تلاوت قرآنِ کریم کی فضیلت

ماہنامہ ’’خا لد‘‘ ربوہ ستمبر 2008ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کا مضمون تلاوت قرآن کریم کی فضیلت سے متعلق شامل اشاعت ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآنِ شریف میں آنحضرت ﷺکو مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ قرآن کو خوب نکھار کر پڑھا کر۔ چنانچہ آنحضرت ﷺنے جہاں اپنی ساری زندگی قرآنِ کریم کی تلاوت کا التزام فرمایا وہاں آپؐ کی قرآنِ کریم سے محبت کا ایک پہلو اس کی تلاوت کی سماعت کی صورت میں بھی ظاہر ہوا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے مجھے فرمایا کہ مجھے قرآن پڑھ کر سنائو! میں نے کہا: میں آپ کو قرآن پڑھ کر سنائوں حالانکہ آپؐ پر ہی تو نازل ہوا ہے؟اس پر آپؐ نے فرمایا کہ اِنِّیۡ اَُحِبُّ اَنۡ اَسۡمَعَہٗ مِنۡ غَیۡرِیۡ یعنی میں پسند کرتا ہوں کہ اپنے علاوہ کسی اَور سے قرآن سنوں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے ہی روایت ہے کہ ایک مرتبہ میں نے آنحضور ﷺ کے سامنے سورۃ یوسف کی تلاوت کی تو آپ نے فرمایا ’’اَحْسَنْتَ‘‘ یعنی بہت خوب۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں بھی قرآنِ شریف سے محبت کے جہاں اور رنگ نظر آتے ہیں وہاں ’’ اِنِّیۡ اُحِبُّ اَنۡ اَسۡمَعَہٗ مِنۡ غَیۡرِیۡ‘‘کا پہلو بھی نمایاں ہے۔ چنانچہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ فرماتے ہیں کہ ایک صبح سیر کے دوران کسی نے عرض کیا کہ ایک حافظ صاحب (حضرت حافظ محبوب الرحمن صاحبؓ) خوش الحان آئے ہوئے ہیں۔ حضورؑ نے فرمایا: اچھا ہم کو قرآن سنائیں۔ پھر حضورؑ سڑک سے ہٹ کر ایک کھیت میں سادگی سے زمین پر بیٹھ گئے۔ حافظ صاحب کے لہجہ میں درد تھااور قرآن شریف قراء ت سے اور خوش الحانی سے پڑھتے تھے۔ حضور علیہ السلام چشم پُرآب ہوگئے۔ دیگر دوستوں کا بھی یہی حال تھا۔ ایک رکوع سے کچھ زیادہ سنا، پھر اٹھ کر حافظ صاحب سے فرمایا کہ آپ ہر روزصبح میرے مکان پر آکر مجھے قرآن شریف سنایا کریں۔ چنانچہ حافظ صاحب قریباً ایک ماہ قادیان میں رہے اور حضور ؑ کے مکان پر جا کر قرآنِ شریف سنایا کرتے۔
حضرت حافظ صوفی غلام محمد صادق صاحب سابق مبلغ ماریشس (وفات 18 اکتوبر1947ء) کی آواز میں ایک وجد آفریں رنگ پایا جاتا تھا۔ آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں بمع اپنی زوجہ کے حضورؑ کے ایک بالاخانہ میں سویا اور میں اور میری بیوی کمرے کے اندر ہی تھے اور حضورؑ اور حضرت اماں جانؓ اپنے بالا خانہ کے صحن میں تھے تو حضورؑ نے مجھے فرمایا کہ قرآن سناؤ ! سو میں نے کمرہ کے اندر ہی زور سے قرآن شریف پڑھا اور حضورؑ نے سُنا۔
حضرت مرزا نذیر حسین صاحبؓ آف لاہور بیان فرماتے ہیں: ’’جب حضورؑ کو دورانِ سَر کی شدید تکلیف ہوتی اور کسی طرح چین نہ آتا تو حضور ؑ فرماتے کہ قرآن سنایا جائے۔ حضورؑ قرآن سنتے جاتے اور حضورؑ کی تکلیف کم ہوتی جاتی۔اندرونِ خانہ جب حضورؑ کو دورانِ سر کی شدید تکلیف ہوتی تو حضورؑ قرآن سنانے کے لئے فرماتے۔ میں نے یاتو حضرت اماں جانؓکو ایسی حالت میں حضور کے پاس قرآن پڑھتے دیکھا ہے یا حضرت مصلح موعودؓ کو۔
حضرت مصلح موعودؓ نے قادیان میں ایک مجلس عرفان میں فرمایا: ’’مجھے کئی دفعہ خیال آیا ہے کہ ہماری مجلس میں بعض دفعہ گفتگو کی بجائے یہی ہو جایا کرے کہ کوئی شخص قرآن پڑھ دے یا کوئی شخص نظم سنا دے۔‘‘
حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ ایک دن میں کسی کام سے گھر سے نکلی اور واپسی پر ایک قاری کو قرآن کریم کی تلاوت کرتے سنا جو اتنی خوش الحانی سے تلاوت کر رہا تھا کہ میں سننے کیلئے کھڑی ہوگئی۔ جب گھر پہنچی تو حضور ؐنے دریافت فرمایا: عائشہ! اتنی دیر کہاں لگا دی؟ میں نے وجہ بتائی تو آنحضور ﷺ نے باہر جاکر دیکھا تو حضرت سالم مولیٰ ابی حذیفہؓ کو تلاوت کرتے پایا۔ اس پر آنحضور ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے میری امّت میں تجھ جیسے لوگ پیدا کئے ہیں۔
حضرت قاضی عبدالرحیم صاحبؓ اپنے والد حضرت قاضی ضیاء الدین صاحبؓ قاضی کوٹی کے حوالہ سے بیان فرماتے ہیں کہ انہوں نے ایک صبح مجھے بتایا کہ آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خاص طور پر اس امر پر زور دیا ہے کہ آنے والی تباہی میں اُن لوگوں کو مَیں دین و دنیا کے لحاظ سے سخت تباہی میں دیکھتا ہوں جو قرآن کریم سے وابستگی اور اس کی تلاوت کے التزام سے غافل ہیں۔ صرف وہی لوگ بچائے جائیں گے جو قرآنِ کریم سے وابستگی رکھتے ہوں گے، یہی اس مصیبت سے بچنے کا ذریعہ ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں