جو خدا کو ہوئے پیارے مرے پیارے ہیں وہی

جماعت احمدیہ برطانیہ کے ’’سیدنا طاہرؒ سووینئر‘‘ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے بارہ میں ذاتی یادوں کے حوالہ سے محترمہ صاحبزادی فائزہ لقمان صاحبہ کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضور رحمہ اللہ کو اپنی خلافت کے آغاز میں کسی نے خط میں لکھا کہ آپ کی والدہ بہت ہی قابل قدر خاتون تھیں جنہوں نے آپ کی ایسی تربیت فرمائی کہ خداتعالیٰ نے آپ کو اس مرتبہ پر فائز کیا۔ خط پڑھنے کے بعد حضورؒ فرمانے لگے میری والدہ کے پاس تو عام طور پر اتنا وقت ہی نہیں ہوتا تھا کہ ہمہ وقت میری تربیت پر توجہ دے سکیں کیونکہ وہ اپنے جلیل القدر شوہر اور جماعت کے کاموں میں ازحد مصروف رہا کرتی تھیںاور یہی کام ان کی تمام تر توجہ کا مرکز تھے۔ مگر بعض احسان انہوںنے مجھ پر چھوٹی عمر سے ہی ایسے کئے جنہوں نے آگے چل کر میری تمام زندگی میں راہنمائی کی۔ میری امی نماز کی عادت کو پختہ کرنے بہت کوشش کرتی تھیں اور اس معاملہ میں سختی کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی تھیں۔ خاص طور پر صبح کی نماز پر جبکہ میری نیند بہت گہری تھی اور اٹھنے میں دقت ہوتی تھی تو والدہ صاحبہ نے انتظام یہ کیا ہوا تھا کہ کسی شخص کو مقرر کردیتیں کہ وہ مجھ کو روزانہ وقت پر اٹھائے اور اگر میں نہ اٹھوں تو اسے اجازت تھی کہ وہ پانی انڈیل کر بھی اٹھادے اور اگر پھر بھی بیدار نہ ہوں تو گود میں اٹھا کر مسجد لے جائے۔
آپ نے بتایا میرے پاس بعض دفعہ دُھلے ہوئے کپڑے جو استعمال کے قابل ہوں،نہیں ہوتے تھے۔ کئی مرتبہ شلوار کے اوپر صرف اچکن پہن کر ہی سکول چلا گیا۔ لیکن ایک دفعہ شومئی قسمت سے PT کا دن تھا۔ استاد صاحب نے میری طبیعت کی خرابی کے عذر کے باوجود مجھے مجبور کیا کہ ورزش میں حصہ لوں۔ جب انہوں نے دیکھا کہ میں اچکن سمیت ورزش شروع کرچکا ہوں تو اصرار کیا کہ اچکن اتاروں۔ ایک طرف وہ کوشش کررہے تھے کہ اچکن اتارنے میں کامیاب ہوجائیں۔ دوسری طرف میری کوشش تھی کہ اچکن پہنے رکھوں۔ اسی کشمکش میں سامنے کے کچھ بٹن ٹوٹ گئے۔ یوں انہیں صحیح صورتحال کا اندازہ ہوا۔ اس پر انہوں نے اس وعدہ پر چھوڑ دیا کہ آئندہ اپنے کپڑوں کا دھیان رکھوں گا۔
آپ نے بتایا ایک دفعہ قادیان میں ایک کنوئیں کی تعمیر ہورہی تھی۔ میں چھوٹا تھا اور بہت دلچسپی سے مزدوروں کو اس کام میں حصہ لیتے دیکھتا جو کنوئیں میں ایک رسی سے لٹک کر اترتے ۔ اس کام میں مجھے بہت کشش محسوس ہوئی اور یہ خیال نہیں آیا کہ یہ تو بہت لمبی پریکٹس کے بعد اس طریقے پر عمل کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔ ایک دن وہاں تنہائی پاکر میں نے بھی یہی کوشش کی ۔ ایک تو مجھے تجربہ نہیں تھا دوسرے میری ٹانگیں اس قابل نہیں تھیں کہ دیوار تک پہنچ کر ٹِک سکتیں۔ اس وجہ سے میں رسی کو پکڑے ہوئے بری طرح سے گھسٹتا ہوا تیزی سے کنوئیں کی گہرائی میں اُتر گیا۔ ہاتھوں کی کھال مکمل طور پر رسی کی رگڑ لگنے سے اُتر گئی۔ کسی مزدور کی نظر پڑی تو اس کے بلانے پر سب نے مل کر مجھے کنوئیں سے نکالا۔ ہاتھوں میں شدید تکلیف تھی مگر میں نے گھر میں کسی کو نہیں بتایا اور ہاتھوں کو چھپائے ہوئے حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کے پاس پہنچا اور مرہم پٹی کروالی۔
حضور کی عادت تھی جب بھی فارغ ہوتے تو ایسے موضوعات پر ہم سے باتیں کرتے جن میں تربیت کا کوئی نہ کوئی پہلو موجود ہوتا۔ ایک دفعہ جبکہ میری عمر 6-7سال تھی آپ نے بہت دل میں اُترنے والے انداز میں بتانا شروع کیا کہ ماں اپنے بچوں کیلئے کیا کیا قربانیاں دیتی ہے۔ آپ نے سمجھایا کہ دیکھوبچے کے پیدا ہونے سے پہلے ہی ماں اس کیلئے قربانی کرنا شروع کردیتی ہے۔ اس کی پیدائش تک وہ تکلیف کے مختلف ادوار سے گزرتی ہے ۔ پھر بچے کی پیدائش پر اتنی تکلیف اٹھاتی ہے جیسے اپنی جان دے کر کوئی دوسری جان حاصل کرے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو کئی کئی سال راتوں کو نیند اس کیلئے قربان کرتی ہے۔ اپنے سب آرام ایک طرف چھوڑ کر بچے کی ہر ضرورت کو پورا کرتی ہے۔ اپنی ہر خواہش پر بچے کی خواہشات کو مقدم کرلیتی ہے۔ پھر ایک دَور آتا ہے کہ اس کی تربیت کیلئے اسے بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔
آپ کی طبیعت بہت شکرگزار تھی۔ بعض دفعہ ایسی باتوں پر شکر ادا کرتے جن کا شاید کسی عام آدمی کو خیال بھی نہ آئے۔ ایک دفعہ ہم کھانے کی میز پر بیٹھے ہوئے تھے ۔ ابا تھوڑی دیر کیلئے بالکل خاموش ہوگئے۔ پھر کہنے لگے ابھی میں اس بات پر شکر کررہا تھا کہ میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بے تکلف ماحول میں بیٹھ کر کھانا کھارہا ہوں اور میرے بچوں کو مجھ سے ہر قسم کی باتیں کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ جبکہ مجھے اپنے بچپن میں ایسے مواقع بہت کم ملتے تھے کیونکہ حضرت ابا جان جب تشریف لاتے تو امی پوری طرح بس ان پر ہی متوجہ رہتیں اور ہم بچوں کو زیادہ بات کرنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔
آپ کی تربیت کا ایک اَور بہت عجیب انداز تھا۔ جب آپ کہیں باہر سے تشریف لاتے تو پہلے دن وہ تحائف نہ دیتے جو آپ بچوں کیلئے لائے ہوتے بلکہ اگلے دن وہ چیزیں ہمیں ملا کرتیں۔ ایک دفعہ میں نے ابا سے آتے ہی پوچھ لیا آپ ہمارے لئے کیا لائے ہیں۔ آپ نے فرمایا میں تمہیں تحائف پہلے دن اس لئے نہیں دیتا کہ اصل خوشی کی بات تمہارے لئے یہ ہونی چاہیے کہ باپ اتنی دیر کے بعد گھر آیا ہے اور تم سے ملا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اصل اہمیت اور محبت، دینے والی ہستی کی ہونی چاہیے، اس مادی چیز کی نہیں جو وہ دیتا ہے۔ یہ میں اس لئے کرتا ہوں کہ جب بھی خداکی کوئی نعمت تمہیں ملے تو اس نعمت کی شکرگزاری تمہیں خدا کی محبت کی طرف لے جائے کیونکہ اصل دینے والا اور تمام نعمتوں کا مالک خدا ہی ہے۔
حضور بہت بہادر اور شجاع انسان تھے۔ پاکستان سے ہجرت کے وقت بعض لوگوں نے آپ کو مشورہ دیا کہ آپ پاکستان چھوڑتے ہوئے پگڑی وغیرہ نہ پہنیں کیونکہ اس سے انتظامیہ آپ کوواضح طور پر پہچان کر روکنے کی کوشش کرسکتی ہے۔ آپ نے اس مشورہ کو ردّ کردیا اور فرمایا کہ اگر میری قسمت میں پکڑا جانا ہے تو پھر اس صورت میں یہ پسند نہیں کرتا کہ جماعت پر تمسخر کرنے کا ایک بہانہ انہیں دیدیا جائے۔ آپ نے فرمایا میری ذات کی کوئی حیثیت نہیں مگر وہ جب بات کریں گے تو جماعت احمدیہ کے سربراہ کی حیثیت سے میرا نام لیاجائے گا اور کہا جائے گا کہ میں نے بزدلی سے اپنا حلیہ تبدیل کرکے باہر نکلنے کی کوشش کی ہے۔ میں پورے وقار کے ساتھ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے یہاں سے جانا چاہتا ہوں۔ اگر خدا کی مرضی اس کے علاوہ کچھ اَور ہے تو نہ میں اس سے گھبراتا ہوں او رنہ خوفزدہ ہوں۔
ایک دفعہ ابا نے زمینوں پر دعوت کا انتظام کیا ہوا تھا میرا بیٹا عثمان دواڑھائی سال کا تھا اور حضور کے ساتھ کھڑا ہوکرمچھلیاں پکڑنے کی کوشش کررہا تھا کہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور تالاب میں گر گیا۔ اس وقت سیکیورٹی والے بھی اردگرد موجود تھے اور دوسرے لوگ بھی موجود تھے۔ مگر کسی کو فوری طورپریہ جرأت نہیں ہوئی کہ چھلانگ لگاکر بچے کو نکال لے۔ مگر حضور نے بغیر ایک لمحہ ضائع کئے فوراً پانی میں چھلانگ لگادی اور بچے کو باہر نکال لائے۔
حضور ہمیشہ ہمارے دلوں میں بزرگوں کی محبت اور قدر پیدا کرنے کی کوشش فرمایا کرتے تھے۔ انگلستان اور امریکہ کے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے آپ مجھے اور میری بڑی بہن کو حضرت مولوی دین محمد صاحبؓ کے پاس ملوانے اور دعا کی غرض سے لے کر گئے۔وہ بہت بیمار اورکمزور تھے۔ ان کے کمرہ سے باہر آکر ہمیں فرمایا کہیں ان کی کمزوری دیکھ کر تم یہ خیال نہ کرنا کہ اب شاید ان کے وجود کا دنیا کوکوئی ایسا فائدہ نہیں ہے۔ یہ اس بستر پر لیٹ کر اپنی دعاؤں سے وہ کام کررہے ہیں جوہم جیسے صحتمند انسان اپنی تمام تر طاقتیں صَرف کرکے بھی نہیں کرسکتے۔
ایک دفعہ یورپ کے سفر کے دوران آپ نے ایک شخص سے بات شروع کی جو حسب معمول دعوت الی اللہ تک پہنچ گئی۔ آخرپر وہ کہنے لگا اگر آپ برا نہ منائیں تو ایک بات آپ سے پوچھوں۔ آپ تو بہت مہذب او رتعلیم یافتہ انسان نظر آتے ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ آپ کی بیوی اور بیٹیاں اس موجودہ ماڈرن زمانے کے ساتھ چلتی ہوئی نظر نہیں آتیں۔ حضور نے اسے جواب دیا کہ شاید ان برقعوں اورپردہ سے تم نے یہ اندازہ لگایا ہے، مگر بات اس کے برعکس ہے جیسے آپ سمجھے ہیں یعنی تہذیب نے انسان کو رفتہ رفتہ کپڑے پہننا سکھایا تھا کپڑے اُتارنا نہیں۔ آپ کی عورت دوبارہ اس جاہلیت کے دَور کی طرف چلی گئی ہے جب انسان بغیر کپڑوں کے شرم محسوس کئے بغیر پھرتا تھا۔
عام لوگوں کے برعکس حضور خوشیوں کو بانٹا کرتے تھے اور غموں کو اپنے تک محدود کرلیتے تھے۔ ہماری سب سے بڑی بہن جو پیدائش کے ایک ماہ بعد ہمارے ماموں کے ولیمہ والے دن وفات پاگئی تھی۔ امی چونکہ رات کی دعوت کی تیاری اور مہمانوں کی آمد کی وجہ سے مصروف تھیں ۔ صرف ابا ہی وہاں موجود تھے۔ ابا نے ہمیں بتایا کہ جب بچی کی وفات ہوئی تو میں نے سوچا کہ بچی کو تو واپس نہیں لایا جاسکتا اگرباہر جاکے یہ خبر میں نے سب کو بتادی تو گھر کی خوشی غم میں تبدیل ہوجائے گی۔ آپ سارا دن اکیلے کمرے میں اس کو لے کربیٹھے رہے۔ جب امی اندر آکر پوچھتیں کہ آج تویہ رو نہیں رہی کیونکہ یہ بچی اپنی شدید بیماری کی وجہ سے سارا دن بے چین رہتی تھی۔ آپ جواب دیتے ہاں آج یہ سکون سے ہے۔ اس طرح آپ جھوٹ کا سہارا لئے بغیر امی کو مطمئن کردیتے۔ جب تقریب خوش اسلوبی کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچ گئی تو پھر آپ نے اس حادثے کی اطلاع سب کو دی۔
آپ گھر کے ملازمین سے بھی غیرمعمولی حسن سلوک سے کام لیتے۔ اتنا خیال رکھتے کہ بعض دفعہ بچپن کی نادانی کی وجہ سے ہمیں ان سے ایک طرح کا مقابلے کا احساس ہونے لگتا اور امی سے ابا کے لئے شکوہ بھی کیا جاتا ۔ امی ہمارے شکوہ پر ہنستی بھی تھیں اور سمجھاتیں کہ دیکھو! ابا ان کا اس لئے زیادہ خیال کرتے ہیں کہ یہ مجبور لوگ ہیں ورنہ اپنے گھر چھوڑ کر دوسروں کے گھر میں رہنا کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔ تمہارا تو اپنا گھر ہے جو دل چاہتا ہے کرتی ہو مگر ان کو نجانے کس کس بات پر اور کتنی مرتبہ اپنے دل پر جبر کرنا پڑتا ہے۔ بعض بچوں کو اپنے گھر میں رکھا اور ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت بھی خود کی۔ اپنے حسن سلوک کی وجہ سے دلوں میں اپنی ایسی محبت قائم کردی کہ پھر وہ اپنے پرانے رشتوں کو بھول کر حضور سے ہی تمام عمر کے لئے وابستہ ہوگئے۔ ہرسال اپنی زمینوں پر جامعہ احمدیہ کے ایسے طالب علموں کی دعوت کا اہتمام کرتے جو باہر کے ملکوں سے حصول علم کیلئے اپنے گھر بار اور اپنے پیاروں سے دور رہنے پر پابند ہوتے ۔ اس دعوت میں آپ اس بات کا اہتمام کرتے کہ ان ملکوں کے روائتی کھانے بھی پکائے جائیں۔ ان علاقوں کی مختلف کھیلوں کے مقابلے بھی کرواتے اور خود بھی پوچھ پوچھ کر ان کھیلوں میں شامل ہوتے۔ ہر کھانا بھی ضرور چکھتے چاہے وہ کیسا ہی مختلف اور عجیب و غریب مزا رکھتا ۔ ہمیں یہ دیکھ کر بے اختیار ہنسی آجاتی تھی کہ ابا ان کے ساتھ مل کر کیسی عجیب و غریب کھیلوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ حصہ لے رہے ہیں بلکہ کچھ دیر کیلئے محسوس ہوتا کہ ان میں سے ہی ایک ہیں۔
حضورؒ خداتعالیٰ کے دین کی خاطر اپنی جان کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ 1974ء میں جب بعض احمدیوں کو گوجرانوالہ میں بہت دردناک طریقے سے شہید کیا گیا تو حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے فوری طور پر حضور کو بلوایا اور فرمایا کہ تم اسی وقت جاکر موقع پر حالات کا جائزہ لو اور جو ممکن کوشش ان مظلوم احمدیوں کیلئے کی جاسکتی ہے کرو۔ حضور نے واپس آکر امی کو بتایا کہ میں اسی وقت گوجرانوالہ جارہا ہوں۔ تو امی قدرتی طور پر بہت گھبراگئیں اور حضورؒ سے اس کا اظہار بھی کردیا۔ حضورؒ نے ناراضگی سے فرمایا کہ تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ خدا مجھے خدمت کا ایک موقع دے رہا ہے۔ اگر تم میری جان کے خوف سے گھبرارہی ہو تو مجھے یہ بات بالکل پسند نہیں، اگر خدا کی راہ میں میری جان جائے تو اس سے بہتر اَور کوئی بات نہیں ہوسکتی۔
ابا عہدیداران اور نظام سلسلہ کی بیحد عزت کرتے تھے اور ہم سے بھی یہی توقع رکھتے تھے۔امی کی وفات کے بعد لجنہ اماء اللہ انگلینڈ کی صدر مکرمہ باجی امۃ الرشید صاحبہ نے مجھے کہا کہ آپ ہمارے اجتماع کے موقع پر سٹیج پر میرے ساتھ بیٹھیں۔ میں نے حضور سے اجازت کیلئے پوچھا تو حضور نے یہ نہیں فرمایا کہ ہاں میری اجازت ہے۔ بلکہ یہ کہا کہ ہاں اگر تمہاری صدر تمہیں کہہ رہی ہیں تو ضرور بیٹھو۔ پھر جب آپ عورتوں کے پنڈال میں تشریف لائے تو باجی امۃالرشید نے دوبارہ مجھے کہا کہ آپ حضورؒکے ساتھ بیٹھ جائیں۔ میں نے پھر ابا سے پوچھا تو آپ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا اگر تمہاری صدر صاحبہ کا حکم ہے تو میرے ساتھ بیٹھ جاؤ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں