تعلیم الاسلام کالج کی یادیں

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16مئی 2005ء میں مکرم شیخ ناصر احمد خالد صاحب کے قلم سے تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی چند یادیں شامل اشاعت ہیں۔

قادیان دارالامان

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اپنی آغاز خلافت (1914ء ) میں فرمایا تھا: ’’اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہمارا اپنا کالج ہو۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی بھی یہی خواہش تھی۔ کالج کے دنوں میں کیریکٹر بنتا ہے۔ سکول لائف میں تو چال چلن کا ایک خاکہ کھینچا جاتا ہے۔ اس پر دوبارہ سیاہی کالج لائف میں ہی ہوتی ہے- پس ضرورت ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کی زندگیوں کو مفید اور مؤثر بنانے کے لئے ایک کالج بنائیں‘‘۔

چنانچہ کچھ سالوں بعد قادیان میں تعلیم الاسلام کالج کا قیام حضورؓ کا ایک سنہری کارنامہ تھا۔ کالج کمیٹی کے صدر حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے حضرت صاحبزادہ مرزاناصر احمد صاحبؒ کو کالج کا پرنسپل بنانے کی تجویز حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں پیش کی جسے حضورؓ نے منظور فرمالیا اور اس طرح حضرت صاحبزادہ صاحب کا 7 مئی 1944ء کو بطور پرنسپل تقرر ہوا۔ ایسا یقینا الٰہی منشاء کے تحت ہوا۔ چنانچہ محترم پروفیسر محبوب عالم خالد صاحب مرحوم (سابق صدر صدر انجمن احمدیہ) بیان فرماتے ہیں کہ:
’’1944ء کے ابتدائی ایام میں محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اپنی محترمہ بیگم صاحبہ کے علاج کے سلسلہ میں دہلی میں مقیم تھے۔ ایک بزرگ نے مجھ سے ذکر کیا کہ ان دنوں تعلیم الاسلام کالج کے انتظامات ہورہے ہیں اور پرنسپل کے تقرر کا سوال ہے انہیں لکھو کہ اس موقع پر یہاں تشریف لے آئیں۔ میں نے ناسمجھی میں ایک عریضہ آپ کی خدمت میں تحریر کردیا۔ چند دن کے بعد جواب موصول ہوا کہ ’’خالد! تم بچپن سے میرے ساتھ رہے ہو۔ ابھی تک تمہیں یہ معلوم نہیں کہ میں نے کبھی کسی عہدہ کی خواہش نہیں کی۔ میں تو ادنیٰ خادم سلسلہ ہوں‘‘۔

چودھری محمد علی صاحب

محترم چوہدری محمد علی صاحب کالج میں اپنی تقرری کا حال یوں بیان کرتے ہیں: ’’میں حسب ہدایت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے عاجز کوکالج میں بطور لیکچرار فلسفہ تقرری کا دو سطری ارشاد لکھ کر تھما دیا۔ اور فرمایا کہ پرنسپل صاحب سے جا کر مل لوں… حسب ارشاد حضور کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یہ حاضری بھی نرالی حاضری تھی نہ دفتر کا تکلف نہ رہائش گاہ پر حاضری، مغرب کی نماز کا وقت تھا۔ سیدھا مسجد مبارک کی چھت پر جا کر سلام کیا جہاں حضور تشریف فرما تھے۔ شلوار اور بغیر کالر کے قمیص نما کرتہ زیب تن تھا۔ سر پر ٹوپی، خشخشی ریش مبارک، بالوں میں سنہرے رنگ کی جھلک، موٹی غلافی معصوم آنکھیں، کشادہ پیشانی، مردانہ حسن کا بہترین نمونہ، وہی معصومیت اور سادگی اور بے تکلفی اور وقار اور ذہانت اور اسی نور کا چہرے پر اجالا جو مستقبل میں ایک عالم کو منور کرنے والا تھا … فرمایا کہ ’’تقرری تو ہوگئی، ابھی کالج تو کھلا نہیں لیکن داخلے کے لئے طلباء آنے شروع ہوجائیں گے۔ آپ کو ہوسٹل کا سپرنٹنڈنٹ بھی مقرر کیا گیا ہے۔ گیسٹ ہاؤس میں شفٹ کرجائیں وہیں ہوسٹل کا انتظام ہوگا۔‘‘
1947ء میں ہجرت کرنی پڑی تو حضرت صاحبزادہ صاحبؒ ابھی قادیان میں ہی تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ لاہور تشریف لاچکے تھے۔ کالج کے لئے کوئی مناسب جگہ ملنے کے سلسلہ میں دشواری کا مسئلہ حضورؓ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپؓ نے قائم مقام پرنسپل محترم چوہدری محمد علی صاحب سے فرمایا: ’’آسمان کے نیچے، پاکستان کی سرزمین میں جہاں کہیں بھی جگہ ملتی ہے لے لو اور کالج شروع کردو‘‘۔ اسی اثنا میں حضرت صاحبزادہ صاحب بھی قادیان سے لاہور تشریف لے آئے چنانچہ کینال پارک کی ایک نہایت بوسیدہ عمارت، جو ڈیری فارم یا اصطبل بن چکی تھی، کو محکمہ بحالیات سے حاصل کر کے نہایت بے سرو سامانی کی حالت میں کالج کی کلاسیں شروع کردی گئیں۔ طلباء نے صفوں پر بیٹھ کر کلاسیں شروع کیں۔ اپریل 1948ء میں DAV کالج کی بوسیدہ عمارت الاٹ ہوگئی جسے وہاں مقیم غیرمسلم پناہ گزین مکمل طور پر برباد کر چکے تھے۔ دروازوں کے تختے اور چوکھٹیں، روشن دان، الماریاں وغیرہ سب غائب۔لائبریری کی کتب کی ایک جلد بھی باقی نہ تھی۔ اس دَور کے بارے میں صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ پرنسپل کالج کے بارہ میں فرماتے ہیں۔ ’پاکستان کے قیام کے بعد ربوہ منتقل ہونے تک قیام رتن باغ لاہور میں رہا… یہ دَور بھی بڑی محنت کا دَور تھا۔ لُٹے ہوئے، بے سرو سامان سب آئے اور اس خاک سے ایک کامیاب تعلیمی ادارہ کو اٹھایا جس نے درسگاہوں میں ایک امتیازی حیثیت اختیار کرلی‘۔
خدا تعالیٰ کے فضل سے کالج نے امتحانات میں نمایاں نتائج دینا شروع کر دئے۔ روئنگ اور کبڈی کا پنجاب یونیورسٹی کا چیمپئن بھی رہا۔ اور ان کھیلوں میں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور سے مقابلہ ہوتا تھا۔ دیگر علمی اور ادبی سرگرمیاں بھی اپنے عروج پر تھیں۔ تعلیم الاسلام کالج کے طلباء کا لباس سیاہ اچکن اور سیاہ جناح کیپ ہوتا تھا اور لاہور کے تمام کالجوں میں ایک خاص رعب، دبدبہ اور وقار ہوتا تھا۔ 1950ء کے جلسہ تقسیم اسناد میں حضرت مصلح موعودؓ بنفس نفیس تشریف لائے۔ 1951ء میں آئی سرجن محترم ڈاکٹر قاضی محمد بشیر صاحب، 1952ء میں مسٹر جسٹس ایس۔ اے رحمان اور 1954ء میں حضرت چوہدری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ مہمان خصوصی تھے۔
1954ء کے آخر میں حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد کی تعمیل میں کالج کو لاہور سے ربوہ شفٹ کر دیا گیا۔ ربوہ کے شدید گرم موسم اور چلچلاتی دھوپ میں سخت محنت کر کے حضرت صاحبزادہ صاحب کالج تعمیر کراچکے تھے۔ اس موقعہ پر لاہور کے علمی حلقوں میں بہت افسوس کا اظہار کیا گیا اور روزنامہ ’’نوائے وقت ‘‘ لاہور نے ایک ایڈیٹوریل بھی تحریر کیا کہ تعلیم الاسلام کالج کا لاہور سے جانا یہاں کے غریب اور ذہین طلباء کے لئے بہت بڑا نقصان ہے۔
ربوہ میں کالج کی بلڈنگ مکمل ہونے پر 6دسمبر 1954ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے افتتاح فرمایا۔ کالج میں جو علمی اور ادبی ماحول حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی مقناطیسی کشش رکھنے والی شخصیت اور کوششوں سے پیدا ہوا وہ اتنا دلکش تھا کہ غیر بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ چنانچہ پروفیسر حمید احمد خان صاحب وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی، ربوہ کالج کے تتبع میں پنجاب یونیورسٹی میں طلباء کے لئے گاؤن پہننا لازمی قرار دیا۔ جسٹس شیخ انوار الحق صاحب جج ہائی کورٹ مغربی پاکستان لاہور (جو بعد میں پاکستان کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنے) نے 1963ء میں کانووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’آج آپ کے ادارے میں آکر میری اپنی طالب علمی کا دَور آنکھوں کے سامنے آگیا۔ آکسفورڈ جیسی فضا دیکھ کر میرے دل میں پرانی یادیں تازہ ہوگئی ہیں اور میں سوچ رہا ہوں کہ آپ لوگ خوش قسمت ہیں جہاں آپ کو مثالی تعلیمی اور تربیتی ماحول میسر ہے۔ جہاں دوسری جگہوں کی مضرت انگیز مصروفیات ناپید ہیں‘‘۔
مشہور ماہر تعلیم، سابق پرنسپل گورنمنٹ کالج لاہور اور صوبائی سیکرٹری تعلیم پروفیسر سراج الدین صاحب (جو حضرت صاحبزادہ صاحب کے گورنمنٹ کالج لاہور میں پروفیسر بھی تھے) نے 1961ء کے جلسہ تقسیم اسناد کے خطاب میں کہا ’’تعلیم الاسلام کالج کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اسے ایسے پرنسپل کی رہنمائی حاصل ہے جو ایمان و یقین، خلوص و فدائیت اور بلند کردار کے اعلیٰ اوصاف سے مالا مال ہے۔ میرے دل میںاس کالج کے لئے ایک خاص مقام ہے کہ یہ کالج دو نمایاں اور ممتاز شخصیتوں والد اور فرزند کی محنت، محبت اور شفقت کا ثمرہ ہے۔ میری مراد آپ کی جماعت کے واجب الاحترام امام جو اس کالج کے بانی ہیں اور ان کے لائق وفائق فرزند مرزا ناصر احمد سے ہے جو اپنے خاندان کی قائم کردہ روایات کو وقف کی روح اور ایسے جذبہ شوق کے ساتھ چلا رہے ہیں جو دوسرے ممالک میں بھی شاذ ہی نظر آتا ہے… مرزا ناصر احمد صاحب سے متعارف اور ان کی دوستی سے شرف سے مشرف ہونا میرے لئے فخر کی بات ہے۔‘‘
ربوہ کالج میں مسٹر جسٹس ایم ۔ آر۔ کیانی، مسٹر جسٹس منظور قادر، وزیر خارجہ و قانون سردار عبد الحمید دستی صاحب، وزیر تعلیم ڈاکٹر محمد افضل صاحب اور دیگر بے شمار اہم شخصیات تشریف لاتی رہیں۔
ایک دفعہ پنجاب یونیورسٹی کے چانسلر پروفیسر میاں افضل حسین صاحب ربوہ تشریف لائے۔ آپ مشہور مسلمان لیڈر سر فضل حسین کے چھوٹے بھائی تھے۔ ان کو ربوہ کا آلائشوں سے پاک ماحول اردگرد کی پہاڑیاں اور علمی فضا اس قدر پسند آئی کہ انہوں نے کہا کہ اعلی تعلیم اور ریسرچ کے لئے یہ ایک مثالی جگہ ہے۔ ان پتھریلی پہاڑیوں پر مٹی ڈال کر پودے اگا کر ان کو سرسبز کر دیں اور کالج کو اس علاقہ کی یونیورسٹی بنادیں۔
لیکن بدقسمتی سے 1972ء میں اس کالج کو دوسرے تعلیمی اداروں کی طرح قومی تحویل میں لے لیا گیا اور یہ مسلسل انحطاط پذیر ہوتا چلا گیا۔ اللہ کرے کہ اب لمبی تاریک رات کے بعد جلد سحر طلوع ہوجائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں