغ میں محفوظ بھی رہ جاتے ہیں اور بعض دفعہ انسان کی زبان پر مرتے وقت جاری ہو جاتے ہیں۔ بچے کو فضول بات ہر گز نہیں سکھانی چاہیے۔‘‘ (تحریرات مبارکہ صفحہ 290-289)
آپ مزید بیان فرماتی ہیں:
’’مجھے دعاؤں پر آپ کا بے حد زور دینا یاد آتا ہے۔معلوم ہوتا تھاکہ یہ بھی آپ کے مشن کاایک خاص اور اہم رکن ہے مجھے اکثر فرمایا کہ جب رات کو آنکھ کھلے دعا کیا کرو۔تمہاری تہجد ہوجائے گی۔ اب تک جب کروٹ لوں آنکھ ذرا کھلے تو دعائیں اسی بچپن کی عادت کے مطابق میری زبان پر ہوتی ہیں۔‘‘
(تحریرات مبارکہ صفحہ 218,217)
اپنے بچپن کے زمانہ کا تذکرہ کرتے ہوئے آپؓ نے تحریر فرمایا:
’’جب میں چھوٹی سی لڑکی تھی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کئی بار فرمایا کہ میرے ایک کام کے لئے دعا کر و یادعا کرنا۔ذرا غور کرو کہاں وہ ہستی برگزیدہ عالی شان اور کہاں میں۔مگر آپ مجھے دعا کو کہتے ہیں۔یہ اس لئے ہوتا تھا کہ بچوں کے ذہن نشین ہو جائے کہ ہم نے بھی دعائیں کرنی ہیں اور تادعاؤں کی عادت پڑے اور بچے جان لیں کہ اللہ کا در ِرحمت کھلا ہے۔مانگو گے تو پاؤ گے۔یہ آپ کی تربیت تھی دعا کے متعلق۔‘‘ (تحریرات مبارکہ صفحہ 66-67)
ایک اور جگہ لکھتی ہیں:
’’میں بچہ تھی بالکل چھوٹی جب بھی آپ نے مجھے کہا اور شاید کئی بار کہ جب تم آنکھ کھلے کروٹ لیتی ہو اس وقت ضرور دعا کر لیا کرو میں اٹھ نہ سکوں بیمار ہوں کچھ ہو یہ عادت میری اب تک قائم ہے۔دعا کرتے کرتے درود پڑھتے پڑھتے نیند آجاتی ہے پھر آنکھ کھلے تو وہی سلسلہ۔‘‘ (تحریرات مبارکہ صفحہ 270)
جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے حضور علیہ السلام بچوں کو بھی دعا کرنے کی تاکید فرمایاکرتے تھے اسی طرح حضور بچوں کی خوابوں کو بھی سنجیدگی سے سنا کرتے تھے۔بلکہ بعض اوقات ضروری سمجھتے تو نوٹ بھی فرما تے تھے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپنے جلسہ سالانہ 1914ء کے خطاب میں اپنی ایک رؤیا کا ذکر فرمایاجو حضور علیہ السلام نے اپنی الہاموں کی کاپی میں نوٹ کرلی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:
’’جس رات کو میں نے یہ رؤیا دیکھی اسی صبح کو حضرت والد ماجد کو سنایا آپ سن کر نہایت متفکر ہوئے اورفرمایاکہ مسجد سے مراد تو جماعت ہوتی ہے شاید میری جماعت کے کچھ لوگ میری مخالفت کریں یہ رؤیا مجھے لکھوا دے۔چنانچہ میں لکھواتا گیا اور آپ اپنی الہاموں کی کاپی میں لکھتے گئے۔پہلے تاریخ لکھی پھر یہ لکھا کہ محمود کی رؤیا۔‘‘ (برکات خلافت انوارالعلوم جلد 2صفحہ 181)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک رؤیا حضور کی خدمت میں بیان کی توحضور علیہ السلام نے اس رؤیا کو توجہ سے سنا اور نوٹ کیا۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ فرماتے ہیں:
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی کہ ہر شخص کی خواب توجہ سے سنتے تھے اور بسا اوقات نوٹ بھی فرمالیتے تھے۔چنانچہ ایک دفعہ جب … مسجد کے نیچے کا راستہ دیوار کھینچ کر بند کر دیا تھا اور احمدیوں کو سخت تکلیف کا سامنا تھا اور آپ کو مجبوراً قانونی چارہ جوئی کرنی پڑی تھی۔(اس موقعہ کے علاوہ کبھی آپ نے کسی کے خلاف خود مقدمہ دائر نہیں کیا)میں نے خواب دیکھا کہ وہ دیوار گرائی جارہی ہے اور میں اس کے گرے ہوئے حصے کے اوپر سے گزررہاہوں۔میں نے آپ کے پاس بیان کیا آپ نے بڑی توجہ سے سنا اور نوٹ کر لیا۔اس وقت میں بالکل بچہ تھا۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اول صفحہ 23روایت نمبر 30)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدصاحب کی ایک اوررؤیاکابھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یکم اپریل 1905ء کو ذکر فرمایا تھا اور وہ رؤیا حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کی رؤیا کی تشریح بتائی تھی اس تاریخ کی ڈائری میں درج ہے۔صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب نے اپنا ایک رؤیا سنایاکہ پیر منظور محمد صاحب کہتے ہیں کہ نصرت الحق پورا ہو گیا ہے اور چھپ گیا ہے۔یہ خواب صاحبزادہ میاں شریف احمدکے خواب کی تشریح ہے۔ میاں شریف احمد صاحب نے یکم اپریل 1905ء کو خواب دیکھا تھا کہ قیامت آگئی ہے اور لوگ آسمان کی طرف اڑ کر جارہے ہیں۔ اور دیکھا کہ ایک طرف بہشت ہے اور ایک طرف دوزخ ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ بہشت تمہارے لئے ہے مگر ابھی جانے کا حکم نہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی رؤیا کی تشریح صاحبزادہ میاں شریف احمد صاحب کی رؤیا کو بتایا اور فرمایا کہ ’’یہ قیامت نصرت الحق ہے۔یہ براہین جلد پنجم سے مراد ہے۔ غرض آپ بچوں کے خوابوں کو محض بچے سمجھ کر نظر انداز نہ فرماتے تھے۔‘‘
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت یعقوب علی عرفانیؓ جلد سوم صفحہ 388تا389)
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓ نے اپنی ایک خواب کا تذکرہ فرمایا ہے جو حضور کے استفسار پر انہوں نے حضور کی خدمت میں عرض کی اور حضور نے اپنی الہامات والی کاپی میں نوٹ کی۔ (تحریراتِ مبارکہ صفحہ 55)
اسی طرح حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓ تحریر فرماتی ہیں:
خواب مجھ سے آپ اکثر پوچھتے بھی اورخودسناتی جب بھی سرسری کبھی نہیں سنا کہ بچہ کی بات ہے بلکہ بڑی توجہ فرما کر سنا اور تعبیر سنا کر دل کو خوش بھی کیا کوئی ظاہری پورا کر دینے کا پہلو ہوا تو اس کو ضرور اسی صورت میں پورا کیا۔
آپؓ مزید فرماتی ہیں:
’’آپؑ نے مجھے کہا کہ ایک خاص بات ہے۔ دعا کرو، رات کو دو نفل پڑھو۔ دعا کروکہ جو معاملہ میرے دل میں ہے اس کے متعلق تم کو کچھ اشارہ ہو جائے۔مَیں نے دعا کی اور اسی شب خواب دیکھا۔ آپؑ کو سنایا …کہ حضرت خلیفہ اوّل مستانہ وار چھت پر بیٹھے ہیں ہاتھ میں ایک کتاب ہے کہتے ہیں اس میں وہ الہام ہیں جو میرے متعلق ہیں اور سر اٹھاکر مجھے دیکھا اور کہا میں ابوبکر ہوں۔خواب چھپ چکا ہے۔ آپؑ نے مجھے پوچھا۔ آپؑ ٹہل رہے تھے۔میں نے کہا میں نے تو مولوی صاحب کو اس طرح دیکھا ہے، انہوں نے کہا کہ ’میں ابوبکر ہوں‘۔ آپؑ نے ایسے الفاظ فرمائے کہ جیسے جو دعاکی تھی اُسی کا جواب ہے۔‘‘ (تحریرات مبارکہ صفحہ 259)
حضور علیہ السلام کا یہ طریق صرف اپنی اولاد تک محدود نہ تھا بلکہ کسی بھی بچہ کی خواب اگر آپ کے سامنے بیان کی جاتی اور اگر وہ کوئی پیغام اپنے اندر رکھتی تو حضور اسے نوٹ فرما لیتے تھے اور اس کی تعبیر فرماتے اور اگر اس کے کسی حصہ پر عمل کی ضرورت سمجھتے تو عمل بھی فرماتے۔چنانچہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اس ضمن میں تحریر فرماتے ہیں:
جب آپ 1905ء کے زلزلہ عظیمہ کے بعد باغ میں تشریف لے گئے تو مکرمی حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے بڑے لڑکے منظور صادق نے ایک رؤیا دیکھی کہ بہت سے بکرے ذبح کئے جارہے ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس خواب کو سنکر اپنے خاندان کے ہر فرد کی طرف سے ایک ایک بکرا ذبح کیا۔اور آپ کی اتباع میں ہر شخص نے جو مقدرت رکھتا تھا۔ہرممبر خاندان کی طرف سے ایک ایک یا کل خاندان کی طرف سے ایک ہی بکرا ذبح کیا۔اور اس قسم کی قربانیوں سے خون کی ایک نالی جاری ہوگئی تھی۔کم از کم ایک سو بکرا ذبح ہوا ہو گا۔
حضور علیہ السلام بچوں کی رؤیا سننے کی حکمت بیان کرتے ہوئے بعض اوقات فرماتے کہ بچوں کا نفس ذکیہ ہوتاہے اس لئے ان کی خوابیں بھی صحیح ہوتی ہیں۔
(سیرت حضرت مسیح موعود ؑ مولفہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ 387)
نیز یہ بھی فرمایاکہ:
’’مومن کبھی رؤیا دیکھتا ہے اور کبھی اس کی خاطر کسی اور کو دکھاتا ہے۔ہم نے اس کی تعمیل میں 14بکرے ذبح کرنے کا حکم دیا ہے۔سب جماعت کو کہہ دو کہ جس جس کو استطاعت ہے قربانی کر دے۔‘‘ (اخبار البدر 13/اپریل 1905ء صفحہ 02)
(جاری ہے)

بعض لوگ کم عمری میں بچوں کو روزہ رکھوا دیتے ہیں۔ اس بارہ میں حضرت نواب مبارکہ بیگم ؓ نے ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ قبل بلوغت کم عمر ی میں آپ روزہ رکھوانا پسند نہ فرماتے تھے۔ بس ایک آدھ رکھ لیا کافی ہے۔پھر ایک بار پھر آپ نے روزہ رکھ لیااور آکر حضور کو بتایا کہ آج میرا روزہ پھر ہے۔ آپ حجرہ میں تشریف فرما تھے۔ آپ نے مجھے پان دیا کہ لوپان کھالو۔ تم کمزور ہو، ابھی روزہ نہیں رکھنا، توڑ ڈالوروزہ۔میں نے پان تو کھا لیا مگر آپ سے کہا کہ صالحہ (چھوٹے ماموں جان حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی اہلیہ) نے بھی رکھا ہے۔ ان کا بھی تڑوادیں۔ فرمایا بلاؤ اس کو بھی۔ مَیں بُلالائی۔ وہ آئیں تو ان کو بھی پان دیا اور فرمایا لو یہ کھالو تمہارا روز ہ نہیں ہے۔ میری عمر اس وقت دس سال کی ہوگی۔ (تحریرات مبارکہ صفحہ 213-212)
حضور علیہ السلام بچوں کی تربیت کے لئے ایسے واقعات بھی بیان فرمایا کرتے تھے جن سے بچوں پر اچھا اثر پڑے۔ چنانچہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓ تحریر فرماتی ہیں: ’’آپ ؑ وقتِ فرصت بزرگوں کے واقعات اور ایسی باتیں سناتے جن سے دل پر بہت اچھا اثر ہوتا۔ میرے بھائیوں کو خاص طورپر فرماتے تھے کہ نماز مغرب اور عشاء کے بعد باہر نہیں پھرنا۔گھر پر رہو۔اگر باہر دیر ہو جائے تواس کو ناپسند فرماتے۔ حضرت چھوٹے بھائی صاحب پر میں نے ایک بارکافی خفا ہوتے دیکھا کہ تم شام کے بعد باہر کیوں پھرے۔‘‘
ایک لڑکی کی کچھ عورتوں نے شکایت کی تھی کہ یہ کھڑکی میں سے باہر گلی میں جھانکتی رہتی ہے۔ آپ نے اس کو بلا کر خفگی کا اظہار کیا اور کہا کہ تمہاری سزا ہے کہ اب میری لڑکی تم سے نہیں کھیلے گی، نہ بات کرے گی۔ مجھے بھی بلاکر کہا کہ اب اس سے نہ بولنا۔ وہ بہت روئی دھوئی، توبہ کی آپ ؑ کے حضور میں۔ تو آپؑ نے دو چار روز کے بعد مجھے بلا کر کہاکہ اب تم اس کے ساتھ بات کر سکتی ہو۔
ایک اَور شکایت سن کر اس کو تو آپ نے بہت لمبی نصیحت کی تھی۔ آپؑ نے فرمایا عورت کی عصمت و عزت بہت نازک چیز ہے۔ موتی کی آب جاتی رہتی ہے تو اس کی وہ قیمت نہیں رہتی جو صاف و شفاف دُرّ ِنافُسْتَہ کی ہوتی ہے۔اپنی عصمت کی حفاظت عورت کو کرنا بہت ضروری ہے۔
نیز آپؓ فرماتی ہیں:عام شکایت یاکسی خادم خادمہ کی چوری وغیرہ کی بات سنتے تو کہنے والے کو ٹوک دیتے۔ میرے دل پر اتنا اثر تھا اس آپ کے طرز عمل کا۔ کئی بار پرانی غیر احمدی خادماؤں کو بغیر پوچھے کچھ چیز اٹھاتے دیکھا تو کبھی نہ شکایت کی نہ کسی کو بتا یا بلکہ خود شرم آتی تھی کہ یہ بات کہنے کی نہیں۔پھر تو سب وہ لوگ بھی درست ہو گئے ہمارے دیکھتے دیکھتے۔ (تحریرات مبارکہ صفحہ 289-288)
حضرت مسیح موعود ؑ بچوں کو بظاہر چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف بھی ہمیشہ توجہ دلاتے رہتے تھے۔ چنانچہ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور صاحبزادہ مرزا مبارک احمد مرحوم قینچی سے کھیل رہے تھے۔ میں نے قینچی کی نوک مبارک احمد کی طرف کر رکھی تھی۔ آپؑ نے دیکھ لیا اور فرمایا: کبھی کوئی تیز چیز قینچی، چھری یا چاقو اُس کے تیز رُخ سے کسی کو نہ پکڑاؤ، اچانک کسی کو لگ سکتی ہے۔ کسی کی آنکھ میں لگ جائے، کوئی نقصان پہنچے تو اپنے دل میں بھی ہمیشہ پچھتاوا رہے گا اور دوسرے کو تکلیف پہنچے گی۔ پھر اس بات سے بھی آپ ہمیشہ روکتے تھے کہ کبھی کوئی ڈھیلا پتھر وغیرہ کسی کی جانب نہ پھینکو، کسی کے لگ جائے یا آنکھ پھوٹ جائے یا سر پھٹ جائے۔ اس کا ہمیشہ خیال رہتا تھا اور ہمیشہ بچوں کو اس پر روکتے تھے۔میں اور مبارک احمد آپؑ کے پاس ہی پلنگ پر بیٹھے کھیل کھیل میں ایک دوسرے کو ٹانگیں مار رہے تھے۔لڑائی نہیں تھی کیونکہ ہم دونوں کا آپس میں بہت پیار تھا۔ فرمایا:کشتی کرو بیشک،کھیلو مگر لڑکیوں کے بدن کا ایک حصہ ایسا نازک ہوتا ہے کہ ذرا سخت چوٹ لگ جائے تو موت کاڈر ہوتاہے۔تم دونوں کھیلو مگر خیال رکھو کہ کسی نازک جگہ کسی کو چوٹ نہ آئے۔ (تحریرات مبارکہ صفحہ 265)
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ بالا روایات سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح بظاہر چھوٹی باتوں پر بھی نظر رکھتے۔ آپ بچوں کی سرگرمیوں اور کھیل کود پربھی نظر رکھتے اور حسبِ موقع نصیحت فرماتے تھے۔ایسا ہی ایک اور واقعہ حضرت مولوی خیرالدین سیکھوانی صاحب نے بیان کیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ بسا اوقات ایسا بھی ہوتاتھا کہ ایسی باتیں جن کو بچے تو کیا بڑے بھی برا یا غیر اخلاقی نہیں سمجھتے تھے اور ان سے خود کو بچانے کی کوشش نہیں کرتے اور نتیجہ یہ ہوتاہے کہ بچے بھی اپنے بڑوں کی نقل میں ایسی باتوں کے مرتکب ہو جاتے تھے۔حضور ؑ ان کی طرف بھی توجہ دلاتے رہتے تھے۔ آپ ؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپؑ برائے سیر نکلے۔ واپسی کے وقت راستہ کے ایک کنارے پر ایک درخت کیکر گرا ہوا تھا۔ کسی صحابی نے مسواکوں کے لئے اس درخت سے کاٹ کر لوگوں میں مسواکیں تقسیم کر دیں اور حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کے ہاتھ میں بھی کسی نے مسواک دے دی۔ (اس وقت آپ بچے تھے)۔ غرض جب ان کے ہاتھ میں مسواک آئی تو آپ نے بے تکلف حضرت صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ابا مسواک۔آپؑ خاموش رہے۔جب دوبارہ سہ بارہ کہاتو حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ مسواک کس کی اجازت سے لی گئی ہے۔حضور کا یہ فرمانا تھا کہ سب نے اپنے ہاتھوں سے مسواکیں پھینک دیں۔ (الحکم 28-21مئی 1934ء صفحہ 24)
مذکورہ بالا واقعہ سے حضور کی سیرت کے دو پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے۔حضور کی تربیت کا انداز یہ نہیں تھا کہ ہر وقت روک ٹوک کی جائے یا پیچھے پڑا جائے۔ چنانچہ حضور کی نظروں کے سامنے حضور کے صحابہؓ گرے ہوئے کیکر کی مسواکیں استعمال کرتے رہے مگر حضور نے منع نہیں فرمایا۔بلکہ جب حضرت صاحبزادہ صاحب نے حضور کی خدمت میں مسواکیں پیش کیں تب بھی حضور خاموش رہے لیکن مسواک قبول نہ فرمائی۔مگر جب صاحبزادہ صاحب نے اصرار کے ساتھ دوبارہ مسواک پیش کی تو بچے کی اوراپنے اصحاب کی تربیت کے لحاظ سے حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ مسواک کس کی اجازت سے لی گئی ہے؟
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ نے ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میاں یعنی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محموداحمد صاحب دالان کے دروازے بند کر کے چڑیاں پکڑ رہے تھے۔ حضرت صاحب نے جمعہ کی نماز کے لئے باہر جاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: ’’میاں گھر کی چڑیاں نہیں پکڑا کرتے جس میں رحم نہیں اس میں ایمان نہیں‘‘۔ (سیرت المہدی جلد اول صفحہ 176روایت نمبر198)
حضرت مولوی عبد الکریم صاحبؓ بیان فرماتے ہیں: جاڑے کا موسم تھا۔ محمود نے جو اس وقت بچہ تھا آپؑ کی واسکٹ کی جیب میں ایک بڑی اینٹ ڈال دی۔ آپؑ جب لیٹیں وہ اینٹ چبھے۔ میں موجود تھا۔ آپ حامد علی سے فرماتے ہیں: حامدعلی! چند روز سے ہماری پسلی میں درد ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز چبھتی ہے۔ وہ حیران ہوا اور آپؑ کے جسد مبارک پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ آخر اس کا ہاتھ اینٹ سے جالگا۔ جھٹ جیب سے نکال لی اورعرض کیا یہ اینٹ تھی جو آپ کو چبھتی تھی۔ مسکرا کر فرمایا: اوہو چند روز ہوئے محمود نے میری جیب میں اینٹ ڈالی تھی اور کہا تھا اسے نکالنا نہیں، میں اس سے کھیلوں گا۔(سیرت حضرت مسیح موعوؑد مرتبہ عبدالکریمؓ صفحہ 82,8)
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ اس واقعہ کو لکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ آپؑ کی شفقت پدری کا نمونہ اور بچہ کی دلداری کا کس قدر خیال کرنا ہے۔ یہ بات بھی درست ہے لیکن میری رائے میں شفقت اور دلداری سے زیادہ یہ بچے کی تربیت کا ایک طریق ہے کہ کس طرح ایک چھوٹے سے بچے نے جو ایک امانت آپؑ کے پاس رکھوائی تھی اس کی پوری پاسداری کی جائے تاکہ بچہ اس نمونہ کو اپنی زندگی میں اپنائے۔ چنانچہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی رضی اللہ عنہ جو حضور کے خاص دوستوں اور عاشقوں میں سے تھے، اُن کے بیان فرمودہ ایک واقعہ سے اس استدلال کی تائید ہوتی ہے اور یہ واقعہ بھی حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحبؓسے ہی تعلق رکھتا ہے۔حضرت منشی صاحب ؓ بیان فرماتے ہیں: ’’ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لیٹے ہوئے تھے۔اور سید فضل شاہ صاحب مرحوم ؓ حضور کے پیر داب رہے تھے کہ شاہ صاحب نے اشارہ کر کے مجھے کہا کہ یہاں پر جیب میں کوئی سخت چیز پڑی ہے۔میں نے ہاتھ ڈال کر نکالی تو حضور کی آنکھ کھل گئی۔آدھی ٹوٹی گھڑے کی ایک چپنی اور دو ایک ٹھیکرے تھے، مَیں پھینکنے لگاتو حضورؑ نے فرمایا:یہ میاں محمود نے کھیلتے کھیلتے میری جیب میں ڈال دیے ہیں۔آپ پھینکیں نہیں، میری جیب ہی میں ڈال دیں کیونکہ میاں نے ہمیں امین سمجھ کر اپنے کھیلنے کی چیز رکھی ہے۔ وہ مانگیں گے تو ہم کہاں سے دیں گے؟‘‘
(اصحاب احمدجلد چہارم صفحہ 169روایت نمبر 55طبع جدید)
تربیت اولاد کے ضمن میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ایک اور جگہ بیان کرتے ہیں کہ باوجود یکہ حضور بچوں کی تالیف قلب اور دلداری کے لئے چھوٹی سے چھوٹی بات بھی مان لیتے تھے مگر کبھی کبھی دینی کام کے پیش آ جانے پر ان کے حسبِ خواہش معمولی کام بھی کرنے سے انکار کر دیتے تھے۔15فروری 1901ء کا واقعہ ہے کہ ہمارے مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان کے طلباء کا کرکٹ میچ تھا۔بچوں کی خوشی بڑھانے کے لئے بعض بزرگ بھی شامل ہو گئے۔کھیل میں نہیں بلکہ نظارۂ کھیل کے لئے اور فیلڈ میں چلے گئے۔حضرت اقدس کے ایک صاحبزادے نے بچپن کی سادگی میں کہا کہ:ابا تم کیوں کرکٹ پر نہیں گئے۔یہ وہ زمانہ تھا جب کہ آپ پیر مہر علی شاہ گولڑوی کے مقابلہ میں ’اعجاز المسیح‘ لکھ رہے تھے۔بچہ کا سوال سن کر جو جواب دیا وہ آپ کی فطرتی خواہش اور مقصد عظمیٰ کا اظہار کرتا ہے۔فرمایا: ’’وہ تو کھیل کر واپس آجائیں گے مگرمیں وہ کرکٹ کھیل رہا ہوں جو قیامت تک قائم رہے گا۔‘‘ (الحکم 21فروری1901ء صفحہ 7)
بچوں کی تربیت کا ایک پہلو ایسا ہے جس کی طرف ہم میں سے اکثر بہت ہی کم توجہ دیتے ہیں حالانکہ بحیثیت ایک مسلمان اور ایک احمدی کے اس طرف توجہ دینے کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ یہ پہلو دوسروں کی خدمت سے تعلق رکھتا ہے۔ حضور علیہ السلام تربیت کے اس پہلو کی طرف بھی توجہ دیتے تھے اور اپنے بچوں کو متوجہ فرماتے رہتے تھے۔ چنانچہ اس ضمن میں حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بات سے بہت خوش ہوتے تھے کہ میں کسی کی خدمت کروں۔ ہمارے گھر ایک ضعیفہ مائی تابی رہا کرتی تھیں۔ ان کو مستقل سردرد رہتی تھی۔ حضور ؑ ان کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ان کے علاج کے لئے دوائیاں بھی خود تجویز فرماتے اور دیتے تھے اور ان کو بادام کا شیرہ پلوایا کرتے تھے۔ آپ فرماتی ہیں کہ میں اکثر ان کو بادام کا شیرہ رگڑ کر تیار کرکے پلایا کرتی تھی اور مجھے احساس تھا کہ حضور میرے اس کام سے خوش ہوتے تھے۔
پھر فرماتی ہیں کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحبؓ کی بڑی بیوی جو مولویانی کہلاتی تھیں حضورؑ کو ان کا بھی خیال رہتا تھا۔ فرماتی ہیں کہ مولویانی مجھے اپنی ٹانگوں پر کھڑا کر کے پَیروں سے دبواتی تھیں اور اسے لتاڑنا کہتی تھیں۔ حضور ؑ فرمایا کرتے تھے تم نے مولویانی کو لتاڑا بھی؟ مَیں حضور کے اتنا پوچھنے پر مولویانی کو خوب لتاڑا کرتی تھی۔(مفہوماًتحریرات مبارکہ صفحہ 03-202)
ہمارے ماحول میں یعنی ہندو پاک میں ماں باپ اکثرنرینہ اولاد کی خواہش ہی رکھتے ہیں اور جاہلیت کے زمانہ کے عربوں کی طرح بچی کا پیدا ہونا کسی حد تک باعث شرم خیال کرتے ہیں یاکم سے کم لڑکی کی پیدائش پر وہ خوشی محسوس نہیں کرتے جیسی خوشی ایک لڑکے کی پیدائش پر کرتے ہیں۔ پیدائش کے بعد بھی ماں باپ اپنے لڑکے اور لڑکی کے ساتھ سلوک میں واضح طورپر لڑکے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بیٹوں کے لئے ماں باپ کا دل خاص طور پر کھلا ہوتا ہے حتی کہ روز مرہ کے کھانے میں بھی لڑکے کے لیے بہتر کھانارکھا جاتا ہے اور لڑکی کے لئے معیار میں کم۔ لڑکے کی ہر طرح ناز برداری کی جاتی ہے اور لڑکی کی ضروریات سے بھی ایک گونہ تغافل برتا جاتا ہے اوراگر بد قسمتی سے بیٹے کی خواہش اور بیٹی کی جائز ضروریات میں ٹکراؤ ہو تو ماں باپ کا جھکاؤ بیٹے کی خواہش پورا کرنے کی طرف ہوتاہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا طرز عمل اس کے برعکس تھا۔حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہااپنے ساتھ حضور علیہ السلام کے سلوک کے بارے میں تحریر فرماتی ہیں:’’آپ ؑنے بچپن سے مجھ پر بے حد شفقت فرمائی۔حتیٰ کہ حضرت اماں جان بھی مناسب تربیت کے لئے کچھ کہتی تھیں تو آپؑ ان کو بھی روکتے تھے کہ اس کو کچھ نہ کہو۔ ہمارے گھرچند روزہ مہمان ہے۔یہ ہمیں کیا یاد کرے گی۔ میں چھوٹی تھی تو رات کواکثر ڈر کر آپ ؑ کے بستر میں جا گھستی۔جب ذرا بڑی ہونے لگی تو آپ ؑ نے فرمایا کہ جب بچے بڑے ہونے لگتے ہیں (اس وقت میری عمر کوئی پانچ سال کی تھی)تو پھر بستر میں اس طرح نہیں آگھسا کرتے۔میں تو اکثر جاگتا رہتا ہوں۔تم چاہے سو دفعہ مجھے آواز دو میں جواب دوں گا اورپھر تم نہیں ڈروگی۔اپنے بستر سے ہی مجھے پکار لیا کرو۔پھر میں نے بستر پر کود کر آپؑ کو تنگ کرنا چھوڑ دیا۔جب ڈر لگتا پکار لیتی۔ آپؑ فوراً جواب دیتے۔پھر خوف اور ڈر لگنا ہی ہٹ گیا۔میرا پلنگ آپ ؑ کے پلنگ کے پاس ہی ہمیشہ رہا۔بجز چند دنوں کے جب مجھے کھانسی ہوئی تو حضرت اماں جان بہلا پھسلا کر ذرا دور بستر بچھوا دیتی تھیں کہ ’’تمہارے ابا کو تکلیف ہوگی‘‘، مگر آپ خود اٹھ کر سوتی ہوئی کا میرا سر اٹھا کر ہمیشہ کھانسی کی دوا مجھے پلاتے تھے۔آخری شب بھی جس روز آپ کا وصال ہوا میرا بستر آپ کے قریب بالکل قریب ہی تھا کہ بس ایک آدمی ذرا گزر سکے اتنا فاصلہ ضرور ہوتا۔مگر اُس وقت کی تفصیل لکھنے کی اِس وقت طاقت نہیں۔
ایک بار میرے چھوٹے بھائی حضرت مرزا شریف احمد صاحب نے، وہ بھی آخر بچہ ہی تھے، اصرار کیا کہ میرا پلنگ بھی ابا کے قریب بچھادیں مگر میں نے اپنی جگہ چھوڑ نا نہیں مانا۔حضرت اماں جان ؓ نے فرمایا کہ یہ ہمیشہ پاس لیٹتی ہے کیا ہوگا، آخر شریف کا بھی دل چاہتا ہے۔ ایک دو دن یہ اپنی ضد ذرا چھوڑ دے بھائی کو لیٹنے دے تو کیا حرج ہو جائے گا۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا نہیں یہ لڑکی ہے اس کا دل رکھنازیادہ ضروری ہے۔ حالانکہ حضرت اماں جان کی خاطر آپ کو بہت عزیز رہتی تھی۔ حضرت اماں جانؓ چھوٹے بھائی صاحب کو لے کر اس رات ان کی دلداری کے لیے خود بھی بیت الدعا میں زمین پران کو ساتھ لے کر سوئیں مگر میرا بستر وہیں رہا۔ لیکن مجھے یاد ہے کہ اس بات پر پھر میرا دل بھی دُکھا تھا اور ندامت محسوس ہوئی۔آپؑ لیٹے ہوتے تھے۔ میں دیکھتی جب آنکھ کھلتی کہ آپ کے لب مبارک ہل رہے ہیں اور اکثر آپؑ اٹھتے اور کاپی پر جو الہام ہوتا لکھتے، دیکھ کر میں سمجھ جاتی تھی کہ الہام ہوا ہے۔آپؑ کی ہلکی ہلکی زیرِلَب آواز مجھے یاد ہے کہ کثرت سے سبحان اللّہ وبحمدہ سبحان اللّہ العظیم آپ پڑھتے رہتے تھے۔‘‘
(تحریرات مبارکہ صفحہ 200تا201)
لڑکیوں کی دلداری کے ضمن میں بھی حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ ’’کبھی آپ حضرت اماں جان کے فرمانے پر کہ لڑکیوں کی اتنی ناز برداری ٹھیک نہیں ہوتی، لڑکیوں کی قسمت کی کیا خبر! آپؑ مسکراکر فرماتے خدا شکرخورے کو شکر دیتا ہے، تم فکر نہ کرو۔ ایسا کئی بار میرے سامنے فرمایا۔
میں پیسے مانگتی تو جو پہلی بار ہاتھ میں آجاتا پکڑا دیتے جو اکثر میری طلب سے زیادہ ہوتا تھا۔ آپ فرماتے کہ تمہاری قسمت ہے تھوڑا مانگتی ہو بہت ہاتھ میں آجاتا ہے۔اب یہی لو میں واپس کیوں رکھوں۔ایک بار میں نے دو آنے مانگے۔روپیہ نکالا اور فرمایامانگے دو آنے نکل آیاروپیہ، یہ تو تمہاری قسمت ہے۔
میں نے کہا مجھے لیچیاں دیں مگر قادیان میں ہر چیز کہاں ملتی۔حضرت اماں جانؓ نے فرمایا کہ اس کی باتیں تو دیکھیں بے وقت لیچیوں کی فرمائش اب کر رہی ہے۔میں خفا سی ہو کر دوسرے کمرے میں جا کر لیٹ رہی اور سو گئی۔ سوتے سوتے میری آنکھ کھلی تو آپ مجھے دونوں ہاتھوں پر اٹھائے لئے جا رہے تھے۔ جا کر مجھے گود سے اتار کر بھرے ہوئے لیچیوں کے ٹوکرے کے پاس بٹھا کر کہا لو کھاؤ اور حضرت اماں جانؓ سے فرمایا کہ دیکھو! چیز یہ مانگتی ہے اللہ تعالیٰ بھیج دیتا ہے۔
خداتعالیٰ مجھے دعاؤں کی توفیق بخشتا رہے اور میری دعاؤں کو اپنی رحمت اور کرم کے واسطے سے قبولیت کا شرف بخشے۔‘‘ (تحریرات مبارکہ صفحہ 204,203)
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ حضور کے آخری سفرلاہور کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتی ہیں: ’’آپ شام کو ضرور تھوڑی دیر کے لئے لینڈو میں سیر کو تشریف لے جاتے۔ایک بار حضرت اماں جان ؓ نے کہا لڑکی کوساتھ لے جاتے ہو وہ دونوں بہوئیں ہیں ان کو کسی دن لے جایا کرو۔ آپ نے فرمایا نہیں میرے ساتھ مبارکہ ہی جائے گی، وہ الگ جا سکتی ہیں۔‘‘ (تحریرات مبارکہ صفحہ 253)
بچوں پر شفقت اور ان کی دلداری کے ضمن میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں: ’’ایک دفعہ ہم گھر کے بچے مل کر حضرت صاحب کے سامنے میاں شریف احمد صاحب کو چھیڑنے لگ گئے کہ ابا کو تم سے محبت نہیں ہے اور ہم سے ہے۔ میاں شریف بہت چڑتے تھے۔ حضرت صاحب نے ہمیں روکا بھی کہ زیادہ تنگ نہ کرو مگر ہم بچے تھے لگے رہے۔ آخر میاں شریف رونے لگ گئے اور ان کی عادت تھی کہ جب روتے تھے تو ناک سے رطوبت بہتی تھی۔ حضرت صاحب اٹھے اور چاہا کہ ان کو گلے لگا لیں تاکہ ان کا شک دور ہو مگر وہ اس وجہ سے کہ ناک بَہہ رہا تھا پرے پرے کھنچتے تھے۔ حضرت صاحب سمجھتے تھے کہ شاید اسے تکلیف ہے اس لئے دُور ہٹتا ہے۔ چنانچہ کافی دیر تک یہی ہوتا رہا کہ حضرت صاحب ان کو اپنی طرف کھینچتے تھے اور وہ پرے پرے کھنچتے تھے اور چونکہ ہمیں معلوم تھا کہ اصل بات کیا ہے اس لئے ہم پاس کھڑے ہنستے جاتے تھے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اول صفحہ 48روایت نمبر 64)
بنیادی بات جو حضور اقدس نے تربیت اولاد کے ضمن میں بیان فرمائی ہے اور جس پر آپ نے خاص زور دیا ہے وہ یہ ہے کہ بچوں کی تربیت کرتے وقت ہمیشہ بچے کی خود داری اور عزت نفس کا خیال رکھا جائے اور کوئی ایسا طریق کا ر اختیار نہ کیا جائے جس سے بچے کی عزت نفس مجروح ہو۔ چنانچہ فرماتے ہیں: ’’اسلام چونکہ انسان کی کامل تربیت چاہتا ہے اور اس کی ساری قوتوں کی نشوونما اس کا مقصد ہے اس لئے اس نے جائز نہیں رکھا کہ وہ طریق اختیار کیا جاوے جو انسان کی بے حرمتی کرنے والا اور خدا تعالیٰ کی توہین کرنے والا ٹھہر جاوے۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 700)
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ تحریر فرماتی ہیں کہ آپ کبھی بے اعتباری کی، شک کی بات نہ کرتے تھے۔بچوں پر یقین رکھتے تھے۔یعنی اعتماد ظاہر فرماتے تھے اور اس اعتماد کی شرم نہ تو آپ کی مرضی کے خلاف کوئی بات کرنے دیتی اور نہ کوئی بات آپ سے پوشیدہ رکھنے کو دل چاہتا۔جو بات کہو آپ غور سے سنتے جیسے کسی بڑے معتبر آدمی کی سنتے ہیں … غرض بچہ کو نیک بات سنا دینا اور اس کے کاموں پر اس طرح سے نظر رکھنا کہ ہر وقت کی نکتہ چینی،شک و شبہ،روک ٹوک تو نہ ہو مگر خبردار ضرور رہیں آپ۔ اور بچہ پر بڑی حد تک اعتبار کر کے اس پر خود اپنے افعال کی غیرت اور ذمہ داری پیدا کر دینا۔کوئی بات ہو تو الگ سمجھا دینا زیادہ بہتر ہے بہ نسبت ہر وقت کی برسر عام جھڑکی سے بے غیرت بنانے کی۔(تحریرات مبارکہ صفحہ 60)
آپؑ نے بچوں پر بے جا سختی اور مارنے پیٹنے کی سختی سے ممانعت فرمائی ہے۔ چنانچہ ایک مرتبہ ایک دوست نے اپنے بچے کو مارا جب حضور کو علم ہوا تو آپ نے انہیں بلایا اور نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’میرے نزدیک بچوں کو یوں مارنا شرک میں داخل ہے۔ گویا بدمزاج مارنے والا ہدایت اور ربوبیّت میں اپنے تئیں حصہ دار بنانا چاہتا ہے۔ ایک جوش والا آدمی جب کسی بات پر سزا دیتا ہے تو اشتعال میں بڑھتے بڑھتے ایک دشمن کا رنگ اختیار کر لیتا ہے اور جرم کی حد سے سزا میں کوسوں تجاوز کر جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص خوددار اور اپنے نفس کی باگ کو قابو سے نہ دینے والا اور پورا متحمل اور بردبار اور باسکون اور باوقار ہو تو اسے البتہ حق پہنچتا ہے کہ کسی وقت مناسب پر کسی حد تک بچہ کو سزا دے یا چشم نمائی کرے مگر مغلوب الغضب اور سبک سر اور طائش العقل ہر گز سزا وار نہیں کہ بچوں کی تربیت کا متکفل ہو۔ جس طرح اور جس قدر سزا دینے میں کوشش کی جاتی ہے کاش دعا میں لگ جائیں اور بچوں کے لئے سوز ِدل سے دعا کرنے کو ایک حزب ٹھہرالیں۔ اس لئے کہ والدین کی دعا کو بچوں کے حق میں خاص قبول بخشا گیاہے۔‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ 309,308)
بعض والدین ذرا ذرا سی غلطی پر بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے اور اصلاح کے نام پر بات بات پر روک ٹوک کرتے رہتے ہیں۔ یہ طریق بھی بچوں کی عزت نفس کو مجروح کرنے والا ہے۔ حضورؑ فرماتے ہیں: ’’ہدایت اور تربیت حقیقی خدا تعالیٰ کا فعل ہے۔ سخت پیچھا کرنا اور ایک امر پر اصرار کو حد سے گذار دینا یعنی بات بات پر بچوں کو روکنا اور ٹوکنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ گویا ہم ہی ہدایت کے مالک ہیں اور ہم اس کو اپنی مرضی کے مطابق ایک راہ پر لے آئیں گے۔ یہ ایک قسم کا شرک خفی ہے۔ اس سے ہماری جماعت کو پرہیز کرنا چاہیے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 309)
بچوں کی غلطیوں پر حضور کا اپنا رویہ کیا ہوتا تھا اس پر اس واقعہ سے روشنی پڑتی ہے۔ ایک بار حضرت مصلح موعود جبکہ ان کی عمر چار برس کی تھی بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ اسی اثناء میں انہوں نے حضور اقدس کے ایک نہایت اہم اور ضروری مسودے کو دیا سلائی دکھا دی۔ مسودہ جل کر راکھ ہو گیا۔ حضور ابھی مضمون لکھ رہے تھے۔ لکھتے لکھتے پچھلا مضمون دیکھنے کی ضرورت پڑی تو مضمون کی تلاش ہوئی۔ لوگ پریشان تھے کہ اب کیا ہو گا اور ایک ناگوار نظارے کے متوقع تھے لیکن جب حضور کو معلوم ہوا کہ مسودہ جل چکا ہے تو مسکرا کر فرمایا: ’’خوب ہوا اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی مصلحت ہو گی اور اب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس سے بہتر مضمون ہمیں سمجھائے۔‘‘
(سیرت حضرت مسیح موعود ؑ مولفہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ 370-369)
مذکورہ بالا واقعہ کی اہمیت کو صحیح طورپر وہی سمجھ سکتے ہیں جو تصنیف و تالیف کا کام کرتے ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ محنت اورجدو جہدسے تحریر کیا گیا مسودہ اگر ضائع ہو جائے تو دل پرکیا گزرتی ہے اور انسان کتنی تکلیف محسوس کرتا ہے لیکن حضور کو اپنی محنت اور کوشش اور وقت کے ضیاع کا خیال نہیں آتااور آپ ؑ کا دل اس بات پر راضی ہو جاتا ہے کہ غالباً اس ضیاع میں خدا کی کوئی حکمت ہوگی۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ایک دفعہ ایک کتا ہمارے دروازے پر آیا۔ میں وہاں کھڑا تھا۔ اندر کمرے میں صرف حضرت صاحب تھے۔ میں نے اس کتے کو اشارہ کیا اور کہا ٹیپو۔ ٹیپو۔ ٹیپو۔ حضرت صاحب بڑے غصے سے باہر نکلے اور فرمایا تمہیں شرم نہیں آتی کہ انگریز نے تو دشمنی کی وجہ سے اپنے کتوں کا نام ایک صادق مسلمان کے نام پر ٹیپو رکھ دیا ہے اور تم ان کی نقل کر کے کتے کو ٹیپو کہتے ہو۔ خبردار! آئندہ ایسی حرکت نہ کرنا۔‘‘
(الفضل یکم اپریل1958ء صفحہ 3سوانح فضل عمر جلد اول صفحہ 78)
ایک طرف آپ بچے کا یہ فعل تو برداشت کر لیتے ہیں کہ وہ آپ کے نہایت محنت سے لکھے ہوئے مسودہ کو جلا کر راکھ کر دیتا ہے جس پر خدا بہتر جانتا ہے کتنی راتیں اور کتنے دن آپ نے محنت کی ہو گی اور اس تکلیف اور محنت کا آپ کو کچھ خیال بھی نہیں آتا جو دوبارہ آپ کو کرنی پڑی ہو گی۔ لیکن ایک شہیدمسلمان بادشاہ جس کا مسلمان ہونے کے سوا آپ کے ساتھ کچھ بھی تعلق یا رشتہ نہ تھا۔ لاعلمی میں اسی بچے کا ایسا نام لینا جس سے اس کی تحقیر ہوتی ہو آپ سے برداشت نہ ہوا اور آپ نے اس کو نہایت سختی سے ڈانٹ دیا۔ تربیت کا یہی انداز ہے جو ہمیں اپنانا چاہیے۔ بچے کے قصور پر اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر بچوں کے تنگ کرنے پر ہم بعض دفعہ برافروختہ ہو جاتے ہیں اور بچوں کو سزا دینے لگ جاتے ہیں۔ ہماری یا گھرکی کوئی چیز بچے سے خراب ہو جائے یا ٹوٹ جائے تو ہم سخت غصہ کرتے ہیں اور بچوں کو مارنے لگ جاتے ہیں اور دوسری طرف وہی بچہ اگر دین پر عمل کرنے سے پہلوتہی کرتا ہے تو ہم اسے کچھ نہیں کہتے اور اس طرح ہم جہاں ایک طرف بچے پر نامناسب اور ناجائز حد تک سختی کرتے ہیں تو دوسری طرف حلم اور بردباری کے نام پر بچہ کی تربیت کے لیے مناسب حد تک سختی سے بھی گریز کرتے ہیں اور نرمی کے نام پر بچوں کو بگاڑ دیتے ہیں۔ حضور علیہ السلام کا تربیت کا یہ طریق نہ تھا۔ بچے کی کوئی حرکت حضور کے لیے ذاتی طورپر خواہ کیسی ہی تکلیف یامشقت کا باعث بنتی حضور اس پر کچھ نہیں کہتے تھے اور اس کی کئی مثالیں قبل ازیں دی جاچکی ہیں لیکن جہاں یہ سمجھتے تھے کہ بچہ شعائراللہ میں سے کسی کو استخفاف کی نظر سے دیکھتا ہے یا کسی دینی فرض کی انجام دہی میں غفلت کا مرتکب ہورہاہے تو حضور اس کی اصلاح کے لیے فوری اقدام فرماتے اور مناسب سرزنش کرتے اور ناراضگی کا اظہار فرماتے۔ چنانچہ اسی قسم کے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’ایک دفعہ حضرت صاحب کچھ بیمار تھے اس لئے جمعہ کے لئے مسجد میں نہ جاسکے۔ میں اس وقت بالغ نہیں تھا کہ بلوغت والے احکام مجھ پر جاری ہوں تاہم میں جمعہ پڑھنے کے لئے مسجد کو آرہا تھا کہ ایک شخص مجھے ملا۔اس وقت کی عمر کے لحاظ سے توشکل اس وقت تک یاد نہیں رہ سکتی تھی مگر اس واقعہ کا اثر مجھ پر ایسا ہوا کہ اب تک مجھے اس شخص کی صورت یاد ہے۔محمد بخش ان کا نام ہے….میں نے ان سے پوچھا: آپ واپس آرہے ہیں،کیا نماز ہوگئی ہے؟ انہوں نے کہا ’آدمی بہت ہیں، مسجد میں جگہ نہیں تھی،میں واپس آگیا۔‘ مَیں بھی یہ جواب سن کر واپس آگیااور گھر میں آکر نماز پڑھ لی۔حضرت صاحب ؑ نے یہ دیکھ کر مجھ سے پوچھا: ’’مسجد میں نماز پڑھنے کیوں نہیں گئے؟خدا تعالیٰ کافضل ہے کہ میں بچپن سے ہی حضرت صاحب کا ادب ان کے نبی ہونے کی حیثیت سے کرتا تھا۔میں نے دیکھا آپ ؑ کے پوچھنے میں ایک سختی تھی اور آپ کے چہرہ سے غصہ ظاہر ہوتا تھا۔آپ کے اس رنگ میں پوچھنے کا مجھ پر بہت ہی اثر ہوا۔جواب میں میں نے کہا کہ میں گیا تو تھا لیکن جگہ نہ ہونے کی وجہ سے واپس آگیا۔ آپ یہ سن کر خاموش ہوگئے۔لیکن جس وقت جمعہ پڑھ کر مولوی عبدالکریم صاحب ؓ آپ کی طبیعت کاحال پوچھنے کے لئے آئے تو سب سے پہلی بات جو حضرت مسیح موعود ؑ نے آپ سے دریافت کی، وہ یہ تھی کہ آج لوگ مسجد میں زیادہ تھے؟اس وقت میرے دل میں سخت گھبراہٹ پیدا ہوئی کیونکہ میں خود تو گیاہی نہیں تھا۔ معلوم نہیں بتانے والے کو غلطی لگی یا مجھے اس کی بات سمجھنے میں غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں ان کی بات سے یہ سمجھاتھا کہ مسجد میں جگہ نہیں ہے۔ مجھے فکر یہ ہوئی کہ اگر مجھے غلط فہمی ہوئی ہے یا بتانے والے کو ہوئی ہے، دونوں صورتوں میں الزام مجھ پر آئے گا کہ میں نے جھوٹ بولا۔ مولوی عبدالکریم صاحب ؓ نے جواب دیا: ہاں حضور! آج واقعہ میں بہت لوگ تھے۔ میں اب بھی نہیں جانتا کہ اصلیت کیاتھی۔ خدا نے میری بریت کے لئے یہ سامان کر دیا کہ مولوی صاحب کی زبان سے بھی تصدیق کرا دی کہ فی الواقعہ اس دن غیر معمولی طورپر لوگ آئے تھے۔ بہر حال یہ ایک واقعہ ہے جس کا آج تک میرے قلب پر گہرا اثر ہے۔‘‘
(الفضل 18جون 1925ء صفحہ 7) (جاری ہے)

اولاد کی تربیت کے متعلق حضرت اقدس ؑ کی ایک روایت مکرمہ سکینہ بیگم صاحبہ اہلیہ ماسٹر احمد حسین صاحب یوں بیان کرتی ہیں کہ
’’حضور فرمایا کرتے تھے کہ عورتوں میں یہ بری عادت ہے کہ ذرا سی بات میں گالیاں اور کوسنوں پر اتر آتی ہیں بجائے اس کے اگر وہ اپنے بچوں کو نرمی سے پیش آئیں اور بجائے گالی کے ’نیک ہو‘ کہہ دیا کریں تو کیا حرج ہے۔ عورتیں ہی اپنے بچوں کو گالیاں سکھاتی ہیں اور برے اخلاق پیدا کرتی ہیں۔اگر یہ چھُٹے تو بچوں کی بہت اچھی تربیت ہو سکتی ہے۔اگر میاں بیوی میں ناراضگی ہو جاوے تو چاہیے کہ دونوں میں سے ایک خاموش ہو جائے تو لڑائی نہ بڑھے اور نہ بچے ماں باپ کو تُوتُو مَیں مَیں کرتے سنیں۔ بچہ تو وہی کام کرے گا جو اس کے ماں باپ کرتے ہیں اور پھر یہ عادت اس کی چھوٹے گی نہیں۔بڑا ہو گا، ماں باپ کے آگے جواب دے گا، پھر رفتہ رفتہ باہر بھی اسی طرح کرے گا۔ اس لئے عورتوں کو اپنی زبان قابومیں رکھنی چاہیے۔آپ بیعت کرنے والوں کو ضرور کچھ روز اپنے گھر ٹھہراتے تھے۔‘‘
(سیرت المہدیؑ صفحہ 319روایت 1580)
جیسا کہ پہلے بیان کردہ واقعات سے ظاہر ہے حضور اپنے عملی نمونہ سے بھی ہمیں سکھاتے ہیں کہ بچے کی تربیت بچپن سے کرنی چاہیے اور دینی امور کی اہمیت بچپن میں ہی بچوںپر واضح کر دینی چاہیے۔
صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا بھی ایک اسی طرح کا واقعہ ہے۔ آپ کی وفات بچپن میں ہی ہو گئی تھی۔ آپ ابھی بہت چھوٹے بچے تھے اور قرآن کریم کے ادب اور احترام کے بارہ میں کچھ بھی علم نہ رکھتے تھے کہ ان سے ایک ایسی بات ہو ئی کہ جو حضور کے نزدیک قرآن کریم کے ادب کے خلاف تھی۔ حضور کا چہرہ سرخ ہو گیااور آپ برداشت نہ کر سکے اور آپ نے مبارک احمد کے شانے پر تھپڑ مارا۔
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ اس واقعہ کو یوں بیان کرتے ہیں:
’’حضرت صاحبزادہ مبارک احمد صاحب آپ کے چوتھے اور سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔ہر بچہ اپنے ماں باپ کو پیارا ہوتا ہے۔ قدرتی طور پر مبارک احمدکو حضرت صاحب بہت پیار کرتے تھے۔وہ خداتعالیٰ کی آیت تھا۔ اس سے ایک مرتبہ قرآن مجید کے متعلق سہواً ایک بے ادبی ہو گئی۔ …حضرت اقدس نے جب دیکھا تو ان کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ وہ شخص گویا بالکل بدل گیاتھا۔باوجودیکہ آپ بچوں کو تعلیمی معاملات میں سزا دینے کے بہت خلاف تھے مگر اس کو برداشت نہ کر سکے اور مبارک احمد کو ایک تھپڑ مارا جس سے نشان ہوگیا۔ اور اظہارِ رنج فرمایا کہ قرآن مجید کی بے ادبی ہوئی ہے۔ وہ بچہ ہے ابھی ان آداب سے واقف نہیں لیکن آپ اس کو برداشت نہیں کر سکتے اور چاہتے ہیں کہ کوئی حرکت کسی سے دانستہ یا نادانستہ ایسی سرزد نہ ہو جو استخفاف شریعت یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا قرآن مجیدکی ہتک اور تحقیر کا موجب ہو۔‘‘ (سیرت مسیح موعود مؤلفہ یعقوب علی عرفانی ؓ صفحہ 274,273)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ جو اس واقعہ کے عینی شاہد ہیں بیان فرماتے ہیں: ’’میں ابھی چھوٹاتھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچوں کے ساتھ بڑی مہربانی کے ساتھ پیش آتے تھے اور بڑی محبت کرتے تھے۔ایک دفعہ آپ کسی کتاب کا مسودہ لکھ رہے تھے۔ اس وقت میری عمر گیارہ بارہ سال کی تھی۔ آپ کی عادت تھی کہ آپ ٹہلتے بھی جاتے تھے اور لکھتے بھی جاتے تھے۔اسی طرح آپ اس وقت ٹہلتے بھی جاتے اور لکھ بھی رہے تھے۔مسجد کے پاس ہی ایک چھوٹا ساکمرہ ہے جسے بیت الفکر کہتے ہیں۔اس کی ایک کھڑکی مسجدکی طرف کھلتی تھی۔میں بھی پہلے اس کھڑکی سے گزر کر نماز پڑھانے کے لئے آیا کرتا تھا۔ بعد میں ہجوم زیادہ ہونے کی وجہ سے ایک دوسری کھڑکی بنا دی گئی اور میں نے اس سے آنا شروع کر دیا۔اس کمرے یعنی بیت الفکرمیں حضرت اُمّ المومنین ؓ رحل پر قرآن کریم رکھے تلاوت کر رہی تھیں۔ آپ کے پاس ہماراچھوٹا بھائی مبارک احمد بھی بیٹھا ہوا تھا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبارک احمد سے بے حد پیار تھا بلکہ آپ کا پیار عشق کی حد تک پہنچا ہوا تھا۔ اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٹہلتے بھی جاتے تھے اور لکھ بھی رہے تھے۔ مَیں بھی پاس کھڑا تھا۔ مَیں نے دیکھا کہ جیسے چیل جھپٹا مارتی ہے آپ کود کر اس کمرہ میں گئے اور مبارک احمدکو ایسا تھپڑ مارا کہ اس کے منہ پر سرخ نشان پڑگئے۔ مَیں حیران تھا کہ ہوا کیا؟ ساتھ ہی آپ نے یہ الفاظ کہے تجھے شرم نہیں آتی کہ تم اللہ تعالیٰ کے کلام کی بے حرمتی کرتے ہو! بعدمیں مَیں نے والد ہ صاحبہ سے پوچھا توانہوں نے بتایا کہ مبارک احمد کوئی چیز مانگ رہا تھا۔ میں نے کہاکہ تلاوت کے بعد میں تمہیں وہ چیزدوں گی۔اس پر اس نے رحل کو دھکا دیا اورکہا یہ چھوڑ دواور مجھے وہ چیز دو۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ سنتے ہی کود کر اندر آئے اور ایسے زور کے ساتھ اسے تھپڑ مارا کہ اس کے منہ پر نشان پڑ گئے حالانکہ مبارک احمد اس وقت ایک چھوٹا بچہ تھا اور آپ اس سے حد درجہ پیار کرتے تھے۔‘‘
(تقریر جلسہ سالا نہ جماعت احمدیہ لاہور۔انوارالعلوم جلد21صفحہ 25تا26)
یہ واقعہ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح ہے اور آپ کے حالات و اخلاق آپ کے دوستوں اور دشمنوں نے، اپنوں اور غیروں نے، آپ کے مریدوں اور آپ کے مخالفوں نے، مردوں،عورتوں اور بچوں نے بیان کئے ہیں۔ لیکن کسی نے کوئی ایسا واقعہ بیان نہیں کیا جس میں یہ ذکر ہو کہ حضور نے اپنے بچپن میں، جوانی میں یا بڑھاپے میں کسی کو مارا ہو یا جسمانی سزا دی ہو۔ آپؑ کی حیات طیبہ میں یہی ایک واقعہ ملتا ہے جس میں آپ نے بدنی سزا دی اور وہ بھی کسی ذاتی قصور پر نہیں۔ قرآن کریم کی بے ادبی پر اور وہ بھی اپنے بیٹے کو جبکہ وہ ابھی ناسمجھی کی عمر میں تھا۔ پس بیان کردہ متعدد واقعات سے ظاہر ہے کہ دینی شعائر کی حُرمت اور ان کا احترام کرنا اور ہر بات میں دینی پہلو کو مدّنظر رکھنا حضور کے طریقِ تربیت کا ایک اہم جزو تھا۔
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓ دو واقعات بیان کرتی ہیں جن سے اس بات پر روشنی پڑتی ہے: ’’ایک شام آسمان پر ہلکے ہلکے ابر میں خوبصورت رنگ برنگ کی دھنک دیکھ کر ہم سب بچے خوش ہو رہے تھے۔آپ ؑ اس وقت صحن میں ٹہل رہے تھے جو بعد میں اُمّ ناصر کا صحن کہلاتا رہا ہے۔میں نے کہا یہ جو کمان ہے اس کو سب لوگ (پنجابی میں) ’’مائی بڈھی کی پینگ‘‘کہتے ہیں اس کو عربی میں کیا کہتے ہیں؟ فرمایا اس کو عربی میں ’’قوسِ قزح‘‘ کہتے ہیں۔مگر تم اس کو قوس اللہ کہا کرو۔ نیز فرمایا کہ ’’قوس قزح‘‘ کے معنی شیطان کی کمان ہیں۔‘‘
مزید فرماتی ہیں:’’ہمارے بچپن میں ایک کھلونا آتا تھا Look and laugh۔ دُور بین کی صورت کا۔اس میں دیکھو تو عجیب مضحکہ خیز صورت دوسرے کی نظر آتی تھی۔جب یہ کھلونا لاہور سے کسی نے لا کر دیا۔ آپ کو یہ چیز میں نے دکھائی آپ نے دیکھا اور تبسّم فرمایا۔ کہا۔ اب جاؤ دیکھو اور ہنسو کھیلو۔ مگر دیکھو یاد رکھنا میری جانب ہر گز نہ دیکھنا۔ سب والدین بچوں کو تہذیب سکھانے کو ادب بڑوں کا سکھاتے ہیں۔مگر یہ ایک خاص بات تھی اللہ تعالیٰ کا فرستادہ نبی مؤدب بن کر بھی آتا ہے اور خود اس کو اپنا ادب بھی اپنی ذاتی شخصیت کے لئے نہیں بلکہ اس مقام کی عزت کے لئے جس پر اس کو کھڑا کیا گیا، اس ذات پاک و برتر کے احترام کی وجہ سے جس نے اس کو خاص مقام بخشا جس کی جانب سے وہ بھیجا گیا، سکھانا پڑتاہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان میں معجزانہ اثر تھا۔آپ نہ بات بات پرٹوکتے نہ شوخیوں پر جھڑکنے لگتے بلکہ انتہائی نرمی سے فرماتے کہ یوں نہ کرو۔ جس بات سے آپ نے منع کیا مجھے یاد نہیں کہ کبھی بھول کر بھی وہ بات پھر کی ہو …عمر بھر کو اس بات سے طبیعت بیزار ہو گئی۔‘‘ (تحریرات مبارکہ صفحہ 265-264)
حضرت اقدس ؑ جہاں دینی شعائر کی حرمت و احترام کے متعلق بچوں کے معاملہ میں کسی بھی لحاظ کے روادار نہ تھے وہاں دوسری طرف ایسے افعال واعمال میں جہاں کسی قسم کی دینی اور اخلاقی حیثیت متاثر نہ ہوتی ہو، آپ بچوں کی تربیت اور ان کو سمجھانے کے معاملہ میں بھی کسی قسم کی سختی کے قائل نہ تھے۔
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اس ضمن میں تحریر کرتے ہیں:
’’ایک روز حضرت اقدس علیہ الصلوٰ ۃ والسلام سیر کے لئے تشریف لے گئے۔ ابھی تھوڑا سا دن چڑھا تھا۔ سردی کا موسم تھا۔ پندرہ سولہ احباب ساتھ تھے۔ پھر پیچھے سے اَور بہت سے آملے۔حضرت خلیفہ ثانی مدفیضہ اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی آگئے اور ایک دو لڑکے اور بھی ان کے ساتھ تھے۔چھوٹی عمر تھی، ننگے پاؤں اور ننگے سر میاں بشیر احمد صاحب تھے۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے تبسم فرما کرفرمایا کہ: ’’میاں بشیر احمد!جوتی ٹوپی کہاں ہے؟ کہاں پھینک آئے؟‘‘
میاں بشیر احمد صاحب نے کچھ جواب نہ دیا اورہنس کر بچوں سے کھیلتے کھیلتے آگے بڑھ گئے اور کچھ فاصلہ پر دوڑ گئے۔آپ ؑ نے فرمایا بچوں کی بھی عجیب حالت ہوتی ہے۔جب جوتا نہ ہو تو روتے ہیں کہ جوتا لا کے دو اور جب جوتا منگواکر دیا جاوے تو پھر اس کی پروا نہیں کرتے اور نہیں پہنتے یونہی سو کھ سوکھ کر خراب ہو جاتا ہے۔ یاگم ہو جاتا ہے۔ کچھ بچوں کی جبلت ہی ایسی ہوتی ہے کہ کسی چیز کی پروا نہیں ہوتی۔عجیب بے فکری کی عمر ہوتی ہے اوراکثر اپنے آپ کو پا برہنہ رکھنا ہی پسند کرتے ہیں۔‘‘ (سیر ت حضرت مسیح موعود ؑ صفحہ371مولفہ حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ)
تربیت کا ایک اور انداز ہمیں حضور کی زندگی میں نظر آتا ہے۔ ایک دفعہ محرم کا مہینہ تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے باغ میں چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ آپ نے اپنے بچوں حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا آؤ میں تمہیں محرم کی کہانی سناؤں۔ پھر آپ نے بچوں کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور خاندان نبوت کے دیگر افراد کی شہادت کے واقعات سنائے۔ آپ یہ واقعات سنا رہے تھے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور آپ اپنی انگلیوں کے پوروں سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے۔ جب آپ یہ واقعات سنا چکے تو آپ نے بڑے درد سے فرمایا: ’’یزید پلید نے یہ ظلم ہمارے نبی ؐ کے نواسے پر کروایا مگر خدا نے بھی ان ظالموں کو بہت جلد اپنے عذاب میں پکڑ لیا۔‘‘ (سیرت طیبہ مرتبہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب صفحہ 37-36)
یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں جو ایک دفعہ ہوا ہو۔ بچوں کی تربیت کے لئے حضور باوجود اپنی بے پناہ مصروفیت کے وقت نکالتے تھے۔ سبق آموز کہانیاں اور واقعات ان کو سناتے تھے۔ چنانچہ ایسی کئی کہانیوں اور قصوں کا تذکرہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب نے اپنی کتابوں میں کیا ہے۔ حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓ نے بھی اپنے ایک پیغام میں، جو خدام الاحمدیہ ربوہ کے اجتماع کے موقعہ پر 1963ء میں دیا تھا، دو ایسی سبق آموز کہانیوں کا تذکرہ کیا ہے جو حضرت اقدسؑ اپنے بچوں کو سنایا کرتے تھے اور یہ دونوں کہانیاں تربیتی پہلو سے بہت اہم ہیں۔حضور ؑ فرماتے تھے:
ایک بزرگ کو کسی شخص نے آن کر کہا کہ فلاں شخص آپ کو ایسا برا بھلا کہتا ہے۔ان بزرگ نے سن کر فرمایا کہ اس نے مجھ پر تیر چلایا مگروہ راہ میں گرپڑا۔ تم نے اس کو اٹھا کر لا کے میرے سینے میں چبھو دیا۔گویا دکھ دینے والے تم ہوئے۔
دوسری کہانی حضور حاسد محسود کی بھی سنایا کرتے اور فرماتے خدا محسود بنائے حاسد نہ بنائے۔حسد بہت برائیوں کی جڑ ہے۔ خدا اس مرض سے بچائے۔ اس کا مریض کھجلی کے مریض کی طرح اس کو قسم قسم سے ابھارتا اور اس آگ کو بجھنے نہیں دیتا جو دراصل اسی کو جلا رہی ہوتی ہے جب ضمیر اس کو نادم کرنا چاہتاہے تو وہ عیب چینی سے ایک جھوٹی تسلی اپنے دل کو دیتا ہے اور بد گمانی کی راہ اختیار کرکے جو حسد کا ایندھن ثابت ہوتی ہے اس دوزخ کو بھڑکاتا ہے۔حسد اس کی آنکھ پر ایسی پٹی باندھ دیتا ہے کہ وہ نہیں سوچتا کہ اپنا ہی برا کر رہا ہے۔ محسود کا کچھ نہیں بگڑرہا۔
(تحریرات مبارکہ صفحہ 114-113)
حضرت مولوی عبد الکریم رضی اللہ عنہ اسی طریق تربیت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’بارہا میں نے دیکھا ہے اپنے اور دوسرے بچے آپ کی چارپائی پر بیٹھے ہیں اور آپ کو مضطر کر کے پائینتی پر بٹھا دیا ہے اور اپنے بچپنے کی بولی میں مینڈک اورکوّے اور چڑیا کی کہانیاں سنا رہے ہیں اور گھنٹوں سنائے جا رہے ہیں اور حضرت ہیں کہ بڑے مزے سے سنے جا رہے ہیں گویا کوئی مثنوی ملّائے روم سنا رہا ہے۔‘‘ (سیرت حضرت مسیح موعود ؑ مولفہ مولوی عبدالکریم سیالکوٹی صفحہ 73طبع دوم)
بچوں میں بار بار سوال کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ بسا اوقات جب ماں یا باپ کسی کام میں مصروف ہوں اور بچہ بار بار آ کر ان کو تنگ کرے تو عام طور پر والدین چڑ کر بچوں کو ڈانٹنے لگ جاتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات حضور کو بھی پیش آتے تھے لیکن حضور کبھی بچوں کو اس بات پر ڈانٹتے نہ تھے۔ ایسا بھی ہوا کہ حضور تنہائی میں کسی اہم کتاب کے لکھنے میں مصروف ہیں اور عادت کے مطابق دروازہ بند کیا ہوا ہے اور ایک بچے نے آکر دستک دی’’ابا بؤا کھول‘‘۔حضور نے اٹھ کر دروازہ کھول دیا۔ بچے نے کمرہ کے اندر آکر اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر باہر جاکر کھیل میں مشغول ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر اسے کمرے میں جانے کا خیال آیا اور پھر اس نے آواز دی ’’ابا بؤا کھول‘‘۔حضور پھر لکھتے لکھتے اٹھتے ہیں، مسکرا کر بچے کی بات سنتے ہیں اور اسے ڈانٹ ڈپٹ کرنا تو کجا اُلٹا اس کی فرمائش پوری کر دیتے ہیں۔
(ملخص سیرت مسیح موعود ؑ مصنفہ مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی)
چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بیان فرماتے ہیں کہ جب ہم بچے تھے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام خواہ کام کر رہے ہوں یا کسی اور حالت میں ہوں ہم آپ کے پاس چلے جاتے تھے کہ ابا پیسہ دو اور آپ اپنے رومال سے پیسہ کھول کر دے دیتے تھے۔ اگر ہم کسی وقت کسی بات پر زیادہ اصرار کرتے تھے تو آپ فرماتے تھے کہ میاں میں اس وقت کام کر رہا ہوں، زیادہ تنگ نہ کرو۔
(سیرت المہدی جلد اول صفحہ 49روایت 65)
بچوں کی تربیت کا ایک بنیادی اصول یہ بھی ہے کہ بچوں کے ذہن میں جو سوالات پیدا ہوتے ہیں ان کے شافی جواب ان کو ملیں۔اس بارہ میں حضرت ڈاکٹر سید میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لدھیانہ میں دعویٰ مسیحیت شائع کیا تومیں ان دنوں چھوٹا بچہ تھا اور شاید تیسری جماعت میں پڑھتا تھا۔ مجھے اس دعویٰ سے کچھ اطلاع نہیں تھی۔ ایک دن میں مدرسہ گیا تو بعض لڑکوں نے مجھے کہا کہ وہ جو قادیان کے مرزا صاحب تمہارے گھر میں ہیں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ فوت ہوگئے ہیں اور یہ کہ آنے والے مسیح وہ خود ہیں۔ڈاکٹر صاحب فرماتے تھے کہ میں نے ان کی تردید کی کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ حضرت عیسیٰ تو زندہ ہیں اور آسمان سے نازل ہوں گے۔ خیر جب میں گھر آیا تو حضرت صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے آپ سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں نے سنا ہے آپ کہتے ہیں کہ آپ مسیح ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ میرا یہ سوال سن کر حضرت صاحب خاموشی کے ساتھ اٹھے اور کمرے کے اندر الماری سے ایک نسخہ کتاب فتح اسلام (جو آپ کی جدید تصنیف تھی) لا کر مجھے دے دیا اور فرمایا اسے پڑھو۔
ڈاکٹر صاحب فرماتے تھے کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی دلیل ہے کہ آپ نے ایک چھوٹے بچے کے معمولی سوال پر اس قدر سنجیدگی سے توجہ فرمائی ورنہ یونہی کوئی بات کہہ کر ٹال دیتے۔‘‘ (سیرت المہدی جلد اول صفحہ20روایت نمبر26)
ہمارے ماحول میں یہ بات عام ہے کہ جب کوئی آدمی اپنے ماحول میں کچھ اہمیت پا جاتا ہے تو وہ کبھی پسند نہیں کرتا کہ دوسرے لوگوں کے سامنے بچوں کو خواہ وہ اس کے اپنے بچے ہی ہوں گودی اٹھائے۔اگر کبھی ایسی ضرورت پیش بھی آجائے تو ایسے اشخاص اپنے زیر دست یا زیر اثر لوگوں سے یہ تو قع کر تے ہیں کہ وہ ان کے بچوں کو گودی اٹھا کر ساتھ چلیں۔مگر حضرت اقدسؑ کا رویہ اس کے برعکس تھا۔ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ آپؑ کی اس محبت کا تذکرہ یوں کرتے ہیں کہ ’’آپ بچوں کو گود میں اٹھا ئے ہوئے باہر نکل آیا کرتے تھے۔اور سیر میں بھی اٹھالیا کرتے۔ اس میں کبھی آپ کو تامل نہ ہوتا تھا۔ اگرچہ خدام جو ساتھ ہوتے وہ خود اٹھانا اپنی سعادت سمجھتے مگرحضرت بچوں کی خواہش کا احساس یا ان کے اصرار کو دیکھ کر آپ اٹھا لیتے اور ان کی خوشی پوری کر دیتے۔‘‘ (سیرت حضرت مسیح موعود صفحہ389)
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ آپؑ کی اپنے بچوں سے محبت کا ایک اور واقعہ یوں تحریر کرتے ہیں کہ ’’ایک مرتبہ آپؑ نے کشف میں صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کے متعلق دیکھا کہ وہ مبہوت اور بدحواس ہو کر دوڑتا ہوا آپ کے پاس آیا ہے اور نہایت بے قرار ہے اور حواس اڑے ہوئے ہیں اور کہتاہے کہ ’’ابا پانی‘‘ یعنی مجھے پانی دو۔ حضرت اقدس اس وقت باغ میں مقیم تھے اور دو گھنٹہ بعد اس کشف کے بعینہٖ یہ واقعہ پیش آیا۔ آٹھ بجے صبح کا وقت تھا اور حضرت اقدس ایک درخت کے نیچے کھڑے تھے۔ مبارک احمد چار برس کی عمر کا تھا۔ یکایک وہ اسی طرح مبہوت ہو کر حضرت کی طرف آیا اور کشف پورا ہو گیا۔آپ فرماتے ہیں: میں نے اس کو گود میں اٹھایا لیااور جہاں تک مجھ سے ہو سکا میں تیز قدم اٹھا کر اور دوڑ کر کنویں تک پہنچا اور اس کے منہ میں پانی ڈالا۔ اس نقشہ کا تصور کریں کہ جب آپ چار برس کے بچے کو اٹھاتے ہوئے کنویں کی طرف بھاگے جارہے تھے۔آپ نے یہ پروا نہیں کی کہ میں آواز دے کر اپنے بیسیوں خادموں کو بلا سکتا ہوں، پانی ہی منگوا سکتا ہوں۔ کسی کا انتظار نہیں کیا بلکہ خود اٹھا کر بھاگتے ہوئے کنویں کی طرف چلے گئے۔‘‘ (سیرت مسیح موعود ؑ مولفہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ صفحہ285)
ہر بچہ کبھی نہ کبھی ضد میں آ جاتا ہے۔ ایسے موقع پر والدین تحمل سے کام لینے کی بجائے مار پیٹ کرتے ہیں اور اگر وہ روئے تو اسے زبردستی چُپ کرانا چاہتے ہیں اور جب بچہ چُپ نہیں کرتا تو بے تحاشا مار پیٹ کرکے اپنا غصہ نکالتے ہیں۔ حضور کا نمونہ ایسے مواقع پر بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔
لدھیانے کا واقعہ ہے حضرت مصلح موعود تین برس کے تھے۔ آدھی رات کے وقت کسی بات پر رونے لگے اور روتے چلے گئے۔ حضور گود میں لے کر بہلاتے رہے لیکن بچہ چُپ ہونے میں نہیں آتا۔ توجہ کو پھیرنے کے لئے حضور نے فرمایا ’’دیکھو محمود وہ کیسا تارا ہے‘‘ بچہ ذرا چُپ ہوا اور پھر اور بھی زور شور سے رونے اورچّلانے لگا ’’ابا تارے جانا‘‘۔ اور حضور اپنے آپ سے فرما رہے تھے ’’یہ اچھا ہوا ہم نے تو ایک راہ نکالی تھی، اس نے اس میں بھی اپنی ضد کی راہ نکال لی۔‘‘ آخر بچہ تھک کر خاموش ہو گیا لیکن اس تمام عرصہ میں ایک دفعہ بھی حضور نے بچہ کو ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی۔ (سیرت مسیح موعود ؑ مؤلفہ حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹیؓ)
حضرت اقدس ؑ کو جہاں بچوں کی تعلیم و تربیت کا خیال تھا۔وہاں آپ بچوں کی صحت و تیمارداری میں خاص دلچسپی لیتے تھے اور اس کا م میں اس قدر محوہو جاتے کہ گمان گزرتا کہ شاید آپ کو اس کے علاوہ اور کوئی کام ہی نہ ہے۔مگر آپ کا یہ فعل بھی صرف خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے ہی ہوتاتھا۔
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اس بارہ میں تحریر کرتے ہیں کہ آپ کے صاحبزادے اکثر بیمار ہو جاتے۔ان کے علاج معالجہ اور دوادرمن میں راتوں کو دن کر دینا معمولی بات ہوتی تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز (صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب)کی آنکھیں بیمار تھیں۔آپ اس کے علاج کے لئے بٹالہ تشریف لے گئے۔اور ساری ساری رات خود لے کر ٹہلتے رہتے اور ان کو بہلا تے مگر کبھی شکایت نہ کی۔ہم نے اپنے گھر وں میں دیکھا ہے کہ بیماری ذرا لمبی ہوئی یا کسی کو زیادہ وقت تک کسی بیمار کے پاس رہنا پڑا تو گھبرا کے ایسے الفاظ منہ سے نکال دیتے ہیں جو قابل افسوس ہوتے ہیں مگر حضرت کو دیکھا گیا کہ بعض اوقات مہینوں تیمارداری کرنی پڑی ہے اور ساری ساری رات اور دن بھر اس کوفت میں رہے ہیں مگر زبان سے کوئی لفظ شکوہ کا نہیں نکلا۔ پوری مستعدی کے ساتھ اس میں لگے رہے۔‘‘ (سیرت مسیح موعود مولفہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صفحہ 289)
والدین اس بات کی بہت خواہش رکھتے ہیں کہ ان کے بچے بہت امیر ہوں۔ بڑے بڑے دنیاوی عہدوں پر پہنچیں اور صاحب اقتدار اور صاحب ثروت بنیں اور انسان کی پیدائش کے حقیقی مقصد کو پورا کرنے کے لئے وہ اپنے بچوں کے لئے نہ خواہش رکھتے ہیں اور نہ اس کے لئے کوشش اور توجہ اور دعا کرتے ہیں۔ حضور اپنے بچوں کے لئے کیا خواہش رکھتے تھے؟ فرماتے ہیں: ’’مجھے اپنی اولاد کے متعلق کبھی خواہش نہیں ہوئی کہ وہ بڑے بڑے دنیا دار بنیں اور اعلیٰ عہدوں پر پہنچ کر مامور ہوں۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 562)
چنانچہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب بیان فرماتے ہیں کہ میں نے تحصیلداری کا امتحان 1884ء میں دیا تھا۔ اس وقت میں نے والد صاحب کو دعا کے لئے ایک رقعہ لکھا تو انہوں نے رقعہ پھینک دیا اور فرمایا ’’ہمیشہ دنیا داری ہی کے طالب ہوتے ہیں‘‘جو آدمی رقعہ لے کر گیا تھا اس نے آ کر مجھے یہ واقعہ بتایا۔ اس کے بعد والد صاحب نے ایک شخص سے ذکرکیاکہ ہم نے تو سلطان احمد کا رقعہ پھینک دیا تھا کہ ایک دنیوی غرض اپنے مالک کے سامنے کیا پیش کروں …کہ الہام ہوا ’’پاس ہو جاوے گا‘‘۔ مرزا سلطان احمد صاحب کہتے ہیں چنانچہ میں امتحان میں پاس ہو گیا۔ (سیرت المہدی جلد اول صفحہ 205روایت نمبر208)
یاد رہے کہ یہ انیسویں صدی کے اواخر کی بات ہے اور اُس زمانے میں برصغیر کے بڑے صاحب اثر اور رئیس خاندان اس بات کو فخر کا موجب سمجھتے تھے کہ ان کے خاندان کا کوئی فرد سرکاری ملازمت حاصل کر لے۔ تحصیل دار کا عہدہ تو بہت بڑی بات ہے اُس زمانے میں معمولی سرکاری ملازمت کے حصول کے لئے بھی ہر جائزوناجائز طریق اختیار کیا جاتا تھا۔
اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جب انٹرنس کا امتحان دیا تو ایک دوست نے حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور دعا کریں کہ میاں صاحب پاس ہو جاویں۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: ’’ہمیں تو ایسی باتوں کی طرف توجہ کرنے سے کراہت پیدا ہوتی ہے۔ ہم ایسی باتوں کے لئے دعا نہیں کرتے۔ ہم کو نہ تو نوکریوں کی ضرورت ہے اور نہ ہمارا یہ منشا ہے کہ امتحان اس غرض سے پاس کئے جاویں۔ ہاں اتنی بات ہے کہ یہ علوم متعارفہ میں کسی قدر دستگاہ پیدا کر لیں جو خدمت دین میں کام آئے۔ پاس فیل سے تعلق نہیں اور نہ کوئی غرض۔‘‘ (سیرت حضرت مسیح موعود ؑ مولفہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صفحہ 318)
حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے اولاد کی خواہش کو اسی طرح پر قرآن میں بیان فرمایا ہے رَبَّنَا ھَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّاجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا۔ یعنی خدا تعالیٰ ہم کو ہماری بیویوں اور بچوں سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرما وے اور یہ تب ہی میسر آ سکتی ہے کہ وہ فسق وفجور کی زندگی بسر نہ کرتے ہوں بلکہ عباد الرحمان کی زندگی بسر کرنے والے ہوں اور خدا کو ہر شے پر مقدم کرنے والے ہوں اور آگے کھول کر کہہ دیا وَاجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا۔ اولاد اگر نیک اور متقی ہو تو یہ ان کا امام ہی ہوگا۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 562-563)
پھر فرماتے ہیں: ’’بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ اولاد کے لئے کچھ مال چھوڑنا چاہیے۔ مجھے حیرت آتی ہے کہ مال چھوڑنے کا تو ان کو خیال آتا ہے مگر یہ خیال ان کو نہیں آتا کہ اولاد صالح ہو طالح نہ ہو۔‘‘ (ملفوظات جلدچہارم صفحہ 443)
پھر فرمایا: ’’اگر اولاد صالح ہو تو پھر کس بات کی پروا ہو سکتی ہے۔ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے وَھُوَ یَتَوَلَّی الصَّالِحِیۡنَ۔ یعنی اللہ تعالیٰ آپ صالحین کا متولی اور متکفل ہوتا ہے۔ اگر (اولاد) بدبخت ہے تو خواہ لاکھوں روپیہ اس کے لئے چھوڑ جاؤ وہ بدکاریوں میں تباہ کر کے پھر قلاش ہو جائے گی اور ان مصائب اور مشکلات میں پڑے گی جو اس کے لئے لازمی ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 444)
پھر فرمایا: ’’حضرت داؤد علیہ السلام کا ایک قول ہے ’’میں بچہ تھا، جوان ہوا، اب بوڑھا ہو گیا۔ میں نے متقی کو کبھی ایسی حالت میں نہیں دیکھا کہ اسے رزق کی مار ہو اور نہ اس کی اولاد کو ٹکڑے مانگتے دیکھا۔‘‘ اللہ تعالیٰ تو کئی پشت تک رعایت کرتا ہے۔ پس خود نیک بنو اور اپنی اولاد کے لئے ایک عمدہ نمونہ نیکی اور تقویٰ کا ہو جاؤ اور اس کو متقی اور دیندار بنانے کے لئے سعی اور دعاکرو۔ جس قدر کوشش تم ان کے لئے مال جمع کرنے کی کرتے ہو اسی قدر کوشش اس امر میں کرو۔‘‘ (ایضاً)
حضرت اقدس ؑ بچوں کی تربیت کے لئے یہ پسند فرماتے تھے کہ ان کی شادیاں اوائل بلوغت میں ہی کر دی جائیں۔
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ تحریر کرتے ہیں:
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طرز عمل سے یہ پایا جاتا ہے کہ آپ حالات زمانہ کو مدنظر رکھ کر یہ پسند فرماتے تھے کہ بچوں کی شادی بدو شباب سے کچھ پہلے ہو جاوے تاکہ جب وہ زمانہ بلوغت میں قدم رکھیں اور ان کی زندگی میں ایک تغیر کا دور شروع ہو وہ اپنی رفیقہ زندگی اور مونسہ کو موجود پائیں۔چنانچہ آپ نے تمام بچوں کی شادیاں چھوٹی عمر ہی میں کر دی تھیں گو ان کے رخصتانے زمانہ بلوغت میں ہوئے۔ حضرت اُمّ المومنین کی روایت سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس طرزِ عمل کے متعلق حضور کامنشا صاف کردیا ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ’’حضرت صاحب نے تم بچوں کی شادیاں تو چھوٹی عمر میں کر دی تھیں مگر ان کامنشا یہ تھا کہ زیادہ اختلاط نہ ہو تاکہ نشوو نما میں کسی قسم کا نقص نہ پیدا ہو۔‘‘
(سیرت مسیح موعود مولفہ حضرت یعقوب علی عرفانی ؓ صفحہ 386-385)
بعض والدین اپنے بچوں کے ساتھ اس قدر شدید محبت رکھتے ہیں کہ اولاد ان کے لئے ابتلا کا باعث بن جاتی ہے۔ اس سلسلہ میں حضور فرماتے ہیں: ’’اولاد کو مہمان سمجھنا چاہیے۔ اس کی خاطر داری کرنی چاہیے۔ اس کی دلجوئی کرنی چاہیے۔ مگر خدا تعالیٰ پر کسی کو مقدم نہیں کرنا چاہیے۔ اولاد کیا بنا سکتی ہے۔ خداتعالیٰ کی رضا ضروری ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد پنجم حصہ 419)۔ پھر فرماتے ہیں: ’’ہم نے تو اپنی اولاد وغیرہ کا پہلے ہی سے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ یہ سب خدا تعالیٰ کا مال ہے اور ہمارا اس میں کوئی تعلق نہیں اور ہم بھی خدا تعالیٰ کا مال ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 307)
یہ صرف ایک زبانی دعویٰ نہ تھا بلکہ آپ کا عملی نمونہ بھی یہی تھا۔ چنانچہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب تحریرفرماتے ہیں: ’’آپ بچوں کی خبر گیری اور پرورش اس طرح کرتے ہیں کہ ایک سرسری دیکھنے والا گمان کرے کہ آپ سے زیادہ اولاد کی محبت کسی کو نہ ہو گی اور بیماری میں اس قدر توجہ کرتے ہیں اور تیمارداری اور علاج میں ایسے محو ہوتے ہیں کہ گویا کوئی اور فکر ہی نہیں۔ مگر باریک بین دیکھ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لئے ہے اور خدا کے لئے اس کی ضعیف مخلوق کی رعایت اور پرورش مدّ نظر ہے۔ آپ کی پلوٹھی بیٹی عصمت لدھیانہ میں ہیضہ سے بیمار ہوئی۔ آپ اس کے علاج میں یوں دوا دوی کرتے کہ گویا اس کے بغیر زندگی محال ہے اور ایک دنیا دار دنیا کی عرف واصطلاح میں اولاد کا بھوکا اور شیفتہ اس سے زیادہ جانکاہی کر نہیں سکتا۔ مگر جب وہ مر گئی آپ یوں الگ ہوئے کہ گویا کوئی چیز تھی ہی نہیں اور جب سے کبھی ذکر تک نہیں کیا کہ کوئی لڑکی تھی۔‘‘ (سیرت حضرت مسیح موعودؑ صفحہ 111طبع دوم)
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب رضی اللہ عنہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’مبارک احمد بیمار ہوا آپ نے اس کی تیمارداری میں رات دن ایک کر دیئے اور ایک دنیا دار آپ کو اس حالت میں دیکھتا تو وہ یقیناً یہ قیاس کرتا کہ اس شخص کے لئے اس بچے سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہیں مگر جونہی مبارک احمد اپنے مولیٰ سے جا ملا آپ کا چہرہ ایسا بشاش اور مطمئن تھا گویا وہ عید کا دن تھا۔ ‘‘ (سیرت مسیح موعود مولفہ یعقوب علی عرفانی ؓ صفحہ 239)
پھر مزید تحریر کرتے ہیں کہ:
’’عام طور پر اگر غور کیا جاوے تو وہ انسان جو ستر برس کے قریب ہو اور جس کا ہونہار نیک سعادت مند بچہ فوت ہو جاوے اس کی کمر ٹوٹ جاتی ہے مگر یہاں معاملہ ہی الگ ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ اس واقعہ کو ایسے جوش اور مزے سے بیان کرتے ہیں کہ الفاظ نہیں ملتے جو اس کیفیت کو ظاہر کیا جاوے۔ حضرت مسیح موعود خوش ہیں کہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئیاں پوری ہو گئیں۔ حضرت مسیح موعود خوش ہیں کہ خدا تعالیٰ کے امتحان میں پورے اترے۔ سب سے بڑھ کر جو امر مسرت کا موجب ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خوشی کا اظہار فرمایا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود پر یہ وحی ہوئی ہے کہ’خدا خوش ہو گیا‘۔‘‘ (سیرت مسیح موعود مولفہ یعقوب علی عرفانی ؓ صفحہ241-240)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبارک احمد کی وفات پر ہونے والے مذکورہ بالا الہام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’کل والاالہام کہ ’خدا خوش ہو گیا‘ہم نے اپنی بیوی کو سنایا تو اس نے سن کر کہا کہ مجھے اس الہام سے اتنی خوشی ہوئی ہے کہ اگر دو ہزار مبارک احمد بھی مر جاتا تومیں پروا نہ کرتی۔‘‘ (سیرت مسیح موعود مولفہ حضرت یعقوب علی عرفانی ؓ صفحہ 246)
حضرت اُمّ المومنین رضی اللہ عنہا کا ذکر آیا ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس بارہ میں بھی ذکر کر دیا جائے کہ آپ کس طرح بچوں کی تربیت کرتی تھیں۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’حضرت اُمّ المومنین علیہا السلام فرمایا کرتی تھیں کہ بڑے بچے کی تربیت پر بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ اگر وہ ٹھیک راہ پر چلے گا تو آئندہ زیادہ محنت کی ضرورت نہیں چھوٹے خود ہی بڑے کے نقش قدم پر چلنے لگتے ہیں۔
بچوں پر اعتماد کر کے تربیت کرنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی طریق تھا اور حضرت اماں جان کا بھی۔ مثلاً اگر کوئی بات ہمارے بچپن میں کسی کی ہوتی تو آپ بڑے وثوق سے کہتیں ’میرے بچے جھوٹ نہیں بولتے‘ اور یہ بات ہمارے دلوں میں اتنی گڑ گئی تھی کہ مجھے بچپن کا اپنا تأثر یاد ہے کہ جھوٹ تو خیر ہم نے بولنا ہی نہ ہوا یہ بات ہمارے کرنے کی ہے ہی نہیں۔
یہی سلوک اور طرز عمل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تھا۔ آپ کبھی بے اعتباری کی، شک کی بات نہ کرتے تھے۔ بچوں پر یقین رکھتے تھے۔ یعنی اعتماد ظاہر فرماتے تھے اور اس اعتماد کی شرم نہ تو آپ کی مرضی کے خلاف کوئی بات کرنے دیتی اور نہ کوئی بات آپ سے کبھی پوشیدہ رکھنے کو دل چاہتا۔ جو بات کہو آپ غور سے سنتے جیسے کسی بڑے معتبر آدمی کی سنتے ہیں۔
غرض بچہ کو نیک بات سنا دینا اور اس کے کاموں پر اس طرح سے نظر رکھنا کہ ہر وقت کی نکتہ چینی، شک وشبہ روک ٹوک تونہ ہو مگر خبردار ضرور رہیں آپ۔ اور بچہ پر بڑی حد تک اعتبار کر کے اس پر خود اپنے افعال کی غیرت اور ذمہ داری پیدا کر دینا۔ کوئی بات ہو تو الگ سمجھا دینا زیادہ بہتر ہے بہ نسبت ہر وقت کی برسرعام گھر کی جھڑکی سے بے غیرت بنانے کی۔
نیز حضرت اماں جان فرمایا کرتی تھیں بچہ کو یونہی ہر وقت نہ کہو سنو مگر جب کہو تو ضرور وہ بات کروا کر چھوڑو تاکہ فرمانبرداری کی عادت پڑے لیکن ہر وقت تنگ نہ کرو۔‘‘ (تحریرات مبارکہ صفحہ 60,59)
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کو بہت چھوٹی عمر میں حضرت اماں جان ؓ نے لے لیا تھا اور آپ کو پالا ہی حضرت اماں جان ؓ نے تھا۔ حضورؒ سے یہ روایت خاکسار نے کئی بار سنی ہے کہ حضرت اماں جان ؓ ہمیشہ یتیم بچیاں پالتی تھیں اور ان کے کام نہلانا، دھلانا، کھانا کھلانا وغیرہ خود ہی کرتی تھیں۔ حضور ؒ فرماتے تھے کہ میرے بہت بچپن کی بات ہے اسی طرح ایک بچی حضرت اماں جان ؓ کے گھر رہنے کے لئے آئی۔ جب کھانے کا وقت آیا تو اس کو بھی اماں جان ؓ نے اپنے ساتھ دستر خوان پر بٹھایا۔ حضور ؒ فرماتے تھے جب میں نے دیکھا کہ وہ بچی بھی دستر خوان پر ہے تو میں نے کہا کہ میں ا س کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہ کھاؤں گا۔ حضور فرماتے تھے حضرت اماں جان ؓ نے مجھے پیار سے سمجھایا لیکن میں ضد میں آ گیا اور کھانے سے انکار کر دیا۔ حضور کہتے تھے میرے انکار پر حضرت اماں جان ؓ فرمانے لگیں کہ ٹھیک ہے تم کھانا نہیں کھانا چاہتے تو نہ کھاؤ۔ حضورؒ مزید فرماتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت اماں جان ؓ نے مجھے کھانے کے لئے نہ کہا۔ آخر جب بہت وقت گذر گیا اور مجھے بھوک نے بہت ستایا تو مجبوراً میں نے کھانے کے لئے کہا تو حضرت اماں جان ؓ نے مجھے اسی بچی کے ساتھ بٹھا کر کھانا دیا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ ہمیشہ بڑے پیار سے یہ واقعہ سناتے تھے اور کہتے تھے کہ حضرت اماں جان ؓ کے اس طریق کی وجہ سے پھر ساری زندگی کسی غریب کو غریب سمجھ کر اس سے ملنے میں میری طبیعت میں کبھی روک پیدا نہ ہوئی۔
حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحبؓ کی صاحبزادی امۃ الشافی سیال صاحبہ نے اپنا ایک واقعہ بیان کیا ہے جس سے حضرت اماں جانؓ کے طریقِ تربیت پر روشنی پڑتی ہے۔ آپ کہتی ہیں کہ میری والدہ وفات پا چکی تھیں اور میں اپنے ننھیال میں رہتی تھی۔ اپنی نانی کے ساتھ اماں جان ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ باتیں کرتے کرتے اماں جان ؓ نے مجھ سے پوچھا تمہارے کتنے بھائی ہیں؟ میں نے عرض کیا: جی دو بھائی ہیں۔ آپ ؓ نے فرمایا: نہیں بیٹا تمہارے چار بھائی ہیں۔ دراصل بات یہ تھی کہ امۃالشافی صاحبہ کی والدہ کے دو بیٹے تھے جبکہ حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب کے دوسری بیوی سے بھی دو بیٹے تھے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب امۃالشافی صاحبہ کی عمر صرف پانچ سال تھی لیکن اتنی کم عمر میں بھی حضرت اماں جان ؓ نے ان کی اصلاح کرنی ضروری سمجھی۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ آپ ؓ کے اس طرح سمجھانے سے پھر کبھی خیال بھی نہ آیا کہ دوسری والدہ سے ہمارے بھائی بہن سوتیلے ہیں۔ سگے سوتیلے کا فرق ہی کبھی نہ کیا اور اگلی نسل میں بھی اسی طرح پیار و محبت ہے۔
حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے انداز تربیت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا مزید تحریر فرماتی ہیں:
’’اصولی تربیت میں مَیں نے اس عمر تک بہت مطالعہ عام وخاص لوگوں کا کر کے بھی حضرت والدہ صاحبہ سے بہتر کسی کو نہیں پایا۔ آپ نے دنیوی تعلیم نہیں پائی (بجز معمولی اردو خواندگی کے)مگر جو آپ کے اصول اخلاق و تربیت ہیں ان کو دیکھ کر میں نے یہی سمجھا ہے کہ خاص خدا کا فضل اور خدا کے مسیحؑ کی تربیت کے سوا اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ سب کہاں سے سیکھا؟
بچے پر ہمیشہ اعتبار اور بہت پختہ اعتبار ظاہر کر کے اس کو والدین کے اعتبار کی شرم اور لاج ڈال دینا یہ آپ کا بڑا اصول تربیت ہے۔
جھوٹ سے نفرت اور غیرت وغنا آپ کا اوّل سبق ہوتا تھا۔ ہم لوگوں سے بھی آپ ہمیشہ یہی فرماتی رہیں کہ بچہ میں یہ عادت ڈالو کہ وہ کہنا مان لے، پھر بے شک بچپن کی شرارت بھی آئے تو کوئی ڈر نہیں۔ جس وقت بھی روکا جائے گا باز آجائے گا اور اصلاح ہوجائے گی۔ فرماتیں کہ اگر ایک بار تم نے کہنا ماننے کی پختہ عادت ڈال دی تو پھر ہمیشہ اصلاح کی امید ہے۔ یہی آپ نے ہم لوگوں کو سکھا رکھا تھا اور کبھی ہمارے وہم وگمان میں بھی نہیں آ سکتا تھا کہ ہم والدین کی عدم موجودگی کی حالت میں بھی ان کے منشا کے خلاف کر سکتے ہیں۔
حضرت اماںجان ہمیشہ فرماتی تھیں کہ ’میرے بچے جھوٹ نہیں بولتے‘اور یہی اعتبار تھا جو ہم کو جھوٹ سے بچاتا بلکہ زیادہ متنفر کرتا تھا۔ مجھے آپؓ کا سختی کرنا کبھی یاد نہیں۔ پھر بھی آپؓ کا ایک خاص رعب تھا اور ہم بہ نسبت آپ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دنیا کے عام قاعدہ کے خلاف بہت زیادہ بے تکلف تھے۔ اور مجھے یاد ہے کہ حضور اقدس ؑ سے حضرت والدہ صاحبہ کی بے حد محبت وقدر کرنے کی وجہ سے آپؑ کی قدر میرے دل میں اَور بھی بڑھا کرتی تھی۔
بچوں کی تربیت کے متعلق ایک اصول آپ یہ بھی بیان فرمایا کرتی تھیں کہ پہلے بچے کی تربیت پر اپنا پورا زور لگاؤ دوسرے ان کا نمونہ دیکھ کر خود ہی ٹھیک ہوجائیں گے۔ (تحریرات مبارکہ صفحہ 321,320)
خدا تعالیٰ ہمیں حضور کی نصائح پر عمل کرتے ہوئے حضور اور حضور کے تتبع میں حضرت اماں جان کے طریق تربیت کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ہمت اور طاقت بخشے کہ ہم حضور کی منشا کے مطابق اپنے بچوں کی صحیح اسلامی خطوط پر تربیت کر سکیں اور ہمارے بچے ہم سے بڑھ کر دین کی خدمت کرنے والے اور خدا کی رضا کو حاصل کرنے والوں میں سے ہوں۔ آمین!

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں