لندن میں ایک صدی قبل جماعت احمدیہ کی طرف سے دفاعِ ناموسِ رسالت کی عظیم مہم

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین مارچ و اپریل2023ء)
تاریخ احمدیت سے ایک ورق

لندن میں ایک صدی قبل دو اخبارات کے شرمناک خاکے
اور جماعت احمدیہ کی طرف سے دفاعِ ناموسِ رسالت کی عظیم مہم

(شیخ فضل عمر)

حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی ناموس کی حفاظت کسی انسان کی محتاج نہیں۔ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ جب بھی دنیا کے کسی بھی حصے میں آنحضرتﷺ کی شان کے منافی کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے تو جماعت احمدیہ اپنے امام کی قیادت میں ہرسطح پر دشمنِ اسلام کے اس خبیثانہ فعل پر اپنے تکلیف دہ جذبات کا اظہار کرتے ہوئے بہترین انداز میں اپنے آقا و مولا محمد رسول اللہ ﷺ کے پاکیزہ اخلاق اور قوّت قدسیہ کو دنیا کے سامنے پیش کرتی ہے۔ آنحضورﷺ کے دفاع میں گزشتہ ڈیڑھ ہزار سال میں جو طاقتور ترین آواز بلند ہوئی وہ سرورکائناتؐ کے عاشقِ صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تھی۔ آپؑ کی اپنے آقاﷺ سے بے پایاں محبت ہی تھی جس نے آپؑ کو مہدی آخرالزماں اور مسیح موعود جیسے روحانی مناصب پر فائز کیا۔ پس اس امر میں کوئی شک نہیں کہ جماعت احمدیہ کا خمیر ہی محبتِ الٰہی اور عشقِ رسول ﷺ سے اٹھایا گیا ہے اور اسی محبت اور عشق کے نتیجے میں جماعت احمدیہ کی طرف سے پُرامن مگر نہایت پُراثر ردّعمل کو نیک دل انسانوں اور مہذّب حلقوں نے ہمیشہ سراہا ہے۔

حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍دسمبر 2006ء میں معاندینِ اسلام کو متنبّہ کرتے ہوئے اور احمدیوں کو اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ بجائے اسلام اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پرالزام تراشی کرنے اور اللہ تعالیٰ پر بدظنی کرنے کے اور نعوذ باللہ اس رحمن خدا کو ظالم قرار دینے کے، اس خدا کی پناہ میں آجاؤ جو ماں باپ سے بھی زیادہ اپنے بندوں پر مہربان ہوتا ہے۔ وہ اپنے بندے کو آگ سے بچانے کے لیے دوڑ کر آتا ہے بشرطیکہ بندہ بھی اس کی طرف کم از کم تیز چل کر آنے کی کوشش تو کرے۔ سنو اس زمانے کے امام اور اللہ تعالیٰ کے اس نبی نے کس پیار اور ہمدردی سے اپنے مبعوث ہونے کے مقصد سے آگاہ کیا۔ آپؑ فرماتے ہیں:’’وہ کام جس کے لیے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہو گئی ہے اس کو دُور کرکے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں اور سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کرکے صلح کی بنیاد ڈالوں اور وہ دینی سچائیاں جو دنیا کی آنکھ سے مخفی ہو گئی ہیں ان کو ظاہر کردوں اور وہ روحانیت جو نفسانی تاریکیوں کے نیچے دب گئی ہے اس کا نمونہ دکھاؤں۔‘‘ (لیکچرلاہور۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ180)
پس آج ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے علم و عرفان اور دلائل کے بےبہا خزانے دے کر اس کام کے لیے کھڑا کیا ہے۔ ہر احمدی جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سچا عہد بیعت ہے اس کا یہ فرض بنتا ہے کہ اپنے اس عہد بیعت کو نبھاتے ہوئے بھی اور اس جذبہ ہمدردی کے تحت بھی جس کے اظہار کا ہمیں اس طرح حکم ہے کہ جو چیز اپنے لیے پسند کرتے ہو، اپنے بھائی کے لیے بھی پسند کرو، اس پیغام کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمارے سپرد فرمایا ہے اس قوم کے ہر فرد تک پہنچائیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے اور اس کے عملی نمونے ہم آج کل دیکھ بھی رہے ہیں۔… ہر احمدی کا کام ہے کہ اٹھے اور خدا تعالیٰ اور اسلام کا صحیح تصور پیش کرکے ان لوگوں کو اس بھٹکی ہوئی راہ سے واپس لائے اور اکثریت کے دل میں خدا تعالیٰ اور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم اور خدا تعالیٰ کے مقدس بندوں کے لیے محبت اور اخلاص کے جذبات پیدا کردے تاکہ تمام انسانیت جنگوں کی بجائے سچائی پر قائم ہوتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے والی بنے اور روحانیت میں ترقی ہو اور اگر ایسا ہو جائے گا تو پھر یقینا خدا پر الزام لگانے والے اس کے آگے جھکنے والے بن جائیں گے۔ ان شاء اللہ۔‘‘

اخبار ’’سٹار‘‘ لندن کا شرمناک خاکہ

یورپ میں آنحضورﷺ کی عصمت پر حملے کا ایک واقعہ قریباً ایک صدی قبل یعنی ۸ ؍اگست ۱۹۲۵ء کو اُس وقت پیش آیا جب لندن کے ایک اخبار ’’ سٹار‘‘ نے رسول کریم ﷺ کی شان میں نہایت توہین آمیز اور شرمناک حرکت کی اور ایک نہایت دل آزار کارٹون شائع کرکے تمام دنیا کے کروڑوں مسلمانوں کے قلوب مجروح کر دیے۔ کارٹون کا عنوان ’’ مشہور تاریخی مشاہیر کی تصاویر‘‘ رکھا گیا تھا۔ کارٹون میں انگلستان کے مشہور کھلاڑی ہابنر (Hobner) کا دراز قد بت بنا کر اس کے ہاتھ میں بَلاّ دکھایا گیا اور یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ مختلف ممالک کے موجودہ اور گزشتہ مشاہیر بھی اسی کھلاڑی کی شہرت اور کمال پر حیران ہورہے ہیں۔ اس کے اردگرداُن کی چھوٹی چھوٹی اور بھونڈی تصاویر بنائی گئیں جو حیرت اور استعجاب سے اس کے منہ کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ اور وہ اُن سے تِگنا لمبا آسمان کی طرف منہ اُٹھائے کھڑا ہے۔ ان تصاویر میں سے اس کے دائیں طرف چیپلن (Chaplin) امریکہ کا مشہور ایکٹر اور حضرت آدم علیہ السلام جبکہ بائیں طرف حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ، کولمبس اور لائیڈ جارج دکھائے گئے ہیں ۔ اگرچہ ان سب تصاویر کی ہیئت نہایت مکروہ بنائی گئی ہے لیکن جن کے نیچے آدمؑ اور محمدؐ لکھا ہے ان پر خاص ’’نظر عنایت‘‘ کی گئی ہے۔ حضرت آد م علیہ السلام کی تصویر بالکل ننگ دھڑنگ اور (نعوذباللہ) لنگور کی سی بنائی گئی ہے۔ اور رسول کریم ﷺ کی کمر میں لمبی چوڑی تلوار لٹکائی گئی ہے۔ اس حرکت سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کی ان مقدّس ترین ہستیوں کی شرمناک توہین دیدہ دانستہ کی گئی ہے۔ اس نہایت اندوہناک واقعہ کے متعلق تمام مسلمانوں کے جذبات اور احساسات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے جماعت احمدیہ کے مبلغ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب دردؔ نے نہایت زور کے ساتھ صدائے احتجاج بلند کی اور برطانوی ہوم سیکرٹری کو حسبِ ذیل تار بھیجا:
جناب ِوالا! میں سرزمین انگلستان کی مسلم آبادی کے ایک بڑے حصہ کا امام ہونے کی حیثیت سے نہایت ضروری سمجھتا ہوں کہ اُن کی طرف سے اور اُن سب مصری،ہندوستانی اور افریقن مسلمانوں کی طرف سے جو ’’سٹار‘‘ اخبار کے نفرت و تحقیر پھیلانے والے کارٹون کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے لیے میرے پاس پہنچے، آپ پر اُ ن کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے اس خطرناک نفرت و حقارت اور شدید صدمہ کا اظہار کروں جو اخبار مذکوراسٹار ۱۸ ؍اگست ۱۹۲۵ء کی اشاعت کے ایک کارٹون نے مسلمانوں کو پہنچایا… لاریب یہ ایک نہایت ہی کمینی حرکت ہے۔ مجھے اس بات کی ضرورت نہیں کہ میں آپ کی توجہ اس طوفان کی طرف کرائوں جو اس کارٹون پر رنج وملال کے اظہار کے لیے ہندوستان اور دیگر بلادِ اسلامیہ میں پیدا ہوگا کیونکہ یہ امر خود ہی آپ پر منکشف ہے۔ مزید یہ کہ اس طرح احساسات کی تحقیر کرنا فتنۂ خوابیدہ کو جگانا ہے۔ بنا بریں بڑے زور کے ساتھ اس بے حرمتی اور تذلیل کے خلاف، جو نہایت ہی کمینہ پن کے ساتھ ہمارے مقدس آقا او رخدا کے نبی ﷺ کے متعلق اس کارٹون کے ذریعہ ظاہر کی گئی ہے، مَیں صدائے احتجاج بلند کرتا ہوں اور نہایت ہی ادب و احترام کے ساتھ استدعا کرتا ہوں کہ عزت مآب اپنی فوری اور سرگرم توجہ اس اہم معاملہ کی طرف منعطف فرمائیں اور اس ناشائستہ حرکت کے ارتکاب کنندوں کے خلاف قانون کا پورا پورا استعمال کریں۔ تا دنیا کو معلوم ہوجائے کہ مملکت ِبرطانیہ اپنی روایتی غیر جانبداری پر فخر کرنے کا واقعی حق رکھتی ہے۔
عبدالرحیم دردؔ امام مسجد لندن
(اخبار الفضل ۲۶ ؍ستمبر ۱۹۲۵ء)

حضرت مولانا عبدالرحیم دردؓ

اُس دَور میں شرافت بہت حد تک موجود تھی۔ چنانچہ حضرت مولانا عبدالرحیم دردؔ صاحب کے اس زبردست احتجاج کا لندن کے بااثر اخبارات نے مؤثر رنگ میں اپنے صفحات میں ذکر کیا۔ حضرت مولانا دردؔ صاحب نے اس المناک واقعہ کی طرف گورنمنٹ ہند کو بھی توجہ دلائی کہ وہ سرکاری طور پر اپنی مسلمان رعایا کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ملک معظم کی حکومت کے نوٹس میں یہ بات لائے۔ چنانچہ اس احتجاج کا ردِّ عمل یہ ہوا کہ روزنامہ ’’ہیرالڈ‘‘ لندن نے یکم ستمبر ۱۹۲۵ء کی اشاعت میں لکھا کہ کارٹون سے مسلمانوں کے احساسات مجروح کیے گئے ہیں۔ اس کے خلاف قانونی کارروائی ضرور ہونی چاہیے۔ مصر کے اخبار ’’الاہرام‘‘ کے نمائندہ مقیم لندن نے حضرت مولانا صاحب کی اس کوشش اور سعیٔ بلیغ پر علماء ازہر کو مراسلہ بھجوا کر خاص توجہ دلائی تو الاہرام نے اپنی اشاعت ۴؍ستمبر ۱۹۲۵ء میں حضرت دردؔ صاحب کا مراسلہ بنام وزیر داخلہ انگلستان اس نوٹ کے ساتھ شائع کیا:
اہرام کی خاص تاروں میں کل ایک تار ہم نے اہرام کے نامہ نگار کی جو لندن میں مقیم ہے شائع کی تھی جس میں اس احتجاج کا ذکر کیاتھا جو رئیس الاحمدیہ لندن نے برطانیہ کے وزیر داخلہ کو انگریزی اخبار سٹار کے اس مزاحیہ کارٹون کے متعلق بھیجا ہے جس میں بعض انبیاء ؑ اور بڑے لوگوں کے فوٹو ہیں۔
اخبار الاہرام نے احتجاج کا مفصّل اور مکمل عربی ترجمہ دیا اور علماء ازہر کی درخواست بنام سلطان مصر پیش کی کہ حضرت ملک معظم نے مدینۃ الرسول ﷺ کی نسبت سلطان ابن سعود سے دریافت حالات کا جو اہتمام کیا اس کا سب مسلمانوں پر خصوصاً بہت اچھا اثر ہوا جس کے لیے آج ہم حضور والا کی خدمت میں مخلصانہ شکریہ پیش کرتے ہوئے آپ سے رسول کریم ﷺ کی ذات والا صفات کی اس بے ادبی کے دفاع اور مسلمانوں کی طرف سے اخبار ’سٹار‘ کی اس بے شرمی پر سخت ناراضگی کی نیابت کرنے کی امید رکھتے ہیں۔… نیز یہ بھی کہ آپ مسلمانوں کی طرف سے مطالبہ کریں گے کہ اس قسم کے اخبار والے ان حدود و آداب کو ملحوظ رکھیں جو اللہ کے رسولوں کے لیے مقرر ہیں اور جن کے مقام جلیل پر ہم اپنی جانیں اور اموال قربان اور فدا کرنے لیے تیار ہیں تاکہ وہ مسلمانوں کے احساسات کو پامال نہ کریں اور اُن کے جذبات اس قسم کی باتوں سے مشتعل نہ کریں جن کے نتائج کبھی اچھے نہیں نکل سکتے۔
(درخواست علماء ازہر بنام سلطان ابن سعود ۱۵؍ صفر ۱۳۴۴ھ بمطابق ۳ ؍ستمبر ۱۹۲۵ء)
دستخط کنندگان علماءِ ازہر میں : عبد المجید اللبنان، محمد السید ابو شوشہ، احمد مرشدی، احمد کامل، محمد سلامہ، یوسف حجازی، عبدالجلیل عیسیٰ، محمد یسین الجندی، محمد الغربی رزق، علی تقیر، سعید حسن الجیزادی، محمد مخلوق عیسیٰ، محمدشمس الدین احمد، محمد کمال القاد قجی، بعوض السخاوی، محمد احمد العددی، طٰہٰ ابراہیم سلطان، محمود نورالدین، عبدالفتاح اطلادی، علی احمد صبرہ، اسماعیل محمد سالم، طہ البیانی، محمد الجبیری شامل تھے۔
(الفضل ۲۹ ؍ستمبر۱۹۲۵ء)
اخبار ’’ سٹار‘‘ کے ایڈیٹر نے معاندانہ ردّعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے جو معذرتی خط حضرت مولانا عبدالرحیم دردؔ صاحب کے نام تحریر کیا اُس میں لکھا:
’’ہوم سیکرٹری نے آپ کی اس َچٹھی کی ایک نقل مجھے بھیجی ہے جو آپ نے ۲۶؍اگست کو ۸ ؍اگست ۱۹۲۵ء کے اخبار سٹار میں چھپنے والے ایک کارٹون کے بارے میں اُن کو لکھی۔ اس کے متعلق مجھے یہ کہنے کی اجازت دیں کہ میں ایک لمحہ کے لیے بھی اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتا کہ گورنمنٹ کو اس معاملے میں دخل دینے کا کوئی حق ہے۔ دوسری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر ہم کو یہ معلوم ہوتا کہ اس کارٹون میں محمدؐ کی تصویر کا شمول بعض اشخاص کے مذہبی جذبات کو صدمہ پہنچانے والا ہوگا تو ہم مطلقاً اِسے اخبار میں طبع نہ ہونے دیتے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اِس کارٹون کے ذریعے مسلمانوں کی دِل آزاری مقصود نہ تھی۔ میں افسوس کرتا ہوں کہ ہم نے آپ کے ہم مذہب افراد کے جذبات کو مجروح کیا۔‘‘
حضرت مولانا عبدالرحیم دردؔصاحب لکھتے ہیں کہ یہ معذرت نامہ بالکل ناکافی ہے۔ اِس میں وہی رعونت پائی جاتی ہے جو یورپ کے اس قسم کے اخبار نویسوں کو مسلمانوں کے متعلق صحیح علم اور واقفیت حاصل کرنے میں مانع ہے اور جس کی وجہ سے وہ نہ صرف مسلمانوں کی دِل آزاری کر کے اُن میں تنفر اور غصہ کے جذبات بڑھارہے ہیں بلکہ اپنی بداخلاقی اور بدتہذیبی کا بھی ثبوت دیتے رہتے ہیں۔
(الفضل ۲۹ ؍ستمبر ۱۹۲۵ء)
مولانا محمد علی جوہر اخبار ’’سٹار‘‘ کی اِس شرمناک حرکت کے خلاف لکھتے ہیں:
’’انجمن احمدیہ لندن نے ملکِ معظم کے ہوم سیکرٹری کی توجہ اِس کارٹون کی جانب منعطف کی ہے اور درخواست کی ہے کہ اخبار مذکور کی اِس مذموم اور خلاف انسانیت حرکت کے خلاف قانونی کارروائی جلد سے جلد کی جائے۔ انجمن مذکورہ نے اپنی عرض د اشت میں یہ بھی ظاہر کردیا ہے کہ ہندوستان اور دیگر ممالک اِسلامی میں اس کارٹون کے پہنچنے پر نفرت و غصہ کا ایک طوفان برپا ہوجائے گا۔‘‘
( اخبار ’ہمدرد‘ ۱۵؍ستمبر ۱۹۲۵ء)
رسالہ ’’ہمدم‘‘ یوپی ۱۷؍ستمبر ۱۹۲۵ء کو اپنے ادارتی نوٹ میں اس حد درجہ افسوس ناک واقعہ کے ذکر کے بعد لکھتا ہے:’’ ہمیں یہ معلوم کرکے اطمینان ہوا ہے کہ احمدیہ مشن انگلستان کے مہتمم اور احمدیہ مسجد لندن کے پیش اِمام مسٹر اے آر دردؔ ایم اے نے اخبار سٹار کی اس گستاخی پر بذریعہ ایک عرضداشت کے ہوم سیکرٹری کو توجہ دلائی ہے اور اُس کے خلاف قانونی کارروائی کی ضرورت جتائی ہے۔‘‘
اخبار ’’زمیندار‘‘ ۱۹؍ستمبر ۱۹۲۵ء نے اخبار سٹار کے خلاف ایک پُر زور مضمون میں لکھا کہ مسلمانوں کو مولوی عبدالرحیم دردؔ ایم اے امام مسجد احمدیہ پٹنی کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اُنہوں نے فی الفور اِس شرمناک کارٹون کے خلاف نہایت شدت کے ساتھ صدائے احتجاج بلند کی اور حکومت برطانیہ کے ہوم سیکرٹری کے نام ایک پُر زور مراسلہ لکھا جس میں اُن جذباتِ غیظ وغضب کی پوری ترجمانی کی جو اس کارٹون سے مسلمانان عالم کے دلوں میں قیامت برپا کر رہے ہیں۔
اخبار ’’سیاست‘‘۲۳؍ستمبر ۱۹۲۵ء کی اشاعت میں لکھتا ہے کہ ہمیں یہ معلوم کرکے اطمینان ہوا ہے کہ احمدیہ مشن انگلستان کے مہتمم اور احمدیہ مسجد لندن کے پیش اِمام مسٹر اے ۔ آر ۔ دردؔ نے اخبار اسٹار کی اِس گستاخی پر بذریعہ ایک عرضداشت کے ہوم سیکرٹری کو توجہ دلائی ہے اور اس کے خلاف قانونی کارروائی کی ضرورت جتائی ہے۔ ہم اپنے معاصر کی پُر زور تائید کرتے ہیں۔
(الفضل یکم اکتوبر ۱۹۲۵ء)
حضرت مولانا صاحب کے فوری احتجاج پرہندوستان کے بڑے بڑے مسلمان اخبارات نے خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا۔ مثلاً ایک اخبار نے لکھا:
’’لندن کے مکتوب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اِس کارٹون نے مسلمانوں کو آتش زیر پاکررکھا ہے۔ چنانچہ وہاں کے ایک امام مسجد مولوی اے ۔ آر۔ دردؔ۔ ایم اے نے … وزیر داخلہ کے پاس اخبار کی اس نازیبا حرکت کے خلاف ایک احتجاجی مکتوب روانہ کیا ہے اور درخواست کی ہے کہ اخبار کے خلاف قانونی مشینری کو حرکت میں لایا جائے ۔اگرچہ احتجاجی مکتوب کے الفاظ اِس قدر پُر زور نہیں جیسا کہ ہونے چاہیے تھے تاہم مولوی اے۔ آر۔ دردؔ صاحب کا یہ فعل مسلمانان عالم کی تائید کا مستحق ہے۔‘‘
(اخبار ’’تنظیم‘‘ امرتسر ۲۵ ؍ستمبر ۱۹۲۵ء)
اسی اخبار نے ۲۵ ؍ستمبر ۱۹۲۵ء کو لکھا:’’ ہم حکومت برطانیہ کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ اگر اُس نے اپنے سر پھرے اخبار نویسوں کی ڈوریں ڈھیلی چھوڑ دیں اور انہوں نے نوٹس نہ لینے کی کوتاہی کا ثبوت دیا تو مسلمانان عالم کے دلوں میں اس کے خلاف غیظ وغضب بھڑک جائے گا جو اُس کی سیاسیات کے لیے بہت مہلک ثابت ہوگا۔‘‘
معاصر تنظیم نے اپنے احتجاجی الفاظ کو صرف اپنے اخبار میں شائع کرنے کو ہی کافی سمجھا اور ہوم سیکرٹری گورنمنٹ برطانیہ تک پہنچانے کی کوئی فکر نہیں کی۔ اگر وہ ایسا کرتا تو حکومت برطانیہ کو کم سے کم اُس کی شدّت اور زور کا بھی پتہ چل جاتا۔
(اخبار الفضل ۳ ؍ اکتوبر۱۹۲۵ء)
سٹار کے کارٹون کے خلاف ’’الجمعیۃ دہلی‘‘ کے ایڈیٹر جناب مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے بھی احتجاج کیا اور حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب دردؔ کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔


اخبار ڈیلی ایکسپریس میں ایک توہین آمیز خاکہ

اخبار سٹار نے بیہودہ کارٹون شائع کر کے تمام دنیا کے مسلمانوں کے قلوب پر جو زخم لگایا تھا وہ ابھی تازہ ہی تھا کہ لندن کے اخبارڈیلی ایکسپریس مؤرخہ ۳؍ستمبر ۱۹۲۵ء نے اپنی شیطنت سے مسلمانوں کے زخم خوردہ دلوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔
اخبار مذکور نے ایک بند ر کی تصویر شائع کی جس کا نام اللہ رکھا۔ ایسے الفاظ جنھیں مسلمان نہایت مقدس سمجھتے ہیں ان سے اَور چیزوں کو نامزد کرنا حد درجہ کی بےشرمی اور بےوقوفی ہے اور اس کا مقصد جان بوجھ کرمسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کر کے اُن میں غصہ اور رنج کے جذبات پیدا کرنا ہے۔
اِس خبر پر الفضل قادیان نے لندن کے اخبارات کو سخت تنبیہ کی کہ وہ ایسی شرمناک روش کو جس قدر جلد ہوسکے ترک کردیں۔
(الفضل ۶ ؍اکتوبر ۱۹۲۵ء)
۹ ؍ستمبر ۱۹۲۵ء کو اخبار سٹار نے اپنے کارٹون کے متعلق حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب دردؔ سے اظہار افسوس کرتے ہوئے لکھا :
’’ مجھے یہ معلوم کرکے بے حد افسوس ہواہے کہ حضرت محمد ﷺ کی تصاویر سٹار کے حالیہ ایک پرچہ میں چھپ جانے کے باعث مسلمانوں کو سخت صدمہ پہنچا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سٹار اپنے قارئین میں سے جن میں ایک حصہ کثیر مسلمانوں کا بھی ہے کسی کے مذہبی جذبات پر نشتر زنی نہیں کرنا چاہتا۔
اِس خاکہ کا منشا صرف یہ تھا کہ وہ مشہور شخصیتوں کو تصاویر میں دکھائے نہ یہ کہ پیغامبر (محمد ﷺ) کو ایک عظیم الشان مذہب کا بانی ہونے کی حیثیت سے پیش کرے جس میں اُن کے نام کو بہت دخل ہے۔‘‘
(الفضل ۸ ؍ اکتوبر ۱۹۲۵ء)
اخبار سٹار کے کارٹون کے متعلق حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد ؔنے ایڈیٹر کو ایک خط ۲۷ ؍اگست ۱۹۲۵ء کو لکھا جس میں اِس دل آزار کارٹون پر اپنے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے لکھا:’’ چونکہ یہ کارٹون آپ کے بعض ثناخوان احباب کی طرف سے شہرت کے لیے بنایا گیا ہے اس لیے بطور مشورہ کہتا ہوں کہ آپ اس کے متعلق عامۃالناس میں اپنی ناپسندیدگی اور بیزاری کا اظہار کر دیں تاکہ یہ لوگ دوبارہ ایسی غلطی کے ارتکاب کی دلیری نہ کرسکیں۔‘‘
اِس خط کے جواب میں ایڈیٹر نے حضرت مولانا دردؔ صاحب کو لکھا:
’’ جناب من !میں آپ کی چٹھی مؤرخہ ۲۷؍اگست کے لیے آپ کا مرہون منت ہوں مگر میں یہ آپ پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اخبار سٹار پر مجھے کچھ اختیار حاصل ہے نہ ہی اُس کے اِس قسم کے کارٹون شائع کرنے کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے۔ بہر کیف میں اتنا جانتا ہوں کہ محمد ﷺ کی تصویر کہ جس کے متعلق آپ کو شکایت پیدا ہوئی ہے کارٹون چھپنے کے وقت ہمارا سان گمان بھی نہیں تھا کہ یہ بات مسلمانوں کے نزدیک اُن کے دین و ایمان پر ایک ناگوار حملہ سمجھی جائے گی۔ نیز مجھے اِس بات کا یقین دلایا گیا ہے کہ اگر اخبار سٹار اور اُس کے کارٹون نویس کو یہ معلوم ہوتا کہ اِس قسم کا کارٹون دلآ زار ہوگاتو وہ بالضرور اِس کے شائع کرنے سے اجتناب کرتے۔
آپ کا مخلص
جیک۔ بی۔ ہوبنر( J . B . Hobner)
(اخبار الفضل قادیان دارالامان ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۲۵ء)
ایڈیٹر اخبار سٹار کے جوابی مراسلہ پر حضرت مولوی عبدالرحیم دردؔصاحب نے ۳؍ستمبر کو انہیں پھر خط لکھا کہ آپ سٹار اخبار کے اس کارٹون سے ا پنی زبان میں بیزاری فرما دیویں تو آپ کے ثناخوان بہت حد تک آئندہ کے لیے اس قسم کی غلطی کا ارتکاب نہیں کریں گے۔ چنانچہ اس خط وکتابت کے جواب میں حضرت مولانا دردؔ صاحب کو یہ تار موصول ہوا۔
’’لندن ۳ ؍ اکتوبر ۱۹۲۵ء جیک ہابنر (Jack Hobner) کی شہرت میں اب اور بھی اضافہ ہوگیا ہے کہ مسٹر دردؔ رئیس وفد اسلامیہ احمدیہ لندن نے اخباروں میں لکھا ہے کہ ہابنر نے مسلمانوں کے مشتمل جذبات کو تسکین دے کر دنیائے اسلام کی حمایت حاصل کرلی ہے۔ جب گذشتہ اگست میں ہابنر نے کرکٹ کھیلنے والوں کو اپنے بے نظیر کھیل کی وجہ سے حیرت میں ڈال دیا۔ اس وقت لندن کے ایک اخبار ’’سٹار‘‘ نے ایک کارٹون شائع کیا جس میں چند مشاہیر کی تصویریں بنائی گئی تھیں۔ اور ان سب میں بڑی تصویر ہابنر کی تھی۔ مسٹر دردؔ نے اخبار مذکورہ کو اظہار تاسف پر مجبور کیا ہے اور اب اُس نے جیک ہابنرکا ایک خط شائع کیا ہے جس میں وہ لکھتا ہے:
’’ مجھے یہ معلوم کرکے تکلیف ہوئی کہ کارٹون نے تمام مسلمانوں کے جذبات کو صدمہ پہنچایا ہے اور اس امر پر زور دینے کے بعد کہ وہ اخباروں کے کارٹون کے ذمہ دار نہیں وہ لکھتا ہے کہ مجھے افسوس ہے کہ مجھے کرکٹ میں جو کامیابی حاصل ہوئی ہے اور جس پر تمام دنیا میں کھیل کے تمام شائقین اظہار مسرت کر رہے تھے ۔بد قسمتی سے ایسا واقعہ پیش آگیا جس سے مسلمانوں کے مذہبی احساسات کو صدمہ پہنچا جو میرے دوست ہیں۔‘‘ (الفضل ۱۳ ؍ اکتوبر ۱۹۲۵ء )
اخبار زمیندار نے ’’ سٹار‘‘ اور ’’ ڈیلی ایکسپریس‘‘ کے دل آزار کارٹون کے خلاف ایک مضمون لکھا جس میں یہ بھی تحریر کیا :’’… ان اخباروں کی یہ روش اس قدر شرمناک اور قلب پاش ہے کہ مسلمان جس قدر بھی رنج و الم اور غم و غصہ کا اظہار کریں تھوڑا ہے۔‘‘ نیز زمیندار میں ان اخباروں کی تباہی وبربادی کے لیے دعائیں کی گئیں۔ اخبار ’’الفضل‘‘ قادیان نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
’’ ہم زمیندار کو تلخ و تند الفاظ لکھنے میں معذور سمجھتے ہیں اور پُر زور طریق سے آواز بلند کرنے پر اس کی تعریف کیے بغیر بھی نہیں رہ سکتے۔‘‘
نیز الفضل نے بدیں الفاظ دعا کی:
’’ الٰہی! اندھی دنیا جو تجھ سے دور ہوکر قعر ضلالت میں پڑی غوطے کھا رہی ہے اسے اس قدرسمجھ اور ہوش اور عقل اور خرد عطا کر کہ وہ تیری ذات پاک، تیرے مقدس رسول ﷺ اور تیری روحانیت سے پُر کتاب (قرآن کریم) کی حقیقی قدر کرے۔ فسق وفجور ،تکبرو غرور، جہالت و نادانی، شرارت اور فتنہ سے بچے۔ تیرے فرمانبردار مگر کمزور بندوں کی دل آزاری اور ان پر ظلم وستم نہ کرے۔
اے خدا! تُو اپنے فضل ورحم سے اپنے سچے دین اسلام کو تمام دنیا میں پھیلا دے تا نادان انسان تیری اور تیرے رسول کی ہتک اور بے ادبی کرکے اپنے لیے سامان ہلاکت نہ تیار کریں اور آخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوا بِہِمْ کا وعدہ پوراکرنے کے بعد اب اسلام کو وہی غلبہ ، وہی سطوت ،وہی شان اور وہی شوکت عطا کر جو پہلے عطا کی تھی۔ خداتعالیٰ کے حضور یہ اور اس قسم کی اور دعائیں کرنی چاہئیں نہ کہ تباہی اور بربادی کی بد دعائیں۔‘‘
(الفضل ۱۳ ؍ اکتوبر ۱۹۲۵ء)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں