جھوٹی نبوت کی ایک دعویدار سجاح بنت حارث

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین مارچ و اپریل2023ء)

(کلیم احمد کِم)

عرب کا قبیلہ بنو تمیم اپنی سخاوت اور شجاعت میں مشہور اور فصاحت و بلاغت میں منفرد تھا۔ اعلیٰ پائے کے شعراء نے اس قبیلہ میں جنم لیا۔ یہ قبیلہ مدینہ کے اطراف سے لے کر خلیج فارس (ایران) تک پھیلا ہوا تھا جبکہ شمال میں عراق سے فرات تک آباد تھا۔ اس قبیلہ کی کئی شاخیں تھیں مثلاً بنوتغلب، بنوعامر، بنویربوع، بنودام اور بنوحنظلہ۔ ایک شاخ بنو تمیم میں ایک بچی نے جنم لیا جس کا نام اُس کے باپ نے سجاح بنت حارث رکھا۔ ماحول کے مطابق اس بچی کی تعلیم و تربیت ہوئی۔ یہ بہت خوش گفتار اور ذہین تھی۔ شاعری کا ذوق رکھتی تھی۔چاشنی والی گفتگو کرنے میں اس کو مہارت حاصل تھی۔ قیادت کا بھی فن آتا تھا۔ عام آدمی پر تو اپنی خوش مزاجی اور گفتگو سے سحر کر دیتی تھی۔کہانت کا بھی دعویٰ تھا۔من حیث المجموع ایک ذہین اورشاطر خاتون تھی۔ وہ ایک راسخ العقیدہ عیسائی تھی۔
یمن پر کسریٰ کی حکومت تھی لیکن جب وہاں کا حاکم بازان مشرف بہ اسلام ہوگیا تو اہل فارس کے ہاتھ سے یہ علاقہ نکل گیا۔ اس پر کسریٰ نے مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لیے ایسے مہروں کی تلاش کی جو مسلمانوں کو آپس میں لڑوا سکیں۔ اس مقصد کے لیے سجاح اچھا آلہ کارتھی۔یہ اُن کے بہلاوے میں آگئی اور عرب پر حکمرانی کے خواب دیکھنے لگی۔ پھر اس نے اپنی دلفریب گفتگو، فصاحت و بلاغت اورذہانت کی وجہ سے اپنے علاقے کے قبائل کو سنہری خواب دکھاکر اپنا ہم نوابنا لیا اور پھر ان قبائل کے ہمراہ عراق میں اپنے ننھیال کے قبیلے بنو تغلب میں گئی۔ یہ وہ دَور تھا جب نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد متعدد قبائل نے ادائیگیٔ زکوٰۃ سے انکار کردیا تھا۔ بنوتمیم کے قبائل میں سے ایک گروہ زکوٰۃ کی ادائیگی اور خلیفہ کی اطاعت پر تیار تھا جبکہ ایک گروہ انکاری تھا۔ تیسرا گروہ کوئی فیصلہ نہ کرپایا تھا کہ بنو تمیم آپس میں ہی لڑ پڑے اور شدید قتل و غارت ہوئی۔ سجاح نے سمجھا تھا کہ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد مسلمانوں کا اتحاد ایک مشکل امر ہے چنانچہ اس نے لوگوں کو بہلاپھسلا کر ایک لشکر تیار کیا تاکہ وہ مدینہ پر حملہ آور ہو۔ پھر وہ اس ارادے کے ساتھ چلی کہ بنوتمیم میں پہنچ کر اپنی نبوّت کا اعلان کر کے ان کو اپنے ساتھ ملالے۔ اس کے لوگ یہ کہتے تھے کہ (نعوذباللہ) ہماری نبیّہ قریش کے نبی سے بہتر ہے کیونکہ وہ تو وفات پاگئے ہیں جبکہ سجاح زندہ ہے۔ بہرحال سجاح پہلے بنویربوع کے ہاں پہنچی اور مالک بن نویرہ کے ساتھ ملاقات کی۔
مالک بن نویرہ ایک با اثرانسان تھا اور اعلیٰ پائے کا شاعر تھا۔ شجاعت میں بھی کم نہ تھا۔ شیریں سخن،لمبی لمبی زلفیں، خوبصورت، ہنس مکھ اور مجالس کے آداب بھی خوب جانتا تھا۔جو بھی دیکھتا متأثر ہوئے بغیر نہ رہتا۔سجاح نے اس کو اپنا منصوبہ بتایاکہ وہ مدینہ پر حملہ کرنا چاہتی ہے تو مالک بن نویرہ نے کہا کہ ہمارے اپنے قبائل میں ہی بہت نا اتفاقی ہے۔ پہلے ان دشمنوں کے ساتھ نپٹ لیں بعد میں حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ جنگ کریں گے۔ پھر سجاح نے دیگر قبائل کو بھی دعوت دی تھی لیکن و کیع کے علاوہ کسی نے ساتھ نہ دیا۔چنانچہ سجاح نے مالک بن نویرہ اور وکیع کے ساتھ مل کر دوسرے قبیلوں پر چڑھائی کر دی۔ گھمسان کی لڑائی ہوئی اور بہت جانی نقصان ہوا۔ جلد ہی مالک بن نویرہ اور وکیع نے جانچ لیا کہ سجاح کا ساتھ دینا شر کے سوا کچھ نہیں۔ تب اُن دونوں نے دوسرے قبائل کے ساتھ مصالحت کرلی۔ لیکن اب سجاح کی حالت نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن والی ہو گئی۔ تب اُس نے دوبارہ مدینہ پر چڑھائی کا ارادہ کیا اور روانہ ہوگئی۔
سجاح کا لشکر مدینہ کی طرف رواں دواں تھا تو راستے میں اوس بن خزیمہ کے ساتھ اس کی لڑائی ہوگئی جس میں سجاح کو شکست ہوئی۔ اوس بن خزیمہ نے سجاح کو اس شرط پر جانے دیا کہ وہ مدینہ کی طرف رُخ بھی نہ کرے گی۔
پھر سجاح نے یمامہ کا ارادہ کیا تو اُس کے سرداروں نے کہا کہ اہل یمامہ اپنی شان و شوکت اور تعداد میں بہت بڑھے ہوئے ہیں۔ نیز مسیلمہ بہت طاقتور ہوچکا ہے۔ اس پر سجاح کہنے لگی:

علیکم بالیمامۃ، ودفوا دفیف الحمامۃ، فانّھا غزوۃ صرامۃ، لایلحقکم بعدھا ندامۃ

(ترجمہ:یمامہ چلو۔کبوتری کی طرح تیزی کے ساتھ ان پر جھپٹو۔ وہاں ایک زبردست جنگ ہو گی جس کے بعد تمہیں کبھی ندامت نہ اٹھانا پڑے گی۔)

سجاح کے سردار اُس کی اس قسم کی گفتگو کو وحی سمجھتے تھے چنانچہ ساتھ ہولیے۔سجاح لشکر لے کر یمامہ پہنچی اور ایک چشمے پر پڑاؤ ڈالا۔مسیلمہ کو اطلاع ملی تو وہ تھوڑا فکرمند ہوا کیونکہ اس کو اطلاع تھی کہ مسلمان کسی بھی وقت حملہ کرسکتے ہیں۔چنانچہ اُس نے اپنا قاصد تحائف دے کر سجاح کے پاس بھیجا اور کہا کہ جان کی امان ہو تو ہم مل کر ایک دوسرے کے مطالبات پر غور کرتے ہیں۔ مسیلمہ نے سجاح کے لیے خاص خیمہ لگوایا جس میں عود اور لوبان جلایا گیا۔ دونوں نے وہاں بیٹھ کر ایک دوسرے کے دعووں کو سنا۔ پہلے مسیلمہ نے اپنی گھڑی ہوئی وحی کا بیان کیا اور اپنی طلاقت لسانی کی وجہ سے سجاح کے دل پر گرفت مضبوط کرلی۔مسیلمہ نے کہا عرب کی آدھی زمین ہماری ہے اور آدھی قریش کی لیکن جب ہمارا اس پر قبضہ ہو جائے گا تو قریش کی زمین تمہاری ہوگی۔ پھر مسیلمہ نے اپنے حُسنِ بیا ن اور اپنی خودساختہ وحی سے سجاح کو متاثر کیا ۔ پھر مسیلمہ نے ایک ترپ کا پتہ پھینکا اور تجویز دی کہ نبی اور نبیّہ دونوں مل جائیں اور دونوں نبوّتیں یکجا کردی جائیں تو ہم اپنے دشمنوں پر غالب رہیں گے۔ سجاح نے بھی آمادگی ظاہر کی۔ چنانچہ دونوں نے شادی کرلی۔ پھر جب سجاح اپنے سرداروں کے پاس آئی اور بتایا کہ اس نے مسیلمہ کے ساتھ شادی کرلی ہے تو سرداروں نے حق مہر کا پوچھا۔ اس پر سجاح واپس گئی تومسیلمہ نے حق مہر کے طور پر فجر اور عشاء کی نمازیں معاف کردیں اور یمامہ میں پیدا ہونے والا ایک سال کا غلّہ اُس کے نام کرتے ہوئے نصف غلّے کی ادائیگی بھی اسی وقت کردی۔ پھر سجاح بنوتغلب میں آگئی۔ جب اسلامی لشکر نے حضرت خالد بن ولید کی نگرانی میں شدید لڑائی کے بعد مسیلمہ کا کام تمام کیا تو سجاح عراق (الجزیرہ) چلی گئی اور وہاں جاکر اسلام قبول کرلیا۔ بعدازاں حضرت معاویہ کے زمانہ میں جب کوفہ کے شیعوں کو وہاں سے نکالا گیا اور بنوتمیم کے لوگوں کو الجزیرہ سے کوفہ منتقل کر دیا گیا تو سجاح اپنے قبیلہ کے ہمراہ کوفہ آگئی۔ حضرت معاویہ کے زمانے میں ہی اُس نے مسلمان ہونے کی حالت میں وفات پائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں